چوہے کی آخری دعوت

بھوک سے اس کا بُراحال تھا۔رات کے ساتھ ساتھ باہر ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی، اس لیے وہ کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں تھا۔اسے ڈر تھا کہ اگر چھپنے کیلئے کوئی جگہ نہ ملی تو وہ مارا جائے گا۔وہ کونوں کھدروں میں چھپتا چھپاتا کوئی محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جوں ہی ایک گلی کا موڑ مڑ کر وہ کھلی سڑک پر آیا،اسے ایک دیوار میں سوراخ نظر آیا۔وہ اس سوراخ سے اندر داخل ہو گیا۔
جب اس کی آنکھیں اندھیرے میںدیکھنے کے قابل ہوئیں تووہ حیرت اور خوشی سے اچھل پڑا۔ا س کے سامنے رنگوں اور خوشبوئوں کی انوکھی دنیا آباد تھی۔جہاں ہر طرف کھانے کی مزے مزے کی چیزیں سجی ہوئی تھیں۔ ایک طرف کیک، پیسٹریاں،بسکٹ اور کریم رول اپنی بہار دکھا رہے تھے تو دوسری طرف لذیذ مٹھائیاں اسے للچا رہی تھیں۔ایک طرف کاغذ کے دودھ والے ڈبے رکھے تھے تو دوسرے کونے میں ٹافیوں اور چاکلیٹوں کی رنگ بھری دنیا اسے کھانے کی دعوت دے رہی تھی۔
پہلے تو اسے اپنی آنکھوں پریقین ہی نہ آیا۔اس نے پلکیں جھپک جھپک کر دیکھا کہ کہیں یہ خواب تو نہیں ہے۔وہ بے تابی سے آگے بڑھا ،چیزیں اتنی تھیں کہ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی پہلے کون سی چیز کھائے۔وہ ایک چیز تھوڑی سی چکھتا اور پھردوسری طرف لپکتا۔ابھی دوسری چیز کھا ہی رہا ہوتا کہ تیسری کی کشش اسے اپنی طرف کھینچنے لگتی۔
کھاتے کھاتے اسے پیاس لگی تو دودھ کے ڈبوں کی طرف لپکا۔ایک ڈبے میں سوراخ کر کے جی بھر کے دودھ پیا، پھر مٹھائیوں پر ہلہ بول دیا۔گلاب جامن، برفی، بالوشاہی، قلاقند،لڈو، چم چم ،رس گلے کے ڈھیر لگے تھے۔ وہ کھا رہا تھا اور خوشی سے ناچ رہا تھا۔اس نے اتنا کھایا کہ پیٹ بھر گیا۔
اب وہ اپنے بوجھل پیٹ کے ساتھ آہستہ آہستہ چیزوں کی طرف بڑھتا،انہیں تھوڑا سا چکھتا اور دوسری چیز کی طرف بڑھ جاتا۔کھاتے کھاتے نہ جانے کتنا وقت گزرگیا اور اس پر سستی طاری ہونے لگی۔اس نے سوچا کہ اب یہاں سے چلے جانا چاہیے،مگر اس مزیدار میٹھی دنیا کے آخری کونے سے اٹھتی مسحور کن مہک نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔
یہ سوندھی سوندھی خوشبو، سب خوشبوئوں سے انوکھی تھی۔اس کی تیز نظروں نے وہ جگہ بھی دیکھ لی جہاں سے خوشبو آ رہی تھی۔یہ گھی میں تلی سرخ سرخ روٹی کا بڑا ساٹکڑا تھا،جو لوہے کی عجیب سی چیز کے ساتھ پڑا تھا۔اگرچہ اس کا معدہ گلے تک بھر چکا تھامگر ڈھیر ساری میٹھی چیزیں کھانے کے بعد مزیدار روٹی کا ذائقہ چکھنے سے وہ خود کو نہ روک سکا۔جیسے ہی روٹی کے ٹکڑے کو کھانے کیلئے وہ آگے بڑھا ایک پر اسرار سی چیز تیزی سے اس کے سر کی طرف آئی۔اس نے خود کو اس کی زد سے بچانا چاہا،مگر بھرے پیٹ اور غنودگی کی وجہ سے وہ پیچھے نہ ہٹ سکا اور ایک خوفناک آواز کے ساتھ پلک جھپکتے ہی اس کی گردن ایک آہنی شکنجے میں جکڑ گئی۔
اس کی آنکھوںمیں حیرت اور چہرے پر ایک تاثر پچھتاوے کا بھی تھا کہ اے کاش میں اتنا لا لچ نہ کرتا ،پھر اس کا دم گھٹتا چلا گیا۔دوسری صبح بیکری کے مالک نے اپنی دکان کا شٹر اٹھایا تو ایک کونے میں لوہے کے شکنجے میں پھنسے چوہے کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔اس نے آگے بڑھ کر مردہ چوہے کو اٹھا کر کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیاجو اپنے لالچ کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔