نورزمان:سکواش کے افق کا چمکتا ستارہ

تحریر : نوید گل خان


پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ میں سکواش ہمیشہ سے ایک روشن باب رہا ہے، لیکن ایک طویل عرصے کے زوال کے بعد پاکستان کی انڈر 23 سکواش ٹیم کا ورلڈ چیمپئن بننا ایک نئی صبح کی نوید بن کر آیا ہے۔

 یہ فتح نہ صرف ایک ٹائٹل کی جیت ہے بلکہ قوم کیلئے فخر، جذبے اور امید کا پیغام بھی ہے۔

پاکستان کے نور زمان نے ’’انڈر 23 ورلڈ اسکواش چیمپئن شپ‘‘ کی جیت کا ہما اپنے سر سجایا ہے۔ فائنل میں انہوں نے مصر کے کریم التور کو 2-3 سے شکست دی۔ کراچی میں ہونے والی انڈر 23 ورلڈ اسکواش چیمپئن شپ کے 5 سیٹوں پر مشتمل فائنل میں ابتدائی دونوں گیمز مصر کے کریم التور نے جیتے تاہم پاکستان کے نور زمان نے 0-2 کے خسارے کے بعد بہترین کم بیک کرتے ہوئے اگلے تینوں سیٹ جیت کر کامیابی حاصل کی۔ چیمپئن بننے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے نور زمان کا کہنا تھا کہ 0-2 کے خسارے کے بعد یہی سوچ تھی کہ اپنے گیم پر فوکس کروں اور آخری وقت تک فائٹ کرنے کا ذہن میں تھا۔

اس سے قبل، انڈر 23 ورلڈ اسکواش چیمپئن شپ کے سیمی فائنل میں نور زمان نے ملائیشیا کے چنداران کیخلاف شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا تھا۔ نور زمان نے پہلے گیم میں 6-11 سے اور دوسرے گیم میں 2-11 سے کامیابی حاصل کی جب کہ تیسرے گیم میں بھی نورزمان کو 4-6 سے برتری حاصل تھی تاہم چندارن انجری کے سبب میچ سے دستبردار ہو گئے۔ دوسرے سیمی فائنل میں مصر کے کریم التورکی نے اپنے ہم وطن ابراہیم الکبانی کو شکست دے کر فائنل میں رسائی حاصل کی تھی۔

نور زمان کا تعلق سکواش کی مشہور زمان فیملی سے ہے۔ اس فیملی کی پہلی نسل سے تعلق رکھنے والے پانچ بڑوں نے بین الاقوامی سکواش میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ پھر اس خاندان کی دوسری نسل سکواش کورٹ میں اتری اور اب نور زمان کی شکل میں اس خاندان کی تیسری نسل بھی چیمپئن کہلانے لگ گئی ہے۔

نور زمان کے والد منور زمان بھی سکواش کھلاڑی رہے ہیں تاہم اس فیملی کا اصل تعارف قمر زمان کے بغیر نامکمل ہے جو نور زمان کے دادا ہیں۔ قمر زمان خوبصورت سٹروکس کھیلنے کی وجہ سے اپنے دور میں سکواش کے ’’جادوگر‘‘ کہلاتے تھے۔ وہ سکواش کے عالمی نمبر ایک بھی رہے۔ انھوں نے 1975ء میں برٹش اوپن جیتی تھی جسے اس وقت تک سکواش کی غیر سرکاری عالمی چیمپئن شپ کا درجہ حاصل تھا۔ اس دور میں قمرزمان کے جیف ہنٹ کے ساتھ ہونے والے مقابلے سکواش کی تاریخ کا خوبصورت حصہ ہیں۔

قمر زمان کے تینوں بیٹوں منور زمان، منصور زمان اور منیر زمان نے بھی سکواش کھیلی۔ ان میں منصور زمان انٹرنیشنل سطح تک پہنچے اور عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ منصور زمان دو مرتبہ ایشین جونیئر چیمپئن بھی رہ چکے ہیں۔ منصور زمان کے بڑے بیٹے عبداللہ زمان جونیئر سطح پر نمایاں کارکردگی دکھا رہے ہیں جبکہ چھوٹے بیٹے ریان زمان کا ٹیلنٹ صرف چھ برس کی عمر میں سامنے آچکا ہے۔قمر زمان کے چاروں بھائیوں نے بین الاقوامی سطح پر سکواش کھیلی۔ شمس زمان ورلڈ جونیئر چیمپئن شپ کھیلے جس کے بعد انھوں نے کوچنگ کو اپنایا اور متعدد ممالک جیسے جرمنی، فلپائن، کویت، سری لنکا اور تھائی لینڈ کی ٹیموں کے کوچ رہے۔

نور زمان نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدا میں انھیں سکواش سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔میں نے دادا کی ڈانٹ اور مار دونوں کھائی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ میں سکواش کھیلوں اور جب میں نے تھوڑی سی محنت کے بعد اچھے اچھے کھلاڑیوں کو ہرانا شروع کیا تو پھر مجھ میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اگر میں زیادہ محنت کروں تو زیادہ اچھے نتائج حاصل کرسکتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ایشین جونیئر، برٹش اوپن جونیئر اور ورلڈ جونیئر مقابلوں کی بڑی اہمیت ہے۔ میں ایشین جونیئر چیمپئن شپ جیت چکا ہوں، اب میری پوری توجہ سینئر سکواش پر ہو گی۔نور زمان کا کہنا ہے کہ ان کے والد منور زمان ان کی ٹریننگ پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں لہٰذا ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے والد کی توقعات پر پورا اتریں۔

سکواش ایک ایسا کھیل ہے جس میں پاکستان نے کبھی دنیا پر راج کیا، لیکن بعد میں اسی کھیل میں زوال بھی دیکھا۔ پاکستان کی سکواش کی تاریخ ایک شاندار عروج اور پھر ایک افسوسناک زوال کی داستان ہے۔ اسکواش کے میدان میں پاکستانی کھلاڑیوں نے طویل عرصے تک حکمرانی کی، یہ کھیل دنیا میں پاکستان کی پہچان بنا رہا، ایک دور ایسا تھا جب پاکستانی کھلاڑیوں سے مقابلے کا مطلب ہی حریف کی شکست تھا، روشن خان، اعظم خان، جہانگیر خان، جان شیر خان، قمر زمان اور محب اللہ کے نام کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے جنہوں نے ہر دور میں اسکواش کے کورٹ میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند رکھا، مگر جان شیر اور جہانگیر خان کے بعد اس کھیل میں ہمارا زوال شروع ہوگیا، جیسے ہی یہ عہد ساز کھلاڑی عالمی اسکواش کے منظر سے غائب ہوئے، اسکواش کے دروازے پاکستان پر جیسے بند ہو گئے۔جس کی اہم ترین وجہ اس کھیل کے حکام کی ناقص حکمت عملی تھی جنہوں نے ان کھلاڑیوں کے متبادل تلاش نہیں کئے اور نہ ہی نئے خون کو گروم کیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

فانی بد ایوانی انسانی احساسات کے حقیقی آئینہ دار

ہماری المیہ شاعری کی کہانی میر کی پُر درد زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ غم نصیب شاعر ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوتا ہے جہاں اس کو غم عشق کے ساتھ غم روزگار سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔

سوء ادب

وصیتایک شخص نے مرتے وقت اپنی بیوی سے کہا کہ میری موت کے بعد میری ساری دولت میرے ساتھ دفن کر دی جائے۔ اس وقت اس کی بیوی کی ایک سہیلی بھی پاس بیٹھی ہوئی تھی جس نے اس شخص کے مرنے کے بعد پوچھا کہ کیا اس نے اپنے شوہر کی وصیت پر عمل کیا ہے۔ جس پر وہ بولی کہ میں نے اس کی ساری دولت کا حساب لگا کر اتنی ہی مالیت کا ایک چیک لکھ کر اس کے سرہانے رکھ دیا تھا تاکہ وہ جب چاہے کیش کرا لے۔

پی ایس ایل 10:بگل بج گیا،ٹرافی کی جنگ چھڑگئی

پاکستان سپرلیگ کے دسویں ایڈیشن (پی ایس ایل10)کا بگل بج گیا، ٹرافی حاصل کرنے کی جنگ چھڑ گئی، 6ٹیموں میں سے اس بار ٹرافی کون جیتے گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ’’پاکستان سپر لیگ 10‘‘ کا ابھی آغاز ہے اور انتہائی دلچسپ میچز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

حنان کی عیدی

حنان8سال کا بہت ہی پیارا اورسمجھداربچہ ہے۔اس کے پاپا جدہ میں رہتے ہیںجبکہ وہ ماما کے ساتھ اپنی نانو کے گھر میں رہتا ہے۔

چوہے کی آخری دعوت

بھوک سے اس کا بُراحال تھا۔رات کے ساتھ ساتھ باہر ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی، اس لیے وہ کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں تھا۔اسے ڈر تھا کہ اگر چھپنے کیلئے کوئی جگہ نہ ملی تو وہ مارا جائے گا۔وہ کونوں کھدروں میں چھپتا چھپاتا کوئی محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جوں ہی ایک گلی کا موڑ مڑ کر وہ کھلی سڑک پر آیا،اسے ایک دیوار میں سوراخ نظر آیا۔وہ اس سوراخ سے اندر داخل ہو گیا۔

ذرامسکرائیے

باپ نے بیٹے سے کہا : ’’دیکھو عمران آج جو مہمان ہمارے ہاں آنے والا ہے، اس کی ناک کے متعلق کوئی سوال نہ کرنا‘‘۔