عید کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت
![](https://dunya.com.pk/news/ahwalesiyasat_or_mimbromahrab/img/4907_80827393.jpg)
عید الفطر خوشی اور مسرت کا دن ہے۔ اس دن روزہ رکھنا منع ہے۔ یہ دن کھانے پینے اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا دن ہے۔ خو شی کے اظہار کیلئے چاند رات سے ہی مساجد، بازاروں، راستوں اور گھروں میں تکبیرات بلند کرنی چاہئیں۔ صدقہ فطر ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ اُس نے رمضان کے روزے رکھے ہوں یا نہیں۔
نماز ِعید سے پہلے پیدا ہونے والے بچے ،گھر کے ملازمین اور گھر آئے ہوئے مہمان کا بھی صدقہ فطر دینا ہو گا،صاحب نصاب ہونا شرط نہیں۔ عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا ہے تاکہ روزہ دار کیلئے لغو اور بیہودہ اقوال و افعال سے پاکیزگی ہوجائے اور مسکینوں کو کھانے کو مل جائے،چنانچہ جس نے اسے نماز (عید) سے پہلے ادا کیا تو یہ ایسی زکوٰۃ ہے جو قبول کر لی گئی اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا(ابو داؤد : 1609)۔
عید کے روزمسواک کرنا،غسل کرنا،بہترین لباس پہننا اورخوشبو لگاناسنت ہے۔ نماز عید کیلئے جانے سے پہلے میٹھی چیز (خصوصاً کھجوریں) کھانا سنت ہے (صحیح بخاری: 953)۔ عید گاہ جاتے ہوئے کثرت سے تکبیرات پڑھنا سنت ہے۔ (صحیح بخاری : 989)۔
نماز عید کی ادائیگی کیلئے خواتین کو بھی جا نا چاہیے۔ اُم عطیہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں: ’’ہمیں حکم دیا یعنی نبی ﷺ نے کہ ہم جوان، کنواری لڑکیوں اور پردہ نشین عورتوں کوبھی دونوں عیدوں کے دن (نماز کیلئے) لائیں اور حکم دیا کہ حیض والیاں مسلمانوں کی نماز کی جگہ سے دور رہیں (صحیح مسلم : 2054)۔
نماز عید سے واپسی پر راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ (صحیح بخاری: 986)، کسی وجہ سے نماز عید نہ پا سکنے والے افراد گھر میں دو رکعت نماز ادا کر سکتے ہیں (صحیح بخاری)۔ عید کے روزمسلمانوں کی باہم ملاقات آپس کی محبت بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ صحابہ کرامؓ اس ملاقات میں ایک دوسرے کو مندرجہ ذیل دعا دیا کرتے تھے۔’’اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی (عبادت) قبول فرمائے (سنن الکبریٰ للبیہقی: 6390)۔
شوال کے روزے
رمضان اور عید گزرنے کے بعد شوال کے مہینے میں 6روزے رکھنے کا اہتمام کریں۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص رمضان کے روزے رکھ کر شوال کے مہینے میں چھ روزے رکھے اسے عمر بھر کے روزوں کا ثواب ملتا ہے‘‘(صحیح مسلم: 2758)
ایک اور جگہ فرمایا: رمضان کے روزے دس مہینے اور شوال کے چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں، اس طرح یہ ایک سال کے روزے ہوں گے۔ یہ روزے عید کے فوراً بعد یا وقفے کے ساتھ مسلسل یا الگ الگ دونوں طرح رکھے جا سکتے ہیں۔
قضا روزے رمضا ن میں کسی بھی عذر کی بناء پر چھوڑے گئے روزوں کی قضا جلد ازجلد ادا کریں کیونکہ رمضان کے دنوں کی گنتی پوری کرنا ضروری ہے لیکن یہ روزے شوال کے نفلی روزوں کے علاوہ رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے ۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے،سختی کرنا نہیں چاہتا،اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو(البقرۃ185)۔