میں ناگن… تو سپیرا …
ہندوستان اورپاکستان میں ناگ اور ناگن کے موضوع پر کئی فلمیں بنائی گئیں جن میں زیادہ تر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں، ہندو دھرم میں تو ناگ کو دیوتا مانا جاتا ہے اور اس دھرم کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ سو سال بعد ناگ انسانی روپ میں سامنے آ جاتا ہے۔ اس ناگ کو اِچھا دھاری سانپ کہا جاتا ہے یا پھر شیش ناگ۔ یہ بھی عقیدے کا حصہ ہے کہ اگر کسی ناگن کے سامنے اس کے ناگ کو ہلاک کر دیا جائے تو ناگن انتقام لینا نہیں بھولتی اور اس کی آنکھوں میں قاتل کی تصویر نقش ہو جاتی ہے۔ یہ موضوع کتنا متنازع ہے یہ الگ بحث ہے لیکن جو فلمیں اس موضوع پر بنائی گئیں وہ یقینا دلچسپ تھیں اور ان میں فلم بینوں کی مکمل تفریح کا سامان موجود تھا۔1953ء میں ہندوستان میں فلم ’’ناگن‘‘ بنائی گئی جو اپنے دور کی سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اس میں وجنتی مالا نے ناگن کا کردار ادا کیا جبکہ ان کے ساتھ پردیپ کمار تھے۔اس فلم کے گانوں نے ہر طرف دھوم مچا دی ۔ خاص طور پر یہ دو نغمات تو آج بھی شوق سے سنے اور گنگنائے جاتے ہیں: ’’من ڈولے میرا تن ڈولے‘‘ اور ’’تیرے دووار کھڑااِ ک جوگی‘‘ ۔ یہ دونوں نغمات لتا منگیشکر اور ہیمنت کمار نے گائے تھے۔ وجنتی مالا نے ناگن کا کردار نہایت عمدگی سے نبھایا۔ وہ اپنے دور کی بہترین رقاصہ بھی تھیں۔ ان کے بعد رقص کے میدان میں جن اداکارائوں نے نام کمایا، ان میں ہیما مالنی، سری دیوی، جیا پرادا اور ریکھا کا نام لیا جاتا ہے۔یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ بشمول وجنتی مالا اِن سب مقبول اداکارائوںکا تعلق مدراس سے ہے جس کا موجودہ نام’’ چنائی‘‘ ہے۔ ناگن کی موسیقی ہیمنت کمار نے مرتب کی تھی جو بہت عمدہ گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ منفرد موسیقار بھی تھے۔بھارت میںطویل عرصے بعد 1976ء میں ’’ناگن‘‘ کے نام سے دوبارہ فلم بنائی گئی ، جس میں رینا رائے نے مرکزی کردار ادا کیا ۔ اس فلم میں ان کے ساتھ جتیندر نے اِچھا داری ناگ کا کردار ادا کیا تھا۔ دیگر اداکاروں میں سنیل دت ،فیروز خان، سنجے خان، وِنود مہرہ، کبیر بیدی اور انیل دھون بھی شامل تھے۔ یہ فلم کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ رینا رائے نے اپنی زندگی کی بہترین اداکاری اِسی فلم میں کی۔ فلم کے نغمات بھی ہٹ ہوئے اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ فلم میں ریکھا اور یوگیتا بالی نے مہمان اداکارائوں کی حیثیت سے کام کیا۔یہ فلم ’’ناگن‘‘کے انتقام کی کہانی ہے جس کے ناگ کو چھ دوست مار ڈالتے ہیں اور پھر وہ انتقام لینے کی ٹھان لیتی ہے۔1986ء میں سری دیوی کی یادگار فلم ’’نگینہ‘‘ ریلیز ہوئی جس نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ سری دیوی کے علاوہ رشی کپور، سشما سیٹھ اور امریش پوری کی اداکاری کو بھی خوب سراہا گیا۔ اِس فلم کا ایک گانا تو بہت مقبول ہوا جو کچھ یوں تھا ’’میں تیری دشمن ، دشمن تو میرا، میں ناگن تو سپیرا‘‘ ۔ اِس فلم کی کامیابی کی ایک اوروجہ اس کی اچھوتی کہانی بھی تھی۔ ’’ناگن‘‘ کے روپ میں سری دیوی نے جو اداکاری کی اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہندوستانی فلمی صنعت میں ناگن کے موضوع پر بننے والی مذکورہ بالا اہم ترین فلمیں یہی قرار دی جاتی ہیں۔ پاکستان میں غالباً 60ء کی دہائی میں ’’ناگن‘‘ بنائی گئی جس میں نیلو نے مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کے ساتھ رتن کمار تھے۔ رتن کمار ہندوستان سے آئے تھے جہاں انہوں نے چائلڈ سٹار کی حیثیت سے بہت شہرت حاصل کی۔ انہوں نے ’’بوٹ پالش‘‘ اور’’ دو بیگھہ زمین ‘‘ جیسی فلموں میں کام کیا اور فلم بینوں سے خوب پذیرائی حاصل کی۔پاکستانی ’’ناگن‘‘ میں نیلو نے اپنے آپ کو بہترین رقاصہ بھی ثابت کیا۔ اِن کے دلفریب رقص شائقین طویل عرصے تک نہیں بھولے۔ یہ فلم اداکار ساقی کی بھی یادگار فلم ثابت ہوئی۔ انہوں نے سپیرے کے کردار میں اپنی فنی عظمت کی دھاک جما دی۔ 1972ء میں رضا میر کی فلم ’’ناگ منی‘‘ ریلیز ہوئی جس نے ملک گیر کامیابی حاصل کی۔ اِس فلم کے بہترین نغمات اور اعلیٰ درجے کی موسیقی نے فلم بینوں کو مسحور کر دیا۔حبیب جالب نے گیت لکھے اور موسیقی نثار بزمی کی تھی۔ اس فلم کے سبھی گانوں نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ ذرا اِس فلم کے گیت ملاحظہ کیجئے: ’’من میں اُٹھی نئی ترنگ (یہ ملکہ ترنم نورجہاں اور دوسری گلوکارائوں نے کورس کی شکل میں گایا تھا اور پاکستان کی فلمی تاریخ کے چند بہترین کورسوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے)، ’’میرا ایمان محبت ہے‘‘، ’’آج بھی سورج ڈوب گیا‘‘، ’’ساجنا رے‘‘، ’’من توپہ واروں‘‘، وہ نغمات ہیں جو روح میں اُتر جاتے ہیں۔ نثار بزمی کی موسیقی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔ملکہ ترنم نورجہاں اور مہدی حسن کی گائیکی اِس فلم میں عروج پر نظر آئی۔ دراصل اِس فلم میں رانی نے روایتی ناگن کا کردار ادا نہیں کیا بلکہ انہیں ناگ دیوتا کی داسی دکھایا گیا، جو نہ کسی سے محبت کر سکتی ہے اور نہ شادی لیکن جو ماحول پیدا کیا گیا اور جو کاسٹیومز استعمال کئے گئے، اِس سے فلم بینوں کو یہی محسوس ہوتا تھا کہ رانی ایک ناگن کا کردار ہی ادا کر رہی ہیں۔ فلم کی سینما ٹو گرافی بھی لاجواب تھی۔ رانی ،وحید مراد، قوی، سنگیتا اور آغا طالش نے بہت خوبصورت اداکاری کامظاہرہ کیا۔ رضا میر کی ہدایت کاری کو بھی خوب سراہا گیا۔1976ء میں ’’ناگ اور ناگن‘‘ ریلیز کی گئی۔ یہ فلم اگرچہ باکس آفس پر اتنی کامیاب نہیں رہی لیکن اِس فلم کی موسیقی اور نغمات نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ اس فلم میں ناہید اختر اور مہدی حسن نے گیت گائے اور موسیقی نثار بزمی نے مرتب کی۔ رانی نے ناگن اور وحید مراد نے ناگ کے کردار بڑی عمدگی سے نبھائے۔ اس کے علاوہ علائو الدین،شاہد اور الیاس کاشمیری کی اداکاری کو بھی خوب پسند کیاگیا۔ اس فلم کے دو گیت تو بہت ہی لاجواب تھے ۔ ناہید اختر کا گایا ہوا گیت ’’ساون کے دن آئے ساجن، جھولا کون جھولائے‘‘ اور مہدی حسن کی لازوال آواز میں یہ نغمہ ’’لہروں میں لہرائے گوری‘‘ بہت اثر انگیز تھے۔طویل عرصہ گزر گیا ہندوستان اور پاکستان کی فلموں میں ناگن کے موضوع پر کوئی فلم نہیں بنائی گئی۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اِس جدید اورتیز رفتار دور میں اب ایسے موضوعات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اِس موضوع پر بننے والی فلموں اور کرداروں نے شائقین کو ایک عرصے تک متاثر کیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ان فلموں اور کرداروں کو ہندوستان اور پاکستان کی فلمی تاریخ کا ایک لازمی حصہ قرار دیا جاتا ہے۔٭…٭…٭