کون فاتح،کون شکست کے آگے سرنگوں

تحریر : نوید گل خان


پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کی قیادت سنبھالنے کا اعزازاب تک35کرکٹرز کے نصیب میں لکھا گیا۔ عبدالحفیظ کاردارسے شروع ہونیوالے اس محاذ کی کمان اس وقت شان مسعود نے سنبھال رکھی ہے ،کون فتح کے راستے پر چلا اور کس کو شکست نے سرنگوں کردیا یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔

عبدالحفیظ کاردار نے 23میچز میں قیادت کے فرائض انجام دئیے اور 6فتوحات کے ساتھ 6 شکستوں کا ریکارڈ اپنے نام کے آگے درج کرایا جبکہ 11ٹیسٹ میچز ڈرا ہوئے۔ فضل محمود نے 10میچز میں2بارفتح اور2بارشکست کا مزا چکھا، 6میچز ڈراہوئے۔امتیاز احمد 4میچزمیں 2بارہار اور 2باربرابرکا ریکارڈ اپنے کھاتے میں درج کرایا۔ جاوید برکی 5میچز میں سے صرف ایک ڈرا میچ میں ہی شکست کے داغ سے بچ سکے ،4میں شکست نے انہیں ناکام ترین قومی ٹیسٹ کپتان بنا دیا۔ حنیف محمد 11بارقائد بن کرمیدان میں اترے تاہم صرف 2میچز میں فتح نصیب ہوئی، 2میں ہار مقدربنی اور 7ڈرا ہوگئے۔

سعید احمد تین بار کپتان بن کر میدان میں آئے تاہم ہر بار مقابلہ برابر رہا۔17میچز میں قیادت کرنیوالے انتخاب عالم صرف ایک بار جیت کی خوشی مناسکے ،5بار شکست نے انہیں مایوس کیاجبکہ 11میچزمیں کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا اور وہ بھی ایک ناکام کپتان کے طور پرجانے جاتے ہیں۔ماجد خان نے تین میچز میں کپتانی کا لیبل لگایا تاہم جیت ہار سے ہٹ کر صرف ڈرا ہی ان کامقدرٹھہرا۔19ٹیسٹ میچز کے قائد مشتاق محمد نے 8بارفتح کا جھنڈاگاڑا اور 4میں شکست کھائی، 7میچز ڈرا ہوئے۔وسیم باری 6ٹیسٹ میچزمیں کپتان رہے ،جیت ان سے روٹھی رہی تاہم 2بار شکست نے انہیں گھیر لیا جبکہ 4بار نتیجہ ہی نہ نکل سکا۔آصف اقبا ل نے بھی اسی ریکارڈ کو دہرایا اور وسیم باری کے ہم پلہ بن گئے۔جاوید میانداد 34 ٹیسٹ میچز میں ٹیم لے کر میدان میں گئے اور 14فتوحات کے ساتھ پاکستان کے تیسرے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان کا اعزاز اپنے نام کے آگے درج کرالیا ،6بارشکست اور 14ڈرا ٹیسٹ میچز کے باوجود ان کی میچ وننگ اوسط 70فیصد رہی۔عمران خان نے 48میچز میں 14ہی فتوحات حاصل کی اورانہیں 8بارشکست کامنہ دیکھنا پڑا جبکہ 26میچز میں نتائج کاموقع نہ آسکا۔ 63.63کی اوسط ان کو کامیاب کپتانوں میں ممتاز کرتی ہے۔ظہیرعباس نے 14میچز میں قیادت کی ذمہ داری نبھائی،3فتوحات اور 10ڈرا میچز نے ان کی کامیابی کا تناسب 75فیصدکردیاجو اوسط کے لحاظ سے انہیں پاکستان کا دوسراکامیاب ترین ٹیسٹ کپتان بنا دیتاہے۔انہوں نے صرف ایک میچ میں شکست کا منہ دیکھا۔

وسیم اکرم 25بار کپتانی کافرض اداکرتے ہوئے 12 بار کامیاب ہوئے اور 8بارناکام رہے ،5بار جوڑبرابرکارہا،60فیصدکا تناسب انہیں کامیاب کپتانوں کی فہرست میں جگہ دیتاہے۔17میچز کے قائد وقار یونس نے 10بار فتح کا علم بلند کیا جبکہ 7بار شکست نے انہیں پچھاڑ دیا۔انہوں نے اپنی کپتانی میں کوئی ڈرا میچ نہیں کھیلا جو انہیں دیگر کپتانوں سے منفر د بناتاہے۔سلیم ملک 12میچز میں کپتان کے فرائض انجام دے کر 70فیصد تناسب کے ساتھ کامیاب کپتانوں کی صف میں شامل ہوئے،7بارفتح، 3بارشکست ان کے ریکارڈ میں درج ہے جبکہ 2مقابلوں کا اختتام ڈرا پر ہوا۔ رمیز راجہ نے 5میچز میں ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سنبھالی تاہم صرف ایک بار ان کو فتح نصیب ہوئی جبکہ ڈرااورشکست کا سکور 2-2سے برابررہا۔

سعید انورنے 7میچز میں قائدانہ رول اداکیا تاہم انہیں بھی صرف ایک فتح نصیب ہوئی جبکہ 4بار شکست کادھبہ لگا اور 2میں برابر کے نتائج نے ان کو اوسط درجے کا کپتان بنادیا۔عامرسہیل 6میچز میں کپتان رہے ،3ڈرا ،ایک فتح اور 2شکستوں نے انہیں بھی اوسط درجے کے کپتان کا لیبل لگادیا۔6میچز میں قومی ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کرنیوالے راشدلطیف 4فتوحات ،ایک ڈرا میچ اور ایک شکست کیساتھ 80فیصد کی اوسط سے آج تک کے کامیاب ترین قومی کپتان ہیں۔معین خان کو 13ٹیسٹ میچز میں قیادت کا اعزاز ملا اور وہ 7فتوحا ت کیساتھ بہتر کپتان ثابت ہوئے تاہم 2میچز میں شکست ہوئی اور 7ڈرا ہوگئے۔

انضمام الحق 31بار ٹیسٹ قائد بن کرمیدان میں اترے،11فتوحات اور 11شکستوں کے ساتھ ساتھ 9ڈرا میچز ان کے ریکارڈ میں درج ہیں۔محمد یوسف نے 9میچز میں قیادت سنبھالی ،2بار جیت ان کا مقدر بنی اور6بار شکست نے ڈسٹرب کردیا جبکہ ایک میچ ڈرا پر منتج ہوا۔یونس خان کے سر پر 9بارقیادت کا ہما بیٹھا تاہم وہ صرف ایک میچ میں فتح کا مزا چکھ سکے اورتین میچز میں شکست کا درد سہنا پڑا،5میچز ڈرا ہوئے۔3میچز میں قیادت کرنے والے شعیب ملک 2شکستوں اور ڈرا میچ کیساتھ ناکامی کا لیبل لگوا بیٹھے۔شاہد آفریدی کو ایک ٹیسٹ میچ میں قیادت کا موقع ملا جس کا اختتام شکست پر ہوا۔ سلمان بٹ 5 میں سے 2میچز میں کامیاب رہے، 3بار ہارکی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔

مصباح الحق 56ٹیسٹ میچز میں قومی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کا اعزازرکھتے ہیں جو آج تک کسی کی پاکستانی کرکٹرکے بطورٹیسٹ کپتان سب سے زیادہ میچز ہیں۔انہوں نے 26بار فتح کا علم بلند کیا اور وہ واحد پاکستانی کپتان بھی ہیں جنہوں نے ورلڈٹیسٹ چیمپئن شپ کا فاتح بن کر آئی سی سی گرز تھاما۔ مصباح الحق کو 19بار شکست کامنہ بھی دیکھناپڑااور11 بار بغیرنتیجہ میدان سے لوٹنا پڑا۔ 

ایک ٹیسٹ میچ میں کپتانی کرنیوالے محمد حفیظ بھی شکست کا داغ لگوا بیٹھے۔اظہر علی 9بار بطور کپتان میدان میں اترے اور 2بارفاتح بن کرلوٹے جبکہ 4بار شکست کے بادل چھائے رہے اورتین بار نتیجہ نہ نکل سکا۔سرفرازاحمد 13میچز میں قیادت کرتے ہوئے 4بارکامیابی سمیٹ کر اور 8بار شکست کوگلے لگا کر میدان سے لوٹے ،محض ایک میچ ڈرا ہوا۔ 2میچزمیں قیادت کے فرائض نبھانے والے محمد رضوان بھی شکست تلے دبے رہے۔بابراعظم 20بارقیادت کابوجھ اٹھاکر میدان میں آئے اور 10بار کامیاب لوٹے ،6بار حریف ان پر بھاری پڑگئے اور4بارہارجیت کا فیصلہ نہ ہوسکا۔

موجودہ کپتان شان مسعود 10میچز میں قومی ٹیم کی قیادت کرچکے ہیں اور محض 2بار فتح نے انہیں اپناچہرہ دکھایا۔پاکستان کے 10ٹیسٹ کپتان امتیاز احمد ،جاوید برکی ،سعید احمد ،ماجد خان ،وسیم باری ،آصف اقبال ،شعیب ملک، شاہد آفریدی، محمد حفیظ اور محمد رضوان کبھی جیت کا مزا نہیں چکھ سکے۔ اوسط کے لحاظ سے راشدلطیف 80فیصد کے ساتھ کامیاب ترین کپتان ہیں جبکہ ظہیرعباس 75فیصد، جاوید میانداد اور سلیم ملک 70، 70فیصد کے ساتھ بالترتیب دوسرے اورتیسرے نمبر پرہیں تاہم فتوحات کی تعدادکے حوالے مصباح الحق نے سب سے زیادہ26بار جیت کا نعرہ بلند کیا۔عمران خان اور جاویدمیانداد نے 14، 14بار قوم کو فتح کی خوشخبری دی، وسیم اکرم 12بار کامیاب کپتان قرار پائے۔مصباح الحق نے سب سے زیادہ 56ٹیسٹ میچز میں ٹیم کی قیادت کی۔عمران خان 48میچز کے دوسرے اور جاوید میانداد 34 میچز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔

ایک دلچسپ ذکر ضروری ہے کہ وقار یونس17، شاہد آفریدی 1 ،سلمان بٹ5 ،حفیظ 1،رضوان 1 اور شان مسعود 10میچز میں کپتان بنے لیکن کبھی کوئی ڈرا میچ نہیں کھیلا۔ ناکام کپتانوں میں جاوید برکی اورشان مسعود نمایاں ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

شبنم رومانی نازک اسلوب کے شاعر

تجھ سے بچھڑ کے، مجھ کو خود اپنی تلاش ہے آخر فلک سے ٹوٹ کے تارا کدھر گیا میر سے گہری نسبت کے باوجود وہ مزاجاً اختر شیرانی سے زیادہ قریب نظر آتے ہیںتخلص کی نفسیاتی اہمیت پہ غور کریں تو شبنم کا لفظ نرمی، نزاکت، لطافت اورحسن فطرت کے تصورات ابھارتا ہے اور یہی سب کچھ شبنم کی شاعری میں نظر آتا ہے

سوء ادب :سرونسٹن چرچل

برطانوی وزیرِ اعظم سرونسٹن چرچل کی ایک خاتون رکن اسمبلی کے ساتھ اکثر بڑی چخ چخ رہتی تھی۔ دونوں ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملے کیا کرتے تھے۔ ایک بار اس خاتون نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ مسٹر چرچل اگر میں آپ کی بیوی ہوتی تو میں نے آپ کو زہر دے دینا تھا۔ جس پر مسٹر چرچل بولے ، محترمہ اگر آپ میری بیوی ہوتیں تو میں نے خود ہی زہر کھا لینا تھا۔

چیمپیئنز ٹرافی کا میلہ سجنے کو تیار

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کا میلہ سجنے کو تیار، پاکستان پہلی بار آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا میزبان، میگا ایونٹ کا آغاز 19 فروری کو کراچی سے ہو گا،نو مارچ تک جاری رہنے والے ایونٹ کے سنسنی خیزمقابلے کراچی، لاہور، راولپنڈی اور دبئی میں ہوں گے۔

دھوبی کا کُتا

خوشبو پور گائوں میں ایک دھو بی رہتا تھا،ماں باپ گزر جانے کے بعد وہ گھر میں اکیلاہی رہتا تھا۔صبح کو وہ دھوبی گھاٹ جاتا اور شام کو تھکاماندا واپس آتا۔اس کی غیر موجودگی میںکتا گھر کی رکھوالی کرتا تھا۔رات کو بھی دھوبی کے سونے کے بعد کتا گھر کی حفاظت کیلئے جاگتا رہتا۔

اندھا سانپ اورچڑیا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جلیل پور کے ایک گائوں میں ایک مشہور ڈاکو رہتا تھا۔وہ اپنا قصہ بیان کرتے ہوئے بتاتا ہے،ایک بار میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈاکہ ڈالنے جا رہا تھا۔راستے میں ہم ایک جگہ کچھ دیر آرام کرنے بیٹھے تو وہاں ہم نے دیکھا کہ کھجور کے تین درخت ہیں۔جن میں سے دو پر تو خوب پھل آ رہا ہے جبکہ تیسرا بالکل خشک ہے۔

وسیع کائنات

رات کو ثناء کی نظر آسمان پر پڑی تو ستارے خوب چمک رہے تھے۔ وہ کچھ دیر تو انہیں دیکھتی رہی، پھر اپنے ابو سے پوچھا: ’’ابو جان! یہ ستارے رات ہی کو ہی کیوں چمکتے ہیں ؟‘‘