ایک کہانی شیخ سعدی ؒ کی

پیارے بچو! آپ نے حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ کا نام تو ضرور سنا ہوگا۔ یہ بھی سنا ہوگا کہ ان کی دوبڑی مشہور کتابیں ہیں’’ گلستاں‘‘ اور ’’بوستان‘‘۔ جب بابا سائیں مدرسے میں پڑھتے تھے نا اس وقت مدرسے کے ایک مولوی صاحب ’’گلستان‘‘ کی کہانیاں سناتے تھے، صرف سناتے ہی نہ تھے بلکہ کہانی میں پوشیدہ مفہوم بھی سمجھا دیتے تھے۔
مولوی صاحب، بچوں کو تعلیم دینا جانتے تھے، ان کا نام مولوی منظور تھا، انہوں نے مدرسے میں جوکہانیاں سنائی تھیں۔ ان میں چند کہانیاں بابا سائیں کو اب تک یاد ہیں۔ ان ہی کہانیوں میں ایک کہانی آج تمہیں سنا رہا ہوں۔
ایک بادشاہ تھا۔ اسے کسی شخص پر کسی بات کی وجہ سے بڑا غصہ آ گیا، اس زمانے میں بادشاہ لوگ غصے میں آ جاتے تھے تو قتل کرنے کا حکم بھی دے دیتے تھے۔ یہ بادشاہ بھی جلال میں آ گیا اور اس شخص کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔
دربار سناٹے میں آ گیا، کچھ درباری دل ہی دل میں سوچنے لگے ایسی کوئی بڑی خطا تو تھی نہیں، بادشاہ نے غصے میں خواہ مخواہ موت کی سزا دے دی۔
دربار میں کھسر پھسر ہونے لگی تو بادشاہ نے اپنے بڑے وزیر سے دریافت کیا’’کیقباد معاملہ کیا ہے تم لوگ یہ کیا کھسر پھسر کر رہے ہوں‘‘؟
کیقباد کچھ عرض کرنا ہی چاہتا تھا کہ ملزم کی آواز گونجی، وہ بادشاہ کو بہت بُرا کہہ رہا تھا، گالیاں دے رہا تھا، چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا’’ اے بادشاہ تو بہت جلد برباد ہو جائے گا، کوئی دوسرا بادشاہ تیرے ملک پر حملہ کرکے تجھے قتل کر دے گا۔ تو ذلیل ہے، ناانصافی کرتا ہے‘‘۔
چونکہ ملزم کی زبان بادشاہ کی زبان سے مختلف تھی اس لئے بادشاہ سمجھ نہ سکا وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس نے پھر اپنے بڑے وزیر کیقباد سے دریافت کیا’’ ملزم کیوں چیخ رہا ہے کیا کہہ رہا ہے‘‘۔ کیقباد آ گے بڑھا، جھک کر سلام کیا کہا ’’اے سلطان عالم، ملزم یہ کہہ رہا ہے کہ میں اللہ کے قریب ہوں، اللہ میرے قریب ہے اللہ کہہ رہا ہے بادشاہ بہت نیک، انتہائی شریف اور انصاف پسند ہے، اللہ کہہ رہا ہے میں اس شخص پر مہربان ہو جاتا ہوں جو اپنے غصے پر قابو پا لیتا ہے اپنے غصے سے کسی کا نقصان نہیں کرتا، جو صرف انسان ہی پر نہیں کیڑے مکوڑوں اور جانوروں پر بھی مہربان ہوتا ہے، جہاں پناہ! یہ تو بڑی اچھی باتیں کر رہا تھا‘‘۔
بڑے وزیر کیقباد کی بات ختم ہوئی تو دربار کے دوسرے وزیر نے آ گے بڑھ کر کہا ’’ جہاں پناہ! چونکہ آپ اور دوسرے سب درباری اس ملزم کی زبان نہیں سمجھتے اس لئے اس کی باتیں سمجھ میں نہیں آئیں۔ یہ شخص تو آپ کو برُا بھلا کہہ رہا تھا آپ کو کوس رہا تھا، کہہ رہا تھا اللہ آپ پر عتاب نازل کرے گا ایک دوسرا بادشاہ آپ کے ملک پر حملہ کرے گا اور آپ کو قتل کر دے گا۔ بڑے وزیر کیقباد نے جو کچھ کہا ہے غلط ہے میں ملزم کی زبان سمجھتا ہوں عالم پناہ‘‘۔
بادشاہ نے سوچا قتل کے حکم سے یہ شخص بے چین ہے جانتا ہے مارا جائے گا۔ ایسی صورت میں جو چاہو کہہ لو جس طرح چاہے کہہ لو، اب رکھا کیا ہے اب تو مر جانا ہے، ظاہر ہے وہ میرے حکم سے غصے میں آ گیا ہے، یہ فطری بات ہے‘‘۔ یہ سوچ کر بادشاہ نے کہا ’’ مجھے کیقباد کی بات پسند آئی۔ میں نے غصے میں آکر قتل کر دینے کا حکم دیا تھا۔ یہ انسان کا قتل ہوتا اور صرف میرے غصے کی وجہ سے ہوتا، وزیر کیقباد کی باتیں سن کر میرا غصہ ختم ہو گیا، میری ناراضگی دور ہو گئی۔ ممکن ہے وزیر کیقباد نے سچ نہ کہا ہو لیکن یہ خوبصورت جھوٹ اس کڑوے سچ سے دل پر زیادہ اثر کر گیا ہے جو میرے دوسرے وزیر نے بیان کیا ہے، میں اب غصے سے دور رہنا چاہتا ہوں۔ جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلہ کرنا نہیں چاہتا، جو شخص اپنے سامنے موت کو دیکھ رہا ہے وہ یقیناً اسی طرح کی باتیں کرے گا کہ جس طرح ملزم نے کی ہیں۔ لہٰذا میں ملزم کو صاف کرتا ہوں اسے آزاد کر دیا جائے۔ ایسے خوبصورت جھوٹ سے وزیر کیقباد نے میری آنکھیں کھول دیں، میرے ذہن کو تبدیل کردیا کچھ انسانیت کا جذبہ پیدا کر دیا، اب کبھی ایسے جذباتی فیصلے نہیں کروں گا‘‘۔