شکیب جلالی جدید غزل کا سرمایہ،اردو کا کیٹس

تحریر : ڈاکٹر وزیر آغا


شکیب کے بارے میں تنقید نگاروں نے خوب کہا کہ شکیب جدید غزل کا امام ہے‘ کسی نے کہا اردو غزل کی امیدگاہ ہے، کسی نے کہا کہ شکیب کو سو سال کے بعد دریافت کیا جائے گا جیسے غالب کو کیا گیا

مختصر سوانح

اردو غزل کا نیا رخ متعین کرنے والے بے نظیر و بے مثال شاعر شکیب جلالی کا خاندانی نام سید حسن رضوی تھا۔ یکم اکتوبر 1934 ء کواتر پردیش کے قصبے بدایوں میں پیدا ہوئے۔

 دس یا گیارہ سال کے تھے کہ ان کی والدہ ریل گاڑی کے ایک متنازع حادثہ کا شکار ہوکر انتقال کر گئیں۔ تقسیم کے بعد 1948ء میںراولپنڈی اپنی ننھیال کی طرف ہجرت کی۔ راولپنڈی سے انٹر کا امتحان پاس کیا۔ 1952ء میں ان کی ادارت میں ماہنامہ ’’گونج‘‘ جاری ہوا۔ 1953ء میں ملازمت کے سلسلے میں سیالکوٹ منتقل ہوئے جہاںسے ماہنامہ ’’عجیب‘‘ نکالنے کی  کوشش کی۔ 1955ء میں لاہور سے ہفت روزہ ’’وحدت‘‘ اور پھر ’’شاہکار‘‘کی ادارت کی جو بعد میں ’’جاوید‘‘ کے نام سے شائع ہوتا رہا۔جنوری 1956ء میں والدہ کی پسند، بچپن کی منگیتر اور خالہ زاد سیدہ محدثہ خاتون سے کراچی میں شادی ہوئی۔ شکیب کے لاہور میں قیام کے دوران ان کی ملاقاتیں احمد ندیم قاسمی، سیف زلفی اور احسان دانش سے رہیں۔ 1958ء میں محکمہ تعلقات عامہ میں نائب ترجمان مقرر ہوئے۔ 1959ء میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں پبلسٹی اسسٹنٹ کے طور پر مقرر ہوئے اور جوہر آباد منتقل ہوگئے۔ یہاں سے ماہانہ ’’آبادکار‘‘ نکالا اور ادبی تنظیم بزم جوہر کا قیام عمل میں لائے۔اگست 1963ء میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا صدر دفتر جوہر آباد سے بھکرمنتقل ہوگیا تو شکیب کو بھی بھکر منتقل ہونا پڑا جہاں وہ جولائی 1966ء تک رہے۔بھکرہی میں تھے کہ نفسیاتی عارضوں کا شکار ہونے لگے۔حالت زیادہ بگڑی توان کی اہلیہ انہیں لے کر اپنی نندوں کی سسرال سرگودھا چلی آئیں۔ سرگودھا میں علاج کے وسائل سے ناامیدی پر شکیب کو لاہور بھیجا گیا جہاں احمد ندیم قاسمی کے مشورے سے شکیب کو ذہنی امراض کے ہسپتال میں داخل کروایا۔

کم و بیش ایک ماہ کے علاج کے بعد شکیب کو ذہنی صحت کا سرٹیفکیٹ دے کر ڈسچارج کردیا گیا اور چند دن لاہور رہنے کے بعد 9 یا 10 نومبر 1966ء کو سرگودھا چلے گئے۔12 نومبر 1966ء کو شکیب کا خاندان اپنے سرپرست سے اور اردو ادب ایک ہمہ جہت جینئس ادیب، صحافی، مترجم  اور عظیم شاعر سے محروم ہوگیا۔ شکیب کے بارے میں تنقید نگاروں نے خوب کہا کہ شکیب جدید غزل کا امام ہے، کسی نے کہا اردو غزل کی امیدگاہ ہے، کسی نے کہا شکیب اردو کا کیٹس ہے، کسی نے کہا کہ شکیب کو سو سال کے بعد دریافت کیا جائے گا جیسے غالب کو کیا گیا۔شکیب کے انتقال کے 8 برس بعد اُن کے کلام کا انتخاب ’’روشنی اے روشنی‘‘ 1974ء میں شائع ہوا۔ ’’کلیات شکیب جلالی‘‘ 2004ء میں ان کے بیٹے اقدس رضوی نے شائع کی جس کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ 

جب شکیب فوت ہوا تو پاک و ہند کی ساری ادیب برادری نے ایک طویل سوگ منایا مگر پھرآہستہ آہستہ جب زخم مندمل ہوتا چلا گیا اور مکروہاتِ دنیا نے لوگوں کو زنجیروں میں جکڑ لیا تو شکیب کی یاد بھی دلوں سے محو ہوتی چلی گئی۔ چنانچہ ایک طویل عرصہ تک کسی بڑے شہر میں شکیب کی یاد میں کوئی جلسہ منعقد نہیں ہوابلکہ وہ لوگ بھی جنہوں نے آغاز میں شکیب سے گہری محبت اور تعلقِ خاطر کا بر ملا اظہار کیا تھا اپنے ساتھ شامیں منانے اور اپنے نام کو اچھالنے کی تگ و دو میں اس قدر کھو گئے کہ انہیں شکیب کا نام تک یاد نہ رہا۔ مگرسرگودھا نے شکیب کو فراموش نہیں کیا۔ فراموش کر بھی کیسے سکتا تھا، جب کسی ماں کا بیٹا مرتا ہے تو ہمدردی کرنے والوں کا شمار نہیں ہوتا، مگر آخر آخر میں بیٹے کی یاد ماں ہی کے دل میں رہ جاتی ہے۔ سر گو دھا اگر اپنے لختِ جگر کی یاد میں نوحہ کناں ہے تو اس لیے نہیں کہ دوسروں کو اپناز خم دکھائے بلکہ صرف اس لیے کہ زخم ابھی تک ہرا ہے اور یاد کا کچوکا لگتے ہی رہنے لگتا ہے۔

کون نہیں جانتا کہ شکیب نے اپنی ادبی زندگی کا ایک بڑا عرصہ ضلع سرگودھا میں بسر کیا اور اس دوران مجھے اُس کی شخصیت کا مطالعہ کرنے اور اْس کے ذہنی جز رو مد کو قریب سے دیکھنے کے مواقع اکثر ملتے رہتے تھے۔ میں آج شکیب سے اپنی اُس ملاقات کا ذکر نہیں کروں گا جو سالوں پر پھیلی ہوئی ہے میں تو صرف اْس کی زندگی کے چند اُن دنوں کا احوال بیان کروں گا جو اُس نے سرگودھا میں گزارے۔جہاں تک میرا خیال ہے شکیب کی زندگی کا سب سے خطر ناک دور وہ ہے جب وہ لا ہور میں ذہنی امراض کے ہسپتال سے فارغ ہو کر سر گودھا پہنچا۔ جب وہ میرے پاس آیا تو تا دیر میرے کتب خانے میں بیٹھارہا۔ اس کے ہونٹ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایک ایسے حزیں سے تبسم میں بھیگ جاتے تھے جس کا تجزیہ کرنے سے میں قاصر ہوں۔ اس کی مسکراہٹ میں کرخت آمیز مسرت، دیوانگی اور بے نیازی سب کچھ تھا ۔وہ مجھ سے بار بار موت کے بارے میں پوچھتا۔کبھی کہتا کہ موت کے بعد کی زندگی پر  تو آپ کا ایمان ہے موت کے بعد انسان کہاں چلا جاتا ہے؟ بتا ئیے کبھی کسی بد روح نے آپ کا پیچھا کیا ہے۔ جب اُس نے یہ سوال کیا تومجھے خیال آیا کہ میں شکیب سے پوچھوں کہ اس کا ارادہ خود کشی کا تو نہیں لیکن میں نے اس خیال کو بھی لفظوںمیں منتقل نہ ہونے دیا کیونکہ مجھے یہ خدشہ تھا کہ خود کشی کے الفاظ کہیں شکیب کے لیے تجسس ہی نہ بن جائیں۔اگر میں شکیب سے یہ سوال پوچھ لیتا تو میرے دل میں ایک چبھن ہمیشہ موجود رہتی کہ اس کی خودکشی میں میرابھی حصہ ہے۔ بہر حال اس قسم کے سوالات کرتے کرتے شکیب نے اچانک اپنی جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکال کر میرے سامنے رکھ دیا اور ایک مجروح سی ہنسی کے ساتھ کہا ’’یہ میری زندگی کا حاصل ہے، میں نے دیکھاتو ذہنی امراض کے ہسپتال کا سر ٹیفکیٹ تھا جس میں لکھا تھا کہ مریض صحت یاب ہو کر واپس جا رہا ہے بولا: گویااب میرے اعمال نامہ میں یہ بات درج ہے کہ میں اتنا عرصہ پاگل خانے میں رہا‘‘۔اس روز کے بعد وہ ہر روز میرے پاس آتا اور گھنٹوں میرے پاس بیٹھا رہتا۔ کبھی تو مسلسل مہربلب بیٹھا خلا کو گھورے چلا جاتا جیسے قوتِ گویائی سے محروم ہے اور کبھی لگا تار با تیں کرتا اور ہنس ہنس کر بے حال ہو جاتا۔ پھراپنے شعری مجموعہ کا ذکر چھیڑ لیتا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ اس کی شاعری اردو ادب میں بالکل ایک نئی آواز ہے تو حیرت زدہ ہو کر مجھ سے پوچھتا کہ کیا واقعی ؟

ایک روز اُس نے اپنی ایک تازہ غزل بھی سنائی جو میں نے بعد ازاں ’’اوراق‘‘ میں بھی شائع کی۔ پھرایک شام وہ نہ آیا۔دوسرے روز بھی غائب رہا تیسرے روز دو پہر کے قریب کسی اجنبی نے مجھے ٹیلی فون پربتایا کہ شکیب نے خود کوریل کے انجن کے آگے گرا کر خودکشی کر لی ہے۔ جنازہ شام کے قریب اُٹھے گا۔ بعد میںمجھے معلوم ہوا کہ خودکشی کے روز وہ صبح  سویرے اپنے مکان کی بالائی چھت پر چلا گیا تھا اور گھنٹوں لگا تار آنسوبہاتا رہا۔ بیوی نے تشفی دینے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ دو پہر سے قبل اس کی طبیعت سنبھل گئی اور وہ نئے اُجلے کپڑے پہن کر گھر سے نکلا۔ پھر وہ گھر سے بہت دور ریلوے لائن کے پار ایک مکان کے تھڑے پر بیٹھ کرریل کی آمد کا انتظار کرتا رہا۔ جیسے ہی انجن دکھائی دیا تو بے تحاشا اس کی جانب دوڑا اور خود کور یل کے انجن کے سامنے اس طور پھینک دیا کہ اُس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں۔ میں جب اُس کے جنازے میں شامل ہوا توکسمپرسی اور بے بسی کی فضا چھائی ہوئی تھی۔ اُس کے دوست احباب میں سے ایک آدھ کے سوا کوئی بھی وقت پر نہیں پہنچ سکا تھا۔ اہلِ شہر میں سے کم لوگ تھے، صرف چند احباب تھے ،پھر قریبی دینی مدرسے سے کچھ لوگ خاص طور پر جنازہ اٹھانے کے لیے لائے گئے۔ راستے میں شکیب کے ایک بزرگ نے مجھے بتایا کہ جنازہ اُٹھانے میں دیر اس لیے ہوئی کہ شکیب کے کٹے ہوئے اعضا ہسپتال سے بروقت نہ مل سکے۔ میں نے یہ بات سنی تو کانپ اُٹھا۔  آخر شکیب نے خود سے، ہم سے، کائنات سے انتظام لے ہی لیا۔ لیکن یہ کیسا انتقام تھا  جس کے لیے اُس نے ایسی بھیا نک موت پسند کی۔ اُس نے کس پاداش میں اپنے لیے اتنی بڑی سزا تجویزکی ،اس سوال کا جواب شاید  ہمیں کبھی نہ مل سکے۔ شکیب اپنے اشعار میں ایک مدت سے مرنے کی تیاری کر رہاتھا چند اشعار دیکھئے۔

جھکی چٹان ، پھلتی گرفت ، جھولتا جسم

میں اب گرا ہی گرا تنگ و تاریک گھاٹی میں

٭٭٭٭

فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

٭٭٭٭

کیا جانیے کہ اتنی اداسی تھی رات کیوں

مہتاب اپنی قبر کا پتھر لگا مجھے

٭٭٭٭

تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں

آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

شکیب کے کلام میں لہو سے ترکبوتر کا امیج بہت نمایاں ہے جو اس کے لاشعور کا غماز ہے۔ وہ دراصل اپنے اندر کی فاضل آگ میں خود بھسم ہو گیا۔ بعض فنکار موم بتی کی طرح آہستہ آ ہستہ جلتے ہیں۔ بعض چوبِ خشک کی طرح بھڑک کر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ شکیب انہی میں سے ایک تھا، لیکن دیکھئے وہ اپنی مختصرسی زندگی میں کیا کچھ نہیں دے گیا۔ اتنا کچھ کہ بہت سے نئے لکھنے والے اُس کے جلائے ہوئے چراغ سے اپنے اپنے چراغ جلا رہے ہیں۔ ایسی عظیم الشان فتح کسی سچے فنکا رکوہی نصیب ہو سکتی ہے۔

غزل

گلے ملا نہ کبھی چاند، بخت ایسا تھا

ہر بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

ستارے سسکیاں بھرتے تھے، اوس روتی تھی

فسانۂ جگر لخت لخت ایسا تھا

ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے

چٹخ کے ٹوٹ گیا، دل کا سخت ایسا تھا

یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک

کوئی نہ سہ سکے، لہجہ کرخت ایسا تھا

کہاں کہ سیر نہ کی تو سنِ تخیل پر

ہمیں تو یہ بھی سلیماں کے تخت ایسا تھا

ادھر سے گزرا تھا ملکِ سخن کا شہزادہ

کوئی نہ جان سکا، سازو رخت ایسا تھا

……………

آگے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے، پس دیوار گرے

ایسی دہشت تھی فضائوں میں گھلے پانی کی

آنکھ جھپکی بھی نہیں، ہاتھ سے پتوار گرے

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایہ دیوار پر دیوار گرے

تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط

یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ کے بے کار گرے

کیا ہوا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی تھی

کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے

وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے

ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کہ چٹان

ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے، ناچار گرے

دیکھے کیوں ہو شکیب اتنی بلندی کی طرف

نہ اٹھایا کرو سر کو یہ دستار گرے

……………

شفیق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی

یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اُگلنے لگی

اسی لیے تو ہوا رو پڑی درختوں میں

ابھی میں کھل نہ سکا تھا کہ رُت بدلنے لگی

اتر کے نائو سے بھی کب سفر تمام ہوا

زمیں پہ پائوں دھرا تو زمیں چلنے لگی

کسی کا جسم اگر چھو لیا خیال میں بھی

تو پور پور مری، مثلِ شمع جلنے لگی

میں ناپتا چلا قدموں سے اپنے سائے کو

کبھی جو دشتِ مسافت میں دھوپ ڈھلنے لگی

جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا

پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی

جہاں شجر پہ لگا تھا تَبر کا زخم شکیب

وہیں پہ دیکھ لے، کونپل نئی نکلنے لگی

 

………………

منتخب اشعار

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح

دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

………………

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایہ دیوار پہ دیوار گرے

………………

بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے

ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں

………………

کیا کہوں دیدہ تر یہ تو مرا چہرہ ہے

سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے

………………

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

………………

نہ اتنی تیز چلے، سر پھری ہوا سے کہو

شجر پہ ایک ہی پتہ دکھائی دیتا ہے

………………

درخت راہ بتائیں ہلا ہلا کے ہاتھ

کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا کوئی

………………

عالم میں جس کی دھوم تھی، اس شاہکار پر

دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔