کروشیا:مشرق و مغرب میں یکساں مقبول

تحریر : شازیہ کنول


کہتے ہیں کہ کھاؤ من بھاتا، پہنو جگ بھاتا۔ یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے۔یوں بھی خوب سے خوب تر نظر آنے کی خواہش ہر ایک کی ہوتی ہے اور اسی خواہش کے پیش نظر انسان نے پہلے پہل پتوں کی پوشاک اور پھر دھاگوں کی مدد سے تن ڈھانپنے کا فن سیکھا۔

ریشم اور مخمل سے لے کر ہر قسم کے کپڑوں کی اقسام بنائیں۔ وہیں دھاگوں سے کپڑوں پر کشیدہ کاری بھی سیکھیں۔ رنگوں اور دھاگوں کے اس کھیل سے فیشن کی قدروں نے جنم لیا۔ کبھی مشینی کڑھائی تو کبھی ہاتھ سے بنے دلکش گل بوٹے اور کبھی چھپائی کے کام نے فیشن کی دنیا کو نئے انداز بخشے۔ چاہے مشرق ہو یا مغرب، فیشن کے انداز اگرچہ جدا ہیں تاہم کوشش یہی ہے کہ دوسروں سے کیسے مختلف اور منفرد نظر آیا جائے۔

جدید میڈیا کی بدولت دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ آج فیشن ٹرینڈ خبروں کی طرح بڑی تیزی سے بدلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی مقبولیت اور دیدہ زیبی کے باعث کروشیا کا فیشن ہمیشہ ہی’’ اِن‘‘ رہتا ہے۔ دوپٹے کے پلوں اور جدید تراش خراش کی قمیضوں کے دامن پر بنے کروشیا کے دیدہ زیب ڈیزائن آنکھوں کو بہت بھاتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر نے اپنے گھروں، محلوں اور خاندانوں میں عموماً بڑی عمر کی خواتین کو فارغ  وقت میں کروشیا کی سوئی پکڑے بڑی سرعت اور مشاقی سے دوپٹوں کے پلوں اور سجاوٹ کی آرائشی اشیا ء بُنتے ضرور دیکھا ہوگا۔ 

کروشیا نہ صرف مشرق بلکہ مغرب میں بھی اسی قدر مقبول ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا م میں جدت آرہی ہے۔کروشیا کی ابتداء کب ہوئی اس بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم تاریخ میں 1830 ء کے اوائل میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ بعض کے مطابق پندرہویں صدی عیسوی میں اس کی ابتداء ہوئی اور کیتھولک چرچ کی راہبائیں سجاوٹ کیلئے اس کی لیس بُنا کرتی تھیں۔ آج بھی اٹھارویں صدی میں بنائے گئے کروشیا کے بہت سے نمونے میوزیم میں موجود ہیں۔ 

کروشیا سے گل بوٹے بنانے کا رواج پہلے امراء تک محدود تھا تاہم بتدریج معاشرے کے باقی طبقوں میں بھی اس رحجان نے مقبولیت حاصل کی۔ اب کروشیا نہ صرف ایک فیشن ٹرینڈبلکہ بہت سوں کیلئے فرصت کے اوقات کا بہترین مصر ف اور ذریعہ معاش بھی ہے۔ امریکہ میں کروشیا کی تربیت کے علاوہ سال میں ایک کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو  اس ہنر سے متعلق معلومات اور تربیت فراہم کی جا سکے۔ بہت سے افراد چیرٹی کے اداروں کیلئے بھی کروشیاسے بنی اشیاء تیار کرتے ہیں جن کی فروخت سے حاصل آمدنی اور بسا اوقات یہ مصنوعات غریب ممالک میں بھیجی جاتی ہیں۔

پہلے کروشیا بنانے کیلئے صرف دھاگا استعمال کیا جاتاتھا۔پھر اون اور رنگ برنگے موتی بھی استعمال ہونے لگے اور اب جدید مشینوں کی مدد سے اس کو تیاری کے وقت کپڑوں کے ساتھ ہی بنایا جا رہا ہے۔ 

گھروں کو سجانے اور فارغ اوقات میں کوئی مشغلہ تلاش کرنے والی خواتین نت نئے انداز میں کروشیا کی مدد سے بڑی دیدہ زیب اشیا بنا سکتی ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں بہت سے پلاسٹک بیگز جمع ہو گئے ہیں تو انہیں کاٹ کر کروشیا کی مدد سے گھریلو استعمال کی اشیاء جیسے باسکٹ، پھول دان، ٹشو پیپر بکس اور کئی دوسری چیزیں بنائی جا سکتی ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

فانی بد ایوانی انسانی احساسات کے حقیقی آئینہ دار

ہماری المیہ شاعری کی کہانی میر کی پُر درد زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ غم نصیب شاعر ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوتا ہے جہاں اس کو غم عشق کے ساتھ غم روزگار سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔

سوء ادب

وصیتایک شخص نے مرتے وقت اپنی بیوی سے کہا کہ میری موت کے بعد میری ساری دولت میرے ساتھ دفن کر دی جائے۔ اس وقت اس کی بیوی کی ایک سہیلی بھی پاس بیٹھی ہوئی تھی جس نے اس شخص کے مرنے کے بعد پوچھا کہ کیا اس نے اپنے شوہر کی وصیت پر عمل کیا ہے۔ جس پر وہ بولی کہ میں نے اس کی ساری دولت کا حساب لگا کر اتنی ہی مالیت کا ایک چیک لکھ کر اس کے سرہانے رکھ دیا تھا تاکہ وہ جب چاہے کیش کرا لے۔

پی ایس ایل 10:بگل بج گیا،ٹرافی کی جنگ چھڑگئی

پاکستان سپرلیگ کے دسویں ایڈیشن (پی ایس ایل10)کا بگل بج گیا، ٹرافی حاصل کرنے کی جنگ چھڑ گئی، 6ٹیموں میں سے اس بار ٹرافی کون جیتے گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ’’پاکستان سپر لیگ 10‘‘ کا ابھی آغاز ہے اور انتہائی دلچسپ میچز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

نورزمان:سکواش کے افق کا چمکتا ستارہ

پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ میں سکواش ہمیشہ سے ایک روشن باب رہا ہے، لیکن ایک طویل عرصے کے زوال کے بعد پاکستان کی انڈر 23 سکواش ٹیم کا ورلڈ چیمپئن بننا ایک نئی صبح کی نوید بن کر آیا ہے۔

حنان کی عیدی

حنان8سال کا بہت ہی پیارا اورسمجھداربچہ ہے۔اس کے پاپا جدہ میں رہتے ہیںجبکہ وہ ماما کے ساتھ اپنی نانو کے گھر میں رہتا ہے۔

چوہے کی آخری دعوت

بھوک سے اس کا بُراحال تھا۔رات کے ساتھ ساتھ باہر ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی، اس لیے وہ کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں تھا۔اسے ڈر تھا کہ اگر چھپنے کیلئے کوئی جگہ نہ ملی تو وہ مارا جائے گا۔وہ کونوں کھدروں میں چھپتا چھپاتا کوئی محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جوں ہی ایک گلی کا موڑ مڑ کر وہ کھلی سڑک پر آیا،اسے ایک دیوار میں سوراخ نظر آیا۔وہ اس سوراخ سے اندر داخل ہو گیا۔