ادب کی دنیا

اسپیشل فیچر
حلقۂ اربابِ ذوق (ٹی ہائوس) کا اجلاسحلقۂ اربابِ ذوق پاک ٹی ہائوس میںنئی نسل کے نمایندہ نظم گو ڈاکٹر جاوید انور کی یاد میں اُن کی تیسری برسی کے موقع پر غلام دستگیر ربانی کی صدارت میں خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔سیکریٹری حلقہ ڈاکٹر غافر شہزاد نے ڈاکٹر جاوید انور کی کئی نظمیں سنائیں اور اُن کے شاعری، تخلیقی سفر اور شخصیت کے حوالے سے گفت گو سے تقریب کا آغاز کیا۔ مضامین پڑھنے اور گفت گو کرنے والوں میں غلام دستگیر ربانی،ڈاکٹر ناہید شاہد، قائم نقوی،علی اصغر عباس، شفیق احمد خان، ڈاکٹر امجد طفیل، اعجاز رضوی،زاہد حسن اور اشرف سلیم شامل تھے۔ڈاکٹر جاوید انور 1980ء کی دہائی میں علمی و ادبی حلقوں میں متعارف ہونے والے نظم گو شاعر تھے، جنھوں نے بہت کم عرصے میں اپنا نام اور پہچان بنائی۔اُن کی نظمیں فنون، ماہ نو اور دیگر ادبی رسائل میں شائع ہوئیں۔ اُن کے تین شعری مجموعے: ’’شہر میں شام‘‘،’’ اشکوں میں دھنک‘‘ اور ’’بھیڑئیے سوئے نہیں‘‘ شائع ہوئیں جب کہ چوتھا مجموعہ ’’برزخ کے پھول‘‘ اشاعتی مراحل میں ہے۔مقررین نے کہا کہ دیارِ غیر میں زندگی کے آخری برس گزارنے کے باوجود اُن کا ربط لاہور سے قائم رہا،وہ عالمی ادب پر گہری نظر رکھتے تھے۔اُن کی بے وقت کی موت نے اُردو ادب کو ایک توانا اور منفرد نظم گو شاعر سے محروم کر دیا۔اس اجلاس میں میں غلام دستگیر ربانی،ڈاکٹر ناہید شاہد، قائم نقوی،علی اصغر عباس، شفیق احمد خان، ڈاکٹر امجد طفیل، ڈاکٹر غافر شہزاد، اعجاز رضوی،زاہد حسن اور اشرف سلیم، جمیل احمد عدیل،شاہدہ دلاور شاہ،جاوید قاسم، فیصل زمان چشتی،فیضان رشیدو دیگر احباب شامل تھے۔حلقۂ اربابِ ذوق(ایوان ِ اقبال) کا جلسہحلقۂ اربابِ ذوق کا ہفتہ وار تنقیدی اجلاس 16نومبر کو ایوان اقبال میں زیر صدارت مظفر بخاری منعقد ہوا۔ پچھلے ہفتے کی کارروائی کی توثیق کے بعد سب سے پہلے جاوید اطہر نے ’’پاکستان کی لوک داستانیں‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون پیش کیا،جس پر رشید مصباح نے کہا کہ ایسی تحریر، تحقیق کے اُصولوں پر مبنی ہونی چاہیے، جس پر مضمون نگار نے عمل نہیں کیا۔ زیر نظر مضمون میں جن داستانوں کا ذ ِکر کیا گیا ہے، اُن میں سے کئی داستانیں ایسی ہیں جنھیں ہم لوک داستانیں نہیںکہہ سکتے: مثلاً یوسف زلیخا لوک داستان نہیں ۔ دوسرے،رزمیہ داستانوں کو لوک داستانوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ مضمون نگار کو چاہیے تھا کہ سب سے پہلے وہ لوک داستان کی تعریف کرتے اور پھر اُس تعریف کی روشنی میں آگے بڑھتے۔ خالد محمود کا خیال تھا کہ اخبارات اور رسائل ایسے مضامین تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد شائع کرتے ہیں اور اُن کا معیار کافی بلند ہوتا ہے، مگر اس طرح کی فہرست سازی کو کسی ادبی زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ مضمون نگار کی تحقیق ہمیں حقائق کا پتا نہیں دیتی۔اس کے بعد حماد نیازی نے غزل پیش کی، جس کا مطلع تھا ’’لہو میں خواب سی تاثیر ہے‘ کہانی ہے؍ فرو ِغ بوئے اساطیر ہے، کہانی ہے۔‘‘ جاوید اطہر نے ردیف قافیے کے استعمال کو سراہتے ہوئے ،اسے ایک اچھی غزل قرار دیا جب کہ حماد حسن کا خیال تھا کہ کچھ پتا نہیں چلتا آیا اس غزل میں تسلسل وغیرہ نام کی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔ توقیر عباس نے اسے جدید غزل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مطلع کہنا بہت مشکل تھا، مگر شاعر نے مہارت سے کام لیا ہے اور غزل کو اس کی جکڑ بندی سے نجات دلائی ہے۔ آخر میںمنور عثمانی نے ’’ایک کردار اپنے خالق سے‘‘ کے عنوان سے ایک انشائیہ پڑھا ،جس پر عامر فراز،رشید مصباح و دیگر نے مفصل گفت گو کی۔پِلاک میںکتاب ’’ حرف ِ تندور‘‘ کی تقریبپنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر(پِلاک)لاہور کے زیر اہتمام اصغر فہیم کی کتاب ’’حرف ِ تندور:ارمغانِ حجاز، پیام مشرق تے مشہور اُردو نظماں دا منظوم پنجابی ترجمہ‘‘ کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا ،جس کی صدارت ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے کی جب کہ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے بطورِ مہمانِ اعزاز اور صوفیہ بیدار نے بطورِ مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر اظہارِ خیال کرنے والوں میں راجا نیئر، ندیم بھابھہ، رانا سردار پرویز اور نبیل نجم شامل تھے۔ تقریب میں شہر کی معروف علمی، ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ ڈاکٹر صغرا صدف ڈائریکٹر پِلاک نے اس کتاب کو اقبال شناسی کے حوالے سے ایک گراں قدر اضافہ قرار دیا اور کہا کہ اقبالؔ جیسی عظیم ہستیوں کا پنجابی میں ترجمہ کرنے سے پنجابی زبان کا دامن وسیع ہوگا۔ تقریب میں نقابت کے فرائض خاقان حیدر غازی نے ادا کیے۔ شاکر شجاع آبادی کے اعزاز میں تقریبپِلاک کے زیر اہتمام معروف شاعر شاکر شجاع آبادی کے ساتھ ایک شام کا انعقاد کیا گیا، جس میں پارلیمانی سیکریٹری رانا محمد ارشد اور معروف شاعرہ نوشی گیلانی نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ تقریب کے آغاز پر ممتاز ملک نے تلاوت کلام پاک اور عبد المجید چٹھہ نے نعت رسول مقبول ﷺ کی سعادت حاصل کی۔ اس موقع پر دانشوروں اور شاعروں نے شاکر شجاع آبادی کی شاعری کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جب کہ محمد سعد فاروق اور عمران شوکت علی نے ان کی شاعری کو گا کر حاضرین سے خوب داد وصول کی۔ اظہارِ خیال کرنے والوں میں احمد رضا، حکیم سلیم اختر، سعید خان، ندیم بھابھہ، ممتاز راشد، اعتبار ساجد، منفعت عباس رضوی، سرفراز سید، صوفیہ بیدار و دیگر شامل تھے۔ ڈاکٹر صغرا صدف ڈائریکٹر پِلاک نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور شاکر شجاع آبادی کے کلام کو بہت سراہا۔ پارلیمانی سیکریٹری رانا محمد ارشد نے شاکر شجاع آبادی کے کلام کو سراہنے کے ساتھ اُنھیں حکومتِ پنجاب کی طرف سے سکالر شپ دینے کا اعلان بھی کیا۔ تقریب کے اختتام پر شاکر شجاع آبادی کے شاگرد نذر فرید بودلہ نے ان کی شخصیت اور ان کے حاصل کردہ ایوارڈز کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دی۔ بعد ازاں ان کے بیٹے ولید شاکر نے اُن کے ساتھ مل کر اُن کا کلام سنایا۔ اس تقریب کی نقابت خاقان حیدر غازی نے کی۔ ’’تیرے لیے‘‘ کی تقریب ِرونمائی قیصرہ علوی نے لبنانی شاعرہ ہدیٰ النعمانی کی عربی زبان کی شہکار نظم کو ’’تیرے لیے‘‘ کے نام سے مہارت کے ساتھ اُردو کے قالب میں ڈھال کر منظوم ترجمہ نگاری کے اعتبار میں اضافہ کیا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار عطاء الحق قاسمی نے روٹری کلب ،اسلام آباد کے زیر اہتمام تقریب ِرونمائی میں صدارتی کلمات میں کیا۔ اُنھوں نے کہاقیصرہ علوی نے عربی دانوں سمیت اُردو ادب کے قارئین کے لیے یہ ایک قابلِ تحسین کام کیا ہے ۔اس تقریب میں لبنان کی سفیر مونا الطاہر نے تقریب میں بطور ِخاص شرکت کی۔ اپنے ابتدائی کلمات میں نیشنل بُک فائونڈیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کہا کہ پروفیسر قیصرہ مختار علوی ایک معزز علمی گھرانے کی چشم و چراغ ہیں۔ اُن کا گھر اسلام آباد کی تہذیبی زندگی کا ایک منور گوشہ ہے ۔پروفیسر فتح محمد ملک نے کہا کہ تقریباً ایک صدی پیشتر اسرارِ خودی کے تخلیقی عمل میں مصروف علامہ اقبالؔ نے تمنا کی تھی کہ کاش اُردو شاعری نے فارسی شاعری کے ساتھ عربی شاعری کے سرچشموں سے بھی سرسبزی و شادابی کا سامان کیا ہوتا۔ پروفیسر قیصرہ علوی کا عربی شاعری سے اُردو میں کیا ہوا یہ ترجمہ گویا اقبال کی اس صدا پر لبیک کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ٭…٭…٭