مکتبہ عشق کا امام سیدنا ابوبکر صدیق

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


سیرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے جہاں ہم انہیں رفیق غار کے اعزاز سے بہرہ ور دیکھتے ہیں، وہاں بعد ازوفات رفیق مزار ہونے کی عظیم سعادت سے بھی آپ ؓ سرفراز دکھائی دیتے ہیں۔ آپؓ کی حیات مطہرہ میں کچھ خصائص ایسے نظر آتے ہیں جو پوری ملت اسلامیہ میں آپؓ کو امتیازی حیثیت بخشے ہیں۔

 ان خصائص نے آپؓ کی شخصیت کو وہ نمایاں اور خصوصی شرف عطا کر دیا ہے جو حضور پاکﷺ کے اعلان نبوت کے بعد نہ اب تک کسی کو حاصل ہو سکا ہے اور نہ تاقیامت کسی کو حاصل ہو سکے گا۔ پوری امت مسلمہ پر حاصل ان امتیازات نے سیدنا صدیق اکبرؓ کو بعد از نبی کے عظیم ترین مرتبہ پر فائز کر دیا۔ 

سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ مکہ کے معزز و متمول کپڑے کے تاجر ابوقحافہ کے  گھر ام الخیر کے بطن مبارک سے 574ء میں جلوہ گر ہوئے۔ بچپن ہی سے آپؓ کا دامن ہر قسم کی معصیت سے پاک تھا۔ بت پرستی کو بہت بُرا سمجھتے تھے۔ انتہائی دیانتداری، راست بازی اور معاملہ فہمی کی وجہ سے آپؓ کا شمار معززینِ عرب میں ہوتا تھا۔آپؓ کو اعلان نبوت سے قبل ہی دامن مصطفی ﷺکے ساتھ وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ سرور کونین ﷺ نے آپؓ کو اپنی دوستی اور رفاقت کیلئے پسند فرمایا ۔

مسلمِ اوّل

 جب سرورکونینﷺ نے اعلان نبوت فرمایا توسیدنا صدیق اکبرؓ بغرض تجارت یمن گئے ہوئے تھے۔ جب آپ ؓ وہاں سے واپس لوٹے تو سرداران قریش ابو جہل، عتبہ اور شیبہ انہیں ملنے کیلئے آئے اور دوران گفتگو آپؓ کو بتایا کہ ابوطالب کے یتیم بھتیجے  نے نبی ہونے کادعویٰ کر دیا ہے۔ یہ سن کر یوں معلوم ہوا کہ گویا یہ اڑتیس سالہ نوجوان اس خوشخبری کا پہلے ہی سے منتظر تھا۔ سرداران قریش کو رخصت کیا، خود بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر کلمہ شہادت پڑھا اور دولت اسلام سے بہرہ ور ہوئے۔ اس طرح آزاد مردوں میں اسلام قبول کرنے کی اوّلیت آپ کو نصیب ہوئی۔

مصدق اوّل

کفا ر مکہ ایک جگہ بیٹھے حضور پاکﷺ کے واقعہ معراج کے خلاف زہر افشانی کرنے کے بعد مسکن ابوبکرؓ کا رخ کرتے ہیں اور سیدنا صدیق اکبرؓ کو کہتے ہیں کہ تمہارا نبی  کہتا ہے کہ میں راتوں رات آسمان کی سیر کر کے مکے میں واپس آ گیا۔ ابوبکر ؓ نے یہ سن کر حیرانگی سے پوچھا کیا تم سے یہ باتیں رسول اللہﷺ نے فرمائی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ہاں۔ اس پر زبان صدیق ؓ بلا تامل پکار اٹھی، اگر حضور ﷺ نے ایسا فرمایا ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں یوں مصدق اوّل ہونے کا شرف بھی سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہی حصہ میں آیا۔

رفاقت سفر کا اعزاز

 نبی پاک ﷺ کا معمول تھا کہ صبح و شام حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مکان پر تشریف لے جاتے تھے۔ ایک روز خلاف عادت دوپہر کے وقت چلچلاتی دھوپ میں سرکار تشریف لے گئے۔ سیدنا ابوبکرؓ اپنی فراست سے سمجھ گئے کہ آپﷺ کا آنا بے وجہ  نہیں۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ ابوبکر ؓ رب ذوالجلال کی طرف سے مکہ چھوڑنے کی اجازت آگئی ہے۔ یہ سن کر حبیب خداﷺ کے حبیبؓ نے ملتجیانہ نگاہوں سے رخِ انور کی طرف تکتے ہوئے عرض کی اور میری رفاقت یا رسول اللہﷺ۔ ارشاد فرمایا رفاقت کی بھی اجازت ہے۔ رفاقت سفر کا مژدہ جاں فزا سنتے ہی فرط مسرت سے آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ 

مرکب سرورکونینﷺ

 حضور اکرم ﷺ ہجرت کی رات جب سیدنا صدیق اکبرؓ کو ساتھ لے کر مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو آقائے دوجہاں ﷺ نے نعلین مبارک اتار لئے اور پنجوں کے بل چلنے لگے۔ اس طرح حضور اکرمﷺ کے پاؤں مبارک زخمی ہو گئے۔ اپنے محبوب کو اس مشکل میں دیکھ کر صدیق اکبرؓ نے انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ اس طرح اللہ نے صدیق اکبرؓ کو مُرکب مُصطفیٰؐ بننے کا شرف عطا فرماکر بار نبوت کو اٹھانے کی حیران کن قوت سے نوازدیا۔

یارِ غارِ رسولﷺ

 مکہ سے مدینہ کا سفر ہر طرح سے پر خطر اور کٹھن تھا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے غا ر کو اندر جاکر صاف کیا۔ اس پُر خطر جگہ پر صرف اور صرف سیدنا صدیق اکبرؓ کو صحبت سرکارﷺ کے انمول لمحات میسر آئے۔ ان ساعتوں کی عظمت کے سبب ہی تو آقائے دوجہاں ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے استفسار پر بتایا کہ حضرت عمرؓ کی نیکیاں آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں اور حضرت ابوبکرؓ کی غار ثور کی ایک رات کی نیکیاں حضرت عمرؓ کی ساری زندگی کی نیکیوں سے بھاری ہیں۔ 

محافظ دربان رسولﷺ 

 حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ یوم بدر میں ہم نے تمازت آفتاب سے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کیلئے ایک سائبان بنا دیا۔ ہم نے کہا رسول اللہﷺ کے ساتھ کون رہے گا۔ بس خدا کی قسم!سوائے ابوبکرؓ کے ہم میں سے کوئی قریب نہ گیا۔ وہ ننگی تلوار سے رسول کریمﷺ پر سایہ فگن رہے۔ جس خیمے میں سرکارﷺ کا قیام تھا اسی میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ ٹھہرے اور آپﷺ کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا۔ 

رفاقت قبر کا اعزاز

 امیر المومنین صدیق اکبرؓ کے فضل و شرف اعزاز و خصائص کی انتہا یہ ہے کہ آپ کو حضورﷺ کے ساتھ خصوصی اور امتیازی شرف رفاقت حاصل ہے۔ سفر و حضر کی رفاقت،غار ثور کی رفاقت،اور آخر میں پہلوئے مصطفی میں تدفین کے ذریعہ رفاقت قبر کا نصیب ہونا پوری امت میں آپ کو عظیم مرتبہ عطا کرتا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مدد گار رسول، یار غار و مزار، امام الصحابہ :خلیفہ اوّل، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ

اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ذات بابرکات پر کہ جن کے اہل اسلام پر لاکھوں احسانات ہیں۔ وہ قومیں دنیا کے افق سے غروب ہو جاتی ہیں جو اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتی ہیں۔ آیئے آج اس عظیم محسن اُمت کی خدمات کا مختصراً تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کے تذکرے سے ایمان کو تازگی اور عمل کو اخلاص کی دولت ملتی ہے۔

فخر رفاقت ابو بکر،فخرصداقت ابو بکر: رفیقِ دوجہاں

خلیفہ اوّل سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کو قبل ازبعثت بھی نبی مکرم ﷺ کی دوستی کا شرف حاصل تھا اور23سالہ پورے دور نبوت میں بھی نبی مکرمﷺ کی مصاحبت کا شرف حاصل رہا۔

وہ جو صدیقؓ کہلایا میرے رسول ﷺ کا

خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ جن کے بارے میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ! ’’مجھے نبوت عطا ہوئی تو سب نے جھٹلایا مگر ابو بکر صدیقؓ نے مانا اور دوسروں سے منوایا ،جب میرے پاس کچھ نہیں رہا تو ابو بکرؓ کا مال راہِ خدا میں کام آیا۔

چالاک بھیڑ

ایک بوڑھی بھیڑ آہستہ آہستہ ایک بھیڑیے کے پاس گئی جو ایک جال میں پھنسا ہوا تھا۔

ہیرا ( ازبک لوک کہانی)

ایک کسان کو کھیت میں ہل چلاتے ہوئے ایک قیمتی ہیرا مل گیا۔ وہ سب کی نظروں سے بچا کر اسے گھر لے آیا اور اپنے گھر کی پچھلی دیوار کے ساتھ دفنا دیا۔ جب بھی اسے فرصت کے لمحے ملتے وہ زمین کھودتا ، ہیرے کو گھما گھما کے دیکھتا اور جب جی بھر جاتا تو پھر وہیں دفنا کر چلا جاتا۔

خادمِ خاص (آخری قسط )

سید نا انس رضی اللہ عنہ نے سینکڑوں احادیث بیان کی ہیں۔ آپؓ صرف وہی حدیث بیان کرتے تھے جس کے صحیح ہونے پر انہیں پختہ یقین ہوتا تھا۔