گردے کا عالمی دن اور پاکستان: ایک جامع جائزہ

گردے انسانی جسم کے سب سے اہم اعضا میں شامل ہیں جو خون کو صاف کرنے، پانی اور نمکیات کا توازن برقرار رکھنے اور زہریلے مادوں کو جسم سے خارج کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔
ہر سال مارچ کی دوسرے جمعرات کو دنیا بھر میں گردے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد گردوں کی بیماریوں سے آگاہی پھیلانا اور لوگوں کو احتیاطی تدابیر اپنانے کی ترغیب دینا ہوتا ہے۔ پاکستان میں گردوں کی بیماریوں کی بڑھتی ہوئی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دن اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔پاکستان میں گردوں کے امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں، جس کی بنیادی وجوہات میں غیر صحت مند طرزِ زندگی، ناقص غذا، آلودہ پانی، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور مناسب طبی سہولیات کی کمی شامل ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں تقریباً 20 فیصد آبادی کسی نہ کسی طرح گردوں کے مسائل کا شکار ہے۔،ان میں سے زیادہ تر کو بیماری کا علم ہی نہیں ہوتا۔
ذیابیطس (17% آبادی) اور ہائی بلڈ پریشر (25% بالغوں) گردے کی ناکامی کی بنیادی وجوہات ہیں۔ دیہاتی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی کمی اور شعور کی عدم موجودگی کے باعث مریضوں کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے، جس سے علاج مشکل ہو جاتا ہے۔گردوں کے امراض کی کئی اقسام ہیں جن میں گردوں کی دائمی بیماری (Chronic kidney disease (CKD)، گردے کی پتھری، گردے کی سوزش اور گردے فیل ہونے کے مسائل شامل ہیں۔ اگر ان بیماریوں کی بروقت تشخیص اور علاج نہ کیا جائے تو یہ سنگین پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہیں، جن میں ڈائلسز یا گردے کی پیوند کاری کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔گردے کے عالمی دن کا بنیادی مقصد گردوں کی بیماریوں کے متعلق شعور بیدار کرنا‘ ان کے بچاؤ کے طریقوں پر روشنی ڈالنا اور حکومت و طبی اداروں کو صحت کے بہتر انتظامات کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ اس دن مختلف ممالک میں آگاہی مہمات، مفت طبی معائنے، سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ لوگ گردوں کی صحت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں۔
چیلنجز اور رکاوٹیں:
سہولیات کی کمی: پاکستان میں ڈائیلاسس کے مراکز اور گردے ٹرانسپلانٹ کی سہولیات بڑے شہروں تک محدود ہیں۔ دیہاتوں میں مریضوں کو علاج کے لیے طویل سفر کرنا پڑتا ہے۔
اقتصادی بوجھ: ڈائیلاسس کا ماہانہ خرچہ 30سے 50 ہزارروپے تک ہوتا ہے جو غریب خاندانوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ گردے کی پیوند کاری کی لاگت 20 لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے۔
ماہرین کی قلت: ملک بھر میں صرف 200 تربیت یافتہ نیفرولوجسٹس ہیں جو آبادی کے تناسب سے ناکافی ہیں۔
غلط فہمیاں: اعضاکے عطیہ کے بارے میں غلط فہمیاں نے گردہ ٹرانسپلانٹ کی شرح کو 5,000 سالانہ تک محدود کر دیا ہے۔ غربت اور ناخواندگی نے گردوں کی بیماریوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ 24 فیصدپاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں، جن کے لیے باقاعدہ چیک اپ ایک خواب ہے۔ دیہاتی علاقوں میں جڑی بوٹیوں پر انحصار اور طبی مشوروں سے گریز بیماریوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔
تجاویز اور حل :
پرہیز اور آگاہی: سکولوں اور کمیونٹی سنٹرز کی سطح پر مفت سکریننگ کیمپ لگا کر بیماریوں کی بروقت تشخیص کو یقینی بنایا جائے۔
سہولیات کی توسیع: سرکاری ہسپتالوں میں ڈائیلاسس مشینوں کی تعداد بڑھائی جائے اور دیہاتی علاقوں میں موبائل کلینک قائم کیے جائیں۔