نہری منصوبہ ہو یا مہنگائی پستے عوام ہی ہیں

رمضان المبارک کے مہینے میں سندھ میں متعدد اہم واقعات ہوئے لیکن ان میں سرفہرست جو چیزیں تھیں ان میں کینالز منصوبے کی مخالفت، گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کی سو ارب روپے پر نوک جھونک قابل ذکر ہے۔
رمضان المبارک میں چینی مافیا اور فروٹ مافیا نے بھی شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ رمضان ختم ہونے کو آیا تو دو تین روز پہلے سے ہی مرغی، گوشت اور سبزیوں کی قیمتوں کو پر لگ گئے۔ ٹرانسپورٹرز نے بھی خوب رنگ جمایا۔ دوسرے شہروں کو جانے والوں سے زائد کرایہ وصول کیا گیا۔ محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ نے زائد کرایوں کے خلاف آپریشن کیا اور ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے مسافروں کو واپس دلائے۔ سخت کارروائی کا بھی اعلان کیا گیا۔ ہر سال عوام کو اسی طرح لوٹا جاتا ہے ، سوال یہ ہے کہ پہلے سے کیوں نہیں انتظام کیا جاتا؟چاند رات کو کراچی میں ہوائی فائرنگ کے متعدد واقعات ہوئے جن میں درجن سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔
پہلے ذکر کرتے ہیں وفاقی حکومت کے چھ نہروں کے منصوبے کا جس کے خلاف سندھ میں پیپلز پارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے ریلیاں نکالیں اور مزید احتجاج کی منصوبہ بندی بھی کی جارہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مطابق سندھ حکومت کے خلاف نہری منصوبے کی حمایت کرنے کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ نہروں کے منصوبے کی حمایت نہ کرنے کا واضح اعلان کریں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر مملکت نے نہری منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ صدر زرداری سے اضافی زمینیں آباد کرنے کی بات کی گئی تھی جس پر انہوں نے کہا تھا کہ صوبوں کو اعتراض نہ ہو تو وفاق یہ کام کرلے۔وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت گرانے کی طاقت رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ہمارے بغیر نہیں چل سکتی۔ سندھ اسمبلی نے منصوبے کے خلاف قرارداد منظور کی ہے جس میں پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتیں یکجا ہیں۔دوسری جانب کراچی کی ترقی کے لیے سو ارب روپے کی بات بڑھتے بڑھتے نوک جھونک تک جاپہنچی ہے۔میئر کراچی مرتضیٰ وہاب اٹھتے بیٹھتے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری وفاق سے پیسے دلوائیں۔ شہر میں نکل جائیں تو لگتا ہے کہ کبھی جو شہر عروس البلاد کہلاتا تھا اب برباد ہے۔ سڑکیں ادھڑی پڑی ہیں، گٹر ابل رہے ہیں، شہر کا مرکز یعنی صدر کا علاقہ ہو، مرکزی شاہراہیں ہوں یا کسی گلی کی کوئی نکڑ، قبضہ مافیا نے یا تو ٹھیلا کھڑا کردیا ہے یا دکان کھڑی کر ڈالی ہے۔ حال تو یہ ہے کہ عید سے قبل کورنگی کراسنگ کے علاقے میں 1100فٹ گہرائی تک ٹیوب ویل کی کھدائی کے دوران پانی کی ساتھ گیس بھی نکل آئی اور ہمارے امدادی اداروں کے پاس نہ تو اس آگ کو بجھانے کا سامان تھا اور نہ صلاحیت۔ اہم سوال یہ ہے کہ مذکورہ کمپنی کو کس نے اتنی گہرائی تک بورنگ کی اجازت دی؟ کیا نگرانی کا کوئی طریقہ کار بھی ہے یا نہیں؟ انتظامیہ کو ایسی بے قاعدگیوں کو روکنے پر توجہ دینی چاہیے نہ کہ میئر یا گورنر سندھ ایک دوسرے پر طنز کے نشتر چلاتے رہیں اور اس کی ذمہ داری بھی کسی اور ادارے پر لاد دی جائے۔ کراچی کی بات ہورہی ہے تو دو حادثات کا بھی سُن لیں جنہوں نے روح کو لرزا دیا ہے۔ قائد آباد پل کے نیچے تیز رفتار واٹر ٹینکر نے حاملہ خاتون اور اس کے شوہر کو روند ڈالا۔ اسی جگہ پر خاتون کے ہاں بچے کی ولادت ہوگئی، لوگ اسے لے کر ہسپتال کی طرف بھاگے لیکن بچہ انتقال کرگیا۔ اس حادثے نے سب کو رلا دیا۔ لواحقین کے مطابق نوجوان کے پاس پیسے نہیں تھے اس لیے مجبوراً حاملہ اہلیہ کو بائیک پر لے کر ہسپتال گیا۔ اسی طرح شارع فیصل پر افطار کے وقت میاں بیوی سڑک کے کنارے افطار کے لیے رکے لیکن تیز رفتاری کے شوقین 17 سالہ نوجوان نے دونوں میاں بیوی کو کچل ڈالا لیکن ہزار افسوس کہ حکومت سندھ یا اس کا کوئی نمائندہ افسوس کے لیے لواحقین کے پاس نہیں گیا۔ تمام اہم شخصیات عید منانے آبائی علاقوں کو روانہ ہوگئیں باقی رہ گئے عوام تو ان کا کیا ہے جیسے تیسے گزربسر کرہی لیں گے۔ رواں برس ٹریفک حادثات میں اموات سوا دو سو سے بڑھ چکی ہیں۔ چاند رات کو جب شہر میں لاکھوں افراد خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کرتے ہیں رات گئے بھاری بھرکم ٹریلر اور ٹرک چلتے پھرتے نظر آئے۔ یہ درست ہے کہ انہیں رات کو چلنے کی آزادی ہے لیکن کیا چاند رات کو یہ پابندی نہیں لگائی جاسکتی تھی کہ ہائی وے پر جانے کے لیے شہر کے باہر کی سڑکوں کو استعمال کریں۔ اسی طرح چاند رات ہوتے ہی شہر میں ہوائی فائرنگ کے متعدد واقعات ہوئے جن میں اندھی گولیاں لگنے سے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔عید کے پہلے دن کی بھی سن لیں، شہر کی شاید ہی کوئی سڑک ایسی ہو جہاں منچلے موٹرسائیکلیں نہ دوڑا رہے ہوں لیکن اکا دُکا جگہوں کے سوا کہیں پر کوئی پولیس یا ٹریفک اہلکار نظر نہیں آیا۔ یہ ذمہ داری کس کی ہے؟
عوام کا ذکر ہے تو یہ جان لیں کہ ہر سال کی طرح رمضان سے قبل مافیا نے چینی مہنگی کرکے عوام سے اربوں روپے نکلوا لیے۔ 130سے 140روپے میں فروخت ہونے والی چینی کی قیمت 180روپے تک جاپہنچی۔ اخیر رمضان میں وفاق کو خیال آیا، نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے شوگر ملز مالکان سے ملاقات کے بعد چینی کی قیمت 164روپے پر فکس کردی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کہتی ہے کہ چینی انہوں نے مہنگی نہیں کی ہول سیلرز نے ہاتھ کی صفائی دکھائی، ہول سیلرز کسی اور پر الزام دھر دیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عوام تو لٹ گئے۔ رمضان ختم ہورہا تھا تو سبزی اور گوشت مافیا سامنے آگیا۔ سرکاری نرخ پر دور دور تک عمل نہیں ہوا۔ دونوں ہاتھوں سے عوام کی جیب خالی کی گئی۔ ہر سال کی طرح ہمارا یہی سوال ہے کہ ان لٹیروں پر بھی کوئی ہاتھ ڈالے گا یا رات گئی بات گئی؟