نواز شریف بڑے کردار کیلئے تیار

تحریر : سلمان غنی


جاتی عمرہ میں مسلم لیگ (ن) کے صدر سابق وزیراعظم نوازشریف نے نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک کی قیادت میں آنے والے بلوچ رہنمائوں کے وفد سے ملاقات کو بلوچستان میں پیدا شدہ شدت پسندی، دہشت گردی کے خاتمہ، بلوچستان کے سیاسی مسائل کے حل اوراحساسِ محرومی کے سدباب کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

 ڈاکٹر مالک کے ہمراہ سینیٹر جان بلیدی، سینیٹر پلین بلوچ، سردار کمال بنگلزئی، اسلم بلوچ اور دیگر بھی موجود تھے جبکہ( ن) لیگ کے سربراہ نوازشریف کے ہمراہ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق، وفاقی وزراء خواجہ آصف ، احسن اقبال، اعظم نذیر تارڑ، اویس لغاری اور( ن) لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ مذکورہ ملاقات میں ڈاکٹر مالک نے نوازشریف اور( ن) لیگ کی قیادت کو بلوچستان کے سلگتے مسائل، بدامنی کے واقعات کی وجوہات اور اختر مینگل کی قیادت میں جاری دھرنے سمیت تمام مسائل پر بریفنگ دی اور کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے حوالے سے نوازشریف کے دور میں جو کام ہوا تھا اگر اس پر پیش رفت جاری رہتی اور مسائل کا سیاسی حل نکالا جاتا تو آج بلوچستان مسائل کی آگ میں نہ جل رہا ہوتا۔ آج بھی حالات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے جس کیلئے میاں نوازشریف کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر مالک نے (ن) لیگی قیادت کے سوالات کے جوابات بھی دیئے اور مسائل کے حل کیلئے اقدامات بھی تجویز کئے جس پر مسلم لیگ( ن) کے قائد میاں نوازشریف نے انہیں اپنے بڑے کردار کی ادائیگی کی یقین دہانی بھی کرائی اور کہا کہ صورتحال میں بہتری کیلئے میں وزیراعظم شہبازشریف اور دیگر متعلقہ ذمہ داران سے بات کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا معاشی مستقبل ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ بلوچ عوام پاکستان کی طاقت ہیں ہم انہیں حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔نواز شریف نے کہا کہ میں لندن سے واپسی پر دیگر بلوچ لیڈر شپ سے بھی رابطہ کرتا ہوں ،ہم نے بلوچستان میں امن بحال کرنا ہے اور بلوچستان کے سلگتے مسائل کا حل نکالنا ہے۔ مذکورہ ملاقات کے بعد نوازشریف نے وزیراعظم شہبازشریف کو بلوچستان کے مسائل کے حل اور فوری طور پر کچھ اقدامات کے حوالے سے ہدایات دیں اور کہا کہ بلوچ لیڈر شپ سے روابط مؤثر بنائیں اور مسائل کا سیاسی حل نکالیں۔ طاقت کا استعمال وہاں جائز ہے جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائیں، جو مسائل سیاسی ہیں وہ ڈائیلاگ سے حل ہونے چاہئیں۔

دوسری جانب ایک ایسے موقع پر جب پی ٹی آئی حکومت کی مخالفت میں ایک بڑی سیاسی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہے ، س کا داخلی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔خیبر پختونخوا میں اس وقت پی ٹی آئی کے مختلف سیاسی دھڑے بن چکے ہیں جو ایک دوسرے کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد،میاں محمود الرشید،اعجاز چوہدری اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ پابندِ سلاسل ہیں جبکہ پنجاب کے صدر حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال سیاسی روپوشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔پنجاب میں پی ٹی آئی اپنی قیادت کے تناظر میں سیاسی طور پر تنہائی کا شکار ہے اور عملی طور پر اس کی سیاسی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔سندھ میں بھی پی ٹی آئی غیر فعال ہے اور بلوچستان میں بھی اسے ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔اس وقت مرکز میں جو لوگ پی ٹی آئی کی قیادت کر رہے ہیں وہ بھی بطور قیادت پارٹی کے اندر اندرونی بحران کو ختم نہیں کر سکے۔ جو لوگ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کر کے آتے ہیں وہ بھی پارٹی کے اندرونی اختلافات کو اجاگر کرتے ہیں۔بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی بدستور جیل میں ہے جبکہ پارٹی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی بھی سیاسی طور پر خاموش ہیں۔پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ وہ مقتدرہ سے رابطے میں ہیں اور مقتدرہ سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ بہت سے پارٹی رہنما عمران خان کو بھی سمجھا رہے ہیں کہ مقتدرہ سے ٹکراؤ کی بجائے مفاہمت کی پالیسی اختیار کی جائے۔ پارٹی کے بعض سرکردہ رہنما جو عمران خان اور مقتدرہ میں مفاہمت کے حامی ہیں ان کو ابھی تک مفاہمت کے تناظر میں کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔  اس کی وجہ عمران خان کا مقتدرہ کے بارے میں سخت مؤقف ہے۔پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بطور جماعت مقبول تو ضرور ہے مگر اپنی مقبولیت کے باوجود نہ تو وہ پارلیمنٹ میں کوئی مؤثر کردار ادا کر سکی ہے اور نہ ہی سڑکوں پر۔ پی ٹی آئی کا عام کارکن یا ووٹر پارٹی کی موجودہ سیاسی قیادت سے ناراض ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ موجودہ قیادت کو عمران خان کی رہائی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے کارکن اور ووٹر موجودہ قیادت کے کہنے پر باہر نکلنے کے لیے بھی تیار نظر نہیں آتے۔اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کے بعض دوستوں کا خیال تھا کہ ہم بطور جماعت ایک بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں اور اگر ہمیں تحریک چلانی ہے تو ہمیں اپوزیشن جماعتوں کا گرینڈ الائنس بنانا ہوگا،لیکن ابھی تک پی ٹی آئی کو اس حوالے سے بھی کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔ بقول پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ پارٹی کی مجلس عاملہ کے اگلے اجلاس میں اتحاد کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کی مدد سے حکومت کے خلاف ایک بڑی سیاسی تحریک چلا سکتے ہیں لیکن حکومت کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی نہ تو کوئی بڑی تحریک چلا سکے گی اور نہ ہی کوئی بڑا گرینڈ الائنس بن سکے گا۔ حکومت کے مطابق مولانا فضل الرحمن سے ان کے رابطے ہیں اور مولانا فضل الرحمن کسی ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے جو فوری طور پر حکومت مخالف تحریک چلائے۔

ان حالات میں پی ٹی آئی حکومت کی مخالفت میں کیسے ایک بڑی عوامی تحریک چلا سکے گی؟ گرینڈ الائنس کی باتیں بھی مفروضے پر مبنی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقہ مطمئن ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔دوسری طرف حکومت کا دعویٰ ہے کہ نہ صرف معیشت درست سمت میں آگئی ہے بلکہ لوگوں کو معاشی ریلیف بھی دیا گیا ہے ، ایسے میں حکومت مخالف جماعتیں اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ لوگوں کو سڑکوں پر لا سکیں۔ پی ٹی آئی کو پنجاب،سندھ اور بلوچستان میں بظاہر سیاسی سرگرمیوں کی بھی آزادی نہیں اور مختلف نوعیت کی پابندیوں کی وجہ سے پارٹی سرگرمیاں عملی طور پر معطل ہیں۔ان حالات میں اگر پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ وہ حکومت کی مخالفت میں دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک بڑی تحریک چلا سکتی ہے تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔پی ٹی آئی کی پہلی سیاسی ترجیح تو یہی ہونی چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کے اندرونی معاملات میں بہتری لائے اوراختلافات ختم کرے کیونکہ ان اختلافات کی موجودگی میں پارٹی مثبت طور پر آگے نہیں بڑھ سکے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

فانی بد ایوانی انسانی احساسات کے حقیقی آئینہ دار

ہماری المیہ شاعری کی کہانی میر کی پُر درد زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ غم نصیب شاعر ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوتا ہے جہاں اس کو غم عشق کے ساتھ غم روزگار سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔

سوء ادب

وصیتایک شخص نے مرتے وقت اپنی بیوی سے کہا کہ میری موت کے بعد میری ساری دولت میرے ساتھ دفن کر دی جائے۔ اس وقت اس کی بیوی کی ایک سہیلی بھی پاس بیٹھی ہوئی تھی جس نے اس شخص کے مرنے کے بعد پوچھا کہ کیا اس نے اپنے شوہر کی وصیت پر عمل کیا ہے۔ جس پر وہ بولی کہ میں نے اس کی ساری دولت کا حساب لگا کر اتنی ہی مالیت کا ایک چیک لکھ کر اس کے سرہانے رکھ دیا تھا تاکہ وہ جب چاہے کیش کرا لے۔

پی ایس ایل 10:بگل بج گیا،ٹرافی کی جنگ چھڑگئی

پاکستان سپرلیگ کے دسویں ایڈیشن (پی ایس ایل10)کا بگل بج گیا، ٹرافی حاصل کرنے کی جنگ چھڑ گئی، 6ٹیموں میں سے اس بار ٹرافی کون جیتے گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ’’پاکستان سپر لیگ 10‘‘ کا ابھی آغاز ہے اور انتہائی دلچسپ میچز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

نورزمان:سکواش کے افق کا چمکتا ستارہ

پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ میں سکواش ہمیشہ سے ایک روشن باب رہا ہے، لیکن ایک طویل عرصے کے زوال کے بعد پاکستان کی انڈر 23 سکواش ٹیم کا ورلڈ چیمپئن بننا ایک نئی صبح کی نوید بن کر آیا ہے۔

حنان کی عیدی

حنان8سال کا بہت ہی پیارا اورسمجھداربچہ ہے۔اس کے پاپا جدہ میں رہتے ہیںجبکہ وہ ماما کے ساتھ اپنی نانو کے گھر میں رہتا ہے۔

چوہے کی آخری دعوت

بھوک سے اس کا بُراحال تھا۔رات کے ساتھ ساتھ باہر ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی، اس لیے وہ کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں تھا۔اسے ڈر تھا کہ اگر چھپنے کیلئے کوئی جگہ نہ ملی تو وہ مارا جائے گا۔وہ کونوں کھدروں میں چھپتا چھپاتا کوئی محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جوں ہی ایک گلی کا موڑ مڑ کر وہ کھلی سڑک پر آیا،اسے ایک دیوار میں سوراخ نظر آیا۔وہ اس سوراخ سے اندر داخل ہو گیا۔