اصل خوبی

بارش ختم ہو چکی تھی۔ تمام بچے اسکول پہنچ چکے تھے۔ دوسرے بچوں کی طرح سارہ بھی سرخ چھتری لے کر اسکول میں داخل ہوئی۔ اس کی چھتری بہت خوبصورت تھی۔ اس نے اپنی تمام سہیلیوں کو بتایا: یہ چھتری مجھے فرانس سے میری خالہ نے بھیجی ہے۔
یہ سن کر زینب بولی: مگر ایسی چھتریاں تو ہمارے پاکستان میں بھی ملتی ہیں۔
فاطمہ نے جلدی سے کہا: واقعی؟ ایسا لگتا ہے کہ تمہاری خالہ تم سے بہت پیار کرتی ہیں۔
کچھ روز بعد سارہ چمڑے سے بنا ہوا ایک قلم اسکول لائی۔ وہ قلم منفرد ہونے کے ساتھ خوشبودار بھی تھا۔ کلاس کے تمام بچے قلم کی خوشبو سے لطف اندوز ہوئے اور خوب تعریف بھی کی۔ یہ سب دیکھ کر سارہ خوشی سے پھولی نہ سمائی۔
کچھ ہی روز بعد ان سب نے سارہ کے ہاتھ میں ایسا قلم بھی دیکھا جس میں سیل سے چلنے والی چھوٹی سی گھڑی بھی فٹ تھی۔ سارہ کی شیخی خوریاں اب بڑھتی جا رہی تھیں، مگر کچھ بچے ایسے بھی تھے جو اس کی ان باتوں کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے تھے اور نہ ہی اس کی کسی بھی نئی چیز سے متاثر ہوتے تھے۔
سارہ کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنی ہم جماعت زینب، فاطمہ اور عائشہ جیسی معروف طالبہ بننا چاہتی تھی جو اپنی ذہانت کی بنا پر تمام ٹیچرز کی آنکھوں کا تارا تھیں اور کلاس میں بے حد مقبول تھیں۔
عائشہ فی البدیہہ تقاریر میں ماہر تھی تو زینب بزم ادب کی ہر محفل کی جان تھی۔ اسے علامہ اقبالؒ کے اشعار سے لے کر قائد اعظمؒ جیسی عظیم ہستیوں کے اقوال اور بہت سے اشعار زبانی یاد تھے۔ مگر سارہ میں ایسی کوئی خوبی نہ تھی جبکہ اس کا بھی دل چاہتا تھا کہ کاش وہ بھی اچھی ڈرائنگ کر سکے یا تقاریر میں انعام حاصل کرے، یا کچھ ایسا کرے کہ تمام بچے اور اساتذہ اس کی تعریف کریں۔
جب ایسا کچھ نہ ہو سکا تو اس نے اب اپنی کلاس میں اپنی دھاک بٹھانے کیلئے اور اپنے دوستوں میں اضافے کیلئے خوب پیسے خرچ کرنے شروع کر دیے۔ وہ اسکول میں وقفے کے دوران اپنے تمام دوستوں کو کچھ نہ کچھ خرید کر کھلاتی تھی۔ اس طرح رفتہ رفتہ اس کی سہیلیوں اور دوستوں میں اضافہ ہو گیا۔
ایک روز سارہ کی شیخی خوریوں کا پول کھل گیا۔ ہوا یوں کہ وہ صبح اسکول آئی تو بہت خاموش اور چپ چپ سی تھی۔ عائشہ نے اس سے خاموشی کی وجہ پوچھی تو وہ خاموش رہی۔ پھر وقفہ ہوا تو آج اس کے پاس بالکل پیسے نہ تھے کہ کچھ خرید کر کھا سکے۔ اس کے تمام دوست اور ہم جماعت اسے گھیرے بیٹھے تھے اور جاننا چاہتے تھے کہ وہ خاموش کیوں ہے کہ اتنے میں اس کا چھوٹا بھائی آ گیا۔
اس کا بھائی بھی اسی اسکول میں پڑھتا تھا۔ اس نے سارہ کی خاموشی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اس نے بتایا کہ کل سارہ کو امی سے بہت ڈانٹ پڑی ہے، کیوں کہ وہ امی کے پرس سے اکثر پیسے چرا لیتی تھی۔ یہ بات سن کر سارہ کے گرد بیٹھے تمام دوستوں کا گروپ ایک ایک کر کے وہاں سے کھسک گیا اور اب وہ بالکل تنہا رہ گئی۔ ہر کوئی اس سے کترانے لگا۔
وہ بہت خاموش خاموشی رہنے لگی اور یہ بات اس کی استانی نے بھی واضح طور پر محسوس کی۔ کچھ دن بعد استانی جی نے اسے ایک صفحہ دیتے ہوئے کہا: اس میں پانی کے عالمی دن پر مضمون ہے۔ یہ دن اگلے ہفتے اسکول میں منایا جائے گا۔ تم اس موقع پر یہ مضمون پڑھو گی۔
سارہ گھبرا کر بولی: مگر یہ میرے لیے بہت مشکل ہے۔استانی جی نے کہا: کوئی مشکل نہیں ہے۔ میں تمہیں تیاری کراؤں گی۔ تم روز وقفے میں مجھے یہ مضمون زبانی سناؤ گی۔
پہلے تو سارہ ہچکچائی، مگر آخر کار وہ راضی ہو گئی۔ اس نے استانی جی کی مدد سے تیاری کی اور پانی کے عالمی دن کے موقع پر وہ مضمون اعتماد سے پڑھنے میں کامیاب رہی۔
پرنسپل صاحبہ نے بزم ادب میں نئے بچوں کی شمولیت کی تعریف کی اور سارہ کی الفاظ کی ادائیگی کو بہت سراہا۔سارہ نے شکر گزاری سے استانی جی کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکرا دیں۔
انہیں سارے معاملے کا علم تھا لیکن انہوں نے اپنی طالب علم بچی کو شرمندہ کرنے کے بجائے دوسرے طریقے سے اس کی حوصلہ افزائی کی اور سیدھے راستے پر لانے پر کامیاب رہیں۔ دوسری طرف سارہ کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ انسان کی اصل خوبی پیسہ نہیں، بلکہ اس کی قابلیت، صلاحیت اور اچھائی ہوتی ہے۔