ادائیگی حقوق پڑوسی ایمان کا حصہ

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ دو باتیں ہیں۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک۔ اسی لیے جیسے شریعت میں ہمیں اللہ تعالیٰ کے حقوق ملتے ہیں، اسی طرح ایک انسان کے دوسرے انسان پر بھی حقوق رکھے گئے ہیں۔

 اسلام میں انسانی حقوق کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی لیے اسلام نے ان حقوق کو بہت واضح طور پر پیش کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے ، انسان کسی جانورکی  طرح تنہا کسی بل میں یا کسی غار میں زندگی نہیں گزار سکتا ، وہ معاشرہ اور خاندان کا محتاج ہے اور بہت سے رشتوں اورتعلقات کے حصار میں رہ کر زندگی بسر کرتا ہے۔اس نسبت سے انسان  کے  اوپر بہت سے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ والدین اور اولاد کے حقوق ، بیوی، بھائیوں، بہنوں اور پڑوسیوں کے حقوق۔ شریعت میں انسانی حقوق کا دائرہ بہت وسیع ہے اور انہیں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

اسلام حسین و خوشگوار ماحول اور الفت بھرے معاشرے کو نہ صرف یہ کہ پسند کرتا ہے بلکہ اس کی تعلیم و تاکید بھی کرتا ہے۔ ہر شخص کیلئے معاشرے کا پہلا فرد اس کا پڑوسی ہے۔ انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق اپنے پڑوسی سے پڑتا ہے۔ انسان اور اس کی معاشرت کی بنیاد باہمی اشتراک اورتعلق داری پرقائم ہے۔ اگر ایک بھوکا ہے تو دوسرے کا حق ہے کہ اپنے کھانے میں اسے بھی شریک کرے۔ اگر ایک بیمار ہے تو دوسرا اس کی عیادت و تیمارداری کرے۔ اگر ایک کسی آفت و مصیبت کا شکار ہو اور کسی رنج و غم میں مبتلا ہو تو دوسرا اس کا شریک ِغم بنے اور اس کے رنج وغم کو ہلکا کرنے میں اس کامعاون بنے۔ 

ہر انسان بظاہر جسمانی اور روحانی اعتبارسے جتنا ایک دوسرے سے علیحدہ و الگ تھلگ ہے، اخلاقی اورروحانی اعتبارسے اتناہی وہ ایک دوسرے سے مل جل کررہے۔ایک کا وجود دوسرے کے دکھ درد کو اس طرح محسوس کرے جس طرح جسد واحد دکھ درد محسوس کرتا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے، حضرت نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: آپس کی محبت اور ایک دوسرے کی مصیبت پر دلی احساس محسوس کرنے میں مؤمنوں کا معاملہ ایسا ہے جیسا کہ ایک جسم ہو۔ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم ہی تکلیف محسوس کرتا ہے اور اس کی وجہ سے  سو نہیں سکتا اور بے آرام رہتا ہے(صحیح بخاری: 6011)

اسلام نے پڑوسی کے حسب ذیل حقوق بیان کیے گئے ہیں:

محتاج پڑوسی کی مدد کرنا

پڑوسی کا پہلا حق یہ ہے اگروہ ضرورتمندہوتواپنی بساط کے مطابق اس کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔ نبی کریم ﷺکا فرمان ہے ’’کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جبکہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو‘‘(الادب المفرد، حدیث 112)۔ گویا ایک پڑوسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے پڑوسی کے حالات سے باخبر ہو۔ اگر اس کے پاس کھانے پکانے کا سامان نہ ہو تو مہیا کرے۔ کسی بھوکے کوکھاناکھلاناانسانی فریضوں میں سے ایک ہے اوربھوکے پڑوسی کو کھانا کھلانا سنت یا مستحب نہیں بلکہ فرض اور واجب ہے۔

قرض مانگنے پرقرض دینا

پڑوسی کا دوسرا حق یہ ہے کہ اگرپڑوسی کبھی قرض مانگے تو اسے قرض دے دیناچاہیے۔ مثلاً اگر کھانے پینے سے عاجز آچکا ہوتو اس صورت میں قرض دینا فرض اور واجب ہے۔ اگرکسی ضرورت کیلئے مانگ رہا ہو تو قرض دینا حسن سلوک کے تقاضوں میں سے ایک ہے۔ آج کل کسی کو قرض دے کر واپس لینا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن سا ہو گیا ہے۔ اس لیے اگر کوئی قرض مانگے تو صرف اتنا ہی دینا کہ اگر واپسی نہ ہو تو کوئی صدمہ نہ ہو۔ 

خوشی میں شریک ہونا

پڑوسی کا تیسراحق یہ ہے کہ اگر پڑوسی کے یہاں کوئی خوشی ہو تودوسرا پڑوسی اس میں شریک ہو۔مثلاً اولاد ہوئی یا اچھی ملازمت ملی یا کاروبار میں ترقی ہوئی تو جا کر اسے مبارکباد دیں۔یہ مبارک بادمحض رسماًنہ ہوبلکہ اتباع سنت، ثواب اور نیکی کے جذبے سے سرشار ہو کردینی چاہیے۔

رنج وغم میں تسلی دینا

پڑوسی کا چوتھا حق یہ ہے کہ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو اسے تسلی دو۔ یعنی اگر اس کی تکلیف کو دور کرنا ممکن ہے تو دور کر دو اور اگر دور کرنا ممکن نہیں تو تسلی دے دو، مثلا کوئی فوت ہو جائے تو اسے تسلی دے کر ہمدردی کا اظہار کرو۔ کسی کا دل غم میں ڈوبا ہوا ہے اسے جا کر ایسے جملے کہنا جس سے اس کے دل کو سکون اور ٹھنڈک محسوس ہو۔

بیمارکی عیادت کرنا

پڑوسی کا پانچواں حق یہ ہے کہ اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو۔یہ بیمارپرسی اورتیمارداری اس طرح ہو کہ بیمار کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ عیادت کرنا باعث ثواب ہے، حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی عیادت کیلئے جاتا ہے تو گھر سے نکلنے سے لے کر واپسی تک پورے عرصے جنت کے باغ میں رہتا ہے(صحیح مسلم: 2568)۔ یہ اجروثواب اس وقت ملے گا جبکہ عیادت پورے آداب اور طریقے سے کی جائے، یعنی جس کی عیادت کرنے جا رہے ہیں اسے کوئی تکلیف یا پریشانی نہ ہو۔ مثلاً ایسے وقت میں جانا جو مریض کے آرام کا وقت ہو ، اس وقت یہ عیادت اس مریض کیلئے پریشانی کاباعث بنے گی۔مریض کا حال معلوم کریںتو اسے تسلی کے الفاظ کہیں اور پھر جلد واپس آجائے، زیادہ دیر تک نہ بیٹھے۔

جنازہ میں شرکت

پڑوسی کا چھٹا حق یہ ہے کہ اگر پڑوسی کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرنی چاہیے ، جس سے جنازے میں شرکت کا ثواب بھی ملتا ہے اور پڑوسیوں سے غمخواری پر اجر بھی ملتا ہے۔

گویاپڑوسی کے چھ حقوق زیادہ اہمیت کے حامل ہیں مثلاًمحتاج کی حاجت پوری کرنا، قرض دینا،خوشی میں شرکت کرنا،غم میں تسلی دینا، عیادت کرنااورانتقال کی صورت میں جنازہ میں شرکت کرنا۔ لیکن پڑوسی کے حقوق صرف یہی کچھ نہیں ہیں بلکہ جہاں تک ہو سکے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا،اگرپڑوسی کاکوئی عیب معلوم ہوجائے اس کی پردہ پوشی کی جائے۔

غریب پڑوسی کی مددکرنا

محتاجوں،غریبوں،  یتیموں اور ضرورت مندوں کی مددکرناان کی حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے،ان کے ساتھ تعاون کرنے، ان کیلئے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنے کو دین اسلام نے کار ثواب اور اپنے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کاذریعہ بتایاہے۔ اللہ تعالیٰ نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے ، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی ممکن حدتک مددکرے۔  ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں‘‘ (البقرہ: 177)

قرآن مجیدمیں ایک اورمقام پہ ارشاد ربانی ہے: ’’(لوگ) آپ (ﷺ) سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں: جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک ا? اسے خوب جاننے والا ہے‘‘ (البقرہ: 215)۔

معاشرتی بہبود و فلاح کاایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں، بیواؤں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال کی جائے اوریہ چیز اگر اپنی ہمسائیگی میں نظرآتی ہے توبدرجہ اولیٰ ان کی معاونت کی جائے۔ احادیث مبارکہ میں غریب پروری کے پہلو کو بڑی شدومدکے ساتھ اجاگرکیاگیاہے۔

محلہ اوراردگردکے ماحول

 کوصاف ستھرارکھنا

اسلام نے ایک طرف انسان کو روحانی پاکیزگی عطا کی، ان کے اخلاق کو سنوارا اور تہذیب سے آشنا کیا، وہیں اس نے معاشرے کو صحت کی حفاظت کے اصول سکھائے اور انسانوں کو رہن سہن، اٹھنے بیٹھنے اور طہارت و پاکیزگی کا طریقہ  بھی سکھایا۔ فطری طور پر انسان صفائی ستھرائی، طہارت  و  پاکیزگی اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور اسلام ایک دین فطرت ہے جس نے انسانی فطرت کا کافی لحاظ کیا ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے صاف ستھرا رہنے والے افراد سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ‘‘(البقرہ:222)۔ 

اسلام نے صفائی ستھرائی کو عقیدہ اور ایمان کے بندھن سے جوڑ دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایمان کی ستّر سے زائد شاخیں ہیں، یا فرمایا: ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، جن میں سے سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کمتر راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘(صحیح مسلم: 35)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے : ابومالک اشعری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:طہارت آدھا ایمان ہے‘‘(صحیح مسلم: 223) ۔

صاف ستھرا رہنے سے نہ صرف رب کی محبت و خوشنودی حاصل ہوتی ہے بلکہ اس سے انسان متعدد امراض سے محفوظ بھی رہتا ہے۔اسلام نے سڑکوں، راستوں، گلیوںاور محلوں کو بھی پاک و صاف رکھنے کا حکم دیا ہے اور ان میں گندگی پھیلانے سے منع کیا ہے۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : لعنت کا سبب بننے والے کاموں سے بچو، لوگوں نے پوچھا : وہ کیا ہیں ؟ آپ  نے فرمایا: ’’ جو لوگوں کے راستے اور ان کے سایہ دار جگہوں میں قضائے حاجت کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم: 269) ۔ گویا کہ راستوں اور سایہ دار جگہوں پر پیشاب و پاخانہ کرنا باعثِ لعنت ہے۔ 

اہل پڑوس سے حسن سلوک

عموماً کسی کو تکلیف دو چیزوں سے پہنچائی جاتی ہے ، ان میں ایک زبان اور دوسری چیز ہاتھ ہے۔ لہٰذا ان دونوں کا صحیح استعمال کرنا چاہئے اور اس کے صحیح استعمال کا سب سے زیادہ حقدار آپ کاپڑوسی ہے۔ اس لیے کہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔

حضرت ابو شریح خزاعیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جوشخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے، جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ مہمان کی عزت وتکریم کرے اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے ،اسے چاہئے کہ اچھے اندازسے گفتگوکرے یا پھر خاموش رہے(صحیح مسلم:165)

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! فلاں عورت دن کو روزہ رکھتی ہے، رات کوقیام کرتی اوراپنے ہمسائے کوتکلیف دیتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:یہ آگ میں ہے۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ! ایک دوسری عورت فرض نمازپڑھتی ہے اورپنیرکے کچھ ٹکڑے صدقہ کرتی ہے اور اپنے پڑوسی کوتکلیف نہیں دیتی توآپ ﷺ نے فرمایا: یہ جنت میں ہے‘‘ (مسند احمد: 9673)

ہمسایہ کواپنی ایذارسانی

 سے محفوظ رکھنا

حضورﷺ نے ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی کو ایمان کا حصہ قرار دیا۔ حضرت ابو شریح ؓ روایت کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم !وہ ایمان والا نہیں ،اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں،اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ کون؟ فرمایا :کہ جس کا ہمسایہ اس کی تکلیفوں(اورشرارتوں) سے محفوظ نہیں (صحیح بخاری: 5670)۔دوسری حدیث میں ہے،نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کی شرارتوں سے اس کاہمسایہ محفوظ نہ ہو‘‘ (صحیح بخاری: 6016)۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:قیامت کے دن سب سے پہلے جن دوآدمیوں کاجھگڑاپیش ہوگا،وہ دوپڑوسی ہوں گے (مسند احمد: 17372)

مومن کا مصدر ایمان امن سے ماخوذ ہے، جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو، وہ فسادی اور شر پسند نہیں ہوسکتا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مومن اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں دیتا، اس پر ظلم نہیں کرتا، اس پر بہتان نہیں لگاتا، اس کی عزت و آبرو پر حملہ نہیں کرتا بلکہ وہ امن وسلامتی کا پیکر ہوتا ہے، نہ صرف یہ کہ مومن پڑوسی اس کے شرارتوں اوردست درازی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ غیر مسلم ہمسائے بھی اس کی شرافت، امانت اور اخلاق پر اعتماد کرتے ہیں۔جو شخص اپنی شرارتوں سے پڑوسی کو پریشان کرتا رہتا ہو اور اپنی فتنہ انگیزی سے اس کا چین چھین لیتا ہو ،وہ مذکورہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں مومن نہیں ہے۔

آج کے دور میں پڑوسی کے حقوق پر توبالکل ہی توجہ نہیں دی جاتی بلکہ یوں معلوم ہوتاہے کہ لوگوں کے نزدیک یہ کوئی دین کا تقاضہ ہی نہیں۔ اکثر لوگ عبادات مثلاً نماز، روزہ ،حج ،زکوٰۃ کو ہی اسلام یامسلمان ہونا سمجھتے ہیں اور دوسری جانب اگر اخلاقیات بالخصوص پڑوسی کے حقوق پر احادیث نبوی کا مطالعہ کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے ایمان اسی طرح خطرے میں پڑ جاتا ہے جس طرح عبادات نماز،روزہ چھوڑنے سے۔

عصرحاضرمیںاہم معاملہ یہ ہے کہ پڑوسیوں کی ایذارسانی کی وجہ سے بیشتر لوگ ایک دوسرے سے نالاں ہیں۔ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے کی کچھ صورتیں تو بڑی عام ہیں: مثلاً مختلف پروگراموں میں لاؤڈ سپیکر کا بے جااستعمال کرنا،شادی بیاہ کے موقع پرشوروغل کرنا، اونچی آواز میں بات چیت کرنا، کوڑا کچرا یا پانی گلی میں پھینک دینا، ٹینٹ لگا کر راستہ بندکردینا، مکان تعمیر کرتے وقت ریت اور بجری سے بے احتیاطی کی بنا پر راستہ کی رکاوٹ بننا وغیرہ شامل ہیں۔

پڑوسی سے اختلاف رائے ہونے کی  صورت میں طنز یہ جملے کہنا، آوازیں کسنا، لڑائی جھگڑا کرنا، گالی گلوچ کرنااور ہاتھا پائی تک نوبت لے آنا ، ہمسائے کی زمین پرقبضہ کر لینا، ناجائزپارکنگ کرنا، اپنے عہدے یا حیثیت کا ناجائزاستعمال کرنا وغیرہ بھی ایذا رسانی کی صورتیں ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔