سوء ادب

لاٹری :ایک شخص کی ایک لاکھ روپے کی لاٹری نکل آئی تو اس سے کہا گیا کہ لاٹری کی رقم تب ادا کریں گے اگر تم اپنی بیوی سے دست بردار ہو جائو تو وہ ہنسنے لگ پڑا۔ اس سے ہنسنے کی وجہ پوچھی گئی تو وہ بولا کہ خوشی سے ہنس رہا ہوں کہ میری ایک وقت میں دو لاٹریاں نکل آئی ہیں یعنی ایک لاکھ روپے بھی ملیں گے اور پرانی بیوی سے نجات بھی ۔
قسمت کا حال
ایک آدمی قسمت کا حال معلوم کرنے کیلئے فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک نجومی سے ملا، جس نے سلیٹ پر لکھ کر لگا رکھا تھا کہ پچاس روپے میں دو سوال پوچھ سکتے ہیں۔
اس نے نجومی سے پوچھا کہ پچاس روپے میں صرف دو سوال پوچھ سکتے ہیں، کیا یہ فیس کچھ زیادہ نہیں ہے۔ نجومی بولا ، کوئی زیادہ نہیں ، دوسرا سوال پوچھو ۔
٭٭٭
مکالمہ
اکادمی بازیافت سے ہمارے دوست مبین مرزا یہ رسالہ نکالتے ہیں۔ جس کے آغاز میں زہرا نگاہ کی سات نظمیں ’’دونوں، آگ، فلسطین، گنتی، شاید، آٹا اور انتظار‘‘ شائع کی گئی ہیں۔ رشتہ دارکی طرف سے زیادتی کے بعد ایک چار سالہ بچی کا بیان ہے، آسمان و زمیں، خدا اور مسیحا، بہت سکون سے کاٹا عذابِ تنہائی۔
اس کے بعد زہرا نگاہ پر جگر صاحب کا مضمون، اس کے بعد فتح محمد ملک کا زہرا نگاہ کی حیات و کائنات، اس کے بعد یاسمین حمید کا مضمون زہرا نگاہ کی شاعری ہے۔ اس کے بعد انیس اشفاق کا مضمون معالج کی موت، اس کے بعد نظام صدیقی کا مضمون نئے عہد کی تخلیقیت کا منبعِ نورہے۔
اس کے بعد فریدہ حفیظ کی طرف سے تازہ نثر ، فاروق خالد کی طرف سے خزانہ ، ڈاکٹر سید جعفر احمد کی طرف سے سحر صاحب کی بات کرتے ہیں، پھر ندیم صدیقی کا باتیں زیب کی ہے۔
اس کے بعد علی محمد فرشی کی سولہ نظمیں پھر وحید الرحمان خان بچوں کا جاسوسی ادب، چند زاوئیے اس کے بعد خورشید ربانی کا اتنی ظالم اس قدر وحشی ہوئیں، مل ہی جائے گا کبھی ساحل تمہیں ، ایم خالد فیاض ایک میٹھے دن کا انت، وجود کا زماں ذدہ بیانیاں، منیر فیاض کا چندر اور تہذیبی ارتقا کے سوالات، محمد عثمان جامعی کا مجھے چاہیے میرا بدھ ، فیصل زرگان کازیرِ زمین جہنم، سیمی کرن کا صالح کی اونٹنی ذبح ہو گئی، سارا احمد کا اللہ معافی اور مدیحہ رحمان کا غمِ ہجراں۔
آغاز میں ادب کا مستقبل اور اکیسویں صدی کے عنوان سے اداریہ ہے ۔گیٹ اپ عمدہ قیمت 400 روپے ۔
اب آخر میں زہرا نگاہ کی یہ نظم ۔
آٹا
طوطا کہتا ہے چوری دو
بچے کہتے ہیں روٹی دو
چڑیاں پیڑ کے نیچے بیٹھی اونگھ رہی ہیں
چیونٹیاں اپنی ساری قطاریں بھول گئی ہیں
اماں بابا آٹا لینے گھر سے گئے تھے
شام ڈھلے واپس آئے ہیں
اماں سینہ پیٹتی آئی
اور بابا کندھوں پر آیا
آٹا لینے گئے تھے دونوں
آٹا تو پھر بھی نہیں آیا
آج کا مطلع
دور و نزدیک بہت اپنے ستارے بھی ہوئے
ہم کسی اور کے تھے اور تمہارے بھی ہوئے