فیض احمد فیض: زندگی کی صداقتوں کے نغمہ گر

تحریر : پروفیسر صابر علی


انہوں نے مشرقی اور مغربی ادب کے خزانوں سے استفادہ کیا اوراس کے کتنے ہی رنگ جذب کئے

مختصر سوانح

فیض احمد فیض 13 فروری 1911ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں عربی، فارسی اور اردو کی تعلیم حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے انگلش لٹریچر میں ایم اے کیا۔ کچھ عرصہ ایم او کالج امرتسر میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران برٹش انڈین آرمی میں شامل ہوئے اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچے۔ 1951ء میں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے اور چار سال قید کاٹی۔قیامِ پاکستان کے بعد فیض نے صحافت، ادب اور ثقافت کے بڑے اداروں کی سربراہی کی، جن میں پاکستان ٹائمز، نیشنل کونسل آف دی آرٹس اور لوک وِرثہ شامل ہیں۔1962 ء میں انہیں لینن امن انعام ملا۔لینن انعام ملنے کے بعد فیض کی شہرت ساری دنیا بالخصوص سوویت بلاک کے ممالک تک پھیل گئی۔ 1964ء میں پاکستان واپس آئے اور کراچی میں عبداللہ ہارون کالج کے ڈائریکٹر مقررہوئے۔بعد ازاںبیروت میں ’’لوٹس‘‘میگزین کے مدیر بنے۔ 1982ء میں خرابیٔ صحت اور لبنان جنگ کی وجہ سے فیض پاکستان واپس آ گئے۔ وہ دمہ اور لو بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ 1984ء میں انہیں ادب کے نوبیل انعام کیلئے بھی نامزد کیا گیا تھا لیکن کسی فیصلے سے پہلے ہی 20 نومبر 1984ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔

بقول آل احمد سرور، فیض صاحب ہمارے ایسے شاعر ہیں جنہیں زندگی اور اس کے ہزار شیوہ حسن سے محبت ہے اور اس محبت کی وجہ سے ان کا اور زندگی کا جھگڑا بھی چلا جاتا ہے۔ فیض نے اپنی چنگاری پر اکتفا نہیں اسے ہوائے ریگزار سے دہکایاا اور اس سے ایک شمع کا کام لیا۔ انہوں نے ایک طرف مشرقی اور مغربی ادب کے خزانوں سے فیض اٹھایا اور حسن کاری کے کتنے ہی اسلوب اور عبادت اشارت اور ادا کے کتنے ہی ڈھنگ جذب کئے۔ دوسری طرف انہوں نے ہر مادی خیال کو مستانہ طے کرنے اور جگر کی طرح یہ کہنے پر قناعت نہیں کی۔

فکر منزل ہے نہ ہوش جادۂ منزل مجھے

 جا رہا ہوں جس طرف لے جا رہا ہے دل مجھے

بلکہ آگہی سے عشق کیا اور منزل اور جادۂ منزل کے عرفان کی بھی سعی کی۔ دوسرے الفاظ میں فیض محض وارداتِ قلب کے شاعر نہیں ہیں ان کا کمال یہ ہے کہ زندگی کے ایک سنجیدہ شعور کی توانائی میں واردات قلب کی گرمی اور گداز پیدا کرتے ہیں۔ آئی اے چرڈش (IA Csárdás)کے نزدیک شاعرانہ حقیقت مساوی حقیقت سے الگ اپنا ایک وجود رکھتی ہے۔ اقبال نے یہ ثابت کردیا کہ جب شاعری مادی حقائق سے غذا حاصل کرے تو اس کی توانائی کس وجہ کی ہوتی ہے۔ فیض کے یہاں یہ توانائی حسن بن کر آتی ہے۔ فیض نے زندگی کی صداقتوں سے جو نغمگی حاصل کی وہ جدید شاعری میں اپنی مثال آپ ہے۔

شاعری کی بصیرت کو کون نہیں مانتا۔محض بصیرت کی دعوت میں کشش نہیں ہوتی۔ ہاں مسرت کی تلاش عام ہے جو مسرت کو بصیرت بھی عطا کر دے وہی سچا شاعر ہے۔ فیض کی حسن کاری، اس کی شیرینی اس کی نغمگی ہمیں سلاتی نہیں جھنجھوڑتی بھی نہیں۔ یہ بڑی سادہ و پرکار ہے، یہ چپکے چپکے ایک خاموش عزم عطا کرتی ہے یہ ہمیں زندگی سے محبت کرنا سکھاتی ہے اور اس محبت کو ایک فضیلت اور اس کی خاطر جہاد کو  ایک عبادت سمجھنے کا ولولہ دیتی ہے۔پھر فیض کی لے میں بڑی کشش ہے، اس میں ہماری پرانی شاعری کی رچی ہوئی کیفیت نہیں مگر اپنا  ایک رچائو ہے جس میں انگریزی ادب کے ایک خوشگوار، جدید انسان کے ذہن اور ایشیائی تہذیب کے قابل قدر عناصر کی ایک قوس قزح جلوہ گر ہے۔ فیض صراحت کے نہیں رمز کے شاعر ہیں، مگر اس کے باوجود ان کا ذہن اتنا مرتب اور فنی شعور اس قدر تربیت یافتہ ہے کہ وہ واضح طور پر اپنی بات کہہ دیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ فیض اپنا ایک الگ  اسلوب رکھتے ہیں جس میں کتنے ہی اردو، انگریزی شعرا کی گونج سنائی دیتی ہے مگر آواز ان کی اپنی ہے۔

فیض احمد فیض13فروری 1911ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سلطان محمد خاں تھا جو بیرسٹر تھے اور ایک زمانہ میں افغانستان کی حکومت میں چیف سیکرٹری کے عہدہ پر بھی مامور رہے۔ فیض کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ عربی اور انگریزی میں ایم اے گورنمنٹ کالج  لاہور سے کیا۔ شاعری میں صوفی غلام مصطفی تبسم لاہوری سے استفادہ کیا۔وہ اپنے بارے میں کہتے   ہیں: ’’اپنے بارے میں باتیں کرنے سے مجھے سخت وحشت ہوتی ہے اس لئے کہ سب بور لوگوں کا شغل یہی ہے۔ اس انگریزی لفظ کیلئے معذرت چاہتا ہوں لیکن اب تو ہمارے یہاں اس کے مشتقات بوریت وغیرہ بھی استعمال میں آنے لگے ہیں اس لئے اب اسے اردو روز مرہ  میں شامل سمجھنا چاہئے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے اپنے بارے میں قیل و قال برُی لگتی ہے بلکہ میں توشعر میں بھی حتی الامکان واحد متکلم کا صیغہ استعمال نہیں کرتا۔ اور میں کے بجائے ہمیشہ سے ہم لکھتا آیا ہوں؛ چنانچہ جب ادبی سراغ رساں حضرات مجھ سے یہ پوچھنے بیٹھتے ہیں کہ تم شعر کیوں کہتے ہو؟ کیسے کہتے ہو؟ اور کس لئے کہتے ہو؟ تو بات کے ٹالنے کیلئے جو دل میں آئے کہہ دیتا ہوں مثلاً یہ کہ بھئی میں جیسے بھی کہتا ہوں، جس سے بھی کہتا ہوں تم شعر میں خود ڈھونڈ لو۔ میرا سر کھانے کی کیا ضرورت ہے ۔‘‘

اپنی شعر گوئی کے متعلق بتاتے ہیں: ’’شعر گوئی کا کوئی واحد عذر گناہ تو مجھے نہیں معلوم اس میں بچپن کی فضائے گردو پیش میں شعر کا چرچا دوست احباب کی ترغیب اور دل لگی سب ہی کچھ شامل ہے ۔یہ ’’نقش فرہادی‘‘ کے پہلے حصے کی بات ہے جس میں 1928-29ء سے 1934-35ء تک کی تحریریں شامل ہیں جو ہماری طالب علمی کے دن تھے۔ یوں تو ان سب اشعار کا قریب قریب ایک ہی ذہن اور جذباتی واردات سے تعلق ہے اور اس واردات کا ظاہری محرک تو وہی ایک حادثہ ہے جو اس عمر میں اکثر نوجوان دلوں پر گزر جایا کرتا ہے، لیکن اب جو دیکھتا ہوں تو یہ دور بھی ایک دور نہیں تھا بلکہ اس کے بھی دو الگ الگ حصے تھے جن کی داخلی اور خارجی کیفیت کافی مختلف تھی وہ یوں ہے کہ 1920-30ء تک زمانہ ہمارے معاشی اور سماجی طور سے کچھ عجب طرح کی بے فکری، آسودگی اور ولولہ انگیزی کا زمانہ تھا جس میں اہم قومی اور سیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ نثر و نظم میں بیشتر سنجیدہ فکر و مشاہدے کے بجائے کچھ رنگ رلیاں منانے کا سا انداز تھا۔ شعر میں اولاً حسرت موہانی اور ان کے بعد جوش، حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی کی ریاست قائم تھی۔ افسانے میں یلدرم اور تنقید میں حُسن برائے حُسن اور ادب برائے ادب کا چرچا تھا۔ ‘‘ فیض کہتے ہیں کہ 1934 میں ہم لوگ کالج سے فارغ ہوئے اور 35ء میں ایم او کالج امرتسر میں ملازمت کرلی۔ یہاں سے بہت سے ہم عصر لکھنے والوں کی ذہنی اور جذباتی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں کالج میں اپنے رفقار صاحبزادہ محمود الظفر  اور ان کی بیگم رشید جہاں سے ملاقات ہوئی، پھر ترقی پسند تحریک کی داغ بیل پڑی۔ مزدور تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں لگا کہ جیسے گلشن میں ایک نہیں کئی دبستان کھل گئے ہیں۔ اس دبستان میں سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا یہ تھا کہ اپنی ذات کو باقی دنیا سے الگ کرکے سوچنا اول تو ممکن ہی نہیں اس لئے کہ اس میں بہرحال گردو پیش کے سب ہی تجربات شامل ہوتے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہو بھی تو انتہائی غیر سودمند فعل ہوگا کہ ایک انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں، مسرتوں اور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی اور حقیر شے ہے اس کی وسعت اور پنہائی کا پیمانہ تو باقی عالم موجودات سے اس کے ذہنی اور جذباتی رشتے ہیں خاص طور سے انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے ،چنانچہ غم جاناں اور غم دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔ 

فیض پھر فوج، صحافت اور ٹریڈ یونین وغیرہ وغیرہ کے بعد چار برس کیلئے جیل چلے گئے۔ ’’نقش فریادی‘‘ کے بعد کی دو کتابیں ’’دست صبا‘‘ اور ’’زنداں نامہ‘‘ جیل خانے کی یادگار ہیں۔ جیل خانہ عاشقی کی طرح خود ایک بنیادی تجربہ ہے جس میں فکر و نظر کا ایک نیا دریچہ خود بخود کھل جاتا ہے ۔جیل میں باہر کی دنیا کا وقت اور فاصلے دونوں باطل ہو جاتے ہیں۔ نزدیک کی چیزیں بھی بہت دور ہو جاتی ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ فراغت ہجراں میں فکر و مطالعہ کے ساتھ عروسِ سخن کے ظاہری بنائو سنگھار پر توجہ دینے کی زیادہ مہلت ملتی ہے۔ 

فیض کا انتقال 20 نومبر 1984ء کو 73 برس کی عمر میں ہوا۔فیض کو دنیا سے رخصت ہوئے 41سال گزر جانے کے بعد بھی ان کی شاعری جہاں ایک طرف خاص و عام میں بے حد مقبول ہے وہیں انقلابات کا ذکر اور امید وبیم کی کرنیں ہر دل میں نیا ولولہ پیدا کرتی ہیں۔

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے

گلشن یاد میں گر آج دم باد صبا

پھر سے چاہے کہ گل افشاں ہو تو ہو جانے دو

عمر رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد

پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو تو ہو جانے دو

جیسے بیگانے سے اب ملتے ہو ویسے ہی سہی

آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو

گرچہ مل بیٹھیں گے ہم تم تو ملاقات کے بعد

اپنا احساس زیاں اور زیادہ ہوگا

ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں تو ہر بات کے بیچ

ان کہی بات کا موہوم سا پردہ ہوگا

کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا نہ تم

کوئی مضمون وفا کا نہ جفا کا ہوگا

گرد ایام کی تحریر کو دھونے کے لیے

تم سے گویا ہوں دم دید جو میری پلکیں

تم جو چاہو تو سنو اور جو نہ چاہو نہ سنو

اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں

تم جو چاہو تو کہو اور جو نہ چاہو نہ کہو

 

ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے

تری رہ میں کرتے تھے سر طلب سر رہ گزار چلے گئے

تری کج ادائی سے ہار کے شب انتظار چلی گئی

مرے ضبط حال سے روٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے

نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں

ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے

یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر رہ سیاہی لکھی گئی

یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے

نہ رہا جنون رخ وفا یہ رسن یہ دار کرو گے کیا

جنہیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے

منتخب کلام

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

……………

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

……………

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

……………

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا

تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

……………

اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک

اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

……………

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

……………

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے

……………

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

……………

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان

بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے

……………

زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔