عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

تحریر : پروفیسر صابر علی


عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

جوہری عہد نے جہاں انسان کو ادراک و آگہی کی آفاقی قدریں بخشی ہیں، وہیں اس نے راتوں کی نیندوں کو بھی حرام کر دیا ہے۔ کیونکہ ہر ذرہ بذات خود ایک سورج ہے اور اس زمین میں ہی کروڑوں سورج موجود ہیں جن کی توانائی اور حدت اگر تخریبی کاموں کی نذر ہو گئی تو راتوں کی نیند اچاٹ نہ ہوگی تو کیا ہو گا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح لکریشس (اپنے عہد کا نمائندہ شاعر) کے قول کے مطابق جوہروں کی ترتیب سے چیزوں کی ماہیت میں فرق آ جاتا ہے، کیونکر اس عہد میں صحیح ثابت ہوئے۔ کیا اس نے بھی جوہری جام جم کا کلیہ دریافت کر لیا تھا یا اس کی فکر کے دائرے آنے والی صدیوں کے آئینے میں تغیراتی علامات کے عکس کو دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ محسوس ہوتا ہے کہ:

لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

چمن زنگار ہے آئینہ بادِ بہاری کا

  بقول ڈاکٹر ظفر سعید سیفی (سابق وائس چانسلر، کراچی یونیورسٹی) عزیز حامد مدنی کی شاعری آئینہ بادِ بہاری ہے۔ان کے والد محمد حامد ساقی خود بھی شاعر اور صاحب کتاب تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد ہونے کے ناطے ادب، تاریخ اور شاعری سے شغف لازم تھا۔ مگر وہ خود عزیز حامد مدنی کو شعر و شاعری اور مشاعروں میں جانے سے منع کرتے۔ علی گڑھ خود ایک ایسا مرکز بنا کہ کوئی علیگ مشاعروں میں شرکت کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خواہ وہ دنیا کے کسی حصے میں کیوں نہ ہو۔ مولانا محمد علی جوہر کے ساتھی ہونے کی بنا پر آخر عمر میں غیروں نے جو ستم ڈھائے، اس صدمے نے ان کے دل کی دھڑکن ہی بند کردی۔

والد کے منع کرنے کے باوجود عزیز حامد مدنی نے جم کے شاعری کی اور نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تمثال دار فکر و فن غالب کے انداز کا تھا مگر رنگ میر کا بھی آ گیا۔ انہوں نے درد دل، میر درد کے لہجے میں، کیفیت آتش بجاں آتش کے رنگ میںاور عہد سازی اور جلوہ آرائی کا جشن علامہ اقبالؒ کے ساتھ منایا۔ ان تمام رنگوں کی قوس قزح سے جو ایک سفید، روشن لکیر نمایاں ہوئی، وہ معلومات و انکشافات اور مرزا سودا پر بیتی ہوئی کیفیت چشم کی یاد رکھتے ہوئے ایک تجلی بن کر نگاہوں کو خیرہ کر گئی، بلکہ ان کا اپنا رنگ بن گئی۔

’’ چشم نگراں‘‘ کیلئے چشم بینا درکار ہے اور ’’ دشتِ امکاں‘‘ کیلئے صحرا نور دی، مگر وہ کیفیت کہ:

ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج

میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں

’’نخلِ گماں‘‘ میں ابھر کر سامنے آ گئی۔ اس پر میں کہہ سکتا ہوں کہ عزیز حامد مدنی نے اپنے والد مرحوم کی جگہ ایک روشن چراغ کی مانند طوفانوں کی زد میں ہوتے ہوئے ہمیں روشنی فراہم کی۔

 وہ ایک ایسا سائبان تھے جو وقت کی شدید تمازت اور دھوپ خود برداشت کرتے رہے اور سایہ ہمیں فراہم کیا۔ کرب آ گہی کے جاں گسل لمحات ایک ایسے شخص کیلئے خود قُرب مرگ بن جاتے ہیں، جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ ان مصیبتوں اور تکالیف کو جھیل رہا ہے جو اس کا مقدر نہیں تھیں، لیکن ہنستے ہوئے ایک خندۂ زیر لب کے ساتھ ان کا سامنا کرنا اور ایک ایسے معاشرے میں اپنے آپ کو یوں رکھنا کہ:

درد کو چاہا کہ نہ چمکے تو چمکتا یوں ہے

اک چراغِ تہِ داماں جو بجھائے نہ بنے

جو جی سے گزر کر سحر کرنا اور شبِ غم کو مختصر کرنا جانتے ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد کیسے جیا جاتا ہے۔ وہ شخص جسے نہ محرومی کا گلہ تھا، نہ مہجوری کا شکوہ۔اس کھنکھناتی ہوئی مٹی کی قسمت اور قیمت کا راز اور قیامت سے قیامت تک کی پرواز ان کے مجموعۂ کلام’’گلِ آدم‘‘ میں نہاں بھی ہے اور عیاں بھی۔

دوش دیدم کہ ملائک در میخانہ زدند

گل آدم بہ سر شتند و بہ پیمانہ زدند

زندگی میں ادب کی اہمیت کے حوالے سے عزیز حامد مدنی نے اپنے ایک تفصیلی مضمون ’’آ زادی کا افق‘‘میں لکھا’’ ادب کے ہزار شیوہ، ہزار رخی چہرے کی پہچان کسی ایک آدمی تک محدود نہیں ہوتی۔ ہر دور میں افراد کی پسند اور معاشرے کے تجربات کے مطابق ادب لکھا، پڑھا، بولا اور برتا جاتا ہے۔ دو چار بڑی کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو یک ہی پر تو میں اس ہزار رخی چہرے کے صلح و پیکار کی ساری کیفیتیں سمیٹ لیتی ہیں۔ ہمارے ادب میں بھی اس کی اچھی مثالیں موجود ہیں۔ جب یہ کتابیں خیال و فکر کے سفر میں ساتھ ہو جاتی ہیں تو آدمی کیلئے راہ فرار بند ہو جاتی ہے۔ ‘‘                                  

آ ج عزیز حامد مدنی کی33 ویں برسی ہے، وہ 15 جون 1922ء کو رائے پور (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے جبکہ شعری مجموعے ’’چشمِ نگران‘‘، ’’دشتِ امکاں‘‘، ’’نخلِ گمان‘‘ اور ’’گلِ آدم جدید اردو شاعری (تنقید) وغیرہ شامل ہیں۔عزیز حامد مدنی کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور ریڈیو پاکستان میں ان کا کمرہ ایک سہ پہر ِدانشورواں ہوا کرتا تھا۔اس فہرست میںن م راشد، فیض احمد فیض، مجتبیٰ حسین، ممتاز حسین، الیاس عشقی، ابو سعید قریشی، ذوالفقار علی بخاری، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، اختر الایمان، ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، آنند نرائن مُلّا، احمد ندیم قاسمی، اطہر نفیس، شفیع عقیل، سلیم احمد، شمیم احمد، سحر انصاری، جاذب قریشی، آغا ناصر، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر جمیل الدین عالی، ڈاکٹر انور سدید، افتخار عارف، قریش پور، عبید اللہ بیگ، کشور ناہید، محمد سہیل عمر، ساغر نظامی، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھ پوری، جگر مراد آبادی، نور الحسن جعفری، ادا جعفری، جمیل اختر، پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید، ڈاکٹر آصف فرخی، جمیل اختر، ڈاکٹر فیاض وید، ساقی فاروقی، مجروح سلطان پوری، اجمل سراج اور اظہر عباس ہاشمی وغیرہ شامل تھے،ان کا یہ شعر کون بھول سکتا ہے!

تازہ ہَوا بہار کی دل کا ملال لے گئی

پائے جنوں سے حلقہ گردشِ حال لے گئی

غزل

فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے 

سبک ہوئے ہیں تو عیشِ ملال سے بھی گئے 

جو بت کدے میں تھے وہ صاحبان کشف و کمال 

حرم میں آئے تو کشف و کمال سے بھی گئے 

اسی نگاہ کی نرمی سے ڈگمگائے قدم 

اسی نگاہ کے تیور سنبھال سے بھی گئے 

غم حیات و غم دوست کی کشاکش میں 

ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے 

گل و ثمر کا تو رونا الگ رہا لیکن 

یہ غم کہ فرق حرام و حلال سے بھی گئے 

وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے 

گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے 

ہم ایسے کون تھے لیکن قفس کی یہ دنیا 

کہ پر شکستوں میں اپنی مثال سے بھی گئے 

چراغ بزم ابھی جان انجمن نہ بجھا 

کہ یہ بجھا تو ترے خط و خال سے بھی گئے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

گدھے کے کانوں والا شہزادہ

ایک بادشاہ کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اسے بچوں سے بہت پیار تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس کے ہاں بھی کوئی بچہ ہو جو سارے محل میں کھیلتا پھرے۔ آخر اس نے پریوں سے مدد چاہی۔ وہ جنگل میں گیا۔ وہاں تین پریاں رہتی تھیں۔ اس نے جب پریوں کو اپنا حال سنایا تو پریوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر اندر تمہارے ہاں ایک شہزادہ پیدا ہوگا۔

پہاڑ کیسے بنے؟

زمین کے وہ حصے جو سمندر کی سطح سے تین ہزار فٹ سے زیادہ اونچے ہیں، پہاڑ کہلاتے ہیں۔ بعض پہاڑ ہماری زمین کے ساتھ ہی وجود میں آئے، یعنی کروڑوں سال پہلے جب زمین بنی تو اس پر بعض مقامات پر ٹیلے سے بن گئے جو رفتہ رفتہ بلند ہوتے گئے۔ بعض پہاڑ زمین بننے کے بہت عرصے بعد بنے۔ یہ ان چٹانوں سے بنے ہیں جو زمین کے اندر تھیں۔ جب یہ چٹانیں زمین کی حرارت سے پگھلیں تو ان کا لاوا زمین کا پوست( چھلکا) پھاڑ کر اوپر آ گیا اور پھرٹ ھنڈا ہو کر پہاڑ بن گیا۔

ذرامسکرائیے

باجی (ننھی سے)’’ تم آنکھیں بند کرکے مٹھائی کیوں کھا رہی ہو؟‘‘ ننھی’’ اس لئے کہ امی نے مٹھائی کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے‘‘۔ ٭٭٭

پہیلیاں

(1) نہ مٹی ہے نہ ریت ایسا ہے اک کھیت

انمول موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔

شائستہ گفتگو

٭ …شائستگی سے گفتگو کرنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ شائستہ گفتگو کے نرم الفاظ کسی مریض کے لئے زندگی کا پیغام بن سکتے ہیں۔