باجماعت نماز:رحمتوں اور مغفرتوں کا وسیلہ

اسلام ایک جامع دین ہے، جو نہ صرف انسان کی انفرادی اصلاح کرتا ہے بلکہ اجتماعی زندگی کے بھی بہترین اصول وضع کرتا ہے۔ اس میں عبادات کو نہ صرف انفرادی ذمہ داری کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ انہیں اجتماعی طور پر ادا کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔
نماز، جو دین کا ستون ہے، اگر باجماعت ادا کی جائے تو اس کے روحانی، اجتماعی اور اخلاقی اثرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
باجماعت نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺنے اسے نہ صرف فرض نمازوں کی بہترین ادائیگی قرار دیا بلکہ اس کے ذریعے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کی بھی خوشخبری دی۔ احادیث مبارکہ میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ باجماعت نماز میں شریک ہونے والے شخص کے پچھلے گناہوں کی بخشش کی جاتی ہے اور اس کا مقام اللہ کے نزدیک بلند کر دیا جاتا ہے۔ یہ عبادت نہ صرف گناہوں کا کفارہ بنتی ہے بلکہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد، محبت اور بھائی چارے کو بھی مضبوط کرتی ہے۔
با جماعت نماز کی اہمیت
قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اور سیکڑوں احادیث میں نبی کریم ﷺ نے نماز کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور پابندی کے ساتھ نمازِ باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ نماز میں کوتاہی اور سستی کرنے والوں کو منافقین کی صف میں شمار کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کیلئے با ادب کھڑ ے رہا کرو (البقرہ: 238) دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔(سورۃالبقرہ: 43)
یہ آیات نمازِ باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح اور صریح دلائل ہیں۔ اگر مقصود صرف نماز قائم کرنا ہی ہوتا تو آیت کے آخر میں اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کروکے الفاظ نہ ہوتے، جو نمازِ باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح نص ہیں۔
میدانِ جنگ میں با جماعت نماز
اللہ تعالی نے میدانِ جنگ میں بھی نمازِ باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حالت امن میں بالاولی نمازِ باجماعت فرض ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’(اے نبی) جب تم ان (مسلمانوں) میں موجود ہو اور انہیں نماز پڑھانے کیلئے کھڑے ہوں تو چاہیے کہ ان میں سے ایک جماعت تمہارے ساتھ کھڑی ہو اور اپنے ہتھیار ساتھ لے لیں، پھر جب یہ سجدہ کریں تو پیچھے سے ہٹ جائیں اور دوسری جماعت آئے جس نے نماز نہیں پڑھی پھر وہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں اور وہ بھی اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار ساتھ رکھیں‘‘ (سورۃالنساء : 102)۔اگر کسی کو نمازِ باجماعت نہ ادا کرنے کی اجازت ہوتی تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کو اجازت دیتے جو میدانِ جنگ میں دشمن کے سامنے صفیں بنائے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرا ارادہ ہوا کہ میں لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کیلئے اذان دینے کا، پھر کسی سے کہوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اس کے بجائے ان لوگوں کے پاس جائوں(جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے)اور انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں(بخاری: 2420، مسلم: 651)۔
نابینا شخص اور با جماعت نماز
نابینا شخص کیلئے بھی جماعت سے غیر حاضری کی اجازت نہیں ہے ۔ حضرت عبد اللہ ابن ام مکتومؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول!(صلی اللہ علیہ وسلم)مدینہ میں کیڑے مکوڑے(سانپ بچھو وغیرہ) اور درندے بہت ہیں، (تو کیا میں گھر میں نماز پڑھ لیا کروں)، آپﷺ نے پوچھا: کیا تم حی علی الصلاۃ، اور حی علی الفلاح کی آواز سنتے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، (سنتا ہوں)تو آپ ﷺنے فرمایا: پھر تو مسجد آ، اور آپ نے انہیں جماعت سے غیر حاضر رہنے کی اجازت نہیں دی۔(صحیح النسائی: 850)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے ایسے وقت بھی دیکھے ہیں جب صرف وہی شخص نماز سے پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق معلوم ہوتا یا بیمار ہو۔ اور(بسا اوقات)بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے سے چل کر آ جاتا یہاں تک کہ نماز میں شامل ہو جاتا۔ انہوں نے مزید کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ہدایت کے طریقوں کی تعلیم دی اور ہدایت کے طریقوں میں سے ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی ہے جس میں اذان دی جاتی ہو(صحیح مسلم: 1487)۔لہٰذا کسی مسلمان کیلئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نماز جیسے عظیم الشان اور اہم ترین فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی یا سستی کرے۔
مغفرت کا ذریعہ
اللہ تعالی نے حضرتِ انسان پر بہت بڑا احسان کیا کہ انسان سے سرزد ہونے والے گناہوں کی معافی کیلئے ایسے نیک اعمال کی ترغیب دلائی ہے کہ جس کے کرنے سے انسان کے زندگی بھر کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ درج ذیل سطور میں با جماعت نماز اور گناہوں کی مغفرت کے عنوان پر چند احادیث پیش کی جا رہی ہیں۔
حضرت عثمانؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا ہے: جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر نماز پڑھے، تو اس کے اس نماز سے لے کر دوسری نماز پڑھنے تک کے دوران ہونے والے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔(صحیح مسلم: 227)۔ حضرت ابو امامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول !میں حد (سزا)کا مرتکب ہوگیا ہوں۔ مجھ پر حد قائم فرمائیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو نے آتے وقت وضو کیا تھا؟ اس نے کہا: جی ہاں!آپﷺ نے فرمایا: کیا تو نے ہمارے ساتھ مل کر نماز پڑھی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں!آپ ﷺ نے فرمایا: جائو اللہ نے تجھے معاف کر دیا ہے (صحیح مسلم: 2765)۔
حضرت ابو موسی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: نماز میں ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا وہ شخص ہوتا ہے، جو (مسجد میں نماز کیلئے)زیادہ دور سے آئے اور جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اور پھر امام کے ساتھ پڑھتا ہے اس شخص سے اجر میں بڑھ کر ہے جو(پہلے ہی)پڑھ کر سو جائے۔(بخاری: 651، مسلم: 662)