فانی بد ایوانی انسانی احساسات کے حقیقی آئینہ دار

ہماری المیہ شاعری کی کہانی میر کی پُر درد زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ غم نصیب شاعر ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوتا ہے جہاں اس کو غم عشق کے ساتھ غم روزگار سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔
کتاب الم کا دوسرا باب مغلیہ دور کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی زندگی سے شروع ہو کر دہلی کی تباہی پر منتہی ہونا ہے۔ اسی کہانی کی تیسری قسط فانی کی رودادغم ہے جن کا اصل نام محمد شوکت علی خان تھا۔ جوان کی ذات سے شروع ہو کر انہیں پرختم ہو جاتی ہے۔ ان تمام غم نصیب شاعروں میں دو شخصیتیں سب سے پیش پیش نظر آتی ہیں۔ میر اور فانی دونوں کا غم ذاتی ہے مگر ذاتی تجربات نے آفاقی رنگ اختیار کر لیا ہے یہ دونوں اپنے میں ڈوب کر کائنات پر چھا جاتے ہیں اور کہیں وجدان کی سرحدیں پارکرکے کائنات کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں۔ ان دونوں کا تصور غم اور فلسفہ زندگی اپنا ہے ،مستعار نہیں۔ غم کا کون سا پہلو ہے جس سے وہ نا آشنا ہوں اور اذیت کی کون سی سرحد ہے جس کو انہوں نے پار نہ کیا ہو۔
فانی 13ستمبر 1879ء کو بدایوںمیں پیدا ہوئے۔ شاہ عالم کے عہد میں ان کے مورث اعلیٰ اصالت خان کا بل سے آئے اور دربار دہلی سے وابستہ ہو گئے۔ مغلیہ سلطنت نے جو مردم شناسی اور قدر دانی میں امتیازی حیثیت کی مالک تھی۔ خطابات، جاگیر اور منصب سے اصالت خان اور ان کے بعد ان کی اولاد کو خوب نوازا۔ نواب بشارت خاں فانی کے پردادا بدایوں کے گورنر مقرر ہوئے۔ فانی کے سلف کی داستان خود فانی کی زبان سے سنئے: ’’میں 13ستمبر 1879ء کو دنیا میں لایا گیا۔ نسلاً پٹھان ہوں۔ اصلی وطن کابل ہے۔ اسی طرح کہ شاہ عالم بادشاہ دہلی کے زمانے میں میرے مورث اعلیٰ اصالت خان نامی ہندوستان آئے۔دربار دہلی نے انہیں اور ان کے جانشینوں کو بہت کچھ نوازا۔ ممتاز عہدوں پر فائز کئے جانے کے علاوہ جاگیرات، خطابات، منصب وغیرہ سے سرفراز کئے گئے‘‘۔
بقول ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی فانی نے جس فضا میں آنکھ کھولی وہ فراغت کی زندگی تھی۔ یہ ضرور ہے کہ پولیس کی ملازمت کی آمدنی اس جاگیر کے مقابلہ میں کچھ نہ تھی۔ جو وہ سو مواضعات پر مشتمل تھی تاہم ایک آسودہ زندگی بسر کرنے کیلئے کافی تھی۔1901ء میں انہوں نے بی اے اور 1908ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد لکھنو، آگرہ، بدایوں اور بریلی میں وکالت کی جس سے ان کو دلچسپی نہ تھی یہی سبب ہے کہ یہ پیشہ ساز گار نہ آیا۔آخر1939ء میں وہ ملازمت سے سبکدوش ہو گئے اس کے بعد وفات تک وہ مالی مصائب اور ذہنی الجھنوں میں گرفتار رہے۔
فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گوروکفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا
مصیبت بالائے مصیبت مہاراجہ سرکشن پرشاد جو فانی پر خاص کرم کرتے تھے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اب فانی کی زندگی ایک ایسے دور سے گزر رہی تھی جس میں ہر طرف مایوسی و ناکامی نظر آتی تھی۔ احباب نے کنارہ کشی اختیار کرلی۔فانی کی المیہ زندگی کا شباب قیام حیدر آباد سے متعلق تھا جب کہ وہ کسمپرسی کی منازل طے کر رہے تھے۔ آخر26ء اگست 1941ء کو انہوں نے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔
فانی کے ذہنی ارتقا کو سمجھنے کیلئے ان کی زندگی اور حالات کے مختلف گوشوں کو نمایاں کرنا ضروری ہے جن کے بغیر یہ تصور نامکمل رہے گی۔ ایک بڑے فن کار کی افتاد طبع اس کی زندگی اور آرٹ پر حاوی ہوتی ہے۔ ہر فرد کو خدا نے ایک مخصوص قسم کا مزاج عطا کیا ہے اور اسی انداز سے ہر محفل میں پہچانا جا سکتا ہے۔ کسی کا مزاج شعر و نغمہ کا خوگر ہے اور کوئی طبعاً سائنس اور فلسفہ کی طرف مائل ہے۔ اسی طرح کوئی شاعر اپنے ماحول میں نشاط و شاد مانی کے سامان دیکھتا ہے اس کے برخلاف دوسرے ایسے شعراء بھی تھے جن کو غم و الم سے سابقہ رہا مگر انہوں نے ہر غم کو قہقہوں میں اڑا دیا۔ زندگی دونوں کے یہاں موجود تھی مگر مزاجوں کے اختلاف نے زندگی کے رخ بدل دیئے۔
فانی ایک خوددار اور عالی ظرف انسان تھے اور اسی خودداری کے باعث وہ زندگی میں ترقی نہ کر سکے۔ انہوں نے دولت کو اس وقت ٹھکرا دیا جب ان کو اس کی سخت ضرورت تھی۔ ایک جگہ وہ خود کہتے ہیں ’’جو شعراء صحیح معنی میں شعرا تھے یا ہیں۔ وہ شعر کو اس کے صحیح درجہ سے گرانے کیلئے نہ کسی قیمت سے خریدے جا سکتے ہیں اور نہ کسی قوت سے مرعوب ہو سکتے ہیں وہ ہر مصیبت کو جو اس مسلک کی بدولت ان پر ٹوٹتی ہے خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے ہیں اور برداشت کرتے رہیں گے۔
وہ قدرت کی طرف سے ایک حساس دل لے کر آئے تھے اور اسی حساس دل نے ان کو المیہ شاعر بنا دیا کسی کا قول ہے ’’ احساس رکھنے والوں کیلئے زندگی ایک المیہ ہے‘‘ وہ اس المیہ زندگی کے اس قدر خوگر ہو گئے کہ حصول غم ہی ان کے واسطے، حصول عشرت تھا، جیسا کہ بتایا فانی نے کچھ عرصہ وکالت بھی کی مگر جس دنیا میں جھوٹ اور ریا کاری کی گرم بازاری ہو۔ جہاں انصاف کے نام پر انسانیت کا گلا کاٹا جاتا ہو جہاں مزدور اور کسان اپنے خون پسینے کی کہانی سرمایہ داروں کے آستانوں پر لٹا دیتے ہوں۔ اس سے فانی کی غیور اور حساس طبیعت کیوں کر میل کھا سکتی تھی۔ اس لئے وکالت اور فانی د و متضاد لفظ بن کر رہ گئے۔
فانی کی زندگی کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے وہ ان کی زندگی کا اہم جزو ان کی تواضح اور انکسار کو بتاتے ہیں۔ ان کے مزاج میں خاموشی کے ساتھ ایک خاص قسم کی سنجیدگی تھی جس سے ناواقف مرعوب ہو جاتا اور جس کو اجنبی تمکنت و غرور پر محمول کرتا۔ اسی کے ساتھ جب وہ مخصوص احباب سے ملتے تو یہ نہ پتہ چلتا کہ اس ہنسنے والے شخص کی زندگی کی داستان کتنی المناک ہے۔انہوں نے اپنی حالت کا ذکر کبھی احباب کے سامنے نہیں کیا اس سے ان کے ضبط اور اعلیٰ کردار کا پتہ چلتا ہے۔ قاضی عبدالغفار کلیات فانی کے دیباچہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ان کے آنے سے پہلے میں ان کا کلام سنا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ شاعر اچھا ہے معلوم نہیں کہ آدمی کیسا ہے؟ جب ان کو دیکھا تو معلوم ہوا جتنا کہ وہ شاعر ہے اس سے زیادہ انسان ہے‘‘، آگے بڑھ کر لکھتے ہیں: ’’ میں کسی دوسرے شاعر کو نہیں جانتا جس نے اپنی شاعری کو اپنی زندگی کے تاثرات اپنی حقیقی واردات قلب اور اپنے تمام تر انسانی احساسات کا اس قدر صحیح آئینہ دار بنایا ہو‘‘۔
فانی کے ہاں عشق خواہ مجاز کے رنگ میں ہو یا حقیقت کے ان کی شاعری کا سب سے بڑا محرک تھا۔ اس عشق نے ان کی شخصیت کی تکمیل کی اور اسی کے ذریعے ان میں وہ احساس پیدا ہوا جس کو جمالیاتی حسن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عشق کی بدولت ان میں وہ پاکیزگی اور لطافت پیدا ہوئی جو اس کے بغیر ممکن نہ تھی۔ وہ غم کے بوجھ کو برداشت نہ کر سکتے تھے۔ اگر محبت کا جذبہ لطیف اس کو ہلکا نہ کردیتا جب مجازی عشق کی قوت کا یہ حال ہے تو عشق حقیقی کی گیرائی اور گہرائی کا کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس میں بھی فانی کی انفرادیت ہر ہر قدم پر دامن دل کھینچتی ہے۔
فانی کے تخلص کو صرف شاعرانہ اعتبار سے ہی اہمیت حاصل نہیں ہے بلکہ اس تخلص کی روشنی میں ان کی زندگی کی بڑی گہری نفسیاتی حقیقت پوشیدہ ہے کہ انہوں نے عیش و عشرت کو کبھی باقی نہ جانا، اپنے دل کو آرزئوں کا مدفن بنا دیا جہاں امید نے کبھی بسیرا نہیں لیا۔ فانی کی ذات اپنے دور ہی کے نہیں بلکہ تاریخ ادب اردو کے ان چند نفوس میں سے تھی جن کے یہاں زندگی اور شعر میں کامل آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات میں صرف وہی عنوانات ملیں گے جن کو فانی نے قریب سے دیکھا ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات غم، عشق، جبر ہمہ اوست، ناپائیداری دنیا، بے ثبائی کائنات! کسی بھی عنوان کو لے لیجئے اور فانی کی زندگی سے ان کا رشتہ ملایئے ان میں وہی صداقت ملے گی جو ایک سچے انسانی اور سچے فنکار کے یہاں ضروری ہے۔
منتخب اشعار
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
……………………
سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ، میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
……………………
ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے
……………………
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
……………………
ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب
اس طرح گردشِ دوراں کو رُلایا میں نے
……………………
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا نہ رہا
……………………
دل سراپا درد تھا وہ ابتدائے عشق تھی
انتہا یہ ہے کہ فانیٔ درد اب دل ہو گیا
……………………
آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت
احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا
……………………
موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانی
گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے
……………………
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم
……………………
غزل
عقل سے کام بھی لے، عشق پہ ایمان بھی لا
دل ہی نذر نگۂ ناز نہ کر جان بھی لا
تیری آمد کے تصدق ترے جلوئوں کے نثار
آمر ی قبر پہ آ، حشر کا سامان بھی لا
تو نے دل دے کے بس اک شانِ ہوس پیدا کی
ان کا بندہ ہے، تو نادان، وہی شان بھی لا
غم شوریدگیٔ عشق کی تکمیل بھی کر
رنجِ ناکامیٔ دل کے لئے ارمان بھی لا
جب سے اک تار بھی دامن میں سلامت نہ رہا
جوشِ وحشت کا تقاضا ہے گریبان بھی لا
دادِ نظارہ تو دی آب جو حقیقت ہے وہ سن
بزم عالم میں فقط آنکھ نہ لا، کان بھی لا