برما کے مظلوم روہنگیا مسلمان

اسپیشل فیچر
بدھ مت کے بانی و گیانی،مہاتا بدھ کا قول ہے:’’ہزارہا کھوکھلے الفاظ سے بہتر وہ ایک لفظ ہے جو امن لے آئے۔‘‘صد افسوس کہ برما کے انتہا پسند بدھی باشندوں نے مسلمانوں پہ ظلم و ستم ڈھا کر امن و محبت کی تلقین کرنے والے اپنے گرو کو دنیا بھر میں رسوا کرڈالا۔ان کی وحشیانہ کارروائیوں کی وجہ سے روہنگیا مسلمان آج دنیا کا مظلوم ترین انسانی گروہ بن چکے۔برما میں مسلم دشمنی کا عجوبہ سیاسی،مذہبی،معاشی اور معاشرتی بنیادیں رکھتا ہے۔……………بارہ سو سال قبل مسلم ہندوستانی ملاح و تاجر بنگلہ دیش کے نزدیک واقع علاقے،اراکان پہنچے جو اب راخین کہلاتا ہے۔رفتہ رفتہ ہندوستان ،چین اور ملائشیا کے ہزارہا مسلمانوں نے برما کو اپنا وطن بنا لیا۔چند متعصب برمی حکمرانوں کو چھوڑ کر عام بدھیوں اور مسلمانوں کے تعلقات خوشگوار رہے۔1406ء میں اراکانی بادشاہ ،نارامیخالا کو دشمنوں نے شکست دی تو وہ بنگال فرارہو گیا۔وہاں وہ شاہ بنگال،جلال الدین محمد کا اعتماد پانے میں کامیاب رہا۔سو 1429ء میں شاہ جلال دین کی عسکری امداد سے نارا میخالا نے اراکان فتح کر لیا۔تب بنگالی فوج کے کئی فوجی وہیں بس گئے۔انھوں نے علاقے کو ’’روہنگ‘‘کا نام دیا۔اسی مناسبت سے وہ ’’روہنگیا‘‘ کہلائے۔یہ نام علاقے کے قدیم صدرمقام،مرہونگ سے ماخوذ ہے۔ نارا میخالا نے جس بدھی ریاست کی بنیاد ڈالی،اس کے راجا طویل عرصہ اسلامی بنگال سلطنت کے باج گذار رہے۔انیسویں صدی میں انگریزوں نے اراکان پہ قبضہ کر لیا۔تب وہ کام کاج کے واسطے مذید بنگالی مسلمانوں کو علاقے میں لے آئے۔یوں خصوصاً شمالی علاقے میں مسلمانوں کی آبادی 98 فیصد تک پہنچ گئی۔بیسویں صدی میں مغربی اثرات کے باعث برما میں بدھی قوم پرستی نے جنم لیا۔ان قوم پرستوں نے انگریزوں کے علاوہ ہندوستانی مسلمانوں کو بھی ’’غیرملکی‘‘قرار دیا۔وجہ یہ کہ چینی اور ملائی مسلمان تھوڑی تعداد میں تھے۔نیز ان کی اکثریت برمی معاشرے میں جذب ہو چکی تھی۔سو برمی بدھیوں کو ان سے کوئی خطرہ نہ تھا۔مگر ہندوستانی مسلمان اپنی اقدار، روایات، تہذیب و ثقافت زندہ رکھے ہوئے تھے۔وہ برما میں تبلیغ اسلام بھی کرتے ۔مذید براں برمی کاروبار و تجارت پہ چھائے ہوئے تھے۔یہ بات بھی قوم پسندوں کو بہت کھلتی۔انھوں نے واویلا مچا دیا کہ یہ لوگ برما میں اپنی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ سو بدھی قوم پرست ان کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں کرنے لگے تاکہ وہ واپس ہندوستان چلے جائیں۔مسلم دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے ہی1947ء کے بعد رنگون و دیگر شہروں میں آباد تقریباً سبھی ہندوستانی مسلمان مغربی یا مشرقی پاکستان چلے آئے۔1947 ء میں اراکان کی 50 فیصد آبادی روہنگیا مسلمانوں پہ مشتمل تھی۔جبکہ بقیہ باشندے مختلف بدھی نسلی گروہوںخصوصاً راخینی سے تعلق رکھتے۔تب مسلمانوں نے یہ تحریک چلائی کہ شمالی اراکان کا علاقہ مشرقی پاکستان میں شامل ہو جائے۔اس ضمن میں قائداعظم سے بھی رابطہ کیا گیا۔تاہم برطانوی اور برمی لیڈروں کی سازباز نے تحریک آزادی کامیاب نہ ہونے دی۔جب برمی فوج نے بزور تحریک کو ختم کرنا چاہا ،تو روہنگیا مسلمانوں سے تصادم ہو گیا۔یوں برمی حکمران طبقے(فوج،سیاست دانوں،افسرشاہی اور راہبوں)اور مسلمانوں کے مابین طویل لڑائی کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔برمی حکومت نے وقفے وقفے سے اسلامیوں پہ عسکری حملے کیے ۔ان کی وجہ سے سیکڑوں مسلمانوں نے جام ِشہادت نوش کیا۔ دس لاکھ سے زائدبنگلہ دیش،پاکستان،ملائشیا اورسعودی عرب ہجرت کر گئے۔فی الوقت آٹھ تا دس لاکھ روہنگیا اراکان میں مقیم ہیں۔برمی حکومت بیشتر کو’’غیر قانونی مہاجر‘‘ قرار دے چکی۔یوں انھیں اپنے ہی وطن میں اجنبی بنا دیا گیا۔ان پہ کڑی پابندیاں عائد ہیں۔مثلاً کوئی روہنگیا ملازمت نہیں کر سکتااور ایک خاندان کو صرف دو بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے۔غیر قانونی مہاجرین بھی حقوق رکھتے ہیں۔مگر امن ومحبت اور انسانی حقوق کے علم بردار، مہاتما بدھ اور آنگ سوچی کے پیروکار روہنگیا ئوں سے جانوروں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔وہ اب برما میں اچھوت بن چکے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ پچھلے ایک عشرے سے بدھی راہب مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہیں۔وجہ یہ کہ برمی بدھیوں کا اعتقاد ہے،مہاتما بدھ کی موت کے پانچ ہزار سال بعد بدھ مت ختم ہو جائے گا۔چونکہ 1956ء میں بدھ کو دنیا سے رخصت ہوئے ڈھائی ہزار سال بیت چکے،سو ان کے نزدیک زوال شروع ہو چکا۔راہب اب اسی زوال سے بچنے کی خاطر برما سے مسلمانوں (اور عیسائیوں کو بھی)نابود کرنا چاہتے ہیں۔ایسے انتہا پسند راہبوں کا لیڈر اشین وراتھو ہے جس نے ایک دہشت گرد تنظیم’’669 موومنٹ ‘‘بنا رکھی ہے۔تنظیم کے ارکان مسلمانوں کے خلاف پرُتشدد کارروائیاں کرتے ہیں۔مسلم دشمنی کا معاشی پہلو یہ ہے کہ اراکان میں آباد راخینی بدھی سمجھتے ہیں کہ روہنگیا مقامی وسائل پہ قبضہ کر کے انھیں غربت سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔سو ان کی خواہش ہے کہ سبھی روہنگیا بنگلہ دیش چلے جائیں۔پچھلے دنوں تیس برس بعد برما میں آدم شماری ہوئی۔اس موقع پر اراکانی بدھیوں نے دہمکی دی کہ اگر مسلمانوں نے فارم پہ ’’روہنگیا ‘‘لکھا ،تو وہ آدم شماری کا بائیکاٹ کر دیں گے۔چناں چہ برمی حکومت نے اعلان کر دیا کہ مسلمان فارم پہ ’’بنگالی‘‘لکھیں۔یہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نئی چال ہے۔کیونکہ انھوں نے خود کو بنگالی قرار دیا،تو مخالفین کی یہ بات درست سمجھی جائے گی کہ وہ برما کے شہری نہیں۔بدھی غنڈے وقتاً فوقتاً مسلمانوں پہ حملے کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کی نسل کشی جاری رہے۔برمی حکومت نے دنیا والوں کو مطمئن کرنے کی خاطر مسلم بستیوں پہ فوجی تعینات کر رکھے ہیں مگر بووجوہ اس حفاظت کا کوئی فائدہ نہیں ۔اور یہ دیکھ کر رونا آتا ہے کہ حسینہ واجد کی بنگلہ دیشی حکومت ان ستم رسیدہ اسلامیوں کی کوئی پروا نہیں کرتی۔اس نے بہاری مسلمانوں کے مانند روہنگیائوں کو بھی حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ رکھا ہے۔دور جدید میں مسلم حکمرانوں کی بے حسی و خودغرضی اور اقتدار و آسائشات سے الفت بھی اُمت کے زوال کی بڑی وجہ ہے۔٭…٭…٭