ٹکراؤ کی سیاست کا منظر نامہ
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی محاذآرائی زور پکڑتی جارہی ہے۔رانا ثنا اللہ اور عطا تارڑ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی سے مفاہمت یا بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔پی ٹی آئی اگر بانی سے خود کو علیحدہ کر لے تو بات چیت ہو سکتی ہے۔
بانی پی ٹی آئی کو سکیورٹی رسک قرار دینا ظاہر کرتا ہے کہ معاملات بہت حد تک بگڑ چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اور پی ٹی آئی پرپابندی کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی سے بانی پی ٹی آئی اور جماعت کے خلاف پابندی کی قرارداد کی منظوری بھی ظاہر کرتی ہے کہ ملک کے حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاست میں موجود یہ ڈیڈ لاک کیسے ٹوٹ سکے گا؟اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی بہنیں جب اڈیالہ جیل اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے پہنچیں تو پہلے تو ان کی ملاقات کرانے سے انکار کر دیا گیا اور بعد میں ان کو پولیس کی جانب سے تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بلاول بھٹو کے بقول ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا جائے لیکن یہ مفاہمت کون کرے گا اور کیسے کی جائے گی اس کا جواب انہوں نے نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی نے، حکومت کی اتحادی ہوتے ہوئے کوئی ایسی کوشش نہیں کی جس سے سیاسی ٹکراؤ میں کمی ہو سکے۔اب بلاول بھٹو نے پنجاب کا دورہ کیا ہے اورجنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کے بقول اس مطالبے کے بعد ہم حکومت کی حمایت کا فیصلہ کریں گے۔جنوبی پنجاب میں صوبہ بنانے کی سیاست ہمیشہ پیش پیش رہی ہے لیکن مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی نے جنوبی پنجاب کو صوبہ نہیں بنایا البتہ پی ٹی آئی کی حکومت میں وہاں انتظامی یونٹ ضرور بنایا گیا۔ بلاول بھٹو نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بات ایسے موقع پر کی ہے جب ملک میں نئے صوبے بنانے کی بحث زوروشور سے جاری ہے اور پنجاب سمیت دیگر صوبوں کو مختلف انتظامی یونٹس یا صوبوں کی شکل دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ سے پنجاب کی سیاست میں نظر انداز کیا گیا لیکن انہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ پنجاب میں اُن کی سیاست اُن کی اپنی سیاست کی وجہ سے ختم ہوئی۔پنجاب کی سیاست اس وقت پی ٹی آئی اور (ن) لیگ اہمیت رکھتی ہیں۔بلاول بھٹو کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ حکومت کے اتحادی ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی آئینی ترامیم میں، تحفظات کے باوجود پیپلز پارٹی نے حکومت کا ساتھ دیا اور یہ ان کی سیاسی مجبوری تھی، اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی سیاسی آپشن نہیں تھا۔بلاول پنجاب میں فعال ہونا چاہتے ہیں تو ان کو یہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ پنجاب میں ان کی سیاست غیر اہم ہو چکی ہے۔
حکومت سمجھتی ہے کہ اس وقت حکومت اور مقتدرہ کے درمیان تعلقات بہت مضبوط ہیں اور اس کی وجہ سے موجودہ سیاسی نظام یا حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کے خلاف جارحانہ پالیسی حکومت کے حق میں جاتی ہے کیونکہ جتنا پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر دیوار سے لگایا جائے گا اتنا ہی حکومت کے مفاد میں ہے۔پی ٹی آئی میں بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ بانی مقتدرہ کے بارے میں اپنی جارحانہ پالیسی میں نرمی لائیں کیونکہ اس سخت گیر پالیسی کی وجہ سے پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت نہ صرف کمزور ہو ئی ہے بلکہ اس کے لیے سیاست کرنا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے، لیکن بانی بضد ہیں کہ وہ سمجھوتے کی سیاست نہیں کریں گے۔ اگر وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے اور بات چیت کے دروازے کھولتے تو ان کے لیے سیاسی راستے کھل سکتے تھے۔
سیاست میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو سیاسی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھے۔ سخت گیر مؤقف بعض اوقات سیاسی جماعتوں کواندرونی معاملات میں کمزور کر دیتا ہے۔اسی صورتحال کا سامنا پی ٹی آئی کو ہے کہ وہ مزاحمت اور مفاہمت میں سے کس راستے کا انتخاب کرتی ہے۔ جہاں تک عمران خان کو مائنس کرنے کی بات ہے وہ بہت مشکل ہے کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں عملًا شخصیات کے گرد گھومتی ہیں اور پی ٹی آئی میں عمران خان ہی واحد شخصیت ہیں جن کی وجہ سے پی ٹی آئی موجود ہے۔اسی لیے پی ٹی آئی کے لوگ مشکل حالات میں بھی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بانی کے بغیر ان کی سیاست کی کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن اس کھیل میں اصل نکتہ یہی ہے کہ کیا پی ٹی آئی کوئی ایسی سیاسی حکمت عملی اختیار کر ے گی جس سے اس کے لیے سیاسی راستے کھل سکیں؟
پی ٹی آئی کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں آخری کال کی صورت میں اسلام آباد کا رخ کرنا ہوگا،لیکن کیا پی ٹی آئی موجودہ صورتحال میں کوئی بڑی سیاسی تحریک چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اس پر بہت سے سوالات ہیں کیونکہ خود پی ٹی آئی کے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کے لیے عوامی سطح پر کوئی بڑی تحریک چلانا ممکن نہیں۔ بانی پی ٹی آئی چاہتے ہیں کہ ان کی جماعت ہر صورت سڑکوں پر نکلے اور وفاقی حکومت پرسیاسی دباؤ پیدا کرے لیکن اس کے امکانات بہت محدود نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی اس آپشن پر بھی غور کر رہے ہیں کہ ہمیں موجودہ اسمبلیوں سے خود کو علیحدہ کر لینا چاہیے حالانکہ ماضی میں پی ٹی آئی نے جب اسمبلیوں کی سیاست سے خود کو علیحدہ کیا تو اس کا نقصان انہی کو اٹھانا پڑا۔ لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاست عملی طور پر بند گلی میں داخل ہو گئی ہے جہاں مفاہمت اور مزاحمت کے نام پر اندرونی بحث جا ری ہے۔ایک گروپ مقتدرہ سے مفاہمت چاہتا ہے، دوسرا ٹکراؤ کی سیاست کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ایسے میں پی ٹی آئی کیا کرے یہ بات خود اُن کو سمجھ میں نہیں آرہی۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان اندرونی اور بیرونی محاذ پر جن مسائل سے دوچار ہے ان میں ٹکراؤ کی سیاست مسائل میں اضافہ کرے گی، لیکن شاید ہمارے سیاستدانوں کا ایجنڈا بڑے معاملات کو ڈیل کرنا نہیں رہا۔ ایک دوسرے کی سیاسی دشمنی میں اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ کوئی ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ایسے میں جب بھارت اور افغانستان پاکستان دشمنی میں بہت آگے تک جا چکے ہیں ہمیں قومی مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے،لیکن کیا حکومت اور اپوزیشن موجودہ صورتحال میں ذمہ دارانہ کردار ادا کر سکیں گی اس پرسوالیہ نشان ہے۔ ہمیں سیاسی مفاہمت کا راستہ کھلا رکھنا چاہیے۔ یہی قومی سیاست کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔