لیاقت علی خان روس کیوں نہ گئے؟

لیاقت علی خان روس کیوں نہ گئے؟

اسپیشل فیچر

تحریر : سید عاصم محمود


وزارت ِخارجہ کے ریکارڈ نے ایک مشہور تاریخی مغالطے کا ازالہ کر ڈالا*****پچھلے دنوں چھیاسٹھ سالہ قومی تاریخ میں پہلی بار روس و پاکستان کے مابین’’ تزویراتی مکالمہ‘‘ (سٹرٹیجک ڈائیلاگ) انجام پایا۔اس موقع پر سیکرٹری خارجہ،جلیل عباس جیلانی کی قیادت میں پاکستانی وفد نے معاشی،عسکری اور سیاسی تعلقات بڑھانے کی خاطر روسی حکومت سے مذاکرات کیے۔ اُمید ہے ، یہ تزویراتی مکالمہ مستقبل میں پاکستان کے لیے سود مند ثابت ہو گا۔روس اور پاکستان کی بڑھتی دوستی دوررس نتائج دے سکتی ہے۔ امریکہ اور چین کے بعد عسکری لحاظ سے روس تیسری بڑی قوت ہے۔پھر یہ دنیا میںسب سے زیادہ وسائلِ ایندھن رکھتا ہے۔ماضی میں دونوں ممالک کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار رہے،تاہم پچھلے ایک عشرے سے بہتری کی جانب گامزن ہیں۔دونوں کے مابین تجارت کی مالیت 542 ملین ڈالر تک پہنچ چکی۔جبکہ اسے 4ارب ڈالر تک پہنچانا ممکن ہے۔پاکستان اور روس کے تعلقات 2005ء میں بہتر ہوئے۔تب پاکستانی حکومت کی حمایت سے روس اسلامی ممالک کی تنظیم،او آئی سی میں آبزرور کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔بعد ازاں روسی حکومت کے تعاون سے پاکستان نے اہم مقامی تنظیم،شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن میں آبزرور کا درجہ پانے میں کامیابی پائی۔قریبی تعلقات کی راہ میں حائل روس کی بھارت نواز پالیسی ہے۔اس کے باوجود دونوں ملکوں میں قربت بڑھ رہی ہے۔پچھلے سال جنرل کیانی نے روس کا دورہ کیا۔پھر چند ماہ قبل روسی فضائیہ کے چیف پاکستان آئے۔روس۔پاکستان تعلقات کے حوالے سے ایک تاریخی غلطی اکثر دہرائی جاتی ہے…یہ کہ ہمارے پہلے وزیراعظم،لیاقت علی خان دورہ سویت یونین کی پیشکش رد کر کے امریکہ چلے گئے۔یوں پاکستان سات سمندر پار بیٹھے امریکیوں کی آغوش میں جا پہنچا ۔جبکہ اپنے پڑوسی، سویت یونین سے عداوت مول لے لی۔سچ یہ ہے کہ لیاقت علی خان نے بھرپور سعی کی تھی کہ وہ سویت یونین کا دورہ کریں،مگر خود روسیوں کی سست روی و سردمہری نے ساری اُمیدیں خاک میں ملا دیں۔پاکستانی وزارت خارجہ کا دستاویزی ریکارڈ افشا کرتا ہے کہ 2 جون 1949ء کو ایران میں تعینات سویت سفیر پاکستانی سفیر،راجہ غضنفر علی خان سے ملنے آیا۔اسی ملاقات میں وزیراعظم لیاقت علی خان کو دورہ سویت یونین کی زبانی دعوت دی گئی۔راجہ صاحب نے فوراً پیغام کراچی بھجوا دیا جو تب وفاقی دارالحکومت تھا۔ایک ہفتے بعد سویت دعوت قبول کر لی گئی۔اس وقت عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت ہونے کے ناتے وطن عزیز عالمی سطح پہ خاصی اہمیت رکھتا تھا۔اسی لیے پاکستانی وزیراعظم نے سویت دعوت قبل کی تو واشنگٹن،لندن اور مغربی یورپ میں ہلچل مچ گئی۔امریکیوں کو یہ خوف لاحق ہو گیا کہ پاکستان سویت بلاک کا حصّہ بن سکتا ہے۔روسی حکومت نے دورے کی تاریخ 15اگست رکھی تھی۔تاہم انھیں بتایا گیا کہ پاکستان میں یوم آزادی کی تقریبات کے باعث وزیراعظم کاآنا مشکل ہے۔مگر وہ 17اگست کو ماسکو پہنچ سکتے ہیں۔سویت حکومت نے جواب دینے میں دیر لگا دی۔اور 28جولائی کو یہ جواب دیا کہ دورہ نومبر کے اوائل تک ملتوی کر دیا جائے کیونکہ روس میں ماہ اگست چھٹیوں کا مہینا ہوتا ہے۔پاکستانی حکومت نے تجویز منظور کر لی۔14اگست کو سویت حکومت نے پھر پینترا بدل ڈالا۔ایران میں سویت سفیر نے راجہ صاحب کو بتایا’’ہماری حکومت چاہتی ہے،جب دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہو جائیں،تبھی وزیراعظم پاکستان سویت یونین کا دورہ کریں۔‘‘روسیوں کو بتایا گیا کہ پاکستان پہلے ہی موزوں امیدوار کی تلاش میں ہے۔کچھ عرصے بعد شعیب قریشی (جو بعد ازاں وفاقی وزیر خزانہ رہے)سویت یونین میں پہلے پاکستانی سفیر مقرر ہوئے۔دونوں ملکوں کے درمیان خطوط وتاروں کے ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے،سویت حکومت رفتہ رفتہ دورہ وزیراعظم پاکستان میں کم دلچسپی لیے لگی۔اس نے نہ صرف بحیثیت سفیر شعیب قریشی کو قبول کرنے میں خاصی دیر لگائی بلکہ دورے کی تاریخ بھی آگے کرتی رہی۔اس دوران پاکستان میں زیر قیادت وزیر خزانہ،ملک غلام محمد بیوروکریسی کا ایک دھڑا لیاقت علی خان پہ زور دینے لگا کہ وہ امریکہ کو سویت یونین پہ ترجیح دیں۔اس اثنا میں امریکی حکومت نے بھی وزیراعظم پاکستان کو دورے کی دعوت دے ڈالی۔لیکن لیاقت علی خان باوجوہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک،سویت یونین کے قریب ہونا چاہتے تھے۔اسی لیے ان کی ایما پر اپریل 1950ء میں راجہ غضنفر علی خان نے سویت سفیر سے دورے کے متعلق فیصلہ کن ملاقات کی۔وزیراعظم پاکستان اتنے سنجیدہ تھے کہ انھوں نے اپنے ارکان ِوفد کا انتخاب بھی کر لیا۔مستقبل کے وزیرخارجہ،کیپٹن یعقوب علی خان بھی اس وفد کا حصہ تھے۔لیکن سویت حکومت مسلسل ٹھنڈی پڑی رہی۔چناں چہ لیاقت علی خان مایوس ہو کر مئی1950ء میں امریکہ چلے گئے جہاں ان کا پُر تپاک و شاندار استقبال ہوا۔سوال یہ ہے کہ جوزف اسٹالن کی حکومت دورے کی خود دعوت دے کر پیچھے کیوں ہٹ گئی؟دراصل 7 مئی 1949ء کو بھارتی وزیراعظم،پنڈت نہرو نے دورہ امریکہ کی امریکی دعوت قبول کر لی تھی۔اس امر نے سویت حکومت کو چراغ پا کر دیا جو بھارت کو اپنے دائرہ ِاثر میں لانا چاہتی تھی۔اس نے پھر وزیراعظم پاکستان کو دورے کی دعوت دینے سے جوابی حملہ کر ڈالا۔پنڈت نہرواوائل اکتوبر 1949ء میں امریکہ پہنچے۔یہ دورہ ناکام رہا اور بھارت و امریکہ کے مابین ٹھوس معاشی یا عسکری معاہدے انجام نہ پائے۔یہ دیکھ کر بھارت کے لیے سویت حکومت کے دل میں پھر نرم گوشہ نمودار ہو ا جو مقامی سطح پہ بہرحال پاکستان سے بڑی قوت تھا۔دوسری جانب پاکستانی حکومت کو ٹرخایا جانے لگا۔ایسے حالات میں پاکستانی وزیراعظم کو بادل نخواستہ دورہ ِامریکا کہ دعوت قبولنا پڑی۔بعد ازاں راولپنڈی سازش کیس)فروری1951ء)میں سویت یونین کی مبینہ شمولیت نے پاکستانی حکومت کو روسیوں سے متنفر کر دیا۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ لیاقت علی خان کوئی معاشی امداد لینے یا پاکستان کو امریکی بلاک میں شامل کرنے امریکہ نہیں گئے…وہ امریکیوں سے برابری کی بنیاد پہ تعلق قائم کرنا چاہتے تھے۔امریکہ جاتے ہوئے کراچی کے ہوائی اڈے پر ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آیا وہ امریکی صدر،ہیری ٹرومین کی پیشکش پر قرض لے لیں گیِ ؟وزیراعظم نے ترنت جواب دیا:’’میں ہاتھوں میں کشکول اٹھائے نہیں جا رہا۔‘‘یہ پہلے پاکستانی حکمران کا دلیرانہ اور سر اٹھا کر جینے کی نوید سنانے والا اعلان تھا۔مگر آنے والے ہمارے حکمرانوں نے بے شرمی سے ہاتھوں میں کشکول تھام لیے۔اب تو یہ عالم ہے کہ بقول انورؔ مسعود :سنا ہے،اُس کی منظوری بہر صورت ضروری ہےاسی کے حکم سے اس آرزو کے پھول کھلتے ہیںہمیں اگلی صدی میں داخلہ درکار ہے انورؔسنا ہے،داخلے کے فارم امریکا میں ملتے ہیں٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
حیرت انگیز اور انوکھی تعمیرات  کے شاہکار ریستوران

حیرت انگیز اور انوکھی تعمیرات کے شاہکار ریستوران

کسی بھی ریستوران میں قیام کرنے والے شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے ریستوران میں ہر طرح کی سہولت میسر ہو۔ اس حوالے سے فائیو سٹار اور تھری سٹار ہوٹلوں میں قیام کرنے والوں کو بہترین اور غیری معمولی جدید سہولتیںفراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن دنیا میں بہت سے اسے ریستوران بھی موجود ہیں جو اپنے طرز تعمیراور محل و قوع کے لحاظ سے انتہائی منفرد ۔ انوکھے اور حیرت انگیز ہیں۔ جن کو دیکھنا یا ان میں ٹھہرنا مسافروں کیلئے نہایت دلچسپ اور انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔ آئیے سیاحوں کی دلچسپی کے مرکز دنیا کے ان شاہکار ریستورانوں میں سے چند کا جائزہ لیتے ہیں۔ریت سے بنا ہوا ریستورانبرطانیہ کے جنوبی ساحل پر ریت سے ایک حیرت انگیز ریستوران تعمیر کیا گیا ہے جس کی تعمیر میں ہزاروں ٹن ریت استعمال ہوئی ہے۔ اس حیرت انگیز ریستوران کو چار مجسمہ سازوں کی تعمیر نے روزانہ 14 گھنٹے کام کر کے 7 روز میں تعمیر کیا ہے۔ ریستوران میں تمام کمرے اور بستر ریت سے تعمیر کئے گئے ہیں۔ بارش اس ہوٹل کو چند لمحوں میں برباد کرسکتی ہے۔اس ریستوران کی چھت نہیں ہے اس وجہ سے یہاں رات کو ٹھہرنے والے لوگ ریت سے بنے بستر پر لیٹ کر آسمان پر چمکتے ستارے دیکھ کر لطف اندوز ہونے کے ساتھ مظاہر قدرت کا یکسوئی کے ساتھ مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس ریستوران کے مالک کا نام مارک اینڈرسن ہے جس کا دعویٰ ہے کہ یہ ریت سے بنی ہوئی برطانیہ کی سب سے بڑی عمارت ہے۔تیرنے والا ریستورانسوئیڈن میں ایک انوکھا تیرنے والا ریستوران ''سالٹ اینڈسل‘‘ واقع ہے جو سوئیڈن کے جنوب میں ''کلیڈزیبو لیمن‘‘ نامی جزیرے میں بنایا گیا ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز اکتوبر2008ء میں ہوا تھا۔ یہ ایک ماحول دوست ریستوران ہے جس میں لوگ کھلی فضاء میں بیٹھ کر ہوٹل کی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ ہوٹل دو منزلوں پر مشتمل ہے۔ اس ریستوران کے کمروںکے فرش پر گرینائٹ لگایا گیا ہے اور ان کمروں کو اعلیٰ ترین فرنیچر سے سجایا گیا ہے۔ اس تیرنے والے ریستوران میں مہمانوں کوSea Foodسے بنائے گئے کھانے کھلائے جاتے ہیں جبکہ ریستوران میں ایک میٹنگ روم اور کانفرنس ہال بھی بنایا گیا ہے۔برف سے بنایا گیا ریستورانکینیڈا میں واقع ''ہوٹل دی گلیس‘‘ نامی ریستوران مکمل طورپر برف سے بنایا گیا ہے۔ یہ حیرت انگیز برفانی ہوٹل کینیڈا کے شہر ''موٹریال‘‘ سے 149 میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ اسے برف سے بنایا گیا ہے۔ ریستوران کے تمام کمرے، ستون اور آرائشی اشیاء برف سے تراشی گئی ہیں۔ اس ریستوران کی سیر اور اس میں قیام کیلئے سب سے اچھا وقت 4 جنوری سے 4 اپریل تک ہے کیونکہ یہاں سردی کے موسم میں برفانی ریستوران کا اندرونی درجہ حرارت منفی 13 سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے، برف سے بنے ہوئے اس انوکھے اور خوب صورت ریستوران میں اکثر فلموں اور ٹی وی پروکشنز کی شوٹنگ، شادیاں ،سیمینار، آرٹ کی نمائش اور مختلف کمپنیوں کی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ اس حیرت انگیز برفانی ریستوران کو دیکھنے کیلئے ہر سال دنیا بھر سے سیاح بڑی تعداد میں کینیڈا آتے ہیں۔کیپسول ریستورانجاپان میں ایک جدید طرز کا ''کیسپول ریستوران‘‘ بنایا گیا ہے جونہایت کم خرچ میں ایک شخص کو سونے کیلئے کافی ہے۔ یہ ہوٹل اپنی ساخت کے لحاظ سے نہایت ہی انوکھا اور حیرت انگیز ہے کیونکہ جس طرح مرغے، مرغیوں اور دوسرے پالتوں پرندوں کی رہائش کیلئے ڈربے بنائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح انسانوں کیلئے یہ کیسپول نما ریستوران بنایا گیا ہے، جس میں انسانوں کیلئے ڈربے بنائے گئے ہیں جن کی ساخت ایک دراز کی طرح ہے جس میں ایک وقت میں صرف ایک ہی شخص سو سکتا ہے۔ ریستوران کے کمرے اور دروازے لکڑی یا لوہے کی بجائے شیشے سے بنائے گئے ہیں اوراس کیپسول ریسٹورنٹ میں دیگر بڑے ہوٹلوں جیسی تمام سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ کمروں میں کھانا کھانا اور سگریٹ نوشی ممنوع ہے۔ ان کمروں کی چوڑائی ایک میٹر اور لمبائی دومیٹر ہے۔ اس طرز کے بنے ہوئے ریستوران جاپان میں بہت تیزی کے ساتھ مقبول ہو رہے ہیں اور اب کئی جگہ ایسے ہوٹل تعمیر کئے جارہے ہیں۔جنگل میں بنایا گیا ریستورانمیکسیکو کے جنگل میں پہاڑوں اور درختوں کے درمیان لوہے کے ڈھانچے پر مشتمل ایک مضبوط اور خوبصورت ہوٹل ''جنگل ہوٹل‘‘ کے نام سے بنایا گیا ہے۔ جس کے کمرے نہایت آرام دہ ہیں۔ یہ ہوٹل چھٹیاں گزارنے کیلئے ایک بہترین جگہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں چھٹیوں کے زمانے میں بہت مشکل سے کمرے کرائے پر ملتے ہیں اور کافی پہلے سے اس ہوٹل میں کمرے بک کروانے پڑتے ہیں۔ یہ ہوٹل زمین سے کافی بلندی پر بنایا گیا ہے جس کا ہر کمرہ بہت دلکش ہے۔ اس ہوٹل میں رہنے والوں کو تمام اشیاء لینے کیلئے خود نیچے آناپڑتا ہے۔ چونکہ یہ ہوٹل مسافروں اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے اس وجہ سے اس ہوٹل سے نیچے ایک بڑا بازارقائم ہوگیا ہے۔ جہاں ضرورت کی تمام اشیاء با آسانی خریدی جاسکتی ہیں۔ اپنی وضح قطع اور محل وقوع کے لحاظ سے یہ ایک انوکھی اور دلچسپ جگہ ہے جہاں آنے والوں کو بھر پور تفریح اور مہم جوئی کے مواقع ملتے ہیں۔غار ریستورانیہ ریسٹورنٹ ترکی میں کیپی ڈوشیا کی پہاڑیوں میں ایک غار میں بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے اسے ''غار ہوٹل‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں آنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ زمانہ قدیم کے کسی دور کے باسی ہیں۔ جب لوگ عام طورپر پہاڑوں میں غار کے اندررہا کرتے تھے۔ ترکی میں کیپی ڈوشیاء کے پہاڑوں کے اندر بنے ہزاروں سال پرانی قدیم غاروں کو تمام ضروری اشیاء سے مزین کر کے انہیں ایک بہت ہی خوبصورت ہوٹل کی شکل دی گئی ہے۔ 6 غاروں پر مشتمل اس ''غار ہوٹل‘‘ میں تیس کمرے ہیں جہاں سہولتوں اور آرام کا ہر ممکن اہتمام کیا گیا ہے۔ اس غار ہوٹل کے قریب ایک اوپن ایئر عجائب گھر، شاپنگ سنٹر، ریسٹورنٹ اور مذہبی مراکز بھی قائم ہیں جبکہ ہوٹل کے ہر کمرے کے ساتھ باتھ روم کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ 

دلکش سیاحتی مقامات والا ملک:پانامہ

دلکش سیاحتی مقامات والا ملک:پانامہ

ابھی چند برس پہلے کی بات ہے جب ہر سو پانامہ پیپر لیکس کا چرچا تھا۔ پاکستان میں تو اس کا شور تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا لیکن وسطی امریکہ کے جس ملک نے یہ تہلکہ مچایا تھا خود اس کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں؟ پانامہ صرف ٹیکس فری بزنس زون ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے حقائق کا مالک ہے جن کے بارے میں بہت کم لوگ علم رکھتے ہیں۔ آئیے پانامہ ملک کے حوالے سے چند اہم باتیں جانتے ہیں۔پاناما وسطی امریکہ میں ایک چھوٹا ملک ہے، جس کا دارالحکومت پانامہ سٹی ہے۔ یہاں کی کرنسی ڈالر ہے اور یہاں ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے۔ پانامہ کے خوبصورت اور دلکش مقامات کی سیر کے لیے ہر سال 20 لاکھ سیاح اس ملک کا سفر کرتے ہیں۔ یہاں متعدد آبشاریں، پہاڑ، جھرنے اور جنگلات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یونیسکو کی جانب سے پانامہ کے نیشنل پارک کو عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل کیا گیا ہے۔پانامہ نہرپانامہ میں واقع پانامہ نامی نہر ملکی معیشت کے حوالے سے ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ 1914ء میں بننے والی اس نہر کی تیاری انجینئرنگ کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل تھا۔ اس نہر کی تعمیر کے دوران تقریباً 27 ہزار 500 مزدور ہلاک ہوئے۔ جس میں 1881ء سے 1889ء تک جاری رہنے والا ناکام فرانسیسی منصوبہ بھی شامل تھا جس میں 22 ہزار کے قریب مزدور ہلاک ہوئے۔ تمام تر احتیاطی اقدامات کے باوجود 1904ء سے 1914ء تک جاری رہنے والے امریکی منصوبے کے دوران بھی 5 ہزار 609 کارکن ہلاک ہوئے اس طرح نہر کی تعمیر کے دوران ہلاک ہونے والے کارکنوں کی تعداد 27 ہزار 500 کے قریب ہے۔اس کی تعمیر سے علاقے میں جہاز رانی پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے کیونکہ اس سے قبل جہاز براعظم جنوبی امریکہ کے گرد چکر لگا کر راس ہارن سے بحر الکاہل میں داخل ہوتے تھے۔ اس طرح نیویارک سے سان فرانسسکو کے درمیان بحری فاصلہ 9 ہزار 500 کلومیٹر ہو گیا جو راس ہارن کے گرد چکر لگانے پر 22 ہزار 500 کلومیٹر تھا۔ اور یہ سفر طے کرنے میں بحری جہازوں کو تقریباً 3 مہینے زائد سفر کرنا پڑتا تھا۔پانامہ نہر ایک صدی بعدپانامہ کی معیشت کو ترقی دینے کے لیے کئی برسوں سے پانامہ نہر کی توسیع کام کیا جا رہا ہے جس کے بعد اس راستے سے کنٹینر کی ترسیل کے لیے استعمال کیے جانے والے بحری جہاز بھی یہاں سے گزر سکیں گے۔ اس وقت پانامہ کی کُل آمدنی میں 8 فیصد کردار اس نہر کا ہے۔ آج نہر پانامہ دنیا کے اہم ترین بحری راستوں میں سے ایک ہے جہاں سے ہر سال 14 ہزار سے زائد بحری جہاز گزرتے ہیں جن پر 203 ملین ٹن سے زیادہ سامان لدا ہوتا ہے۔ اس نہر سے گزرنے کا دورانیہ تقریبا 9 گھنٹے ہے۔ڈیوٹی فری آلبروک شاپنگ مالیہ شاپنگ مال پانامہ شہر میں واقع ہے اور اسے لاطینی امریکہ کے سب سے بہترین شاپنگ مالز میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس شاپنگ مال سے بغیر ڈیوٹی ادا کیے اشیاء کی خریداری ممکن ہے۔ سیاح اس شاپنگ مال میں خریداری کیلئے ضرور آتے ہیں۔بالبوآ ایونیویہ اس ملک کی نہ صرف مہنگی ترین سڑک ہے بلکہ پانامہ شہر کا مرکز بھی ہے۔ اس سڑک کو سیاحوں کی خصوصی توجہ حاصل ہے۔ اس علاقے میں امراء رہائش پذیر ہیں اور اسی وجہ سے یہاں گھر خریدنا عام افراد کے بس کی بات نہیں۔غربتاگرچہ اس ملک میں بسنے والے افراد کی اوسط آمدنی ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن پھر بھی یہاں کسی حد تک غربت موجود ہے۔ اگر آپ پانامہ ملک کے دارالحکومت پانامہ سٹی کا دورہ کریں تو آپ کو جہاں ایک جانب بلند و بالا عمارات دکھائی دیں گی وہیں ان کے درمیان کچی بستیاں بھی نظر آئیں گی۔مقبول ترین تہوارکارنیوال دنیا کا سب سے مقبول ترین تہوار ہے اور یہ تہوار پانامہ میں بھی انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کے موقع پر پورے ملک میں مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں لوگوں نے علاقائی لباس زیب تن کر رکھے ہوتے ہیں۔ یہ تہوار چار روز تک منایا جاتا ہے۔٭...٭...٭

آج کا دن

آج کا دن

دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوادوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی نے7 مئی 1945ء کو ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ فیصلہ ایک قانونی دستاویز کے تحت کیا گیا۔ نازی جرمنی کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے سے دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔ معاہدے پر 8 مئی 1945ء کوبرلن میں تینوں مسلح افواج کے نمائندوں اور اتحادی افواج کے نمائندگان نے ایک ساتھ دستخط کیے ۔ سوویت ریڈ آرمی کی سپریم ہائی کمان کے ساتھ، مزید فرانسیسی اور امریکی نمائندوں نے بطور گواہ دستخط کیے۔ یورپ کے بیشتر حصوں میں 8 مئی ''یوم فتح ‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے۔یورپی تاریخ کا پہلا وفاقی اجلاس دی ہیگ کانگریس یا یورپ کی کانگریس، جسے بہت سے لوگ یورپی تاریخ کا پہلا وفاقی اجلاس بھی تصور کرتے ہیں، 7 مئی 1948ء کو ہیگ میں منعقد ہوا۔ جس میں یورپ بھر سے 750 مندوبین کے ساتھ کینیڈا اور امریکہ کے مبصرین نے بھی شرکت کی۔ جوزف ریٹنگر کے زیر اہتمام کانگریس نے ایک وسیع سیاسی میدان سے نمائندوں کو اکٹھا کیا۔ انہیں یورپی سیاسی تعاون کی ترقی کے بارے میں خیالات پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس تاریخی کانفرنس نے یورپی ترقی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ایران میں شدید زلزلہ7مئی1930ء کو ایران کے مغربی صوبہ سلماس میںخوفناک زلزلہ آیا۔ اس زلزلے کو ایران کے بدترین زلزلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی شدت 7.1 تھی۔ ماہرین زلزلہ اور زلزلہ پیما تنظیموں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ شمال مغربی ایران اور جنوب مشرقی ترکی میں 3ہزار تک ہلاکتیں ہوئیں۔سلماس کے میدان اور آس پاس کے پہاڑی علاقوں میں 60 دیہات تباہ ہو گئے ۔آفٹر شاکس نے بھی بہت تباہی مچائی ۔مصر ایئر لائن حادثہ کا شکار2002ء میں آج کے روز مصر ایئر لائن کی پرواز 843 حادثہ کا شکار ہوئی۔ یہ قاہرہ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے تیونس کی ایک معمول کی پرواز تھی جو تیونس انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب دھند اور بارش کے باعث ایک پہاڑی سے ٹکرا گئی۔ جہاز میں عملے کے 6 ارکان اور 56 مسافرموجود تھے۔ جن میں سے 14 افراد ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں 3 عملے کے ارکان اور 11 مسافرشامل تھے ۔

دنیاکی خطرناک ترین جھیلیں

دنیاکی خطرناک ترین جھیلیں

لفظ جھیل کے ساتھ ہی انسان کے ذہن میں ایک خوبصورت اور خوشگوار تاثر جنم لیتا ہے۔ جھیل فطری طور پر موجود پانی کا ایک بڑا مگر ساکت ذخیرہ ہوتا ہے۔جھیلیں عام طور پر دو طرح کی ہوتی ہیں۔ایک قدرتی اور دوسری مصنوعی۔ قدرتی جھیلیں پہاڑی علاقوں، خوابیدہ آتش فشانی دھانوں ،سرسبز میدانی ودایوں اور گلیشئرز والے علاقوں میں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تیس لاکھ سے زائد جھیلیں پھیلی ہوئی ہیں جن میں زیادہ تعداد قدرتی جھیلوں کی ہے۔ ان میں بہت ساری جھیلیں عالمی شہرت کی وجہ سے سارا سال دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔دنیا بھر میں ایسی جھیلوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے خطرناک محل وقوع اور پیچیدہ ساخت کی وجہ سے باقاعدہ طور پر مقامی انتظامیہ کی طرف سے ''ممنوعہ علاقے ‘‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔اس کے باوجود بھی دنیا بھر سے آئے جنونی اور مہم جو سیاح تمام خطرات کو بالائے طاق رکھ کر انہیں دیکھنے پہنچ جاتے ہیں۔ ذیل میںایسی ہی کچھ خطرناک جھیلوں کا ذکرہے۔کیوو جھیل کانگو جمہوریہ کانگو اور روانڈا کی سرحد کے بیچوں بیچ افریقہ کی ایک بڑی اور خطرناک جھیل واقع ہے جس کی شہرت ''کیوو کانگو جھیل‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ جھیل اپنے اندر زہریلی میتھین گیس کے وسیع ذخائر کی وجہ سے ماہرین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس پراسرار جھیل میں ایک اندازے کے مطابق 60 ارب کیوبک میٹر میتھین گیس اور 300 کیوبک میٹر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس تحلیل ہے۔ ماہرین کہتے ہیں اسی پر ہی بس نہیں ہے بلکہ اس خطرناک گیس کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس گیس کا منبہ اس جھیل کے قریب ایک آتش فشاں ہے جس کے بار بار پھٹنے اور جھیل کیوو کی تہہ میں موجود بیکٹیریا کے گلنے سڑنے کے عمل کے دوران یہ گیس پیدا ہو رہی ہے۔ماہرین ایک عرصہ سے کانگو حکومت کے اکابرین کو متنبہ کرتے آرہے ہیں کہ میتھین گیس کی یہ غیر معمولی مقدار کسی ایٹم بم کی طرح انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔گیس کے بڑھتے اس خطرناک عمل کو ماہرین نے ''اوور ٹرن‘‘کا نام دیا ہے۔جبکہ سائنسی زبان میں اسے ''لمنک ایریپشن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔یہ عمل تب وقوع پذیر ہوتا ہے جب جھیل کی تہہ میں موجود پانی کے دبائو کی وجہ سے گیس کا پریشر بھی بڑھ جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں تکنیکی ردعمل وجود میں آتا ہے جس سے قریب کی آبادیوں کیلئے جان لیوا خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ تاہم یہاں سائنسدانوں کی یہ کوشش لائق تحسین ہے جس کے ذریعے وہ اس گیس سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر غور کر رہے ہیں۔ رامری جزیرہبرما کے قریب ایک ویران جزیرہ کو ''رامری جزیرہ ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی وجہ شہرت یہاں پر موجود ایک جھیل میں غیرمعمولی تعداد میں موجود آدم خور مگر مچھوں کی موجودگی ہے ۔ جس کی وجہ سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں نے اس جزیرے کو اس روئے زمین پر جانوروں کے ہاتھوں سب سے زیادہ انسانی جانوں کے نقصان اور ہلاکتوں کو قرار دیا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں نے امریکی فوج کے حملوں سے بچنے کیلئے اس خفیہ مقام کو محفوظ سمجھتے ہوئے اس جزیرے کا رخ کیا تھا جو اس حقیقت سے لاعلم تھے کہ یہ مقام آدم خور مگر مچھوں کا مسکن ہے۔ چنانچہ ایک اندازے کے مطابق اس دوران جاپان کے 900کے لگ بھگ فوجی ان مگرمچھوں کی بھینٹ چڑھ کر موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ یہ روایات بھی ہیں کہ اس دوران صرف چند ایک فوجی زندہ بچ پائے تھے۔ جہاں تک اس جزیرے کی اس خونی جھیل کے مگر مچھوں کی تعداد کا تعلق ہے، اگرچہ صحیح تعداد کا دعویٰ یوں تو آج تک سامنے نہیں آیا لیکن واقفان حال کے اندازوں کے مطابق یہ جھیل۔ 30 ہزار سے زائد مگر مچھوں کا مسکن ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگرچہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے اس علاقے کو خطرناک علاقہ قرار دیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہر سال متعدد جنونی اور مہم جو سیاح ان مگر مچھوں کی خوراک بنتے رہتے ہیں۔ خونی جھیل جاپان کے ایک شہر بیپو میں سرخ رنگ کے اُبلتے ہوئے پانی کی ایک جھیل سیاحت کے اعتبار سے خاصی شہرت کی حامل ہے۔ یہ جھیل جاپان کے غیر معمولی درجہ حرارت والے گرم پانی کے چشموں اور جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس جھیل کے پانی کا درجہ حرارت 194 فارن ہائیٹ تک رہتا ہے۔ جہاں تک اس کے خون کی رنگت والے سرخ پانی کا تعلق ہے تو ماہرین کے مطابق چونکہ اس جھیل کی تہہ میں فولاد اور نمک کہ وافر مقدار موجود ہے جس کی وجہ سے اس کے پانی کی رنگت سرخ ہے۔اس جھیل کا سرکاری نام جاپانی زبان میں ''Chinoike Jigoku‘‘ ہے جس کے معنی''جہنم کی خونی جھیل ‘‘کے ہیں۔اس لئے عرف عام میں اس جھیل کو خونی جھیل بھی کہتے ہیں ، جس کے نام کی کشش کی وجہ سے دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔اس جھیل بارے صدیوں پرانی سینہ بہ سینہ چلتی سیکڑوں مقامی روایات بھی جڑی ہوئی ہیں جن میں ایک مقبول روایت کے مطابق دیوتا ناراضگی کی صورت میں اپنے پجاریوں کو اس جھیل میں پھینک دیا کرتے تھے۔ او کفنوکی جھیلامریکی ریاست جارجیا کے شمال مشرق میں واقع 438000 ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلی گہرے سیاہ رنگ کی ایک خوفناک جھیل جو اب رفتہ رفتہ ایک ایسی خوفناک دلدل میں بدل چکی ہے جس کا سب کچھ ہی انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں تک کہ یہاں موجود بیشتر پودے بھی گوشت خور نسل کے ہیں جو ہر لمحہ انسانی خون کے پیاسے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس دلدل کے اردگرد گھنی جھاڑیاں اور خود رو پودوں کے اندر کالے سیاہ مچھر ہر وقت منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ماہرین کے مطابق یہاں ہزاروں کی تعداد میں زہریلے سانپ ، موٹے تازے مینڈک اور کالے سیاہ رنگ کے مگر مچھ پانی کی سیاہ رنگت کی وجہ سے نظر نہیں آتے۔ اگرچہ سیاحوں کو اس جھیل سے دور رہنے کیلئے جگہ جگہ تحریری طور پر متنبہ کیا جاتا ہے لیکن اکثر و بیشتر کچھ جنونی مہم جو جان ہتھیلی پر رکھ کر موت کی اس وادی تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر موجود خود رو گھاس بھی اس قدر خطرناک ہے کہ اس دلدل کے قرب و جوار میں موجود سڑکوں اور عمارات تک کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ جیکبس ویل جھیلامریکی ریاست ٹیکساس میں واقع یہ کرسٹل کی طرح چمکدار اور صاف شفاف پانی کی ایک خوبصورت قدرتی جھیل ہے جس کی گہرائی لگ بھگ 30فٹ ہے۔یہ اپنی خوبصورتی کے برعکس دنیا کی خطرناک ترین جھیلوں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اس کی تہہ میں خطرناک ، گہری اور پراسرار غاروں کا جال بچھا ہوا ہے۔ اگر کوئی غلطی سے اس جھیل میں غوطہ زن ہو کر غاروں کے قریب پہنچ جائے تو ماہرین کے بقول اس کی واپسی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔مشی گن جھیل امریکہ کی یہ جھیل بھی انتہائی خطرناک جھیل ہے کیونکہ یہاں بہت کم غوطہ خور اس میں تیراکی کے بعد واپس آتے ہیں۔ اس جھیل کو ایک پر اسرار اور خطرناک جھیل کی شہرت اس لئے ہے کہ یہ ہر سال سیکڑوں ہلاکتوں کا باعث بنتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سو غوطہ خوروں میں سات سے آٹھ افراد جاں کی بازی ہار جاتے ہیں۔ماونٹ اریبس جھیلانٹارکٹکا میں واقع یہ جھیل نہ صرف ایک عجوبہ عالم ہے بلکہ دنیا کی چند خطرناک ترین جھیلوں میں سے بھی ایک ہے۔ عجوبہ جھیل اسے اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے پانی کے اوپر والے حصے کا درجہ حرارت 60 ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ پانی کے اندر کا درجہ حرارت 1700 ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس ہوتا ہے۔یہ چونکہ آتش فشاں کے لاوے کے ذریعے وجود میں آنے والی ایک جھیل ہے جس کی وجہ سے اس کا درجہ حرارت غیرمعمولی رہتا ہے۔ چنانچہ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا کی خطرناک ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کے قریب جانا خطرے سے خالی اس لئے نہیں ہے کہ اس آتش فشاں کا لاوا کسی بھی لمحہ پھٹ سکتا ہے اور آناً فاناً دس سے بیس فٹ فاصلے کے درمیان چیزوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ کھولتی ہوئی جھیل ڈومینیکا کے پہاڑوں کے درمیان واقع ایک جھیل ایسی ہے جس کا پانی زیادہ تر ابلتا رہتا ہے۔ اس کا اوسط درجہ حرارت 198 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ نے اس جھیل میں اترنے یا اس میں نہانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ مقامی لوگوں نے اس جھیل کو ''ابلتی جھیل‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔

پتن مینارہ

پتن مینارہ

تاریخی عمارتیں ہر قوم کے نزدیک بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، پتن مینارہ بھی ایک ایسی ہی تاریخی عمارت ہے جس کی تعمیر کے پیچھے باقاعدہ ایک تاریخ ہے۔ یہ تاریخی ورثہ اب تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے، اس کے اردگرد کی تمام زمین فروخت کر دی گئی ہے۔ اب اسے منہدم کر دیا جائے گا اور یہاں کاشت کاری شروع ہو جائے گی۔رحیم یار خان سے 15کلو میٹر کے فاصلے پر پتن مینارہ واقع ہے۔ پتن مینارہ کے اردگرد کا علاقہ کپاس کی کاشت کیلئے مشہور ہے۔ یہاں سے بڑی مقدار میں روئی حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن ان کھیت کھلیانوں کے درمیان کھڑا تاریخی ورثہ کسی کی توجہ کا مرکز نہیں۔ اب یہ صرف اینٹوں کا ایک مینار باقی رہ گیا ہے جو کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتا ہے۔اس تک پہنچنے کیلئے ایک ٹیلے پر مبنی سیڑھیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں محکمہ اوقاف پنجاب کی جانب سے تختی آویزاں ہے، جس پر اسے تاریخی ورثہ قرار دیئے جانے سے متعلق عبارت درج ہے۔ مینار بھی آدھا زمین میں دھنس چکا ہے اور تختی پر واقع تحریر بھی واضح نہیں رہی۔ یہاں مقیم لوگ مینار کی تاریخ سے واقف ہیں اور اس کے متعلق مختلف قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ مولوی خلیل احمد کے مطابق پتن مینار 326قبل از مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا۔ جس وقت یہ تعمیر ہوا اس کے پہلو سے دریائے سندھ سے نکلنے والا ایک چھوٹا دریا گھاگرا گزرا کرتا تھا۔ اس مینار نے بہت سی ثقافتیں اور قومیں گزرتی دیکھی ہیں۔ یہ موہنجودڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا سے مطابقت رکھتا ہے اور بدھ مت، آریان، برہمنوں کے علاوہ یہ افغان حکمران فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں بھی اہم مقام رہا۔ کئی حکمران دوران سفر یہاں قیام کیا کرتے تھے۔سکندر اعظم برصغیر پر حملہ آور ہوا تو اُس نے اِس مقام پر اپنی فوجی چھائونی تعمیر کروائی تھی۔ جس کا انتظام ایک یونانی گورنر کے ہاتھ میں تھا۔ یونانیوں نے یہاں ایک یونیورسٹی اور کمپلیکس بھی تعمیر کروایا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس جگہ کی اہمیت میں کمی واقع ہوتی چلی گئی۔ پہلے چونکہ اس کے قریب سے دریا گزرا کرتا تھا بعد میں دریائے سندھ نے اپنا رخ موڑ لیا اور اس میں سے نکلنے والا چھوٹا دریا بھی خشک ہو گیا جس کے بعد یہاں سے آباد کاروں نے بھی ہجرت کر لی اور یہ جگہ محض کھنڈر بن کر رہ گئی۔ 1849ء میں ماہر تعمیرات کرنل منچن نے یہاں پر خزانے کی تلاش کا کام شروع کیا تھا لیکن یہ بھی مشہور تھا کہ یہ خزانہ روحانی طاقتوں کے قبضے میں ہے، اس لئے خزانے تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود کرنل نے کھدائی کا عمل جاری رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ خزانے تک پہنچ گیا تھا انہیں اس دوران ایک راستہ مل گیا تھا۔ کھدائی کے جاری عمل میں یہاں مزدوروں پر اچانک غیبی حملہ ہو گیا، یوں اس سوراخ کو بند کر دیا گیا۔ کرنل منچن کی شروع کردہ خزانے کی یہ کھوج یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ تلاش کا یہ عمل جاری رہا۔ ریاست بہاولپور کے نواب صادق عباسی کے دور حکمرانی میں بھی خزانے کی تلاش کا کام شروع ہوا۔ انہوں نے اپنے وقت کے کئی جوگیوں اور روحانی پیروں کی مدد حاصل کی لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔پتن مینار سے چند سوگز کے فاصلے پر ایک قدیم مسجد بھی ہے جسے ابوبکر مسجد کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسے ایک مسلم حکمران محمد ابوبکر سانول سائیں نے 1849ء میں تعمیر کرایا تھا۔ یہ مسجد پتن مینار کے قریب آج پوری شان و شوکت سے کھڑی ہے۔ اس کی حفاظت کی جا رہی ہے اور یہاں پانچ وقت نماز ادا ہوتی ہے۔ مقامی طور پر کئی مرتبہ کوشش کی گئی کہ پتن مینار کو خوبصورتی اور دوام بخشا جائے اور اسے تاریخی ورثے کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس کے ارد گرد کمپلیکس اور پارک تعمیر کیا جائے تاکہ لوگ اس کی جانب متوجہ ہوں۔ اس سلسلے میں رحیم یار خان کے عباس زیدی نے 1993ء میں ان امور کی جانب قدم بڑھایا اور اس مقصد کیلئے کثیر زر مبادلہ بھی وقف کیا۔ اس سلسلے میں کام شروع کر دیا گیا پھر نہ جانے کیوں یہ منصوبہ اچانک ہی کھٹائی میں پڑ گیا۔ 

اردوالفاظ کا درست استعمال

اردوالفاظ کا درست استعمال

جانوروں کے بچہ کو ہم بچہ ہی کہتے ہیںمثلاً سانپ کا بچہ ،الو کا بچہ،بلی کا بچہ،لیکن اردو میںان کے لئے جدا جدا لفظ ہیں، مثلاً :بکری کا بچہ : میمنا، بھیڑ کا بچہ : برّہ، ہاتھی کا بچہ : پاٹھا، الوّ کا بچہ : پٹھا، بلی کا بچہ : بلونگڑہ، گھوڑی کا بچہ:بچھیرا، بھینس کا بچہ:کٹڑا، مرغی کا بچہ:چوزا، ہرن کا بچہ:برنوٹا،سانپ کا بچہ: سنپولا ،سور کا بچہ: گھٹیا ۔ اسی طرح بعض جانداروں اور غیرجانداروں کی بھیڑ کیلئے خاص الفاظ مقرر ہیں۔جو اسم جمع کی حیثیت رکھتے ہیں ؛مثلاً :طلبا کی جماعت،پرندوں کا غول،بھیڑوں کا گلہ،بکریوں کا ریوڑ،گووں کا چونا ،مکھیوں کا جھلڑ،تاروں کا جھرمٹ یا جھومڑ، آدمیوں کی بھیڑ،جہازوں کا بیڑا ،ہرنوں کی ڈار،کبوتروں کی ٹکڑی،بانسوں کا جنگل ، درختوں کا جھنڈ، اناروں کا کنج ، بدمعاشوں کی ٹولی ، سواروں کا دستہ، انگور کا گچھا، کیلوں کی گہل ، ریشم کا لچھا، مزدوروں کا جتھا، فوج کا پرّا، روٹیوں کی تھپی، لکڑیوں کا گٹھا، کاغذوں کی گڈی، خطوں کا طومار، بالوں کا گُچھا، پانوں کی ڈھولی، کلابتوں کی کنجی۔(شورش کاشمیری کی کتاب ''فن ِ خطابت‘‘ سے اقتباس)