حنان کی عیدی

تحریر : طوبی سعید


حنان8سال کا بہت ہی پیارا اورسمجھداربچہ ہے۔اس کے پاپا جدہ میں رہتے ہیںجبکہ وہ ماما کے ساتھ اپنی نانو کے گھر میں رہتا ہے۔

رمضان کا مہینہ شروع ہوا تو سکول ٹائمنگ کم ہونے کی وجہ سے حنان جلدی گھر آجاتا اور دو سے پانچ بجے تک اس کے ٹیوشن کا ٹائم ہوتا۔ ایسے میں اس نے تمام روزے رکھے اورنمازیں پڑھیں۔ رمضان کا آخری عشرہ جاری تھا، ایک روز اس کی ماما نے اسے ٹیوشن کیلئے اٹھاتے ہوئے کہا ’’اٹھو بیٹا، دیر ہوجائے گی آپ کو‘‘،حنان فوراً اچھے بچوں کی طرح اٹھا،وضو کیا اورنماز پڑھی۔نماز کی ادائیگی کے بعد اپنی نانو کے پاس گیااور کہا ’’نانو! نانو! میں ٹیوشن جا رہا ہوں۔ جب واپس آئوں گا تو مل بیٹھ کر روزہ افطار کریں گے اور شام میں عید کی شاپنگ کیلئے بازار جائیں گے۔ 

حنان نانی سے پیار و دعائیں لینے کے بعد ٹیوشن کیلئے نکلا، تو اس کی ماما نے کہا ’’بیٹا میں نے آپ کی ٹیوشن ٹیچر کو فون کردیا ہے، جیسے ہی آپ پہنچو گے تو وہ مجھے فون پہ اطلاع کردیں گی۔ آپ نے دھیان سے جانا ہے۔حنان کا ٹیوشن سنٹر گھر سے پندرہ منٹ کی دوری پہ تھااور وہ اکیلا پیدل جاتا تھا، اس لیے اس کی ماما اور ٹیچراس کے جانے اور آنے کے درمیان مکمل رابطہ میں رہتیں۔ 

حنان سکول بیگ لٹکائے مزے سے باہر رمضان کے اختتام اور عید کی تیاریوں کے باعث گلی ،سڑکوں اور بازاروں میں ہونے والی رونقیں دیکھتے اپنے ٹیوشن سنٹر کی جانب رواں دواں تھا کہ راستے میںاسے ایک تقریباً تین سالہ بچی اکیلی روتی ہوئی نظر آئی۔ 

حنان اس بچی کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا ’’آپ نے کہاں جانا ہے؟ ‘‘۔بچی حنان کو دیکھ کر چپ کر گئی اور کہنے لگی ’’مجھے اپنے گھر ماما کے پاس جانا ہے‘‘۔ 

حنان سمجھ گیا کہ یہ غلطی سے گھر سے نکلی ہو گی۔ حنان نے پوچھا! ’’آپ کا گھر کدھر ہے‘‘ اور’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘۔بچی بولی ’’ میرا نام عنایہ ہے اور میںاپنے گھر کا راستہ بھول گئی ہوں‘‘۔روزہ رکھے حنان ننھی عنایہ کو کبھی گود میں اٹھائے اور کبھی ہاتھ پکڑے یہاں وہاں پھرتا رہا۔ ادھر حنان کی ٹیوشن ٹیچر نے اس کی ماما کو فون کر کے بتایا کہ حنان ابھی تک نہیں آیا تو وہ پریشان ہو گئیں۔اب وہ بھی حنان کو ڈھونڈنے گھرسے نکلیں۔

دوسری طرف حنان عنایہ کو لے کرپاس کی  مسجدمیں چلا گیااور امام صاحب سے اعلان کروایا۔ مسجد میں موجود ایک نمازی جن کا نام بابر تھانے عنایہ کی موبائل سے تصویر لی اور بابرجاکر ہر کسی سے اس کے بارے میں پوچھتے رہے۔

اسی دوران انھیں ایک گلی سے ایک عورت پریشانی کی حالت میں نکلتی ہوئی دکھائی دی۔ حنان، بابر انکل کے ساتھ عورت تک پہنچے اور حنان نے پوچھا ’’آنٹی! آپ کس کو ڈھونڈ رہی ہیں؟‘‘۔ ’’بیٹا میں اپنی بیٹی کو ڈھونڈ رہی ہوں۔وہ کھیلتے کھیلتے گلی سے باہر چلی گئی اور اب مل نہیں رہی۔

بابر صاحب بولے ’’بہن آپ کی بیٹی کا نام عنایہ ہے‘‘۔ ’’جی جی بھائی صاحب،عنایہ ہی ہے‘‘آنٹی نے کہا۔ حنان نے آنٹی یعنی عنایہ کی ماما کو تمام صورتحال سے باخبر کیا تو ان کی جان میں جان آئی۔ دونوںعنایہ کی ماما کو مسجد لے گئے۔ 

عنایہ اپنی ماما کو پہچان کر ان کے گلے لگ گئی۔ننھی عنایہ اور اس کی ماما نے حنان کا شکریہ ادا کیا۔عنایہ کی ماما نے ڈھیروں دعائیں دیں اور عیدی بطورِ انعام اسے پانچ سو روپے دیے۔ حنان کو اپنی اس نیکی پہ بے پناہ خوشی ہوئی۔ سب نے حنان کی اس کوشش کو سراہا۔ 

افطار کا وقت بالکل قریب تھااور حنان کا بھوک سے برا حال تھا۔ اسے گھر واپسی اور ٹیوشن نہ جا پانے کی بھی فکر لاحق تھی۔بابر انکل ، امام مسجد اور دیگر نمازیوں نے حنان کو مسجد میں روک لیا کہ پہلے روزہ افطار کر لو پھر ہم تمہیں چھوڑ آئیں گے۔ حنان نے سب نمازیوں کے درمیان بیٹھ کر روزہ افطار کیا اور پھر باجماعت نماز ادا کی۔ 

دوسری جانب اس کی ٹیچر نے دیگر شاگردوں  کو حنان کو ڈھونڈنے بھیجا۔ اس کے گھر میں اس کی ماما اور نانی کا رو رو کر برا حال تھا۔ سارا محلہ اکٹھا تھا۔ پولیس کو بھی اطلاع کرنے لگے۔ بیرون ملک مقیم حنان کے ابو بھی بے حد پریشان تھے اور مسلسل خبر گیری کرتے ہوئے پاکستان آنے کی تیاری کرنے لگے۔ 

 حنان نماز پڑھنے کے بعد بابر انکل کے ساتھ گھر آن پہنچا۔حنان کودیکھ کر اس کی امی،نانی اور ٹیوشن ٹیچر خوشی سے نہال ہوگئیں۔اس کی امی نے اس کے پورے جسم کو ہاتھ لگا کر دیکھا کہ یہ ٹھیک ہے؟۔ حنان بولا ’’میں ٹھیک ہوںماما‘‘۔

حنان کے ٹیوشن فیلوز نے بابر انکل سے پوچھا کہ ’’آپ کون ہیں؟ اور یہ آپ کو کہاں اور کیسے ملا‘‘ تو بابر انکل نے سب لوگوں کے درمیان حنان کی ہمت اور کاوش کو سراہتے ہوئے بتایا کہ ’’کیسے اس نے روزہ رکھ کر ننھی بچی عنایہ کو مسجد اور اس کے بعد اس کی ماں تک پہنچایا۔سب نے حنان کی احساس مندی کو سراہا۔ سب کی آنکھوں میں فرطِ جذبات سے آنسوآگئے۔اس کے پاپا کو اس کی خیریت کی اطلاع دی گئی اور پھر انھوں نے حنان سے فون پہ بات کی اور اسے اس کی بہادری پر عیدی میں ایک بہترین تحفہ بھجوانے کا وعدہ کیا۔ 

حنان یہ سن کربے حد خوش ہوا۔ سب نے بابر انکل کا بھی شکریہ ادا کیا کہ وہ خیریت سے حنان کو گھر لے کر آئے۔اس کی امی نے حنان کو آئندہ احتیاط برتنے کا بھی کہا کہ ’’ایسے اکثر بچے اغوا بھی ہو جاتے ہیں‘‘۔ 

دو روز بعد عید کے موقع پہ سب نے حنان کی اس نیکی پہ اس کو بہت سی عیدیاں دیں۔ مگر سب سے زیادہ بہترین عیدی جس کو پاکر حنان بے حد خوش ہوا ،وہ اس کے پاپا کی طرف سے بھجوائی جانے والی سائیکل تھی ۔ اب حنان اپنی سائیکل پر روزانہ سکول اور ٹیوشن جاتا ہے اور سب کی مدد بھی کرتا ہے۔

 

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

فانی بد ایوانی انسانی احساسات کے حقیقی آئینہ دار

ہماری المیہ شاعری کی کہانی میر کی پُر درد زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ غم نصیب شاعر ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوتا ہے جہاں اس کو غم عشق کے ساتھ غم روزگار سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔

سوء ادب

وصیتایک شخص نے مرتے وقت اپنی بیوی سے کہا کہ میری موت کے بعد میری ساری دولت میرے ساتھ دفن کر دی جائے۔ اس وقت اس کی بیوی کی ایک سہیلی بھی پاس بیٹھی ہوئی تھی جس نے اس شخص کے مرنے کے بعد پوچھا کہ کیا اس نے اپنے شوہر کی وصیت پر عمل کیا ہے۔ جس پر وہ بولی کہ میں نے اس کی ساری دولت کا حساب لگا کر اتنی ہی مالیت کا ایک چیک لکھ کر اس کے سرہانے رکھ دیا تھا تاکہ وہ جب چاہے کیش کرا لے۔

پی ایس ایل 10:بگل بج گیا،ٹرافی کی جنگ چھڑگئی

پاکستان سپرلیگ کے دسویں ایڈیشن (پی ایس ایل10)کا بگل بج گیا، ٹرافی حاصل کرنے کی جنگ چھڑ گئی، 6ٹیموں میں سے اس بار ٹرافی کون جیتے گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ’’پاکستان سپر لیگ 10‘‘ کا ابھی آغاز ہے اور انتہائی دلچسپ میچز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

نورزمان:سکواش کے افق کا چمکتا ستارہ

پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ میں سکواش ہمیشہ سے ایک روشن باب رہا ہے، لیکن ایک طویل عرصے کے زوال کے بعد پاکستان کی انڈر 23 سکواش ٹیم کا ورلڈ چیمپئن بننا ایک نئی صبح کی نوید بن کر آیا ہے۔

چوہے کی آخری دعوت

بھوک سے اس کا بُراحال تھا۔رات کے ساتھ ساتھ باہر ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی، اس لیے وہ کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں تھا۔اسے ڈر تھا کہ اگر چھپنے کیلئے کوئی جگہ نہ ملی تو وہ مارا جائے گا۔وہ کونوں کھدروں میں چھپتا چھپاتا کوئی محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جوں ہی ایک گلی کا موڑ مڑ کر وہ کھلی سڑک پر آیا،اسے ایک دیوار میں سوراخ نظر آیا۔وہ اس سوراخ سے اندر داخل ہو گیا۔

ذرامسکرائیے

باپ نے بیٹے سے کہا : ’’دیکھو عمران آج جو مہمان ہمارے ہاں آنے والا ہے، اس کی ناک کے متعلق کوئی سوال نہ کرنا‘‘۔