آنس معین زندگی کی حقیقتوں کا استعارہ

تحریر : سعید واثق


آنس معین اپنی آواز کی انفرادیت، لہجے کی شگفتگی، طرز ادا کی سبک روی اور عصری حسیت کی کامیاب پیش کش کی وجہ سے نئی اردو غزل کا معتبر نام ہے۔آنس معین کا تعلق شہری نظام اور مشینی تہذیب سے تھا، جس میں آج کا معاشرہ Mobilityکے نقطہ عروج پر پہنچا ہوا ہے۔

 فاشزم، فرقہ پرستی، رجعت پسندی، مذہبیت، توسیع پسندی اور استحصال پسندی کی غیر مرئی دودھاری تلواریں انہوں نے لٹکتی دیکھیں۔ اس ناگفتہ بہ صورتحال کی کوکھ سے آتشیں حقیقتوں کو جنم لیتے ہوئے دیکھ کر آنس معین جیسے حساس شاعر کا متاثر ہونا فطری تھا۔ انہوں نے غورو فکر اور مطالعہ و مشاہدہ کے ذریعہ شے کے دل و وجود تک اتر کرادراک حاصل کرنے کی صلاحیت کی بناء پر اپنی ’’بات‘‘ اور اپنی ’’نظر‘‘ کاغذی زمین پر رکھی جن میں صدرخی ذمہ داریاں ہیں اور برتنے منوانے کے نکتے ہیں۔آنس معین نے اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی بدنظمی، بدعنوانی، انتشار اور پراگندگی کو دیکھا اور پھر شدت کے ساتھ اپنی غزلوں میں جذب کیا۔

حیرت سے جویوں میری طرف دیکھ رہے ہو

لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا

آنس معین کی پیدائش 29  نومبر 1960ء کو لاہور میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام سید فخرالدین تھا جو خود ایک شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔آنس نے اپنے شعری سفر کا آغاز  1977ء میں کیا اور محض 9 سالوں میں سیکڑوں غزلیں اور نظمیں تخلیق کیں۔ انہوں نے کبھی اپنے کلام کو دیوان کی شکل میں شائع کروانے پر توجہ نہیں دی اور مشاعروں میں بھی جانے سے گریز کرتے تھے۔ آنس معین نے محض 26 برس کی عمر میں 5 فروری1986 ء کو ملتان میں ٹرین کے آگے لیٹ کر خودکشی کر لی۔ انھیں بہاول پور کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

 جواں سال آنس معین کی وفات شکیب جلالی سے کافی حد تک مشابہ ہے۔دونوں نے آتش فشاں اپنے اندر جلا رکھا تھا وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ آتش فشاں انہیں لمحہ لمحہ بھسم کر رہا ہے اور ان کے گردو پیش میں جو دنیا پھیلی ہوئی تھی، وہ ان کے حوصلے، ظرف اور معیار کے مطابق نہیں تھی۔ دونوں نے ایک جیسے حالات میں اندر کے آتش فشاں میں چھلانگ لگا دی تاہم لوگوں کی نظر میں اسے خود کشی ہی کہا جائیگا۔

آنس معین کی غزل اس کی زندگی کا استعارہ ہے۔ اس نے مصرعے موزوں نہیں کئے بلکہ اس طوفان کی اطلاع دی ہے جو گردو پیش میں واقعات کی صورت اس کے دل پر یلغار کر رہا تھا۔ وہ تضادات کی زد پر تھا اور اس نے قدروں کی شکست وریخت کا منظر دیکھا اور مصلحت کے معیاروں میں تبدیلی کے واقعات مشاہدہ کئے تھے۔ یہ خوفزدہ انسان جس کا چہرہ بھی سہما سہما نظر آتا ہے خود آنس معین ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے اندر کی آواز بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔یہی وہ خوف تھا جو باہر سے آکر آنس معین کے دل میں مستقل طور پر مکیں ہو گیا اور اپنے خونیں پنجے نکال کر آنس کی رگ جان پر مسلسل کمچوکے لگا تا رہا۔ نئے اندیشوں کی افزائش کرتا رہا۔ آنس معین ظاہر مدافعت کر تا رہا لیکن ایسے ہی جیسے کچا مکان بارش کے سامنے مدافعت کرتا ہے یا شبنم کی بوند سورج کی پہلی کرن سے نبرد آزما ہوتی ہے۔ آنس کی خوبی یہ تھی کہ وہ خوف کی ہر لرزش کو شعر کا پیکر عطا کردیتا اور ہر خدشے پر مہر تصدیق ثبت کر دیتا ۔

 بقول ڈاکٹر انور سدید ’’میرا خیال ہے کہ باہر کے اس خوف نے ہی آنس کو اپنے اندر کی دنیا میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ چنانچہ کبھی وہ باہر کی کھڑکی کو بند دیکھتا ۔ کبھی اپنی پلکوں کی اوٹ میں چھپ جاتا اور کبھی چپکے چوری اس دنیا سے ہی نکل جانے کی آرزو کرتا ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنس نے اندر کی دنیا میں چلے جانے کے بعد باہر کی دنیا کی ویرانی کا منظر بھی دیکھ لیا تھا چنانچہ اس کی غزل میں ایسے اشعار جا بجا ملتے ہیں جن میں وہ اندر کی دنیا سے باہر کی دنیا کو صدا دے رہا ہے اور ہمیں اس تجربے سے آشنا کر ایا جو اس نے وجود سے عدم میں اس دنیا سے اس دنیا میں چھلانگ لگا کر کیا‘‘ ۔

پروفیسر سجاد مرزا کا کہنا ہے کہ آنس معین کے تخلیقی تجربات اس کی انفرادیت اور غیر معمولی شعری صلاحیتوں کے غماز ہیں۔ اس کی شاعری میں متصوفانہ اور فلسفیانہ نکات کا سراغ تلاش کرنا اس کی تضحیک کے مترادف ہے۔ آنس معین کو رومی، سقراط، ارسطو، کیٹس، شکیب جلالی اور مصطفی زیدی وغیرہ سے مماثلث و مشابہت دینا، اس کے خیالات ، افکار اور سوچوں کا موازنہ مذکورہ افراد سے کرناشاید درست نہ ہو۔

آنس معین کی خود کشی کی وجوہات پر دھند چھائی ہوئی ہے۔ وہ معاشی طور پر آسودہ حال تھا ایک بنک آفیسر کی حیثیت سے سماج میں اس کی اہمیت تھی۔ اس کا رہن سہن صاف ستھرا تھا۔ عام زندگی میں وہ لوگوں سے خوش خلقی سے ملتا تھا۔ جو سہولتیں کسی شخص کو زندگی میں چاہیں وہ اسے حاصل تھیں۔ پھر کیا وجہ بنی کہ وہ اپنی زندگی کا آپ ہی دشمن بن گیا۔ اس کے ساتھ کون سی ایسی ناانصافی ہوئی تھی کہ جاں سے گزر گیا یا اس سے کسی کی حق تلفی ہوئی تھی! وہ کسی کا حق دلوانے میں ناکام رہا؟ ذہن میں کئی گرہیں ہیں جو آج تک کھل نہیں پا ئیں۔ 

 آنس معین کی لفظیات، اس کے شعری تلازمات، اس کی تراکیب اور خوبصورت بندشیں، اس کے شعر کو زندہ رکھنے کی ضمانت ہیں۔ اس کے لہجے کی گمبھیرتا، دھیرے دھیرے سلگنے کا عمل اور اس کا پیرایۂ اظہار اس کی شاعری میں شناخت ہے۔آنس معین کے اشعار پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ان کا خالق جذبے کی تمازت اور چونکا دینے کے ہنر سے آشنا تھا۔ اگرچہ اس کے اندازِ شعر گوئی میں بلند آہنگی مفقود ہے تاہم رچائو کے ساتھ اثر پذیری سے انکار ممکن نہیں۔اس کے لئے ایسے شعر بھی ہیں جنہیں سن کر انسان کی روح تڑپ تڑپ جا رہی ہے۔ اس کے تبسم کا بوجھ کسی اور نے اٹھایا یا نہیں مگر وہ ادب کی دنیا کو اداس لمحوں کے سپرد کرکے حصار جسم کو توڑ کر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے۔

آنس معین کی غزل میں الفاظ نے اپنا پرانا ملبوس اتار کر نئے مفاہیم کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ اس کے ہاں ایسے لفظوں کی کمی نہیں جو کہنہ سالی کی دبیز گرد کی تہہ میں اپنا چہرہ چھپائے ہوئے ہیں مگر اپنے نئے پن کا بھی احساس دلا رہے ہیں۔ ان الفاظ میں اس نے معانی کی نئی روح پھونکی ہے۔سمندر، جزیرہ، سفر، سورج، اندھیرا، سناٹا، آشیاں، بارش، بستی، قامت، دیا، پیڑ، پتے، ہوا، پانی، سیلاب، پیاس، پیاسا، عدالت، ہاتھ دستانے وغیرہ۔

آنس معین کی وفات کے بعد والدین کے نام ان کی جیب سے جو خط برآمد ہوا اس میں تحریر تھا: ’’میری اس حرکت کی سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہیں کہ میں زندگی کی یکسانیت سے اکتا گیا ہوں۔ کتاب زیست کا جو صفحہ الٹتا ہوں اس پر وہی تحریر نظر آتی ہے جو پچھلے صفحہ پر پڑھ چکا ہوتا ہوں۔ اسی لئے میں نے ڈھیر سارے اوراق چھوڑ کر وہ تحریر پڑھنے کا فیصلہ کیا ہے جو آخری صفحے پر لکھی ہوئی ہے‘‘۔

اس خود کشی پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا نے کرب کی نوعیت، اور کیفیت کی صحیح عکاسی کی ہے کہ ’’ اپنی ذات کی‘‘ بیکرانی کے روبرو آ کھڑے ہونا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ ایک عام شخص کی نظریں سدا باہر کی دنیا پر مرکوز رہتی ہیں اور باہر کی بو قلمونی اور نیرنگی میں پوری طرح جذب ہو چکی ہوتی ہیں۔ اگر ایسا شخص کسی تابناک لمحے میں باہر سے منقطع ہو کر ’’ اندر‘‘ کے اس جہان ہوش ربا کو دیکھنے لگے جو تغیرات سے ماورا، بے نام اور بے چہرہ ہے تو اس کے نتیجے میں یا تو وہ ایک انوکھے روحانی تجربے سے فیضیاب ہوتا ہے یا پھر ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ آنس معین کے ہاں یہی حادثہ ہوا کہ اس کی نظروں نے قبل از وقت ہی اپنی سمت تبدیل کر لی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنی ذات کی بیکرائی کے روبرو سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔ آنس معین کی خود کشی تو اس موم بتی کی موت سے مشابہہ تھی جو اپنی ہی آگ میں ہولے ہولے پگھل کر ختم ہو جاتی ہے۔

منتخب اشعار 

گئے زمانے کی چاپ بن کر سمجھ رہے ہو

وہ آنے والے اداس لمحوں کی سسکیاں ہیں

…………

نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی

بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا

…………

اس بند گھر میں کیسے کہوں کیا طلسم ہے؟

کھولے تھے جتنے قفل وہ ہونٹوں پہ پڑ گئے

…………

ہے کون کہ جو خود کو ہی جاتا ہوا دیکھے

سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو کیسے دیں

…………

میں سوچتا رہا کل رات بیٹھ کر تنہا

کہ اس ہجوم میں میرا شمار کم ہوگا

…………

عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے

مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے

…………

کیا خبر ایک دوسرا آنس

ذات کے احتساب سے نکلے

…………

کیا عدالت کو یہ باور میں کرا پائوں گا

ہاتھ تھا اور کسی کا مرے دستانے میں

…………

مجھ سے پوچھو پیڑ سے پتے کس نے چھینے

میں نے ہوا کے قدموں کی آواز سنی ہے

…………

میں بارش کی دعائیں کیسے مانگوں

مری بستی میں کچے گھر بہت ہیں

 

غزل

اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں

مقتل میں ہیں جینے کی دعا دیں تو کسے دیں

پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے

اس شہر خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں

ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے

سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو کسے دیں

سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ

اور پاس ہے بس ایک ردا دیں تو کسے دیں

جب ہاتھ ہی کٹ جائیں تو تھامے گا بھلا کون

یہ سوچ رہے ہیں کہ عصا دیں تو کسے دیں

بازار میں خوشبو کے خریدار کہاں ہیں

یہ پھول ہیں بے رنگ بتا دیں تو کسے دیں

چپ رہنے کی ہر شخص قسم کھائے ہوئے ہے

ہم زہر بھرا جام بھلا دیں تو کسے دیں

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

فانی بد ایوانی انسانی احساسات کے حقیقی آئینہ دار

ہماری المیہ شاعری کی کہانی میر کی پُر درد زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ غم نصیب شاعر ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوتا ہے جہاں اس کو غم عشق کے ساتھ غم روزگار سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔

سوء ادب

وصیتایک شخص نے مرتے وقت اپنی بیوی سے کہا کہ میری موت کے بعد میری ساری دولت میرے ساتھ دفن کر دی جائے۔ اس وقت اس کی بیوی کی ایک سہیلی بھی پاس بیٹھی ہوئی تھی جس نے اس شخص کے مرنے کے بعد پوچھا کہ کیا اس نے اپنے شوہر کی وصیت پر عمل کیا ہے۔ جس پر وہ بولی کہ میں نے اس کی ساری دولت کا حساب لگا کر اتنی ہی مالیت کا ایک چیک لکھ کر اس کے سرہانے رکھ دیا تھا تاکہ وہ جب چاہے کیش کرا لے۔

پی ایس ایل 10:بگل بج گیا،ٹرافی کی جنگ چھڑگئی

پاکستان سپرلیگ کے دسویں ایڈیشن (پی ایس ایل10)کا بگل بج گیا، ٹرافی حاصل کرنے کی جنگ چھڑ گئی، 6ٹیموں میں سے اس بار ٹرافی کون جیتے گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ’’پاکستان سپر لیگ 10‘‘ کا ابھی آغاز ہے اور انتہائی دلچسپ میچز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

نورزمان:سکواش کے افق کا چمکتا ستارہ

پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ میں سکواش ہمیشہ سے ایک روشن باب رہا ہے، لیکن ایک طویل عرصے کے زوال کے بعد پاکستان کی انڈر 23 سکواش ٹیم کا ورلڈ چیمپئن بننا ایک نئی صبح کی نوید بن کر آیا ہے۔

حنان کی عیدی

حنان8سال کا بہت ہی پیارا اورسمجھداربچہ ہے۔اس کے پاپا جدہ میں رہتے ہیںجبکہ وہ ماما کے ساتھ اپنی نانو کے گھر میں رہتا ہے۔

چوہے کی آخری دعوت

بھوک سے اس کا بُراحال تھا۔رات کے ساتھ ساتھ باہر ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی، اس لیے وہ کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں تھا۔اسے ڈر تھا کہ اگر چھپنے کیلئے کوئی جگہ نہ ملی تو وہ مارا جائے گا۔وہ کونوں کھدروں میں چھپتا چھپاتا کوئی محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جوں ہی ایک گلی کا موڑ مڑ کر وہ کھلی سڑک پر آیا،اسے ایک دیوار میں سوراخ نظر آیا۔وہ اس سوراخ سے اندر داخل ہو گیا۔