سوء ادب

تحریر : ظفر اقبال


لاٹری :ایک شخص کی ایک لاکھ روپے کی لاٹری نکل آئی تو اس سے کہا گیا کہ لاٹری کی رقم تب ادا کریں گے اگر تم اپنی بیوی سے دست بردار ہو جائو تو وہ ہنسنے لگ پڑا۔ اس سے ہنسنے کی وجہ پوچھی گئی تو وہ بولا کہ خوشی سے ہنس رہا ہوں کہ میری ایک وقت میں دو لاٹریاں نکل آئی ہیں یعنی ایک لاکھ روپے بھی ملیں گے اور پرانی بیوی سے نجات بھی ۔

قسمت کا حال 

ایک آدمی قسمت کا حال معلوم کرنے کیلئے فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک نجومی سے ملا، جس نے سلیٹ پر لکھ کر لگا رکھا تھا کہ پچاس روپے میں دو سوال پوچھ سکتے ہیں۔

 اس نے نجومی سے پوچھا کہ پچاس روپے میں صرف دو سوال پوچھ سکتے ہیں، کیا یہ فیس کچھ زیادہ نہیں ہے۔ نجومی بولا ، کوئی زیادہ نہیں ، دوسرا سوال پوچھو ۔

٭٭٭

مکالمہ 

اکادمی بازیافت سے ہمارے دوست مبین مرزا یہ رسالہ نکالتے ہیں۔ جس کے آغاز میں زہرا نگاہ کی سات نظمیں ’’دونوں، آگ، فلسطین، گنتی، شاید، آٹا اور انتظار‘‘ شائع کی گئی ہیں۔ رشتہ دارکی طرف سے زیادتی کے بعد ایک چار سالہ بچی کا بیان ہے، آسمان و زمیں، خدا اور مسیحا، بہت سکون سے کاٹا عذابِ تنہائی۔ 

اس کے بعد زہرا نگاہ پر جگر صاحب کا مضمون، اس کے بعد فتح محمد ملک کا زہرا نگاہ کی حیات و کائنات، اس کے بعد یاسمین حمید کا مضمون زہرا نگاہ کی شاعری ہے۔ اس کے بعد انیس اشفاق کا مضمون معالج کی موت، اس کے بعد نظام صدیقی کا مضمون نئے عہد کی تخلیقیت کا منبعِ نورہے۔

 اس کے بعد فریدہ حفیظ کی طرف سے تازہ نثر ، فاروق خالد کی طرف سے خزانہ ، ڈاکٹر سید جعفر احمد کی طرف سے سحر صاحب کی بات کرتے ہیں، پھر ندیم صدیقی کا باتیں زیب کی ہے۔

 اس کے بعد علی محمد فرشی کی سولہ نظمیں پھر وحید الرحمان خان بچوں کا جاسوسی ادب، چند زاوئیے اس کے بعد خورشید ربانی کا اتنی ظالم اس قدر وحشی ہوئیں، مل ہی جائے گا کبھی ساحل تمہیں ، ایم خالد فیاض ایک میٹھے دن کا انت، وجود کا زماں ذدہ بیانیاں، منیر فیاض کا چندر اور تہذیبی ارتقا کے سوالات، محمد عثمان جامعی کا مجھے چاہیے میرا بدھ ، فیصل زرگان کازیرِ زمین جہنم، سیمی کرن کا صالح کی اونٹنی ذبح ہو گئی، سارا احمد کا اللہ معافی اور مدیحہ رحمان کا غمِ ہجراں۔ 

آغاز میں ادب کا مستقبل  اور اکیسویں صدی کے عنوان سے اداریہ ہے ۔گیٹ اپ عمدہ قیمت 400 روپے ۔ 

اب آخر میں زہرا نگاہ کی یہ نظم ۔

آٹا

طوطا کہتا ہے چوری دو

بچے کہتے ہیں روٹی دو 

چڑیاں پیڑ کے نیچے بیٹھی اونگھ رہی ہیں 

چیونٹیاں اپنی ساری قطاریں بھول گئی ہیں 

اماں بابا آٹا لینے گھر سے گئے تھے 

شام ڈھلے واپس آئے ہیں 

اماں سینہ پیٹتی آئی 

اور بابا کندھوں پر آیا 

آٹا لینے گئے تھے دونوں 

آٹا تو پھر بھی نہیں آیا 

آج کا مطلع

دور و نزدیک بہت اپنے ستارے بھی ہوئے 

ہم کسی اور کے تھے اور تمہارے بھی ہوئے 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

فانی بد ایوانی انسانی احساسات کے حقیقی آئینہ دار

ہماری المیہ شاعری کی کہانی میر کی پُر درد زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ غم نصیب شاعر ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوتا ہے جہاں اس کو غم عشق کے ساتھ غم روزگار سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔

سوء ادب

وصیتایک شخص نے مرتے وقت اپنی بیوی سے کہا کہ میری موت کے بعد میری ساری دولت میرے ساتھ دفن کر دی جائے۔ اس وقت اس کی بیوی کی ایک سہیلی بھی پاس بیٹھی ہوئی تھی جس نے اس شخص کے مرنے کے بعد پوچھا کہ کیا اس نے اپنے شوہر کی وصیت پر عمل کیا ہے۔ جس پر وہ بولی کہ میں نے اس کی ساری دولت کا حساب لگا کر اتنی ہی مالیت کا ایک چیک لکھ کر اس کے سرہانے رکھ دیا تھا تاکہ وہ جب چاہے کیش کرا لے۔

پی ایس ایل 10:بگل بج گیا،ٹرافی کی جنگ چھڑگئی

پاکستان سپرلیگ کے دسویں ایڈیشن (پی ایس ایل10)کا بگل بج گیا، ٹرافی حاصل کرنے کی جنگ چھڑ گئی، 6ٹیموں میں سے اس بار ٹرافی کون جیتے گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ’’پاکستان سپر لیگ 10‘‘ کا ابھی آغاز ہے اور انتہائی دلچسپ میچز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

نورزمان:سکواش کے افق کا چمکتا ستارہ

پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ میں سکواش ہمیشہ سے ایک روشن باب رہا ہے، لیکن ایک طویل عرصے کے زوال کے بعد پاکستان کی انڈر 23 سکواش ٹیم کا ورلڈ چیمپئن بننا ایک نئی صبح کی نوید بن کر آیا ہے۔

حنان کی عیدی

حنان8سال کا بہت ہی پیارا اورسمجھداربچہ ہے۔اس کے پاپا جدہ میں رہتے ہیںجبکہ وہ ماما کے ساتھ اپنی نانو کے گھر میں رہتا ہے۔

چوہے کی آخری دعوت

بھوک سے اس کا بُراحال تھا۔رات کے ساتھ ساتھ باہر ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی، اس لیے وہ کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں تھا۔اسے ڈر تھا کہ اگر چھپنے کیلئے کوئی جگہ نہ ملی تو وہ مارا جائے گا۔وہ کونوں کھدروں میں چھپتا چھپاتا کوئی محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جوں ہی ایک گلی کا موڑ مڑ کر وہ کھلی سڑک پر آیا،اسے ایک دیوار میں سوراخ نظر آیا۔وہ اس سوراخ سے اندر داخل ہو گیا۔