رشوت ایک لعنت

تحریر : حافظ محمد ابراہیم نقشبندی


ہمارے معاشرہ میں بہت سی ایسی بیماریاں وجود میں آ ئی ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں بے سکونی اور بد امنی پھیلتی چلی جا رہی ہے معاشرہ کا سکون تباہ وبرباد ہوتا جا رہا ہے ان بیماریوں میں سب سے بڑی اور مہلک بیماری رشوت لینا ہے رشوت ایک ایسے ناسور کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ ہر چیز کو برباد کر دیتا ہے۔

 یہاں تک کہ معیار زندگی بڑھانے کیلئے رشوت خوری، ملاوٹ اور منافع خوری جیسی ممنوعات مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں چونکہ لوگوں کا معیار زندگی بدل چکا ہے اس لیے اسے برقرار رکھنے کیلئے ناجائز اور ممنوع ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔

رشوت وہ لعنت ہے جس سے معاشرے میں عدم استحکام اور مایوسی جنم لیتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں صراحتاًمنع فرمایا ہے کہ ایک دوسرے کا ناحق مال نہ کھاؤ۔ ’’اور ایک دوسرے کے مال آپس میں ناجائز طور پر نہ کھاؤ، اور انہیں حاکموں تک نہ پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ سے کھا جاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو‘‘(سورۃ البقرہ: 188) ہمارے ملک اور معاشرے میں یہی ہو رہا ہے۔

 رشوت جیسی خطرناک اور مہلک بیماری سے ہر طرف بازار گرم ہے۔اعلیٰ سطح سے لے کر نچلی سطح تک رشوت کھلے عام لی اور دی جاتی ہے اسی وجہ سے اہل لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں اور نااہل کورشوت یا سفارش وغیرہ کی بنیاد پر عہدے سپرد کر دیے جاتے ہیں۔ اس کا نقصان اہلیت رکھنے والے طلباء کو تو ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ خود اس شعبہ کو بھی ہوتا ہے جس نے رشوت یا سفارش پہ لوگوں کو رکھا ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کا کام کر کے نہیں دے رہا ہوتا جیسا انہیں مطلوب ہوتا ہے لہٰذا جس بھی طرح سے دیکھیں یہ رشوت کا ناسور بہت ساری بد امنیوں کو پھیلاتا ہے۔ 

مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع ؒ آیت مذکورہ کی تفسیرمیں حلال وحرام کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شریعت اسلام میں جتنے معاملات باطل یافاسداورگناہ کہلاتے ہیں ان سب کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان میں وجوہِ مذکورہ میں کسی وجہ سے خلل ہوتاہے،کہیں دھوکہ فریب ہوتاہے،کہیں نامعلوم چیزیانامعلوم عمل کامعاوضہ ہوتاہے، کہیں کسی کاحق غصب ہوتاہے،کہیں کسی کونقصان پہنچاکرنفع حاصل کیا جاتاہے،کہیں حقوق عامہ میں ناجائز تصرف ہوتا ہے۔ سود، قماروغیرہ کوحرام قراردینے کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ حقوق عامہ کیلئے مضرہیں،ان کے نتیجہ میں چندافرادپلتے بڑھتے ہیں، اور پوری ملت مفلس ہوتی ہے،ایسے معاملات فریقین کی رضامندی سے بھی اس لیے حلال نہیں کہ وہ پوری امت کے خلاف ایک جرم ہے،آیت مذکورہ ان تمام ناجائزصورتوں پرحاوی ہے‘‘(معارف القرآن: 1/954)۔یہ آیت اپنے ترجمہ کے لحاظ سے رشوت کی ممانعت میں صاف وصریح ہے کیوں کہ رشوت بھی ایک ایساعمل ہے جس کااثرحقوق عامہ پر براہ راست پڑتاہے،اوراس کی وجہ سے حقدارکاحق مارا جاتا ہے۔

 اس لعنت کی گرم بازاری میں سب سے زیادہ عمل دخل کرنے اور اسے عروج دینے میںخود ہمارا معاشرہ ہے جب لوگوں میں دوسروں کے حقوق غصب کرنے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے تو وہ اپنی غرض پوری کرنے کیلئے رشوت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح حکام بھی اس برائی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اس کے ایسے شیدائی ہو جاتے ہیں کہ رشوت لیے بغیر خود ان کے واجبی حقوق تک نہیں دیتے،اس وجہ سے اسلام نے سب سے پہلے خود معاشرے کو اس راہ سے روکا ہے کہ اپنے ہی محافظوں کو خود اپنی بد اعمالیوں سے چور نہ بناؤ۔ اس معاملے میں اتنی احتیاط برتی ہے کہ حکام کو تحفے اور ہدیے پیش کرنے اور ان کے قبول کرنے کو بھی پسند نہیں کیا گیا، اس لیے کہ یہ بھی رشوت کا ایک چور دروازہ ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی رشوت لینے اور دینے والے کے متعلق وعید سنائی گئی ہے ایک حدیث مبارکہ میں آپﷺ نے رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے حضرت عبداللہ بن عمروؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ)

 اسلام کی نظرمیں جس طرح رشوت لینے اوردینے والاملعون اوردوزخی ہے، اسی طرح اس معاملہ کی دلالی کرنے والابھی حدیث رسول کی روشنی میں ملعون ہے۔حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ’’ رسول اللہﷺ نے رشوت لینے اوردینے والے اوررشوت کی دلالی کرنے والے سب پرلعنت فرمائی ہے‘‘۔ (رواہ احمدو طبرانی)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ تویہاں تک فرماتے ہیں کہ قاضی کاکسی سے رشوت لے کر اس کے حق میں فیصلہ کرنا کفرکے برابر ہے، اور عام لوگوں کاایک دوسرے سے رشوت لینا ’’سْحت‘‘ یعنی حرام ناپاک کمائی ہے۔ (طبرانی) یہی وجہ ہے کہ پوری امت رشوت کے حرام ہونے پرمتفق ہے۔

رشوت خوری کا بنیادی سبب دنیاوی عیش و عشرت میں خوب سے خوب تر کی دوڑ ہے۔ ماضی میں نیک پرہیز گار صاحب کردار اور سچے مسلمان کو عزت دی جاتی تھی لیکن آج زمانہ بھی بدل گیا اور مغربی تہذیب نے ہمارا بیڑہ ہی غرق کر دیا۔آج کے زمانہ میں جو دھوکہ دے کر اور چالاکی سے غلط کام کر ڈالے اسے صحیح اور ہنر مند انسان سمجھا جاتا ہے، اس کے بر عکس اگر کوئی امانت داری اور سچ کے ساتھ کام لیتا ہے تو اسے اللہ لوگ کہ کر بات ختم کر دیتے ہیں اسے کسی خاطر خواہ میں لاتے ہی نہیںہیں۔ ہمارا معاشرہ ایسی راہ پہ چل نکلا ہے کہ ہر شعبے کے اندر چاہے وہ پرائیویٹ ہو یا سرکاری رشوت لینا معمول بن چکا ہے۔ کئی ادارے تو ایسے ہیں کہ وہ اسے اپنی حلال کمائی سمجھتے ہیںاور اپنا حق سمجھتے ہیں۔

 رشوت سمجھتے ہی نہیں اور یہ محض رشوت لینے سے بھی بڑا جرم شمار ہوتا ہے۔ رشوت معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی ہے اور انصاف اور عدل کا خاتمہ کرتی ہے۔ عدل کا مفہوم یہ ہے کہ جو چیز یا جگہ جس کے لائق ہو اسی کو دی جائے،جس کا مفہوم سمجھنے کیلئے ہم انگریزی میں لفظ ’’میرٹ‘‘ (Merit) کا استعمال کرتے ہیں، عدل کے برعکس جس لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے اسے ظلم کہتے ہیں۔ ظلم کی تعریف یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو ایسی چیز دے دینا جس کا وہ حق دار نہ ہو، رشوت سے ظلم کی ابتدا ہوتی ہے،حق دار کا حق مارا جاتا ہے، ناانصافی کو فروغ ملتا ہے، جس کا حق مارا جاتا ہے وہ مایوس ہوتا ہے جس کی وجہ سے مایوسی آہستہ آہستہ فروغ پاتی ہے اور کچھ کر گزرنے کا عزم نوجوانوں میں ختم ہو جاتا ہے اقرباء پروری کا رجحان بڑھتا ہے، جس سے نااہل لوگ فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں جو کہ ریاست کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے، قانون اور آئین کی دھجیاں بکھرتی ہیں اور معاشرے کا انصاف اور عدل سے اعتماد  اٹھ جاتا ہے، غریب مزید پامال ہو جاتے ہیں، امیر من مانیاں کرتے ہیں۔ عوام محنت اور میرٹ کی بجائے شارٹ کٹ پر اعتماد کرنا شروع کر دیتی ہے۔ احساسِ مروّت ختم ہو جاتا ہے اور دولت کی ہوس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ 

 پاکستان میں اس متعدی مرض کے خاتمے اور سدباب کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ہر ایک کو سوچنا چاہیے کہ کیوں ہم اپنے ہی گھر کو اکھاڑنے پچھاڑنے اور اس کو تباہ و برباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں تو اس کی بہتری اور بھلائی کی فکر ہمیشہ ہونی چاہیے تھی، کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد نے اس کے حصول کیلئے اپنے گھر بار اور پیاروں کو چھوڑنے کے علاوہ اپنی جانوں کا نذرانہ تک پیش کیا تھا۔ خود غرضی چھوڑیے، حب الوطنی کا مظاہرہ کیجیے، تاکہ دونوں جہانوں میں آپ کامیاب و کامران ہوں۔ رشوت ستانی کے قلع قمع اور اس کی بیخ کنی میں حکومت وقت کا ساتھ دیں۔ساتھ ساتھ علمائے کرام جمعہ کے اجتماعات میں اس ناسور کے نقصانات سے عوام کو روشناس کروائیں ، اساتذہ بچوں کو سکولوں میں رشوت نہ دینے اور نہ لینے کی ترغیب دلائیں ،معاشرے سے رشوت کا خاتمہ شاید ممکن ہو سکے- دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے کر امن کا گہوارہ بنائے اور رشوت ستانی سے پاک کر دے۔ آمین

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

فانی بد ایوانی انسانی احساسات کے حقیقی آئینہ دار

ہماری المیہ شاعری کی کہانی میر کی پُر درد زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ غم نصیب شاعر ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوتا ہے جہاں اس کو غم عشق کے ساتھ غم روزگار سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔

سوء ادب

وصیتایک شخص نے مرتے وقت اپنی بیوی سے کہا کہ میری موت کے بعد میری ساری دولت میرے ساتھ دفن کر دی جائے۔ اس وقت اس کی بیوی کی ایک سہیلی بھی پاس بیٹھی ہوئی تھی جس نے اس شخص کے مرنے کے بعد پوچھا کہ کیا اس نے اپنے شوہر کی وصیت پر عمل کیا ہے۔ جس پر وہ بولی کہ میں نے اس کی ساری دولت کا حساب لگا کر اتنی ہی مالیت کا ایک چیک لکھ کر اس کے سرہانے رکھ دیا تھا تاکہ وہ جب چاہے کیش کرا لے۔

پی ایس ایل 10:بگل بج گیا،ٹرافی کی جنگ چھڑگئی

پاکستان سپرلیگ کے دسویں ایڈیشن (پی ایس ایل10)کا بگل بج گیا، ٹرافی حاصل کرنے کی جنگ چھڑ گئی، 6ٹیموں میں سے اس بار ٹرافی کون جیتے گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ’’پاکستان سپر لیگ 10‘‘ کا ابھی آغاز ہے اور انتہائی دلچسپ میچز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

نورزمان:سکواش کے افق کا چمکتا ستارہ

پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ میں سکواش ہمیشہ سے ایک روشن باب رہا ہے، لیکن ایک طویل عرصے کے زوال کے بعد پاکستان کی انڈر 23 سکواش ٹیم کا ورلڈ چیمپئن بننا ایک نئی صبح کی نوید بن کر آیا ہے۔

حنان کی عیدی

حنان8سال کا بہت ہی پیارا اورسمجھداربچہ ہے۔اس کے پاپا جدہ میں رہتے ہیںجبکہ وہ ماما کے ساتھ اپنی نانو کے گھر میں رہتا ہے۔

چوہے کی آخری دعوت

بھوک سے اس کا بُراحال تھا۔رات کے ساتھ ساتھ باہر ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی، اس لیے وہ کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں تھا۔اسے ڈر تھا کہ اگر چھپنے کیلئے کوئی جگہ نہ ملی تو وہ مارا جائے گا۔وہ کونوں کھدروں میں چھپتا چھپاتا کوئی محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جوں ہی ایک گلی کا موڑ مڑ کر وہ کھلی سڑک پر آیا،اسے ایک دیوار میں سوراخ نظر آیا۔وہ اس سوراخ سے اندر داخل ہو گیا۔