کیا ایم کیو ایم سندھ اسمبلی میں کچھ کر پائے گی ؟

تحریر : طلحہ ہاشمی


صدر مملکت کے عہدے کے لیے نامزد آصف زرداری نے اگلے روز ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کو ٹیلی فون کیا اور ان سے صدر کے عہدے کے لیے ووٹ کی درخواست کی۔

 سپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعظم کے لیے بھی ایم کیو ایم نے حکومتی اتحاد کے امیدواروں کی حمایت کی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایم کیو ایم کوئی بارگیننگ کر پائے گی؟ اور کیا اسے سندھ  کی سیاست میں کوئی کردار ملے گا یا چھوٹی سی اپوزیشن کے طور پر بیٹھی رہے گی؟ اور اپوزیشن میں بھی رہے گی اور حکومت میں بھی لیکن ساتھ ہی اگلے الیکشن کے لیے جواب تیار ہوجائے گا کہ ہمیں تو قوم کی خدمت کا موقع ہی نہیں ملا؟ویسے خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ اس بار عہدوں کے لیے نہیں بلکہ عوام کے حقوق کے لیے کام کریں گے۔ پچھتر سال گزر چکے ہیں اور اب عوام کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کا وقت آگیا ہے، بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم کو حکومت نے وفاق میں ایک وزارت کی پیشکش کی ہے جبکہ ایم کیو ایم نے کم از کم چار  وزارتوں اور سندھ کی گورنر شپ کا مطالبہ رکھا ہے۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نظام کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے اور اس نے اپنا یہ اہم مطالبہ سب کے سامنے رکھ دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بلدیاتی آئینی ترمیم کے لیے مطالبے کو تسلیم کرلیا ہے، دیگر جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر لائحہ عمل بنانے کی بات کی ہے، قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں بھی خالد مقبول صدیقی نے اپنے مطالبے کے حق میں دلائل دیے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم کے مطالبے کو پی ٹی آئی نے بھی تسلیم کیا ہے لیکن کیا پی ٹی آئی آئینی ترمیم کے وقت اس مطالبے کی حمایت کرے گی؟ یہ تو وقت آنے پر پتا چلے گا۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا پیپلز پارٹی سندھ میں ایم کیو ایم کو حکومت میں حصہ دینے کو تیار ہے؟ جس کا جواب ذرائع ’’ناں‘‘ میں دیتے ہیں!! کیونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت بنا چکی ہے اور بلاشرکت غیرے اقتدار کے مزے لوٹے گی۔ پہلے مرحلے میں 8 سے 10 رکنی کابینہ تشکیل دی جائے گی لیکن وہ صدارتی انتخابات کے بعد ہی ہوگی، بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ ایم کیو ایم کو صدارتی ووٹ کے بدلے کچھ ملے، لیکن اگر زرداری صاحب کو قائل کر بھی لیا گیا تو ایم کیو ایم سے متعلق بلاول بھٹو صاحب کے خیالات اپنی جگہ موجود ہیں تو بظاہر فوری طور پر صوبے کی سطح پر یہ ملاپ ہوتے نہیں دکھ رہا تاہم اگر مداخلت ہوئی تو پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اپوزیشن میں بیٹھ کر نہ تو خود کا بھلا ہوتا اور نہ عوام کا بھلا ہو پائے گا، تقریروں سے تو عوام کا پیٹ بھرنے سے رہا۔

جرائم کے خاتمے کے خلاف وزیراعلیٰ سندھ کے دعوے اور وعدے پورے ہونے کے عوام منتظر ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ کراچی میں ایک اور نوجوان کو ڈاکوؤں نے گولی مار کر شہید کردیا۔ اس نوجوان کی کتاب بھی بازار میں آنے والی تھی، یہ اور اس طرح کے کئی نوجوان فروری کے مہینے میں ڈاکوؤں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ رواں برس کے دو ماہ میں تیس افراد ڈاکوؤں کے ہاتھوں جان بحق ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک نوجوان اویس بھی تھا جو آن لائن ڈیلیوری بوائے اور تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں کوئی لوٹ مار نہیں کی گئی، تو پھر پولیس یہ بھی بتادے کہ یہ واردات کیوں پیش آئی؟یا پھر ہمیشہ کی طرح قاتلوں کو تلاش کیا جاتا رہے گا۔

کراچی میں ایک اور واردات کا بھی سن لیجیے کہ بارش نے پھر اپنا کام دکھا دیا۔ جمعے کو بارش کی پیش گوئی تھی تو حکومت نے سڑکوں پر ہجوم کم کرنے کے لیے ہاف ڈے کا اعلان کردیا، لیکن بارش ہوئی تو بہت سی سڑکوں پر پانی جمع ہوگیا جسے بہرحال صاف کردیا گیا۔ کیا ہم اپنی زندگی میں کوئی ایسا نظام دیکھ پائیں گے کہ بارش کے بعد کراچی کی سڑکوں پر پانی کھڑا نہ ہو اور نہ ہی گٹر ابل رہے ہوں۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرصدارت سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد بحالی کے کاموں کا جائزہ بھی اجلاس ہوا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ 2022 ء کے سیلاب میں 19808 سکولوں کو نقصان پہنچا جبکہ 7503 سکول مکمل تباہ ہوگئے۔ غیرملکی فنڈنگ بھی آرہی ہے، یہ سکول کب تک مکمل ہوں گے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔مگر اُس وقت تک ان بچوں کی تعلیم جاری رکھنے کا کیا انتظام کیا گیا ہے؟ اس کی وضاحت بھی سامنے آنی چاہیے۔

اندورن سندھ امن و امان کی صورتحال مجموعی طور پر بہتر ہے لیکن ڈاکوؤں کے ہاتھوں لوگوں کا اغوا عام سی بات ہوگئی ہے۔ پولیس اور ڈاکوؤں میں آنکھ مچولی جاری رہتی ہے، پولیس کبھی ڈاکو مار دیتی ہے اور کبھی ڈاکو بھاگ نکلتے ہیں۔ پولیس کا یہ مطالبہ بھی جائز لگتا ہے کہ ان کے پاس فرسودہ اور ڈاکوؤں کے پاس جدید ہتھیار ہیں، جس کی ویڈیو بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ پولیس کو بھی جدید اسلحہ ملنا چاہیے لیکن پولیس کو ان کالی بھیڑوں کا بھی پتا لگانا چاہیے جو کہیں نہ کہیں کسی مرحلے پر ڈاکوؤں کی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ادھریو ٹیوب، ایکس، فیس بک، ٹک ٹاک اور انسٹا گرام وغیرہ پر مستقل پابندی لگانے کی قرارداد بھی سینیٹ میں پیش کردی گئی ہے تا کہ نوجوان نسل کو خراب ہونے سے بچایا جاسکے!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

با با ناظر اور بونے

بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

جو لوگ کیمرے سے تصویریں بناتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ تصویر کھینچنے کا عمل کس طرح واقع ہوتا ہے۔

ذرامسکرائیے

اُستاد (شاگرد سے): ’’پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے کوئی سے چار کے نام بتائو؟ شاگرد: ’’پہلے کا نام بتا کر،جناب دوسرا میں آپ سے پوچھنے والا تھا،تیسرا مجھے یاد نہیں اور چوتھا میری کتاب سے مِٹاہوا ہے‘‘۔٭٭٭

پہیلیاں

ایک بڈھے کے سر پر آگ گاتا ہے وہ ایسا راگ اس کے منہ سے نکلیں ناگجو تیزی سے جائیں بھاگ٭٭٭

ننھا گرمی سے گھبرایا

ننھا گرمی سے گھبرایا اُس دن شدت کی گرمی تھی دھوپ میں ہر اک شے جلتی تھی

حرف حرف موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔ ٭…سب سے زیادہ جاہل وہ ہے جو گناہ سے باخبر ہوتے ہوئے بھی گناہ کرے۔ ٭…عزت کمانا دولت کمانے سے زیادہ مشکل ہے جبکہ عزت گنوانا دولت گنوانے سے زیادہ آسان ہے۔