کلاسیکی شاعری اور تفہیم غالب

تحریر : نیئر مسعود


اردو نثر اور شاعری کے عظیم ترین اساتذہ میں غالب کا مقام نمایاں حیثیت رکھتا ہے جو ان کی وفات کے ایک صدی اور تقریباً تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ناقابل تسخیر رہا ہے۔ دراصل 1857ء آتے آتے ہی، جو جنوبی ایشیا کی سماجی، سیاسی اور ادبی و تہذیبی تاریخ کا نقطہ انقلاب تھا، غالب کی شہرت و مقبولیت روایت کے عظیم نمائندے اور نئے عہد کے پیش رو کی حیثیت سے قائم ہو چکی تھی اور اس کے بعد ہر نسل نے ان کی کلاسیکی توجہ انگیزی کی توثیق کی ہے۔

غالب کے اپنے عہد میں ہی ان کی شاعری اگرچہ پوری طرح مسترد نہیں کی گئی لیکن تنقیدوں کا شکار ضرور رہی جس کی وجہ ان کے کلام کی بالواسطہ ساخت، مشکل لفظیات، ابہام اور اسلوب کی پیچیدگی تھی۔ لیکن غالب کے شاگرد اور سوانح نگار الطاف حسین حالی نے ان کی شاعری کو عام قاری کیلئے بڑی حد تک قابل فہم کر دیا۔ بعد ازاں مستعد ادیبوں اور نقادوں نے اپنے اپنے زمانے کے ادبی اصولوں کی روشنی میں کلام غالب کو قابل فہم بنانے اور اس کے حسن کو نمایاں کرنے کی کسی حد تک کامیاب کوششیں کیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم اضافہ شمس الرحمان فاروقی کی کتاب ’’تفہیم غالب‘‘ ہے۔ 

فاروقی کی تنقیدی فکر کی تعمیر میں امریکی نئی تنقید اختیاتی لسانیات اور ہمارے زمانے میں تجدید شدہ کلاسیکی بدیعیات(ریطو ریقا) کے عناصر شامل ہیں۔ اس طرح ان کی تفہیم قدیم و جدید شعریات کی روشنی میں غالب کے منتخب اشعار کی شرح کے طور پر سامنے آئی ہے۔ حالانکہ فاروقی نے کم از کم بیس پیش رو شارحین غالب سے رجوع کیا ہے پھر بھی ان کی شرح ان سب سے قطعی مختلف ہے۔ غالب کے یہاں مستعمل غیر واضح اور مبہم فقروں کی توضیح کیلئے فاروقی نے معیاری لغات اور شاعرانہ اظہار و بیان کی فرہنگوں سے مدد لی ہے۔

اس تجربے نے فاروقی کے کارنامے کو ’’نئی تنقید‘‘ کے ان عام نقادوں کی کار گزاریوں کے مقابلے میں زیادہ جامع بنا دیا جو ادبی متن کو محض لا شخصی اور خود مختار سمجھتے ہیں اور اسی روشنی میں اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ نقاد سب سے پہلے متن کی وضاحت سے واسطہ رکھتا ہے۔ وہ پیچیدگیوں کو دور کرتا ہے اور ایمائیت، اشاریت، ابہام اور قول محال وغیرہ کی گتھیوں کو سلجھاتا ہے۔

فاروقی کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ غزل کے مختلف اشعار میں وحدت کے اندرونی رشتے کی تلاش کریں جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ غزل کو مجموعی طور پر ایک منظم ساخت عطا کرتا ہے۔90غزلوں میں سے 138 اشعار کا انتخاب کرکے انہوں نے ہر شعر کی الگ تشریح کرنا پسند کیا ۔اگر ایک ہی غزل کے پانچ یا اس سے زیادہ اشعار بھی انتخاب میں آئے ہیں تب بھی ان کی شرح الگ الگ شعر کی صورت میں کی گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید فاروقی کی نگاہ میں غزل ’’اقوال زریں‘‘ قسم کی مختصر تحریروں کا مجموعہ ہے کہ فن شعر کا مفصل اور نامیاتی کارنامہ۔ ان کا یہ طریق کار اس تنظیمی اصول کو نظرانداز کردیتا ہے جو غزل کی بظاہر ڈھیلی ڈھالی اور بے ربط ساخت کے پیچھے کار فرما رہتا ہے۔

شعر کو خیال کی اکائی فرض کرکے اس پر غور کرنا شارح کو خاصی حد تک آزادی عطا کر دیتا ہے۔ لیکن فاروقی کا انتخاب اشعار مختلف تصورات اور تاملات پر مبنی ہے۔ ان کا مقصد تعبیر کی آزادی حاصل کرنا نہیں بلکہ ایسے اشعار سے بحث کرنا ہے جن کی شرح میں گزشتہ شراح نے کوئی اہم نکتہ چھوڑ دیا ہے۔ یا جن کی شرح کسی بالکل نئے اور مختلف زاویہ سے ہو سکتی ہے۔اس طریق کار کے ذریعہ فاروقی نے نہ صرف کلام غالب کی نئی تعبیر کی ہے بلکہ ان کی شرح ماقبل شرحوں پر تنقید و تبصرہ کا حکم بھی رکھتی ہے۔

شاعری کی وہ شرحیں جو جدید طرز میں لکھی جاتی ہیں عام طور پر شاعر اور متن سے متعلق تاریخی اور سوانحی مواد سے احتراز کرتی ہیں۔ فاروقی نے البتہ غالب کے اُس مکمل اردو دیوان کو اپنے سامنے رکھا ہے جسے کالی داس گپتا رضا نے تاریخی اصولوں کے مطابق ترتیب دیا ۔ فاروقی نے اس کے کچھ تاریخی مندرجات سے اختلاف بھی کیا ہے۔

تفہیم غالب میں اس طرح کے فقرے کہ ’’دیکھئے۔ غالب نے یہ سب کچھ اس وقت کہہ دیا جب ان کی عمر 19سال سے زیادہ نہیں تھی‘‘۔ عام طور پر ملتے ہیں یا ’’غیر معمولی شعر کہا ہے‘‘ جیسے فقرے بھی نظر آتے ہیں جن سے کلام غالب کی قدرو قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان سب کے باوجود فاروقی نے غیر معمولی حساس طبعی سے کام لے کر صفحات پر لکھے ہوئے ’’منقوش الفاظ‘‘ کو اس طرح پڑھا ہے کہ متن میں چھپی ہوئی طنزیہ ایمائیت اور غالب کے ذہن کی قول محال سے بھرپور گہرائیاں پوری طرح نمایاں ہو گئی ہیں۔

یہ کارنامہ موجودہ عہد کی فیشن زدہ اور ناعاقبت اندیش جدیدیت کی کمر خمیدہ کر دینے کے مترادف ہے۔ انہوں نے غالب کو ایسے غیر معمولی مشاعر کی حیثیت سے پیش کیا جو اپنے غیر روایتی استعاروں پر پوری طرح حاوی ہے۔ اس کے کلام کی کثیر المعنویت میں متن کی پیچیدگی ممدو معاون ہوتی ہے اور ہم اس کی ہمہ جہت شاعری سے مختلف (مادی، آفاقی اور مابعد الطبیعاتی) سطحوں پر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ غالب کی یہ شرحیں جو غیر معمولی ذہانت سے مملو ہیں عام طور پر وثوق انگیز ہیں اور شعر کے لطف میں اضافہ کرتی ہیں۔ لیکن کہیں کہیں ان میں ذہانت سے زیادہ تیزی طبع نظر آتی ہے لیکن فاوقی کا انداز سب سے الگ ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭