عید الفطر:نعمت الہٰی پر شکر اور بخشش کا دن

تحریر : مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان


نبی کریم ﷺ نے ماہ رَمضان المبارک کے متعلق ارشاد فرمایا: ’’اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنَّم سے آزادی کا ہے‘‘ (صحیح ابن خُزَیمہ:1887)۔ معلوم ہوا کہ رمضان المبارک رحمت و مغفرت اور جہنَّم سے آزادی کا مہینہ ہے، لہٰذا اِس رحمتوں اور برکتوں بھرے مہینے کے فوراً بعد ہمیں عید سعید کی خوشی منانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔

 

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں وہ خوشیاں مناتے۔ آپ ﷺ نے پوچھا، یہ دو دن کیسے ہیں؟ توصحابہ کرامؓ نے عرض کیا ان ایام میں ہم لوگ عہد جاہلیت میںخوشیاں مناتے اور کھیلتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دنوں کو دو بہترین دنوں میں تبدیل فرما دیا ہے یعنی عیدالاضحی اور عید الفطر (ابو داؤد : 1134)

 عید الفطرکے روز خوشی کا اظہار مستحب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت پر خوشی کرنے کی ترغیب تو قرآن کریم میں بھی موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’فرما دیجئے، (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس ( مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں‘‘ (یونس: 58)۔حضرت ابو امامہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے عیدین کی رات طلب ثواب کیلئے قیام کیا، اُس دن اُس کا دِل نہیں مرے گا، جس دن (لوگوں کے) دِل مرجائیں گے(ابن ماجہ: 1782)۔حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو پانچ راتوں میں شبِ بیداری کرے، اُس کیلئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ ذوالحجہ کی آٹھویں، نویں اور دسویں رات ، عید الفطر کی رات، شعبان المعظم کی پندرھویں رات۔ 

حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓکی ایک روایت ہے : جب عید الفطر کی مبارَک رات آتی ہے تواسے ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی ’’انعام کی رات‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تواللہ تعالیٰ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں : ’’اے امت محمد! اس رب کریم عزوجل کی بارگاہ کی طرف چلو!جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے‘‘۔ پھراللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے: ’’اے میرے بندو!مانگو!کیا مانگتے ہو؟ میری عزت و جلال کی قسم! آج کے روزاس (نماز عیدکے) اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگوگے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرمائوں گا(یعنی اس معاملے میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتر ی ہو) میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطائوں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عزت و جلال کی قسم !میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں ) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یا فتہ لوٹ جائو۔تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا‘‘ (الترغیب و الترھیب:23)

عید کا روز اور معمولات نبوی

عیدکے موقع پرخوشی کا اظہار اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، یہی وجہ ہے کہ اس دن روزہ رکھنا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔

عیدکے روزاچھے کپڑے پہننے کے متعلق امام شافعی اورامام بغوی نے امام جعفربن محمد سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر عیدکے موقع پر دھاری دار یمنی کپڑے کا لباس زیب تن کیاکرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں ہے: آپؓ عیدین کیلئے اچھے کپڑے پہناکرتے تھے(فتح الباری، ج2، ص439)۔ حضرت حسن بن علیؓ سے مروی ہے: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدکے روز عمدہ کپڑے پہنیں اور عمدہ خوشبو لگائیں‘‘ (المستدرک للحاکم)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے: ’’رسول اللہ ﷺ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقعہ پر غسل کرتے‘‘(ابن ماجہ)۔حضرت نافعؓ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں نقل کرتے ہیں: آپؓ عیدگاہ جانے سے قبل غسل کیا کرتے‘‘(مصنف عبدالرزاق)۔ حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ عیدالفطرمیں تین سنتیں ہیں: (1)عیدگاہ کی طرف پیدل چلنا، (2)نکلنے سے پہلے کھانا، (3) غسل کرنا۔(ارواء الغلیل، ج2، ص104)

آپﷺ کا یہ مبارک معمول بھی ملتا ہے کہ آپﷺ کچھ نہ کچھ تناوّل فرما کر نماز عیدالفطرکیلئے تشریف لے جاتے اور عیدالاضحی کے موقع پر نماز ادا فرمانے کے بعد تناوّل کرتے۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے:رسول اللہﷺ عیدالفطرکیلئے تشریف لے جاتے تو پہلے طاق کجھوریں تناوّل فرماتے (بخاری، باب الاکل یوم الفطر)۔

آپ ﷺ مسجد میں نماز عید ادانہیں کرتے تھے بلکہ کھلے میدان میں نماز عیدالفطر ادا فرماتے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ :رسول اللہﷺعیدالفطراورعیدالاضحی کیلئے عیدگاہ میں تشریف لے جاتے(صحیح بخاری)۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ عید کے روز عیدگاہ کی طرف تشریف لے جاتے، آپﷺ کے آگے صحابی نیزہ اٹھا کر چلتے، جب آپﷺ عیدگاہ میں پہنچ جاتے تو اسے آپﷺ کے سامنے گاڑ دیا جاتا۔ آپﷺ اسے سترہ بنا کر نماز پڑھاتے۔ اس لیے کہ عیدگاہ کھلے میدان میں تھی اور سامنے کوئی پردہ یا دیوار نہ تھی(ابن ماجہ)۔

 نمازعیدکھلے میدان میں ادا کرنا سنت ہے البتہ اگرکوئی عذر ہو مثلاً جگہ نہیں یا بارش وغیرہ ہے تو پھر مسجد میں ادا کی جا سکتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ : عیدکے روز بارش ہوگئی تو رسول اللہﷺ نے مسجد میں نماز عید پڑھا دی۔(ابو داؤد)

خواتین کی عیدکے اجتماع میں شرکت

نماز عیدکے اجتماع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپﷺ تمام خواتین کو اس میں شرکت کا خصوصی حکم فرماتے خواہ وہ حالت حیض میں کیوں نہ ہو، ہاں ایسی خواتین کو حکم ہوتا کہ وہ نمازمیں شریک نہ ہوں لیکن دعااجتماع میں ضرور شرکت کریں۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :رسول اللہﷺ نے ہمیں عیدین میں نکلنے کاحکم دیاحتی کہ تمام خواتین کو حکم تھا خواہ بوڑھی ہوں، ہاں حیض والی خواتین نمازسے الگ رہتیں  اور دعا میں شریک ہوتیں (صحیح مسلم،حدیث 890)۔

آپﷺ عیدگاہ کی طرف پیدل تشریف لے جاتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ عیدگاہ پیدل تشریف لیجاتے اور پیدل ہی واپس آتے (ابن ماجہ:1294)

آپﷺ عیدکیلئے جس راستہ سے تشریف لیجاتے واپسی اس پر نہ ہوتی بلکہ دوسرے راستہ کو شرف بخشتے۔ حضرت جابرؓ سے مروی ہے: آپﷺ جب عیدکیلئے تشریف لے جاتے تو واپس دوسرے راستہ سے تشریف لاتے(صحیح بخاری، ابواب العیدین)۔ 

نمازعیدکی ادائیگی کاوقت

 عید الفطر کی نماز کا وقت آفتاب کے بلند ہو جانے کے بعد زوال سے پہلے تک رہتا ہے۔ عید الفطر کی نماز میں تاخیر کرنا جائز ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمرو بن حزمؓ کو نجران میں حکم دیا : ’’عید الاضحی کی نماز جلدی ادا کرو اور عید الفطر کی نماز دیر سے ادا کرو اور لوگوں کو وعظ سناؤ‘‘ (بیہقی، السنن الکبری : 5944)۔

 نمازعیدسے پہلے یابعدمیں نفل نماز

آپﷺعیدگاہ میں فقط نمازعیدہی ادا فرماتے اس سے پہلے اوربعدمیں کوئی نمازادا نہ فرماتے۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نماز عیدکی فقط دو رکعتیں ادا فرماتے۔ ان سے پہلے اور بعد میں کوئی نمازنہ پڑھتے (صحیح بخاری:964) ۔ عید کے روز اشراق کے نوافل یا دیگر نفل نماز عیدگاہ کی بجائے گھر آکر ادا کرسکتے ہیں۔

آپﷺ نماز عید کی جماعت اذان اور تکبیرکے بغیر کرواتے۔ حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ’’میں نے آپﷺکے ساتھ متعدددفعہ بغیراذان وتکبیرکے نمازعیدادا کی‘‘ (صحیح مسلم، کتاب صلاۃ العیدین)۔

آپﷺ جمعہ میں خطاب پہلے ارشادفرماتے مگرعیدین میں نمازکی ادائیگی پہلے ہوتی اور خطاب بعد میں کرتے۔ حضرت ابوسعیدخدری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺعیدین کے موقع پرعیدگاہ تشریف لاتے توسب سے پہلے نمازادا کرتے (صحیح مسلم،کتاب صلاۃ العیدین)

نمازعیدادافرمانے کے بعد آپ ﷺ خطاب کرتے۔  حضرت ابو سعید خدری ؓسے مروی ہے عیدگاہ میں آپ ﷺ تشریف لا کرسب سے پہلے نماز عید پڑھاتے پھرلوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور تمام لوگ اپنی اپنی جگہوں میں بیٹھ جاتے اور آپ ﷺ انہیں وعظ، نصیحت اور متعدد تعلیمات سے نوازتے (صحیح مسلم،کتاب صلاۃ العیدین)

جس طرح آپ ﷺ خطبہ جمعہ کے دوران کچھ دیرکیلئے بیٹھ جاتے اسی طرح عیدکے خطبہ کے دوران بھی کچھ دیرکیلئے بیٹھ جاتے۔ مسند بزارمیں ہے حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نماز عیدالفطر اذان واقامت کے بغیر پڑھاتے اور جب خطبہ ارشاد فرماتے تو ان کے درمیان بیٹھ کروقفہ کرتے۔

آپﷺ خطاب کے دروان تکبیر (اللہ تعالیٰ کی کبریائی) کی کثرت کرتے، آپﷺ کے مؤذن حضرت سعدؓسے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ عیدین کے خطبہ میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتے۔(سنن ابن ماجہ،باب الخطبہ فی العیدین)

عیدکے روز ایک دوسرے کو مبارک باد کہتے ہوئے دُعادینابھی ثابت ہے ۔امام ابن عدی نے حضرت واثلہؓ سے نقل کیا کہ میں عیدکے روز حضورﷺ کی خدمت میں حاضرہوااورعرض کیا: اللہ تعالیٰ ہمارا اور آپ کا عمل قبول فرمائے۔ آپﷺنے سن کر فرمایا: ہاں اللہ تعالیٰ ہم سب کی طرف سے قبول فرمائے(فتح الباری، ج 2 ، ص 357)۔

صدقہ فطر کی ادائیگی کا افضل وقت عید کی صبح صادق کے بعد اور نماز عید سے پہلے کا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ نماز کی طرف جانے سے پہلے زکوٰۃ فطر ادا کر لی جائے(صحیح بخاری:1438)

اختصارکے ساتھ عیدکے روز کے چند مسنون اعمال ذکرکیے جاتے ہیں: مسواک کرنا،غسل کرنا،کپڑے نئے ہوں تو بہتر ورنہ دھلے ہوئے پہننا،خوشبو لگانا،صبح سویرے اُٹھ کر عیدگاہ جانے کی تیاری کرنا، نماز عید الفطر سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا،پیدل عید گاہ جانا،ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔نماز عید الفطر کو جانے سے پہلے طاق عدد کھجوروں یا چھواروں کا کھانا یا کوئی اور میٹھی چیز کھالینا۔عید الاضحی کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے۔ اگر قربانی کا گوشت میسر ہو تو نماز عید کے بعد اس کا کھانا مستحب ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں کی ضیافت ہے۔ لیکن اگر کچھ کھا لیا تب بھی کوئی حرج نہیں۔ 

عیدین کی نماز کسی بڑے میدان میں ادا کرنا سنت ہے۔ لیکن بڑے شہر یا اس جگہ جہاں زیادہ آبادی ہو ایک سے زائد مقامات پر عیدین کے اجتماعات بھی درست ہیں اور میدان کی بھی شرط نہیں۔ بڑی مساجد میں بھی یہ اجتماعات صحیح ہیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اگر کسی ایک جگہ اجتماع ہوگا تو بہت سے لوگ نماز عید سے محروم رہ جائیں گے، کچھ تو حقیقی مشکلات کی وجہ سے اور کچھ اپنی سستی کے باعث۔ نماز عید کے لئے تکبیر تشریق کہتے ہوئے جانا۔ عید الاضحی میں با آواز بلند اور عید الفطر میں آہستہ کہنی چاہئے۔عیدین کا خطبہ سنت ہے، یہ خطبہ نماز کے بعد ہوگا۔اگر خطبہ نماز عید سے پہلے دیا تو کافی ہے اگرچہ مکروہ ہے بعد میں اعادہ نہیں کیا جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔