باب العلم،حیدرکرارعلی ؓ

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع


حضرت علی ؓ کے والد ابو طالبؓ مکہ کے ذی اثر اور باوقار لوگوں میں سے تھے۔ نبی کریمﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب بن ہاشم کی وفات کے بعد آپﷺ نے اُنہی کی آغوش میں پرورش پائی۔ ابوطالب نے آپﷺ کو تجارت کے معزّز پیشے سے روشناس کرایا۔ حضرت خدیجہؓ سے آنحضورﷺکے نکاح کا خطبہ بھی انہی نے پڑھایا۔ بعثتِ نبویؐ کے بعد جب آپﷺ نے اعلانِ نبوّت فرمایا تو ابوطالبؓ نے قدم قدم پر آپﷺ کی حمایت کا فریضہ سرانجام دیا۔ آپﷺ کی حمایت کرنے پر آنحضورﷺ اور آپؓ کے خاندان کو شعبِ ابی طالب میں تین سال تک محصُور رکھا گیا۔

حضرت علیؓ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہؓ بنت اسد کو اسلام قبول کرنے اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ کی والدہ نے بھی خلوص اور دلسوزی کے ساتھ آنحضورﷺ کی سرپرستی اور حمایت کی۔ جب آپؓ مدینہ آئیں تو حضرت علیؓ کے ساتھ حضرت فاطمہؓ بنتِ رسول ﷺ کی شادی ہوئی۔ آپؓ نہایت نیک مزاج اور شریف خصلت خاتون تھیں۔ رسول اللہﷺ اُن کی تعریف کیا کرتے اور نہایت ادب کے ساتھ پیش آتے۔ 

بعثتِ نبویؐ کے بعد جن خوش نصیبوں کو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا اور حضوراکرمﷺ کی آواز پر لبیک کہا اُن میں خواتین میں حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ، مردوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، آزاد کردہ غلاموں میں زید بن حارثؓ اور بچوں میں حضرت علیؓ تھے۔

ابنِ ہشام کا بیان ہے کہ قبولِ اسلام کے بعد حضرت علیؓ نے حضور پاک ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کردی۔ ایک دن آپ ؓکے والد ابوطالبؓ نے نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا ’’بیٹا یہ کیسا دین ہے جس پر تم چل رہے ہو‘‘؟ انہوں نے کہا ’’ابا جان! میں اللہ اور اُس کے رسولﷺ پر ایمان لایا ہوں، آپ ﷺ کی تصدیق کی ہے اورآپ ﷺکے ساتھ نماز پڑھی ہے‘‘۔ ابوطالبؓ نے کہا ’’حضرت محمد ﷺ تمہیں بھلائی کے سوا کبھی کسی چیز کی طرف نہیں بلائیں گے، تم اُن کے ساتھ ساتھ رہو‘‘۔

حضورپاک ﷺ تبلیغ حق کیلئے لوگوں کے عام اجتماعات میں تشریف لے جاتے تھے تو حضرت علیؓ کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔ جب مشرکین مکّہ نے بنوہاشم اور بنو مطلب کو شعبِ ابی طالب میں محصور کیا تو حضرت علیؓ بھی حضورپاک ﷺ کی حمایت میں اپنے والدین اور دوسرے اقرباء کے ساتھ تین برس تک ہولناک مصائب و آلام جھیلتے رہے۔ جب یہ محاصرہ ختم ہوا تو چند ہی ماہ بعد آپؓ کے شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ حضورپاک ﷺ کی مشفقانہ سرپرستی نے اُنہیں باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ حضرت علیؓ کی عمر اُس وقت سترہ سال تھی۔

سرورِ عالمﷺ نے مکہ سے ہجرت کے بعد چند دن قبا میں قیام فرمایا۔ ابھی آپﷺ قبا ہی میں تھے کہ تین دن بعد حضرت علیؓ بھی ہجرت کرکے آپﷺ کی خدمتِ اقدس میں قبا آ ملے۔ وادیٔ قبا میں میزبانِ رسولؐ حضرت کلثومؓ بن الہدم نے حضرت علیؓ کو مہمان بنایا۔ آنحضورﷺ جب قبا سے مدینہ تشریف لے گئے تو حضرت علیؓ بھی آپﷺ کے ہمراہ تھے۔ پھر جب کچھ ہی دنوں بعد مسجدِ نبوی کی تعمیر کا آغاز ہوا توصحابہ کرام ؓ کے شانہ بشانہ حضرت علیؓ نے بھی اُس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 

نبی کریمﷺ نے اپنی صاحبزادی سیّدہ فاطمۃ الزھراؓ سے نکاح کیلئے حضرت علیؓ کو منتخب فرمایا۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ تمہارے پاس مہرادا کرنے کیلئے کچھ ہے؟ وہ بولے، ایک گھوڑے اور زرہ کے سوا کچھ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا زرہ فروخت کردو۔ حضرت علیؓ نے زرہ کو فروخت کر کے رقم نبی کریم ﷺ کو پیش کردی۔ آپﷺ نے خود نکاح پڑھایا اور دونوں میاں بیوی پر وضو کا پانی چھڑک کر اُن کے حق میں خیروبرکت کی دعا فرمائی۔ حضورِ اکرمﷺ نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا ’’میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان کے بہترین شخص سے کی ہے‘‘۔ حضرت علیؓ اس سے قبل آنحضورﷺ کے ساتھ ہی رہتے تھے مگر اب ایک نئے مکان کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ حارث بن نعمانؓ کا مکان اُن کی رہائش گاہ بنا۔ دعوت ولیمہ میں مہمانوں کو کھجور، جو کی روٹی، پنیر اور شوربہ پیش کیا گیا۔

 جب مشرکینِ مکہ کے ساتھ غزوات کا آغاز ہوا تو بدر ہو یا اُحد، خندق ہو یا خیبر ہر غزوہ میں حضرت علیؓ نے شمشیر بکف اور سرفروشی کے جوہر دکھائے۔ جوانمردی اور بہادری سے مقابلہ کرکے کئی بدنام زمانہ اسلام کے دشمنوں کو واصلِ جہنم کیا۔ 

35ھ میں حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ سریر آرائے خلافت ہوئے تو ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی لیکن پھر بھی حضرت علیؓ نے حوصلے اور صبر کا دامن نہ چھوڑا اور تمام مشکلات کا مردانہ وار ڈٹ کر مقابلہ کیا۔خلیفہ چہارم حضرت علیؓ چار سال 9 ماہ آٹھ دن خلیفۃُ المسلمین رہے۔ آپ ؓقرآن پاک کے حافظ تھے اور اس کی ایک ایک آیت کے معنی اور شانِ نزول سے بخوبی واقف تھے، گویا تفسیرِ قرآن میں آپ ؓمرتبۂ کمال پر فائز تھے۔ تقریر و خطابت میں اپنی مثال آپ ؓتھے۔ فنّ نحو کی ایجاد کا سہرا بھی حضرت علیؓ کے سر ہے۔ نبی کریمﷺ نے حضرت علیؓ کے متعلق فرمایا کہ ’’میں علم و حکمت کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے‘‘۔آپؓ کو ’’باب العلم‘‘ کا خطاب پہلے ہی مل چکا تھا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔