سندھ کے آبی خدشات، پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہے؟

ماضی میں ایسی کئی فلمیں بنائی گئی ہیں جن میں پانی کے لیے لڑائیاں دکھائی گئی ہیں۔ اُس وقت یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ پانی کیسے ختم ہوجائے گا ،لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے کارخانوں اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات نے انسانیت کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔
عالمی حدت میں اضافہ ہورہا ہے اور اس سے متاثر وہ ملک ہورہے ہیں جن کا موسمیاتی تبدیلی میں معمولی سا بھی حصہ نہیں۔ انہی ملکوں میں ایک پاکستان بھی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی وجہ سے پاکستان میں بارشوں میں 40فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کے بحران کا 100سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے، سکھر بیراج پر کبھی پانی کے ریلے خوف پیدا کردیتے تھے اور اب کوٹری بیراج پر اڑتی ریت نے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ مستقبل میں کیا ہوگا یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
حال ہی میں دریائے سندھ پر چھ نئی نہروں کے منصوبے نے وفاق اور صوبوں میں تنازع کھڑا کردیا ہے۔دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ نے ارسا کی تشکیل، تھل اور چولستان کینالز کی تعمیر کے لیے پانی کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ کے خلاف درخواست پر حکم امتناع جاری کر دیا ہے اور وفاقی حکومت سے 18اپریل تک جواب مانگا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ارسا نے 25جنوری کو چولستان اور تھل کینال کی تعمیر کے لیے پانی کی فراہمی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر اجتماع سے خطاب میں بلاول بھٹوزرداری نے واضح کہا کہ نئی نہریں عوام کو منظور نہیں اور وہ عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے ،وفاقی حکومت کے ساتھ نہیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے کہاجارہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے نہروں کی تعمیر کے منصوبے پر دستخط کیے ہیں جبکہ سندھ حکومت کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کو اس طرح کے دستخط کا اختیار ہی نہیں ہے۔ اس لیے یہ سراسر الزام اور پیپلز پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ بلاول بھٹو کے مطابق صدر زرداری نے سی ای سی اجلاس میں متنازع کینالز منصوبے کو مسترد کردیا تھا۔ انہوں نے وفاقی حکومت سے ترقیاتی منصوبوں میں مشاورت کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو بجٹ میں حکومت کو ووٹ نہیں دیا جائے گا۔ ساتھ ہی مثبت سیاست کی بات کی اور بولے کہ سیاست سے مسائل کا حل نکالنا ہے، ملک کو اس وقت دہشت گردوں کا سامنا ہے جو ملک توڑنا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ جان لیں کہ قومی پرچم اتارنے والے کو پہلے پیپلز پارٹی اور ان سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کالعدم تنظیموں کی طرف سے خواتین کو استعمال کرنے کی بھی مذمت کی اور کہا کہ بلوچ بہنوں کو خودکش بمبار بنایا گیا جو قابلِ افسوس ہے۔ انہوں نے بانی پی ٹی آئی کو بھی دہشت گردی کے خلاف ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سازش اور ہماری غلطیوں کی وجہ سے دہشت گردی عروج پر ہے۔ ادھرشہید مرتضیٰ بھٹو کے صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹوجونیئر نے بھی کارزارِ سیاست میں قدم رکھ دیا ہے۔ شہید بھٹو کی برسی پر انہوں نے ایک اجتماع سے بھی خطاب کیا۔ ایک اور جگہ پر گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ دریائے سندھ ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، سروں سے کفن باندھ لیا ہے، کینالز کسی صورت بننے نہیں دی جائیں گی۔جمعیت علمائے اسلام نے بھی نہری منصوبے کے خلاف ریلی نکالی اور دھرنا دیا۔ پارٹی کے صوبائی سیکرٹری جنرل راشد سومرو نے خطاب میں نہری منصوبے کو مسترد کردیا اور کہا کہ جے یو آئی چاروں صوبوں کے عوام کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے لیکن حکومت کے غلط فیصلوں نے ملک کو کمزور کردیا ہے۔ حکومت منصوبے سے دستبرداری کا اعلان کرے۔ صوبے میں دیگر تنظیموں کی طرف سے بھی احتجاجی ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔سندھ میں احتجاج اپنی جگہ لیکن نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے یقین دلایا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کسی دوسرے کو نہیں ملے گا۔ بقول اسحاق ڈار اندرون سندھ بعض لوگوں کا ایجنڈا کچھ اور ہے، اُن کی سیاست ختم ہورہی ہے اسی لیے وہ پانی کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالنے کی اپیل کی۔ادھرگورنر سندھ کامران ٹیسوری اور مرتضیٰ وہاب کی لفظی جنگ کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ گورنر سندھ نے وزیراعظم کو کراچی کے لیے 100ارب روپے کی فراہمی کے لیے خط لکھ دیا ہے تاکہ شہر کے ڈھانچے کو بہتر بنایا جاسکے۔ البتہ گورنر نے میئر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ طعن و تشنیع کے بجائے شہر کی ترقی پر توجہ دیں۔ دوسری طرف میئر کراچی نے گورنر کے خط کو اپنی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ ان کی وجہ سے خط لکھا گیا ہے۔
انسانی برداشت میں کمی اور نام نہاد غیرت کے تحت ہونے والے اقدامات بھی معاشرتی زوال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ چند روز قبل قمبرعلی خان میں ایک پولیس اہلکار نے ایک پرائمری سکول ٹیچر کو صرف اس بنیاد پر گولیاں برسا کر قتل کردیا کہ اُس نے شادی سے انکار کیا۔ عدم برداشت کا دوسرا واقعہ کراچی میں پیش آیا جہاں ایک خاتون نے اپنی گاڑی اور ٹریلر میں ٹکر کے بعد ہوائی فائرنگ کرڈالی اور ٹریلر ڈرائیور ڈر کے مارے پولیس اہلکاروں کے پیچھے جا چھپا۔ اگر کوئی شادی سے انکار کردے یا کوئی حادثہ ہوجائے تو معاملات کو بہتر طریقے سے حل کرنے کے کئی راستے موجود ہیں۔ البتہ شہر کراچی میں ہیوی ٹریفک سے حادثات اور اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس شہر میں کتنی ہیوی گاڑیاں موجود ہیں؟ کیا باہر یا شہر کی ہیوی گاڑیوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری ہوا یا ان کا باقاعدہ معائنہ ہوتا ہے؟ ہیوی ٹریفک کے کتنے لائسنس جاری ہوئے اور کیا وہ شہر میں موجود ہیوی ٹریفک کے مطابق ہیں؟ کیا صوبے سے باہر کے لائسنسوں کی تصدیق کی گئی؟ کیا ہمارا روڈ نیٹ ورک اتنا مضبوط یا پائیدار ہے کہ ہیوی ٹریفک کا لوڈ برداشت کرسکے؟اگر ہمیں حادثات یا اموات روکنی ہیں تو اس کے جواب ڈھونڈنے پڑیں گے۔