پاور سیکٹر،حکومتی اقدامات ریلیف کیلئے اہم قومی ایشوز پر اتفاق رائے کیونکر ممکن ؟

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے آج پاور سیکٹر کی اصلاحات اور اقدامات کا اعلان متوقع ہے۔ اس حوالہ سے حکومت کافی عرصہ سے کام کر رہی تھی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایات تھیں کہ عام آدمی کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی لائی جائے جس کے لیے آئی پی پیز سے ان کے طے شدہ معاہدوں پر نظر ثانی کا سلسلہ جاری تھا اور ان معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے حکومت کا مؤقف یہ تھا کہ ان معاہدوں کو حقیقت پسندانہ ہو نا چاہیے اور یہ کہ آج کے حالات میں ان معاہدوں پر عملدرآمد اور آئی پی پیز کواربوں کھربوں کی اضافی ادائیگی ممکن نہیں۔
اب اطلااعات ہیں کہ حکومت کے دباؤ اور وزیراعظم شہباز شریف کی خصوصی دلچسپی کے باعث چودہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی ہوئی ہے اورٹیرف میں کمی لائی جا رہی ہے جس کے نتیجہ میں بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی متوقع ہے ۔ممکنہ طور پراس کا اعلان آج ہو رہاہے ۔یاد رہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ہوا تھا۔ ایک وقت تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف معاشی حوالے سے معاہدے پر اس کی سپرٹ کے مطابق عمل پیرا نظر آ رہے تھے لیکن انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ بجلی کے بل عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں، لہٰذا حکومت نے پاور سیکٹر پر اپنا دباؤ برقرار رکھا اور آئی ایم ایف سے بھی بات چیت کا سلسلہ جاری رہا اور انہیں باور کرایا گیا کہ یہ ٹیرف عوام کے لیے قابل برداشت نہیں اور اس پر عمل پیرا نہیں ہو سکیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ حکومتی اصلاحات کے پروگرام پر آئی ایم ایف نے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اس پر آگے بھی ٹیرف میں کمی ہو سکے گی۔ یہ آئی ایم ایف کا حکومتی اصلاحات پر اعتمادہی تھا کہ طے شدہ معاہدے پر نظر ثانی کی لچک دی گئی؛چنانچہ اب بجلی کے ٹیرف کو حقیقت پسندانہ بنانے اور اسے عوامی دسترس میں لانے کے اقدامات ہو رہے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات (ن) لیگ کے لیے بطور سیاسی جماعت خوشگوار نہ تھے، اس کا احساس پارٹی کی لیڈر شپ کو بھی تھا ؛چنانچہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کا مشن وزیراعظم شہبازشریف کو سونپا گیا ۔وزیر اعظم نے متعدد بار یہ کہا کہ ہم نے عوام پر بوجھ کم کرنا ہے اوراب وہ مرحلہ قریب لگتا ہے جب وزیر اعظم پاور سیکٹر میں اصلاحات کا اعلان کریں گے۔ اس میں بجلی کی قیمتوں کا مسئلہ بھی ہے‘ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی بھی، بجلی کی کھپت میں اضافہ کا ایشو بھی اور خاص طور پر صنعتی عمل کی بحالی اور ترقی کو تیز کرنے کے لیے طے شدہ پروگرام کا اعلان بھی شامل ہے ۔اس میں دورائے نہیں کہ برآمدات میں اضافہ کرنا ہے تو صنعتوں کو سستی بجلی فراہم کرنا ہو گی۔ان اہداف کے حصول کے لیے وزیراعظم کی آج کی پریس کانفرنس اہم ہو گی۔ توقع یہی کی جا رہی ہے کہ پاور سیکٹر میں اصلاحات کا یہ عمل حکومت کی مقبولیت ، معیشت کی مضبوطی ، پاور سیکٹر میں استحکام اور برآمدات میں اضافے کے حوالے سے اہم ہو گا اور اس پر حکومت کے مستقبل کا انحصار ہوگا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے ضمن میں (ن )لیگ کا کردار اہم تھا،اب اگر بجلی کی قیمتوں میں کمی بھی ہوتی ہے تو یہ ریلیف( ن) لیگ کی سیاسی اہمیت و حیثیت میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ سیاسی محاذ پر نظر دوڑائی جائے تو دہشت گردی خصوصا ًبلوچستان کی صورتحال سیاسی معاملات پر غالب آ چکی ہے ۔ ایک طرف جہاں اپوزیشن نے اس حوالے سے اے پی سی کا اعلان کر رکھا ہے تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی تجویز دے رکھی ہے۔ ابھی تو دونوں جانب سے اعلانات پر عملًا پیش رفت نظر نہیں آ رہی البتہ ایسی اطلاعات ہیں کہ حکومت کے اندر یہ تحریک موجود ہے کہ اپوزیشن سنجیدگی ظاہر کرے تو دوبارہ مشترکہ اجلاس بلانے میں حرج نہیں۔ ویسے اگر اپوزیشن حکمران جماعتوں کے بغیر کوئی اے پی سی بلاتی ہے تواس کا نتیجہ کچھ سفارشات پر مبنی تو ہوسکتا ہے مگران پر اقدامات نہیں ہو سکیں گے۔ دوسری جانب حکومتی اعلانات کو اگر اپوزیشن کی تائید حاصل نہیں ہوتی تو ایشوز پر اتفاق رائے ممکن نہیں بن پائے گا۔
دہشت گردی اور بلوچستان کی صورتحال وہ سلگتے مسائل ہیں جن کا تعلق ملکی سلامتی کے ساتھ ہے۔ یہ صرف حکومت یا کسی ایک جماعت کے ایشوز نہیں،یہ سب کے مشترکہ مسائل ہیں۔ عوامی سطح پر اس حوالے سے تشویش محسوس کی جا رہی ہے اور ان مسائل کا حل صرف اور صرف پاکستانیت کے جذبہ کو بروئے کار لا کر کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے سب کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا اور ملکی مفادات کو مقدم رکھنا ہو گا۔ یہ وقت ضد اور ہٹ دھرمی کا نہیں قومی جذبے کے اظہار کا ہے۔اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ کسی اتفاقِ رائے کے لیے اسے اپنی لیڈرشپ سے ملاقات کی ضرورت ہے تو ایسی ملاقات کے اہتمام میں بھی کوئی حرج نہیں۔قومی مفادات شخصیات سے مشروط نہیں ہوتے، حکومت کے لیے اپوزیشن کی شرائط پر عمل درآمد بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ آج کی بڑی ضروت الگ الگ مشاورت کا اہتمام نہیں سب کا مل بیٹھنا ہے۔ اسی میں سے حل نکل سکے گا۔ اس حوالے سے بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف اس حوالے سے کردار ادا کرسکتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو ساتھ بٹھانے میں بڑا کردار ادا کرنے کی صلاحیت مولانا فضل الرحمن میں بھی ہے اور قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کا بھی احترام بھی سبھی فریقوں میں پایا جاتا ہے۔ ان شخصیات کو کردار ادا کرنے کے لیے ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے۔ قومی اتفاق رائے کے اس عمل میں جو ایک قدم آگے بڑھائے گا اس کے قد میں اضافہ ہو گا اور اس کے اس کردار کو سراہا جائے گا۔ ویسے تو (ق) لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت کہتے ہیں کہ( ن) لیگ کے سربراہ نواز شریف آگے آئیں اور کردار ادا کریں۔ ان کے بقول بلوچ لیڈر شپ نواز شریف کا احترام کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمہ میں ان کی حکومت کا بڑا کردار تھا تو نواز شریف کو اس حوالہ سے سوچنا چاہیے۔ نواز شریف کا اس ملک میں ہر جماعت ،ہر طبقے میں احترام ہے، اگر وہ قدم بڑھاتے ہیں تو مایوسی کے خاتمہ میں مدد مل سکتی ہے۔ وہ باتوں کی بجائے اقدامات پر یقین رکھتے ہیں اور آج کی بڑی ضرورت بھی طاقت اور قوت کے استعمال سے زیادہ مسائل کے سیاسی حل کی ہے ۔یقینانواز شریف اس میں بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس ملک سے آگے کچھ نہیں،لہٰذا یہی وقت ہے کہ نواز شریف جاتی عمرہ سے نکلیں اور اسلام آباد بیٹھیں۔ اہلِ سیاست کو اپروچ کریں، بلوچ قیادت کو پاس بلائیں اور ان سے بات کریں،یونہی حل نکلے گا ۔مایوسی کا توڑ سیاستدانوں کے پاس ہوتا ہے، انہیں چاہیے کہ نوشتۂ دیوار پڑھیں اورآگے بڑھیں۔ راستہ نکلے گامگر ذاتیات سے بالاتر ہونا پڑے گا۔