نبی کریم ﷺ سے محبت ایمان کا تقاضا

اللہ تعالیٰ کا لاکھ احسان و ہزار ہا شکر ہے کہ اس نے اس اُمت میں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا اور اپنی عظیم کتاب قرآن مجید آپﷺ پر نازل فرمائی۔ آپ ﷺ کے ذریعے ہدایت کا نور پوری دنیا میں پھیلا۔ آپ ﷺ نے جہاں دین متین کی زبانی تعلیم دی، وہاں اس کی عملی شکل بھی اپنے اعمال مبارکہ سے بیان فرما دی۔
یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی زندگی کو قرآنی نمونہ قرار دیا گیا۔ دین اسلام کی تعلیمات پر ایمان اور اس کے تقاضوں پر عمل چونکہ آپﷺ کے بغیر ممکن ہی نہیں، اس لیے کلمہ شہادت میں جہاں اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے کا اقرار ضروری ہے وہاں رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو ماننا بھی لازم ہے۔
حضرت ثمامہ بن اثالؓ اسلام لانے سے قبل جب گرفتار ہو کر آئے تو انہیں مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ کچھ دن انہوں نے آنحضرتﷺ کے اخلاق کریمہ اور مشفقانہ سلوک کا بغور مشاہدہ کیا۔ جب آپ ﷺ کے حکم پر انہیں رہا کیا گیا تو انہوں نے بقیع کی ایک جانب کھجوروں کے ایک باغ میں غسل کیا اور پھر خدمت نبوی میں حاضر ہو کر کلمہ شہادت پڑھا اور حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے۔ (سنن ابی داؤد، باب فی الأسیر یوثق، حدیث نمبر 2681)
آپ ﷺ کی رسالت کو تسلیم کیے بغیر ایمان قابلِ قبول ہی نہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آنحضرت ﷺ پر ایمان اس وقت تک کامل ہو ہی نہیں سکتا جب تک آپ ﷺ کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی محبت نہ ہو۔ اگر دل محبت نبوی سے خالی ہے تو آپ ﷺ پر ایمان کا دعویٰ محض زبانی دعویٰ ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اس بات پر عذاب کی وعید سنائی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ سے اپنے ماں باپ، اولاد، رشتہ داروں، تجارت اور مال و دولت وغیرہ سے زیادہ محبت کرے۔
مفہوم آیت: ’’(اے پیغمبر! مسلمانوں سے) فرما دیں کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے نقصان کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دے‘‘ (سورۃ التوبۃ: 2)
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘(صحیح بخاری)۔
نبی کریم ﷺ سے محبت کے کچھ تقاضے ہیں۔ ان تقاضوں پر پورا ااترنا اور اس کیلئے پوری کوشش کرنا ہی عشق و محبت کی حقیقی علامت ہے۔آنحضرت ﷺ سے محبت کا حقیقی اور اہم تقاضا اطاعتِ رسولؐ ہے، یعنی آپ ﷺ کے ارشادات پر عمل کیا جائے۔ آپﷺ نے جن باتوں کے کرنے کا حکم فرمایا ہے ان پر عمل کیا جائے اور جن کاموں سے روکا ہے ان سے یکسر اجتناب کیا جائے۔ ارشاد ربانی ہے ’’(اے پیغمبر!) آپﷺ فرما دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ بہت معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے‘‘(سورہ آل عمران: 31)۔ یعنی اطاعتِ رسول کے بغیر محبتِ الہیہ کا دعویٰ بھی بے حقیقت ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت کا ہر شخص جنت میں داخل ہو گا، سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! وہ کون شخص ہے جس نے (جنت میں جانے سے) انکا ر کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا‘‘(صحیح البخاری)۔حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے‘‘(مشکوٰۃ المصابیح: 167)۔ حضرت عابس بن ربیعہؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا: میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے، نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔(صحیح بخاری)
اطاعت گزاروں پر انعامات
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اے پیغمبر! آپﷺ فرما دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری باتوں پر عمل کرو، خود اللہ تم سے محبت فرمائے گا، مزید یہ کہ وہ تمہارے گناہوں کو معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بہت مہربان ہے‘‘(سورہ آل عمران:31)۔ اس آیت مبارکہ میں دو انعامات کا تذکرہ موجود ہے۔ پہلا اللہ رب العزت کی محبت کا ملنا جو کہ تمام انعامات میں سے سب سے بڑا انعام اور مقصد حقیقی ہے۔ جس خوش نصیب کو یہ انعام مل جائے اسے اور کسی چیز کی ضرورت ہی کہاں رہتی ہے؟۔ دوسرا انعام گناہوں کی بخشش کرنے کی صورت میں عطا فرمایا ہے کہ تمہاری زندگی میں جو گناہ ہو گئے ہیں ان کا تقاضا تو یہی تھا کہ تمہیں اس کی سزا دیتا لیکن تم نے میرے رسولؐ کی اطاعت کر کے مجھے خوش کیا ہے اس لیے میں تمہارے گناہوں کو بھی معاف کر تا ہوں۔
دوسری جگہ آتا ہے ’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘(سورۃ آل عمران: 132)۔ اس آیت مبارکہ میں اطاعت پر ملنے والا انعام یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا میں خدا تعالیٰ کی ناراضی کی وجہ سے ہمارے اوپر مصائب و مشکلات آتے ہیں۔ اسی طرح آخرت میں بھی اسے ہی عذاب ہو گا جس سے اللہ ناراض ہوں گے۔
مفہوم آیت: ’’یہ اللہ کی قائم کردہ حدود ہیں اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جس میں نہریں بہتی ہوں اور یہ ہمیشہ ہمیشہ اسی جنت میں رہیں گے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے‘‘ (سورۃ النساء:13)۔ اس آیت مبارکہ میں اطاعت پر ملنے والا انعام یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایسی جنت عطاء فرمائیں گے جس میں نہریں بہتی ہوں اور اسے ہی بڑی کامیابی قرار دیا گیا ہے۔
اطاعت سے منہ موڑنے کی سزا
مفہوم آیت: ’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اللہ کی قائم کردہ حدود سے آگے بڑھے گا تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو آگ میں ڈال دیں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب ہو گا‘‘(سورۃ النساء: 14)
مفہوم آیات: ’’بے شک اللہ رب العزت اپنے دین کے نہ ماننے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں اور ان کو سزا دینے کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اور وہاں ان کا کوئی یار و مددگار نہیں ہوگا، اس دن منہ کے بل وہ آگ میں ڈالے جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ اے کاش کہ ہم اللہ اور اور کے رسول ﷺکی اطاعت کر لیتے‘‘(سورۃ الاحزاب: 66،65،64)۔ ان آیات مبارکہ میں اطاعت سے روگردانی کرنے والوں کے لیے اللہ کی لعنت، ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم اور آخرت میں اپنی بدبختی پر حسرت کا تذکرہ ہے۔
اطاعت اس وقت ہوتی ہے جب دل میں اس کے بارے احترام اور محبت کے جذبات ہوں۔ بحیثیت مسلمان ہم رسول اکرم ﷺ سے محبت کرتے ہیں، بلکہ اپنے والدین، اولاد اور ساری مخلوق سے زیادہ محبت کرتے ہیں، یہی محبت ہمارا ایمان ہے، اسی محبت پر شفاعت کی امیدیں وابستہ ہیں، یہی محبت ہی ہمارے کل دین کی اساس و بنیاد ہے۔ ہم آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین اور آپﷺ کی دی ہوئی تعلیمات کے مطابق ساری زندگی گزارنے کا فیصلہ کریں گے تو ہمارا دعویٰ محبت سچا ثابت ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات کا علم حاصل کرنا ہوگا کیونکہ بغیر علم کے یہ ممکن نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہماری زندگیوں میں اسلامی تعلیمات کس قدر ضروری ہیں۔ علم کے بعد عملاً ایسے طرز پر زندگی گزارنی چاہیے جو سنت رسول کی عکاس ہو، خیر کی باتیں بھی معلوم ہوں تاکہ ان پر عمل کیا جاسکے اور شر کی باتیں بھی معلوم ہوں تاکہ ان سے بچا جا سکے۔ آپ ﷺکی محبت جب تک تمام محبتوں پر غالب رہے گی، آپ ﷺکی سنت جب تک تمام معاشرتی طور طریقوں پر غالب رہے گی، آپﷺ کی تعلیمات جب تک تمام تعلیمات پر غالب رہیں گی اور سب سے بڑھ کر آپ ﷺکی ناموس کی حفاظت کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ جب تک دلوں میں باقی رہے گا ،ہم اور ہماری نسلوں کا ایمان باقی رہے گا۔ ورنہ خاکم بدہن اس میں کمی آ گئی تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین