مقام ابراہیمؑ کی فضیلت

تحریر : مولانامحمد اکرم اعوان


اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ ’’اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کیلئے ثواب اور امن کی جگہ بنایا اور مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو اور ابراہیم اور اسمٰعیل (علیھما اسلام) کو فرمایا میرے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے پاک صاف رکھا کرو، اور جب ابراہیم ( علیہ اسلام) نے دُعاکی اے میرے پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنائیے اور اس کے رہنے والوں میں سے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو کو پھل عطا فرمائیے۔ فرمایا اور جو کفر کرے گا سو اس کو بھی تھوڑا عرصہ (یعنی دنیا میں) بہت آرام دوں گا پھر اس کو کشاں کشاں آگ کے عذاب میں پہنچائوں گا اور وہ پہنچنے کی بہت بری جگہ ہے‘‘

عمرہ ہو یا حج یا ویسے کوئی اللہ کا بندہ خانہ کعبہ کا طواف کرے تو ہر طواف کے بعد مقام ابراہیم علیہ السلام پہ دو نفل ادا کرتا ہے، یہ اس کا حصہ ہے۔ بیت اللہ شریف میںمقام ابراہیم پرایک سفید رنگ کا پتھر آج بھی موجود ہے کہ جیسے جیسے بیت اﷲ کی تعمیر ہوتی تھی اس پتھر پہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوکر تعمیر کرتے جاتے تھے، دیوار اونچی ہوتی جاتی تھی اور پتھرازخود اونچا ہوتا جاتا تھا اور دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا تھا۔ آپ (حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے بیت اﷲشریف کی تعمیر کی اور اس پتھر میں دو ڈھائی انچ گہرائی تک آپ علیہ السلام کے نقوش کف پا مبارک اتر گئے۔ آج بھی زائرین کی زیارت کیلئے بیت اﷲ شریف کے سامنے وہ ایک شیشے میں بند رکھا ہوا ہے۔ سفید رنگ کا پتھرہے جیسے سنگ مرمر ہوتا ہے اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دونوں پائوںمبارک دو ڈھائی انچ تک گہرائی میں لگے ہوئے ہیں، تو اللہ کریم نے ارشاد فرمایا: اس جگہ جہاں یہ پتھر رکھا ہے، یہاں نوافل ادا کرو۔ اورہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو یہ حکم دیا کہ ہمارے گھر کو صاف رکھیں، پاکیزہ رکھیں، اعتکاف کرنے والوں کیلئے، رکوع اور سجود کرنے والوں کیلئے اور طواف کرنے والوں کیلئے، زیارت کرنے والوں کیلئے، حج کرنے والوں کیلئے، عمرہ کرنے والوں کیلئے یعنی اﷲ کی عبادت کرنے والوں کیلئے اس گھر کو ہمیشہ پاکیزہ اور صاف ستھرا رکھیں۔ اس میں کوئی دینی قباحت ہو نہ کوئی دنیو ی قباحت ہو، اس میں کوئی غلاظت یا گندگی بھی نہ ہو اور دینی اعتبار سے کوئی بت، کوئی اس طرح کی خباثت اس میں نہ ہو۔ جب  اﷲ نے حکم دیا تو آپ علیہ السلام نے بیت اﷲ شریف تعمیر فرمایا پھر اس کو صاف ستھرا کیا، سجایا، اس میں عبادت شروع کی اور دعا کی، ’’اے اﷲ! اس شہر کو شہرامن بنا دے اور اس میں رہنے والوں کو پھل اور رزق عطا فرما جو بھی تیر ی ذات پراور آخرت پر ایمان لائے‘‘۔ اﷲکریم نے فرمایا کہ آپ علیہ السلام نے دعا کی ہے اور آپ علیہ السلام نے صرف مسلمانوں اور مومنین کیلئے دعا کی ہے لیکن میں دنیا میں کافر کو بھی ان نعمتوں سے محروم نہیں کروں گا جو اس شہر میں آیا، اگر وہ مومن نہ بھی ہوا تو اسے رزق ملے گا اور پھل بھی ملیں گے۔

آج تو یہ تکنیک عام ہو گئی ہے کہ ہر موسم میں پھل ملتا ہے اور کچھ نقلی طریقے سے کچھ ایسی ادویات بن گئی ہیں، ایسی کھادیں بن گئی ہیں کہ بغیر موسم کے سبزیاں اور پھل پیدا کیے جاتے ہیں لیکن ایک زمانہ تھا جب یہ چیزیں نہیں تھیں۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے ایسا کوئی تصور بھی نہیں تھا لیکن مکہ مکرمہ میں روزِ اوّل سے لے کر آج تک کبھی موسم یا زمانے کی قید نہیں رہی۔ہر زمانے کا پھل موجود ہوتا ہے اور ایک شہر میں پینتیس پینتیس لاکھ لوگ باہر سے جمع ہوجاتے ہیں اور کبھی کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ سب کے رزق کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور دنیا کا ہر پھل بھی وہاں ملتا ہے لیکن فرمایا: مومن کیلئے تو درست، دنیا میں کافر کو بھی دوں گا لیکن اس کا فائدہ حاصل کرنے کا وقت کم ہو گا۔

تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دُعا بھی اس طرح منظور ہوئی کہ وہ شہر، شہر امن بھی بنا اور اس میں آج تک رزق کی بھی کوئی کمی کسی نے محسوس نہیں کی۔ اﷲکریم اپنی نعمتوں سے اور اپنے رزق سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بھی دے لیکن اپنی ذات کے ساتھ ایمان پر پختہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دنیاوی دولت یا دنیاوی شہرت یا دنیاوی وقار کوئی چیز نہیں، اگر اس کے بدلے آخرت ضائع ہوجائے اور اﷲکریم آخرت کو محفوظ رکھیں، ایمان کو محفوظ رکھیں، توفیق عمل دیں اور اس کے ساتھ دنیا کی عزت بھی دیں تو یہ اس کا انتہائی کرم ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔