پاکستانی معاشرہ میں اتحاد کی ضرورت!

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


’’تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو‘‘( آل عمران) ’’یقینامومن آپس میں مضبوط بنیاد کی طرح ہیں،وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑکرمضبوط ہوتے ہیں‘‘(صحیح بخاری)اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ (متفرق اور کمزور ہو کر) بزدل ہو جاؤ گے اور (دشمنوں کے سامنے) تمہاری ہوا (یعنی قوت) اکھڑ جائے گی(الانفال)

اسلام دین فطرت ہے اورفطری چیز زمانے کے بدلنے سے بدلا نہیں کرتی ،بلکہ وہ ہمیشہ رہتی ہے۔ اسلام فطرتِ انسانی الفت ومحبت کا نام ہے۔ اسلام کی دعوت وتعلیم کامقصدبھی یہی ہے کہ انسان منظم، فعال ومتحرک اورمتحد ہوکر اس کی اقامت و اشاعت کا فریضہ انجام دے۔ اس لئے یہ ہمیشہ اتحاد کی طرف بلاتا ہے۔حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:تم مومنوں کوآپس میں ایک دوسرے ساتھ رحمت و محبت کامعاملہ کرنے اورایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اورنرم دلی میں ایک جسم جیسا پاؤ گے، جب اس جسم کا کوئی حصہ بھی تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف میں ہوتاہے اوراس کی ساری رات بیداری اور بخار میں گزرتی ہے۔(صحیح بخاری: 6011)۔حضرت ابو موسیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: یقیناً مومن آپس میں مضبوط بنیاد کی طرح ہیں،وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر مضبوط ہوتے ہیں اور نبی کریمﷺ نے اپنی انگلیوں کوانگلیوں میں ڈالا (صحیح بخاری: 481)۔

 مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے میں ایک بنیادکی طرح ہیں ،یعنی مسلمانوں کوایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑکررہناچاہیے جس طرح ایک دیوارکی اینٹیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔اسی طرح ایک مسلمان، دوسرے مسلمان سے مل کر ہی سیسہ پلائی دیوار بنتا ہے۔ اگر ایک مومن دوسرے مومن کو اپنی قوت نہ سمجھے اور اسے ضائع ہونے کیلئے چھوڑ دے تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ خود اپنی کمزوری کا سامان کر رہا ہے۔

حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں،اگراس کی آنکھ میں تکلیف ہوتوسارے جسم میں تکلیف ہوتی ہے اوراگراس کے سرمیں تکلیف ہوتواس کے سارے جسم میں تکلیف ہوتی ہے(صحیح مسلم:2586)۔ انسانی اعضاء کی جسم کیلئے اہمیت و ا فادیت آشکارہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اپناکام صحیح طریقہ سے نہ کرپائے تو انسانی وجودبمع معاشرتی زندگی کس قدرمجبور اور بے بس ہو جاتا ہے۔اگرچہ انسانی وجودکے ساتھ تعلق رکھنے والے ہرعضوکااپناالگ الگ کام ہے پھربھی ان میں کامل ہم آہنگی اوراتحادپایاجاتاہے۔ اگروجودکایہ باہمی اتحاد نہ ہوتاتو انسانی زندگی کا تصور محال تھا، مثلاً دانت میں درد ہو تو درد کیلئے پائوں چل کر جاتے ہیں،آنکھیں آنسو بہاتی ہے، زبان اسے بیان کرتی ہے ،دل و دماغ اسے محسوس کرتے ہیں،ہاتھ دوا پلا نے میں مددگار ہوتے ہیں۔ اگر ان اعضا ء میں یہ مقابلہ آرائی شروع ہو جا ئے کہ کون قیمتی،کون اعلیٰ وافضل،اس کوتکلیف ہے مجھے نہیں، توواضح  بات ہے کہ پورے جسم میں خرابی اوربے چینی کاعنصرپیداہوجائے گا۔

باہمی محبت اوراتحاد امت

باہمی محبت سے اتحاداوریکجہتی کی فضاقائم کی جاسکتی ہے۔حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا : اے لوگو! سنو، سمجھو اور معلوم کر لو کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہدا لیکن نبی اور شہید ان کے مراتب اور اللہ کے ہاں تقرب کو دیکھ کر رشک کریں گے۔ ایک بدوی نے اللہ کے رسولﷺ کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا : یا رسول اللہﷺ! جو لوگ نہ نبی ہوں اور نہ شہید لیکن انبیاء اور شہدا ان کی مسند اور اللہ کے تقرب کو دیکھ کر رشک کریں گے، ان کی خوبی اور ان کا حلیہ ہمارے سامنے بیان فرما دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا : یہ لوگ وہ ہیں جو مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی آپس میں کوئی رشتہ داری نہیں ہے، لیکن وہ اللہ کیلئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے خیرخواہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کیلئے قیامت کے دن نور کے منبر لگائے گا، وہ ان پر بیٹھیں گے اور ان کے چہرے اور کپڑے پُر نور بنا دے گا، (باقی) لوگ گھبرائیں گے (لیکن) یہ نہیں گھبرائیں گے۔ یہی اولیاء اللہ ہیں جنہیں نہ کوئی خوف ہو گا نہ غم (مسنداحمد: 22957)۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:جنت میں یاقوت کے ستون ہیں، ان پر زبرجد کے بالاخانے ہیں ، وہ ایسے روشن ہیں جیسے چمکدار ستارے۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسول اللہﷺ!ان میں کون رہے گا؟ فرمایا: ’’وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کیلئے آپس میں محبت رکھتے ہیں ، ایک جگہ بیٹھتے ہیں، آپس میں ملتے ہیں۔(شعب الایمان: 9002)

نبی کریمﷺ کی واضح تعلیمات میں سے یہ  ہے کہ بھائی بھائی بن کر رہو۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچاؤ، ایک دوسرے سے بغض وکینہ نہ رکھا کرو، آپس میں بے تعلق اور منہ پھیر کر نہ رہو، سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہو بھائی بھائی بن کر رہو اور مسلمان اپنے بھائی پرظلم نہیں کرتا ، نہ اسے ذلیل وحقیرسمجھتا ہے اور نہ اسے بے سہارا چھوڑتا ہے، دیکھو! تقویٰ کی جگہ یہ ہے ، آپﷺنے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کر کے تین بار یہ بات فرمائی۔ پھر فرمایا: ’’آدمی کے برا ہونے کیلئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، مسلمان کا خون ، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ (صحیح ترمذی:1927)

اخوت اسلامی اور اتحاد امت

ایمانی بھائی چارہ کیلئے سرحدیں رکاوٹ نہیں بنتیں۔نبی کریمﷺنے تمام مسلمانوں کو ایک متحدہ اُمت بنایاجوایک دوسرے کے ساتھ جڑکرمضبوط اور طاقتور بنتے ہیں۔ ایمانی بھاری چارہ کوقائم رکھنے کی اہمیت نمازاورروزہ سے بھی بڑھ کرہے۔ حضرت ابودرداؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو روزوں اور صدقہ وخیرات اور نماز سے بھی افضل ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں، آپﷺ نے فرمایا: وہ عمل باہمی تعلقات کی اصلاح ہے، تعلقات کا فساد صفایا کردینے والی چیز ہے (جامع ترمذی :2509)۔ نبی محتشمﷺنے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی درستگی کو بنیادی ارکان اسلام سے بھی افضل قرار دیا اور وجہ یہ بیان کی کہ باہمی بگاڑ و اختلاف، پورے دین کو اکھاڑ دینے والی چیز ہے۔ آپس کی نفرت و عداوت اور بغض وکینہ دین  پر غالب آکر مسلم اُمت کی ایک ایک چیز پر قبضہ جما لیتی ہے اور ان کے اتحادکوپارہ پارہ کردیتی ہے۔

علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:مسلمان کو دنیاوی امور ، اغراض باطلہ ، بغض ، حسد اور عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے اختلاف نہ رکھنا چاہیے اور تفرقہ میں نہیں بٹناچاہیے۔مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ جب بھی مسلمان تفرقہ کا شکار ہوئے عنان حکومت ان کے ہاتھ سے جاتی رہی۔ یا تو وہ صفحہ ہستی سے مٹادیئے گئے یا غیر قوموں کے محکوم اور غلام بن گئے۔ اندلس میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی لیکن آپس کی تفرقہ کی وجہ سے عیسائیوں نے پورے سپین پر قبضہ کرلیا۔ بغداد میں اسی تفرقہ بازی اور شیعہ سنی اختلاف کی وجہ سے مسلمان کمزور ہوئے اور ہلاکو کے ہاتھوں مسلمانوں کی ذلت کی ایک  تاریخ لکھی گئی۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے کئی صدیوں تک حکومت کی لیکن جب مسلمان طوائف الملوکی کا شکار ہوئے تو انگریزوں کی غلامی ان کا مقدر بن گئی (تبیان القرآن، ج2، ص292 )۔

باہمی اتحاد اورقرآن مجید

ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پرتھے، پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ(آل عمران: 103)۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متحد ہونے کا حکم دیا اور وہ مستحکم بنیاد مقرر فرمائی جس سے محکم تر کوئی اور بنیاد نہیں ہو سکتی۔ قرآن کریم پر عمل کرنے کیلئے اس کا صحیح سمجھنا ضروری ہے۔علامہ قرطبی نے فرمایا:  اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اعتقادا اور عملاً کتاب وسنت کی رسی مضبوطی سے پکڑ لیں۔ ہمارے اتحاد کا صرف یہی سبب ہے اور صرف اسی طرح اتفاق و اتحاد کی نعمت میسر آسکتی ہے۔ جس سے ہمارے حالات سنور سکتے ہیں۔(ضیاء القرآن، ج1، ص 709)

اتحادِ امت اور موجودہ دور کا تناظر

آج پاکستانی معاشرے میں اتحادِ امت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ فرقہ واریت، لسانیت، سیاسی تقسیم، اور مفاد پرستی نے اُمت کے چہرے پر بدنما داغ لگا دیے ہیں۔ ہر طبقہ اپنے گروہی مفاد کو اسلام کے اجتماعی مفاد پر ترجیح دے رہا ہے۔ نتیجتاً ہم بطورِ امت کمزور اور غیر مستحکم ہو چکے ہیں۔قرآنِ کریم ہمیں متنبہ کرتا ہے: ’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ،ورنہ (متفرق اور کمزور ہو کر) بزدل ہو جاؤ گے اور (دشمنوں کے سامنے) تمہاری ہوا (یعنی قوت) اکھڑ جائے گی‘‘(الانفال:46)۔یہی وہ آیت ہے جو آج کے حالات پر صادق آتی ہے۔ پاکستان کا معاشرتی ڈھانچہ اسی وقت مضبوط ہوسکتا ہے جب اس میں دینی و قومی وحدت، مسلکی رواداری، سماجی انصاف اور تعلیمی شعور کی فضا قائم ہو۔

علماء، دانشور، تعلیمی ادارے اور ذرائع ابلاغ  سب کو اتحاد و ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مدارس و جامعات کے مابین علمی تعاون، مساجد کے ذریعے فکری بیداری اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے محبت، برداشت اور خیر خواہی کا پیغام پھیلانا یہی قومی بقا کا راز ہے۔

مذکورہ بالاآیات واحادیث اورتصریحات آئمہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ دنیابھرکے مسلمانوں کو آپسی معاملات باہمی اتحاد و یگانگت سے حل کرنے چاہیے اوردشمن  کا مقابلہ بھی امت کے اتحادسے ہی کیا جا سکتا ہے۔

اتحادامت کے ثمرات

اُمت کے باہمی اتحادسے حسب ذیل فوائدوثمرات حاصل ہوتے ہیں۔

متحدہ قومیں مضبوط ہوتی ہیں:جن قوموں میں اتحاد ہوتا ہے ، وہ مضبوط ہوتی ہیں۔اتحاد کی بنا پرکسی بھی ملک کو دیگرممالک کے مابین تصادم سے بچایا جا سکتا ہے۔

مشترکہ مسائل کا حل: اُمت کاباہمی اتحاد مشترکہ مسائل کا حل کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔مثلاً اگر کئی ممالک مشترکہ امن اور ترقی کیلئے مل کر کام کریں تو یہ امکان ہوتا ہے کہ وہ  مختلف مسائل جیسے تعلیم، صحت اور تجارت کو بہتری سے حل کر سکتے ہیں۔

تاریخی اور ثقافتی وابستگی: اتحاد اُمت تاریخی اور ثقافتی وابستگیوں کو بھی مضبوط بناتا ہے۔ایسا اتحاد طویل مدت تک امتوں کے درمیان دوستی اور تعلقات کو بڑھا سکتا ہے۔

اقتصادی ترقی: اگر اُمت متحد ہوتی ہے تو اس کا باہمی اتحاد اقتصادی تعاون کوبڑھاتا ہے۔ مختلف ممالک کے درمیان تجارت اور تعاون سے امت کو اقتصادی بنیادیں ملتی ہیں۔

ریاستی استحکام: اتحاد امت ریاستی استحکام کو بڑھا سکتا ہے اور ملکی ترقی میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ 

سماجی اور علمی تبادلہ: سماجی ہم آہنگی اورباہم فکری ونظری تبادلہ اُمت کے اتحادکوترقی کی بنیادیں فراہم کرتاہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔