سیاسی استحکام میں رکاوٹ کون؟؟

تحریر : سلمان غنی


معاشی بحالی اور ترقی کے عمل کے حوالے سے ملک بھر میں جاری سرگرمیوں اور خصوصاً بیرونی سرمایہ کاری کے ضمن میں اعلانات، بیانات اور اقدامات کے ساتھ اس امر پر زور نظر آتا ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں اور سیاسی استحکام پر زور دینے والے تمام افراد اور ان کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ عمل اخباری بیانات اور ٹی وی پروگراموں تک محدود ہے ۔

کوئی ایسا دن نہیں آ رہا کہ ملک میں سیاسی حوالے سے ٹھہرائو نظر آتا ہو۔سیاسی بے حسی، مایوسی اور بے یقینی انتہائوں کو چھُو رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا تو کجا ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کی روادار نہیں ، یہی وجہ ہے کہ معاشی حوالے سے حکومتی اقدامات اور سنجیدگی کے باوجود یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ حکومتی کاوشیں نتیجہ خیز ہو پائیں گی۔ وزیراعظم شہبازشریف کے بیانات اور اعلانات کا تجزیہ کیا جائے تو وہ مشکل حالات کے باوجود مطمئن ہیں  اور اعتماد سے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ انشاء اللہ نہ صرف یہ کہ ہم معاشی گرداب سے نکل آئیں گے بلکہ ملک کو آگے لیکر جائیں گے ۔ اتوار کے روز راقم الحروف نے وزیراعظم شہبازشریف سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تو ان کی ’بدن بولی‘ سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنی حکومتی کارکردگی اور معاشی حوالے سے مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ملکی معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈال کر اس کی رفتار بھی بحال کر پائیں گے۔جب اُن سے ان کے سیاسی مفاہمت کے دعوئوں بارے پوچھا کہ اس میں بنیادی کردار تو حکومت کا ہوتا ہے وہ صلح کا ہاتھ بھی بڑھاتی ہے اور اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلتی ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی مفاہمت کیلئے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں البتہ بات صرف اُن سے ہو سکتی سے جو آئین و قانون کی بالا دستی، ریاستی مفادات کے تحفظ اور معاشی بحالی و ترقی کے عمل میں سنجیدہ ہوں۔ وزیراعظم شہبازشریف خود کو معاشی محاذ کیلئے وقف کر چکے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ معاشی طور پر بحالی اور ترقی کا عمل ہی ملک کو آگے لے جا سکتا ہے لیکن کیا ایسا ممکن ہو پائے گا؟اب تو سیاسی محاذ ہی نہیں ادارہ جاتی بحران بھی نمایاں ہو رہا ہے۔ ایسی کیفیت میں ہمیشہ سیاسی قیادت ہی ملک کو بحران سے نکالتی ہے۔ کیا اس گمبھیر صورتحال میں کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے اس حوالے سے صاحب الرائے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ملک کے تین بڑے سر جوڑ کر بیٹھ جائیں تو بحران ٹل سکتا ہے، لیکن یہ تین بڑے( صدر مملکت آصف علی زرداری، مسلم لیگ( ن) کے قائد نوازشریف اور بانی پی ٹی آئی) کیا مل بیٹھ سکتے ہیں؟ آخر کب تک وہ بحرانوں اور طوفانوں کو دیکھ کر آنکھیں بند کریں گے۔ مسائل زدہ اور مہنگائی زدہ، لوگوں کی نظر سیاسی قیادت پر ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ بالاآخر سیاسی قیادت ہی حل نکالتی ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت اور بڑی جماعتیں اگر مفاہمت پر نہ آ سکیں تو پھر کیا ہوگا؟ یہ نوشتۂ دیوار ہے جسے جلد پڑھ لیا جائے تو بہتر ہوگا۔

سابق وزیراعلیٰ اور پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما چوہدری پرویزالٰہی کی رہائی کو موجودہ صوتحال میں ایک اہم سیاسی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ وہ سیاسی طرز عمل اختیار کرنے کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں تک اپنا ایک وسیع حلقہ ٔاحباب بھی رکھتے ہیں اور تحریک انصاف میں ان کا شمار ان رہنمائوں میں ہوتا ہے جو ریاستی اداروں سے اسے تعلقات بنانے کے حق میں اور انتہا پسندانہ سوچ کے خلاف ہیں ۔ چوہدری پرویزالٰہی کو بظاہر تو من پسند ٹھیکوں، پنجاب اسمبلی میں بھرتیوں اور مبینہ کرپشن کے مقدمات میں جیل جانا پڑا لیکن اگر ان کا اصل جرم بانی پی ٹی آئی کی خوشنودی میں اسمبلی توڑنا تھا۔اسمبلیاں توڑنے کے اقدامات کو ملک میں بڑے بحران کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے ، خود چوہدری پرویزالٰہی بھی یہی کہتے نظر آ رہے تھے کہ اسمبلی توڑنا خود ان کی جماعت اور جمہوری عمل کے حق میں نہیں۔ بحرحال چار کیسوں میں ضمانت پر انہیں رہا کر دیا گیا ہے مگر ابھی ان پر بیس مقدمات میں نامزدگی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ چوہدری پرویزالٰہی کو سیاسی یا عدالتی محاذ پر ہی نہیں خاندانی سطح پر بھی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں ۔پنجاب کا چوہدری خاندان، جس کا خاندانی اتحاد اصل طاقت تھا وہ چوہدری پرویزالٰہی اوران کے صاحبزادے چوہدری مونس الٰہی کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی وجہ سے اختلافات سے دوچار ہوا اور اسی خاندانی تقسیم نے ان کیلئے مشکلات پیدا کیں ۔ چوہدری پرویزالٰہی نے اپنی رہائی کے بعد یہ کہہ کر کہ مجھے معلوم ہے گجرات کے لوگوں سے بہت زیادتیاں ہوئیں اور ظلم سہنا پڑا، چوہدری شجاعت حسین کے بیٹوں سے اُس وقت تک کوئی بات نہیں ہوگی جب تک ہمارا چرایا مینڈیٹ ہمیں واپس نہیں ہوگا۔ ان کی سیاسی لڑائی تو چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادوں وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین اور صوبائی وزیر شافع حسین سے ہے لیکن چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی کے درمیان آج بھی باہمی عزت و تکریم کا رشتہ قائم ہے۔ چوہدری شجاعت حسین نے متعدد بار جیل میں اُن سے ملاقات بھی کی اور انہیں اپنے سیاسی  طرزِ عمل پر نظرثانی کا مشورہ دیا لیکن چوہدری پرویزالٰہی نے جیل ثابت قدمی سے کافی۔جہاں تک چوہدری پرویزالٰہی کے مستقبل کی حکمت عملی کا سوال ہے تو وہ شاید سیاسی محاذ پر مستقبل قریب میں کوئی بڑا کردار ادا نہ کر پائیں لیکن ان کی بھرپور کوشش ہو گی کہ فیصلہ ساز حلقوں سے کہ صرف یہ کہ اپنے تعلقات بحال کریں اور اپنے لئے کوئی سیاسی راستہ بنائیں بلکہ وہ سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی کی حکمت عملی میں تبدیلی اور بانی پی ٹی آئی کیلئے ریلیف ممکن بنانے کی کوشش بھی کریں گے۔آج تحریک انصاف سیاسی محاذ پر ہی نہیں داخلی سطح بھی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ چوہدری پرویزالٰہی کی رہائی کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب جماعت کی وکلا قیادت کی جگہ سیاسی قیادت آگے آئے گی اور مزاحمتی بیانیہ پر کار بند رہنے کی بجائے مفاہمتی عمل اور مفاہمتی بیانیہ پر کار بند ہو گی۔  سیاسی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ سیاسی اور عوامی طاقت کا استعمال ایک وقت تک تو کار آمدہوتا ہے مگر فیصلہ سازی کیلئے سیاسی طرز عمل اور ڈائیلاگ ہی کارگر بنتا ہے، لہٰذا چوہدری پرویزالٰہی کی رہائی کا عمل تحریک انصاف کی پالیسی، طریقہ کار اور سیاسی لائحہ عمل کیلئے بھی نیک شگون ثابت ہو سکتی ہے۔ کچھ واقفانِ حال تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کیلئے ریلیف کے سلسلے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اس امر میں کتنی صداقت ہے اس کا پتہ آنے والے چند روز میں چلے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔