سوء ادب

وصیتایک شخص نے مرتے وقت اپنی بیوی سے کہا کہ میری موت کے بعد میری ساری دولت میرے ساتھ دفن کر دی جائے۔ اس وقت اس کی بیوی کی ایک سہیلی بھی پاس بیٹھی ہوئی تھی جس نے اس شخص کے مرنے کے بعد پوچھا کہ کیا اس نے اپنے شوہر کی وصیت پر عمل کیا ہے۔ جس پر وہ بولی کہ میں نے اس کی ساری دولت کا حساب لگا کر اتنی ہی مالیت کا ایک چیک لکھ کر اس کے سرہانے رکھ دیا تھا تاکہ وہ جب چاہے کیش کرا لے۔
مرغیاں
گھر میں رکھی مرغیوں سے پریشان ایک شخص آخر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ اس گھر میں اب مرغیاں رہیں گی یا میں۔
یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف چل پڑا تو اس کی اہلیہ بولی:
’’ آخر اتنی تیز بارش میںآپ کہاں جائیں گے ، کم از کم بارش کو تو رک جانے دیں ‘‘
٭٭٭
پیچ وتاب زندگی:لائنز ایریا سے بلال روڈ تک
یہ بریگیڈیئر صولت رضا کی خود نوشت ہے جسے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور نے چھاپا ہے۔ پسِ سرورق تحسینی، تحریریں بریگیڈیئر صدیق سالک اور سرور منیر راؤ کی ہیں۔
بریگیڈیئر صدیق سالک کے مطابق ’’صولت رضا کی فوجی زندگی کا بیشتر حصہ پہاڑوں پر گزرا ہے۔ وہ اپنی امیدوں کے آبگینے اٹھائے کوہ کوہ دمن دمن پھرتا رہتا ہے۔ اس کا پہلا پڑاؤ کا کول تھا جس کی روداد آپ کے سامنے ہے۔ اس کی دوسری اڑان بلوچستان کی طرف تھی جس کی آنچ کسی اور رنگ میں ظاہر ہو گی۔ میں تو پی ایم اے نہیں گیا لیکن وہاں تربیت پانے والوں کا کہنا ہے کہ کاکول ایک کٹھالی ہے جہاں کچے لوہے کو پگھلا کر ملک کے دفاعی حصار کے قابل اعتماد ستون تیار کیے جاتے ہیں۔ میں نے صولت کوکاکول جانے سے پہلے نہیں دیکھا تھا لیکن وہاں سے واپسی پر جتنا بھی بچا کھچا نظر آیا اس سے مجھے کٹھالی کی حدت کا احساس ہو گیا۔ اگر کاکول کی سنگلاخ زمین پر پاؤں مار مار کر صولت کا قد گھس گیا ہے تو اسے فکر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ’’کاکولیات ‘‘ نے اس کا ادبی قد اونچا کر کے اس کی تلافی کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے قلم کو اتنی طاقت اور طراوت بخشے کہ یہ ادبی بٹالین کے ایڈجوٹنٹ سے اس کا کمانڈنگ افسر بن جائے۔
مختصر دیباچہ مجیب الرحمٰن شامی نے تحریر کیا ہے جن کے مطابق ’’ صولت رضا کی زندگی کی کہانی میں ہماری اجتماعی زندگی کے کئی گوشے بھی سمٹ آئے ہیں، یوں یہ پوری قوم کی کہانی بن گئی ہے۔ صولت رضا کا لہجہ شگفتہ ، نظر گہری اور مشاہدہ وسیع ہے۔ ان کی یادداشتیں، ماہنامہ ، قومی ڈائجسٹ ، میں ایک طویل انٹرویو کی صورت میں شائع ہوئی تھیں ، اب انہیں نظر ثانی کے بعد کتابی صورت میں مرتب کر دیا گیا ہے۔ یہ مقتدر حلقوں کی اندرونی کہانی بھی ہے کہ اس میں بہت کچھ ایسا ملے گا جو شاید کہیں اور محفوظ نہ ہو ، فیلڈ مارشل صولت کی سنئے اور سردھنیے‘‘۔
علامہ عبدالستار عاصم اور سلمان علی چوہدری کے اہتمام سے چھپنے والی اس کتاب کا انتساب اساتذہ کرام کے نام ہے جسے آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پیرائیہ اظہار دلچسپ ہے۔ گیٹ اپ عمدہ صفحات 144 اور قیمت 1000 روپے ہے۔
آج کا مطلع
جس کر ہر دم اُچھلتا ہوں، ظفر
ایک اٹھنّی ہے وہ بھی کھوٹی ہے