مدد گار رسول، یار غار و مزار، امام الصحابہ :خلیفہ اوّل، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ

تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن


اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ذات بابرکات پر کہ جن کے اہل اسلام پر لاکھوں احسانات ہیں۔ وہ قومیں دنیا کے افق سے غروب ہو جاتی ہیں جو اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتی ہیں۔ آیئے آج اس عظیم محسن اُمت کی خدمات کا مختصراً تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کے تذکرے سے ایمان کو تازگی اور عمل کو اخلاص کی دولت ملتی ہے۔

خلافت 

 ’’سیرت حلبیہ‘‘ میں موجود ہے کہ امام محمد بن ادریس شافعیؒ فرماتے ہیں: تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی خلافت پر اس لیے اتفاق کر لیا تھا کہ اس آسمان کے نیچے ابوبکر ؓسے بہتر اور کوئی شخص نہیں تھا۔

خلافت کے بعد ابتدائی خطبہ

البدایہ والنہایہ میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کی تکفین و تدفین سے فارغ ہونے کے بعد دوسرے دن سیدنا صدیق اکبر ؓ کے ہاتھ پر بیعت عام ہوئی۔ اس موقع پر آپؓ نے ایک فقید المثال خطبہ دیا۔حمد وثنا کے بعد فرمایا: ’’لوگو!میں آپ لوگوں پر ولی منتخب کیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہترین نہیں ہوں۔ اگر میں اچھی بات کروں تو تم میرا ساتھ دینا اگر میں خطا کروں تو میری غلطی درست کرا دینا۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے میں اس کا حق ضرور دلواؤں گا۔ جو تم میں سے قوی ہے میرے ہاں کمزور ہے ،میں اس سے پورا حق وصول کر وں گا۔ جو قوم بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ترک کر دیتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ ذلت و رسوائی ڈال دیتے ہیں اور جو قوم علانیہ برائیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر مصائب و تکالیف مسلط کر دیتے ہیں۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تابعداری کروں تم میری بات ماننا اور جب خدا اور رسولﷺ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں، اللہ تم پر رحم فرمائے‘‘۔ 

ریاستی ذمہ داریاں

تمام تاریخ نویسوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضر ت سیدنا صدیق اکبرؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد ریاستی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا۔ امن و آشتی، عدل و انصاف،خوشحالی و ترقی گھر گھر تک پہنچائیں، معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کیے اور مدینہ منورہ کے ریاستی انتظامات جیسے عہد نبوی میں چلے آ رہے تھے ان کو بحال رکھا۔ 

حفاظتِ ختم نبوتﷺ

نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد مختلف ایسے فتنے رونما ہوئے جو اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کر رہے تھے۔ ان میں مدعیان نبوت کا فتنہ سرفہرست ہے۔ یمن میں اسود عنسیٰ، یمامہ میں مسیلمہ کذاب، جزیرہ میں سجاح بنت حارث، بنو اسد و بنو طی میں طُلیحہ اسدی نے نبوت کے دعوے داغ دیئے۔ ختم نبوت کوئی معمولی مسئلہ نہ تھا کہ جس کیلئے مصلحت اختیار کر لی جاتی بلکہ یہ  تو اسلام کے اساسی و بنیادی عقائد میں شامل ہے۔ اس لیے اس فتنے کے خلاف سیدنا صدیق اکبرؓ نے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور لشکر اسلامی کو بھیج کر ان کا قلع قمع کیا۔

مانعین زکوٰۃ کی سرکوبی

فتنہ مانعین زکوٰۃ نے سر اٹھایا اور کہا کہ ہم سے زکوٰۃ وصول کرنے کا اختیار صرف رسول پاکﷺ کو تھا، آپؓ کو نہیں۔ آپؓ نے اس فتنے کا پوری قوت اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور برملا فرمایا کہ جو عہد نبویؐ میں زکوٰۃ دیتا تھا اور اب اگر اس کے حصے میں اونٹ کی ایک رسی بھی زکوٰۃ کی بنتی ہے وہ نہیں دیتا تو میں اس سے قتال کروں گا۔ 

دشمنان اسلام کا قلع قمع

اس کے بعد ہر سو کفار کی طرف سے جنگوں کی ابتدا ہوئی۔ عراق میں آپؓ نے سیدنا خالد بن ولید ؓ کے تحت لشکر روانہ کیا۔ عراق کے بہت سے مضافات آپؓ نے فتح کیے۔ خورنق، سدیر اور نجف کے لوگوں سے مقابلہ ہوا۔ بوازیج، کلواذی کے باشندوں نے مغلوبانہ صلح کی۔ اہل انبار سے کامیاب معرکہ لڑا گیا، عین التمر میں اسلام کو غلبہ ملا، دومۃ الجندل میں اہل اسلام کامیاب ہوئے، اس کے بعد حمید، فضیع اور فراض پر اسلامی لشکر فتح و نصرت کے جھنڈے لہراتے گئے۔ لشکر صدیقی نے شام میں رومیوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ 

بحر ظلمات میں دوڑا 

دیے گھوڑے ہم نے

 البدایۃ والنہایہ میں ہے کہ حضرت علاء حضرمیؓ جب سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ خلافت میں مرتدین کی سرکوبی کیلئے بحرین کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ میں ایک دریا آیا۔ حضرت علاءؓ کو لشکر والوں نے کہا کہ کشتی تیار نہیں ہے، اس لیے کچھ وقت کیلئے رک جائیں۔ حضرت علاء ؓ فرمانے لگے کہ خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکرؓ کا حکم ہے وہاں جلدی پہنچنے کا ، میں میں رک کر انتظار نہیں کر سکتا اور یہ کہہ کر دعا کی ’’ اے اللہ آپ نے جس طرح اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برکت سے بنی اسرائیل کو( بغیر کشتیوں کے)دریا پار کرایا اسی طرح آج ہمیں ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی برکت سے بغیر کشتیوں کے دریا پار کرا دے‘‘۔ پھر آپؓ نے اپنا گھوڑا دریا میں اتارا اور آپ کے ساتھ لشکر والوں نے بھی اپنی سواریاں دریا میں ڈال دیں۔ حضرت علاءؓ اور آپ کا لشکر اس دریا پر ایسے چل رہے تھے جیسے کوئی زمین پر سہولت کے ساتھ چلتا ہے۔ دریا کا پانی ان کے جانوروں کے گھٹنوں تک ہی پہنچا تھا۔ پورا لشکر دریا کے دوسرے کنارے پہنچ گیا، سارا سامان وغیرہ جوں کا توں باقی تھا کوئی چیز گم نہ ہوئی۔

جمع و تدوین ِ قرآن

 جمع قرآن کی خدمت بھی آپؓ کے مبارک دور کی یادگار ہے۔ نبی کریمﷺ کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا اور سارے اجزاء الگ الگ تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی جلد میں مجلد کروانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا، چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہو گیا جس کو سارے صحابہ کرام ؓ کی اجماعی تصدیق حاصل ہوئی۔قیامت تک آنے والے ہر شخص پر آپؓ کا احسان موجود ہے جتنے بھی لوگ قرآن پڑھتے رہے ہیں، پڑھ رہے ہیں یا آئندہ پڑھیں گے ان کے ثواب میں سیدنا صدیق اکبرؓ برابر کے شریک ہیں۔

علمی خدمات

آپؓ کی علمی خدمات بھی موجود ہیں؛ چنانچہ ایک قول کے مطابق 142 حدیثیں بہ روایت حضرت ابوبکر صدیقؓ سے مروی ہیں۔ جن کو امام جلال الدین سیوطی نے ’’تاریخ الخلفاء‘‘ میں ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔ اُمت کو فقہی معاملات میں جو مشکلات  در پیش تھیں، آپؓ نے اُن کا حل تجویز کیا مثلاًمیراث جدہ، میراث جد، تفسیر کلالہ، حد شُرب خمر۔وغیرہ۔

حضرت علیؓ کی نظر میں

محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے والدحضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے پوچھا کہ اللہ کے رسولﷺکے بعد لوگوں میں سب سے بہتر انسان کون ہے؟ تو میرے والد نے فرمایا: ابوبکرؓمیں نے پھر پوچھا کہ ان کے بعدکون؟ جواب دیا کہ عمرؓ (صحیح بخاری:3671)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوا تھا جو عمر بن خطاب ؓکیلئے دعائیں کر رہے تھے۔ اس وقت  آپؓ کا جنازہ رکھا گیا تھا اتنے میں ایک شخص میرے پیچھے سے آکر میرے کندھوں پر کہنیاں رکھ دیں اور حضرت عمر ؓکو مخاطب کر کے کہنے لگے: اللہ آپ پر رحم کرے!مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں(رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرؓ) کے ساتھ جمع کرے گا۔ میں اکثر رسول اللہ ﷺ کو یوں فرماتے ہوئے سنا کرتا تھا کہ میں اور ابوبکرؓ و عمرؓ تھے۔ میں نے اور ابوبکرؓ و عمرؓ نے یہ کام کیا۔ میں اور ابوبکرؓ وعمرؓ گئے۔ اس لیے مجھے امید یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپؓ کو ان ہی دونوں بزرگوں کے ساتھ رکھے گا۔ عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت علی المرتضیٰ ؓ تھے۔(صحیح بخاری:3677)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فخر رفاقت ابو بکر،فخرصداقت ابو بکر: رفیقِ دوجہاں

خلیفہ اوّل سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کو قبل ازبعثت بھی نبی مکرم ﷺ کی دوستی کا شرف حاصل تھا اور23سالہ پورے دور نبوت میں بھی نبی مکرمﷺ کی مصاحبت کا شرف حاصل رہا۔

مکتبہ عشق کا امام سیدنا ابوبکر صدیق

سیرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے جہاں ہم انہیں رفیق غار کے اعزاز سے بہرہ ور دیکھتے ہیں، وہاں بعد ازوفات رفیق مزار ہونے کی عظیم سعادت سے بھی آپ ؓ سرفراز دکھائی دیتے ہیں۔ آپؓ کی حیات مطہرہ میں کچھ خصائص ایسے نظر آتے ہیں جو پوری ملت اسلامیہ میں آپؓ کو امتیازی حیثیت بخشے ہیں۔

وہ جو صدیقؓ کہلایا میرے رسول ﷺ کا

خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ جن کے بارے میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ! ’’مجھے نبوت عطا ہوئی تو سب نے جھٹلایا مگر ابو بکر صدیقؓ نے مانا اور دوسروں سے منوایا ،جب میرے پاس کچھ نہیں رہا تو ابو بکرؓ کا مال راہِ خدا میں کام آیا۔

چالاک بھیڑ

ایک بوڑھی بھیڑ آہستہ آہستہ ایک بھیڑیے کے پاس گئی جو ایک جال میں پھنسا ہوا تھا۔

ہیرا ( ازبک لوک کہانی)

ایک کسان کو کھیت میں ہل چلاتے ہوئے ایک قیمتی ہیرا مل گیا۔ وہ سب کی نظروں سے بچا کر اسے گھر لے آیا اور اپنے گھر کی پچھلی دیوار کے ساتھ دفنا دیا۔ جب بھی اسے فرصت کے لمحے ملتے وہ زمین کھودتا ، ہیرے کو گھما گھما کے دیکھتا اور جب جی بھر جاتا تو پھر وہیں دفنا کر چلا جاتا۔

خادمِ خاص (آخری قسط )

سید نا انس رضی اللہ عنہ نے سینکڑوں احادیث بیان کی ہیں۔ آپؓ صرف وہی حدیث بیان کرتے تھے جس کے صحیح ہونے پر انہیں پختہ یقین ہوتا تھا۔