سوء ادب

تحریر : ظفر اقبال


وصیتایک شخص نے مرتے وقت اپنی بیوی سے کہا کہ میری موت کے بعد میری ساری دولت میرے ساتھ دفن کر دی جائے۔ اس وقت اس کی بیوی کی ایک سہیلی بھی پاس بیٹھی ہوئی تھی جس نے اس شخص کے مرنے کے بعد پوچھا کہ کیا اس نے اپنے شوہر کی وصیت پر عمل کیا ہے۔ جس پر وہ بولی کہ میں نے اس کی ساری دولت کا حساب لگا کر اتنی ہی مالیت کا ایک چیک لکھ کر اس کے سرہانے رکھ دیا تھا تاکہ وہ جب چاہے کیش کرا لے۔

مرغیاں

گھر میں رکھی مرغیوں سے پریشان ایک شخص آخر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ اس گھر میں اب مرغیاں رہیں گی یا میں۔ 

یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف چل پڑا تو اس کی اہلیہ بولی: 

’’ آخر اتنی تیز بارش میںآپ کہاں جائیں گے ، کم از کم بارش کو تو رک جانے دیں ‘‘

٭٭٭

پیچ وتاب زندگی:لائنز ایریا سے بلال روڈ تک

یہ بریگیڈیئر صولت رضا کی خود نوشت ہے جسے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور نے چھاپا ہے۔ پسِ سرورق تحسینی، تحریریں بریگیڈیئر صدیق سالک اور سرور منیر راؤ کی ہیں۔

بریگیڈیئر صدیق سالک کے مطابق ’’صولت رضا کی فوجی زندگی کا بیشتر حصہ پہاڑوں پر گزرا ہے۔ وہ اپنی امیدوں کے آبگینے اٹھائے کوہ کوہ دمن دمن پھرتا رہتا ہے۔ اس کا پہلا پڑاؤ کا کول تھا جس کی روداد آپ کے سامنے ہے۔ اس کی دوسری اڑان بلوچستان کی طرف تھی جس کی آنچ کسی اور رنگ میں ظاہر ہو گی۔ میں تو پی ایم اے نہیں گیا لیکن وہاں تربیت پانے والوں کا کہنا ہے کہ کاکول ایک کٹھالی ہے جہاں کچے لوہے کو پگھلا کر ملک کے دفاعی حصار کے قابل اعتماد ستون تیار کیے جاتے ہیں۔ میں نے صولت کوکاکول جانے سے پہلے نہیں دیکھا تھا لیکن وہاں سے واپسی پر جتنا بھی بچا کھچا نظر آیا اس سے مجھے کٹھالی کی حدت کا احساس ہو گیا۔ اگر کاکول کی سنگلاخ زمین پر پاؤں مار مار کر صولت کا قد گھس گیا ہے تو اسے فکر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ’’کاکولیات ‘‘ نے اس کا ادبی قد اونچا کر کے اس کی تلافی کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے قلم کو اتنی طاقت اور طراوت بخشے کہ یہ ادبی بٹالین کے ایڈجوٹنٹ سے اس کا کمانڈنگ افسر بن جائے۔ 

مختصر دیباچہ مجیب الرحمٰن شامی نے تحریر کیا ہے جن کے مطابق ’’ صولت رضا کی زندگی کی کہانی میں ہماری اجتماعی زندگی کے کئی گوشے بھی سمٹ آئے ہیں، یوں یہ پوری قوم کی کہانی بن گئی ہے۔ صولت رضا کا لہجہ شگفتہ ، نظر گہری اور مشاہدہ وسیع ہے۔ ان کی یادداشتیں، ماہنامہ ، قومی ڈائجسٹ ، میں ایک طویل انٹرویو کی صورت میں شائع ہوئی تھیں ، اب انہیں نظر ثانی کے بعد کتابی صورت میں مرتب کر دیا گیا ہے۔ یہ مقتدر حلقوں کی اندرونی کہانی بھی ہے کہ اس میں بہت کچھ ایسا ملے گا جو شاید کہیں اور محفوظ نہ ہو ، فیلڈ مارشل صولت کی سنئے اور سردھنیے‘‘۔ 

علامہ عبدالستار عاصم اور سلمان علی چوہدری کے اہتمام سے چھپنے والی اس کتاب کا انتساب اساتذہ کرام کے نام ہے جسے آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پیرائیہ اظہار دلچسپ ہے۔ گیٹ اپ عمدہ صفحات 144 اور قیمت 1000 روپے ہے۔ 

آج کا مطلع

جس کر ہر دم اُچھلتا ہوں، ظفر 

ایک اٹھنّی ہے وہ بھی کھوٹی ہے 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سانحہ اے پی ایس:جب قوم کا مستقبل لہو میں نہا گیا

16 دسمبر 2014ء کی وہ خونی صبح تاریخ پاکستان کے سیاہ ترین ابواب میں ہمیشہ کیلئے ثبت ہو چکی ہے، جب پشاور کے آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں اور اساتذہ کو دہشت گردی کی وحشیانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔

16دسمبر 1971سقوط ڈھاکہ:جب پاکستان اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہوا

16 دسمبر ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن‘ ہمیں بھارتی مکروہ عزائم ناکام بنانے کے لئے مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت ہماری سوچ سے کہیں زیادہ تھی، جس کا مقصد سارے نظام کو تہس نہس کرنا تھا

مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کا کردار

قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سربراہی میں 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ،دو حصوں پر مشتمل وطن عظیم کو بڑی تگ و دو اور قربانیوں سے حاصل کیا گیا تھا۔

مدد گار رسول، یار غار و مزار، امام الصحابہ :خلیفہ اوّل، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ

اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ذات بابرکات پر کہ جن کے اہل اسلام پر لاکھوں احسانات ہیں۔ وہ قومیں دنیا کے افق سے غروب ہو جاتی ہیں جو اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتی ہیں۔ آیئے آج اس عظیم محسن اُمت کی خدمات کا مختصراً تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کے تذکرے سے ایمان کو تازگی اور عمل کو اخلاص کی دولت ملتی ہے۔

فخر رفاقت ابو بکر،فخرصداقت ابو بکر: رفیقِ دوجہاں

خلیفہ اوّل سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کو قبل ازبعثت بھی نبی مکرم ﷺ کی دوستی کا شرف حاصل تھا اور23سالہ پورے دور نبوت میں بھی نبی مکرمﷺ کی مصاحبت کا شرف حاصل رہا۔

مکتبہ عشق کا امام سیدنا ابوبکر صدیق

سیرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے جہاں ہم انہیں رفیق غار کے اعزاز سے بہرہ ور دیکھتے ہیں، وہاں بعد ازوفات رفیق مزار ہونے کی عظیم سعادت سے بھی آپ ؓ سرفراز دکھائی دیتے ہیں۔ آپؓ کی حیات مطہرہ میں کچھ خصائص ایسے نظر آتے ہیں جو پوری ملت اسلامیہ میں آپؓ کو امتیازی حیثیت بخشے ہیں۔