حکومت سندھ کی شاہ خرچیاں
ملکی سیاست کو اس وقت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی تقریر نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے جو انہوں نے اسلام آباد میں تحریک انصاف کے جلسے میں کی تھی۔ نتیجے میں تحریک انصاف کے کئی اراکین قومی اسمبلی کو گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا اور وزیراعلیٰ خود بھی کئی گھنٹوں کے لیے غائب ہوگئے تھے۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بھی گنڈاپور کو کھری کھری سنائی گئیں ، ایک اہم کام صوبائی اسمبلی نے اور کیا وہ یہ کہ ارسا ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کو مسترد کرنے کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی۔ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے بھی قرارداد کی حمایت کی۔ یہی معاملہ پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے سینیٹ میں اٹھایا اور کہا کہ ترمیم سے چیئرمین ارسا تو وفاقی حکومت کا ملازم بن جائے گا۔ وفاقی وزیر مصدق ملک نے ان کی بات کو مسترد کردیا اور کہا کہ ان کے سامنے تو ابھی تک سندھ کا کوئی اعتراض آیا ہی نہیں۔ایک طرف عوام مہنگائی میں پس رہے ہیں اور دوسری طرف سندھ حکومت نے 138 ڈبل کیبن لگژری گاڑیاں خریدنے کی منظوری دے دی ہے جس کے لیے دو ارب روپے جاری کرنے کے لیے محکمہ خزانہ کو خط بھی لکھ دیا گیا۔ یہ گاڑیاں صوبے میں تعینات اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے خریدی جانی ہیں تاکہ انہیں آنے جانے اور کام کرنے میں آسانی رہے۔ حکومت نے گاڑیوں کی خریداری کی وضاحت جاری کی اور کہا کہ اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے آخری بار 2012ء میں گاڑیاں خریدی گئی تھیں اور وہ اپنی عمر پوری کرچکی ہیں اور جن ڈبل کیبن گاڑیوں کو خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ کبھی بھی لگژری گاڑیوں کے زمرے میں نہیں آتیں۔ ویسے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ کام کرنے کے لیے ڈبل کیبن گاڑیاں ہی کیوں ضروری ہیں، کیا یہ کام چھوٹی گاڑیوں میں آجاکر نہیں کیے جاسکتے؟وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان کے مطابق دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں تمام سرکاری محکموں کو کس طرح چلانا ہے، افسران کو ان کے گریڈ کے مطابق کون سی مراعات بشمول گاڑی، گاڑی کا ایندھن وغیرہ کے لیے سرکاری طور پر رولز آف بزنس بنے ہوئے ہیں۔رولز آف بزنس کے تحت 17 گریڈ کے افسر کو 800 سے 1000 سی سی کار دی جاتی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر بھی گریڈ 17 کا ہے مگر اسسٹنٹ کمشنر کاکام فیلڈ کا ہے اس لیے انہیں بڑی گاڑی الاٹ کی جاتی ہے۔
کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ نے عوام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ ہر شہری کو سولر سسٹم لگوا لینا چاہیے۔ اگلے روز ایم کیو ایم نے بھی عوامی حمایت کے حصول کا عزم کیا اور کے الیکٹرک کے دفتر کے باہر دھرنا دے ڈالا۔ کے الیکٹرک سے مذاکرات کے بعد طے پایا کہ اب رات کو لوڈ شیڈنگ نہیں ہوا کرے گی اور کے الیکٹرک اپنا ٹیرف بھی کم کرے گا۔ عوام خوش ہوگئے لیکن پھر رات کو بجلی چلی گئی، علی الصبح بھی گئی، کے الیکٹرک پر خاموش رہنے والی پیپلز پارٹی نے بھی آواز بلند کی اور سندھ اسمبلی نے کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کرنے اور اسے قومی ملکیت میں لینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی۔
سندھ میں بارشیں تو رک چکی ہیں لیکن گاؤں دیہات میں ابھی تک اس کے اثرات باقی ہیں، لوگوں کی زندگی مشکل ہوچکی ہے اور متاثرین ملیریا اور جلدی امراض سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ حکومت کو اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ گاڑیوں کی خریداری پر بے دریغ پیسہ خرچ کرنے کے بجائے کچھ رقم ان متاثرین پر خرچ کردی جائے تو اچھا رہے گا۔ کراچی میں سانحہ کارساز ابھی تک میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ گاڑی کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار باپ بیٹی جاں بحق ہوگئے تھے، متاثرین نے عدالت میں بیان جمع کرایا تھا کہ فریقین میں صلح ہوگئی ہے اور انہوں نے ملزمہ ڈرائیور کو معاف کردیا ہے۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ معاملہ پانچ کروڑ روپے کی دیت کی شکل میں طے پایاہے۔ دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمہ 2005ء سے ذہنی مریضہ ہے اور اس کا علاج چل رہا ہے۔ یہاں خاتون کی عمر بھی سامنے آنی چاہیے کیونکہ 2005ء سے علاج کا مطلب یہ ہے کہ 19 برس سے علاج جاری ہے۔ بظاہر تو ملزمہ بہت زیادہ عمر کی نہیں لگتی ،کہیں ایسا تو نہیں کہ بچپن سے علاج جاری تھا اور کسی کو خبر نہ ہوئی۔ ملزمہ کی رہائی کی امید ہوچلی تھی کہ امتناع منشیات ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزمہ کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔ اس فیصلے کو ایڈیشن سیشن کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے اور اس کی سماعت جاری ہے۔اس دوران حیدرآباد سے ایک افسوسناک خبر ہے کہ تالاب نمبر 3 کی ایک رہائشی خاتون نے اپنے بچے کے لاپتا ہونے کا مقدمہ سندھ ہائیکورٹ سے واپس لینے کی استدعا کردی ہے۔ خاتون کا بچہ 14 ماہ قبل لاپتا ہوگیا تھا، اس کا کہنا ہے کہ گھر میں فاقے ہیں، کیس لڑنے کے لیے پیسے کہاں سے لائیں۔ کسی فلاحی تنظیم کو آگے بڑھ کر دکھیاری ماں کی مدد کرنی چاہیے، حکومت بھی کوئی نہ کوئی مدد کرسکتی ہے۔ سندھ پولیس کچھ کرے نہ کرے، اس کے اہلکار بڑی اچھی اچھی ٹک ٹک بنانے اور سوشل میڈیا کا استعمال کرنا سیکھ گئے ہیں۔ حال ہی میں کراچی کی ایک خاتون اہلکار کی ٹک ٹاک بہت وائرل ہوئی۔ میڈیا نے بھی خوب چلائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہلکار کو معطلی کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس چیف اب تک 18 اہلکاروں کو معطل کرچکے ہیں۔ سوشل میڈیا رجحان اپنی جگہ لیکن پولیس کا کام امن و عامہ کو برقرار رکھنا ہے، اگر آن ڈیوٹی اہلکاروں کا یہ رجحان مستقل اور بڑھتا گیا تو بہت بڑا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ پہلے ہی امن و امان کی صورتحال خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کشیدہ ہے اور ماضی گواہ ہے کہ ان دونوں صوبوں کے بعد اس قسم کی صورتحال کا اثر شہر کراچی پر پڑتا رہا ہے۔