لیلیٰ کے ہٹے کٹے مجنوں
عشق لیلی میں صبیحہ اور سنتوش مرکزی کرداروں میں تھے ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ میںانور کمال پاشا نے اسلم پرویز اور بہار کو لیلیٰ مجنوں کے کرداروں میں لیا تھا۔ دیکھا جائے تو دونوں ہیرو مجنوں بننے کے قابل نہ تھے۔ مجنوں تو وہ شخص تھا جو لیلیٰ کے عشق میں سوکھ کر کانٹا ہو گیا تھا۔ لیلیٰ کی انگلیاں اور مجنوں کی پسلیاں بلاوجہ تو مشہور نہ ہوئی تھیں۔ ان دونوں فلموں کے مجنوں ماشااللہ تندرست اور ہٹے کٹے تھے۔ شوٹنگ فوراً شروع ہو گئی۔ اداکاروں اور ہنرمندوں نے نگار خانوں میں شب و روز اپنا ٹھکانا بنا لیا۔ اخباروں میں ہر روز ان دونوں فلموں کی تیاریوں کی خبریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ باقی لوگ دلچسپی سے تماشا دیکھ رہے تھے۔پاشا صاحب نے فلم کی پبلسٹی کا یہ طریقہ نکالا کہ اونٹ پر عربی لباس میں لیلیٰ مجنوں جیسے کردار بیٹھے ہوتے تھے۔ آگے پیچھے تانگوں اور ریڑھیوں پر فلم کے بڑے بڑے پوسٹر لگے ہوتے تھے اور لائوڈ اسپیکر پر اعلان ہوتا رہتا تھا مگر جب دونوں فلمیں ایک ہی دن ریلیز ہوئی تو منشی دل کا پلہ بھاری ہو گیا۔ ’’عشق لیلیٰ ‘‘ سپر ہٹ ہو گئی۔ اس فلم میں بارہ گانے تھے، جن میں سے بعض گانے تو آٹھ منٹ دورانیہ کے بھی تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ ایک گانا ختم ہوتے ہی دوسرا گانا شروع ہو گیا۔ اس فلم کے لئے صفدر نے بہت اچھا میوزک بنایا تھا۔ قتیل شفائی کے لکھے ہوئے گانے بھی بہت خوب تھے۔ اس پر سنتوش اور صبیحہ کی جوڑی۔ فلم بینوں کی تو عید ہو گئی۔ یہ فلم سپر ہٹ ہو گئی۔ اس کے مقابلے میں انور کمال پاشا صاحب کی ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔ نہ ہی اس کے گانے مقبول ہوئے۔ حالانکہ اس کی موسیقی رشید عطرے نے ترتیب دی تھی جنہیں عشق لیلیٰ کے موسیقار صفدر اپنا استاد مانتے تھے۔یہ دونوں مقابلے جیتنے کے بعد منشی دل کی خود اعتمادی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا، لیکن ہم نے ان کے برتائو میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔ وضع دار اور با مروّت آدمی تھے، جن دنوں مقابلے میں فلمیں بنائی جا رہی تھیں تو ظاہر ہے کہ فلمی دنیا میں خوب گہما گہمی تھی۔ فقرے بازی بھی ہوتی تھی ،پھر انور کمال پاشا تو فقرے چُست کرنے میں ماہر تھے۔ وہ منشی صاحب کے بارے میں جو بھی کہتے تھے وہ ان تک پہنچ جاتا تھا، مگر جواب میں انہوں نے کبھی کوئی تلخ و ترش بات نہ کی۔بات یہاں سے شروع ہو ئی تھی کہ اسلم پرویز کا سب سے پہلے منشی دل نے اپنی فلم ’’سوہنی‘‘ کے لئے اسکرین ٹیسٹ لیا تھا۔ ابھی وہ کوئی فیصلہ کرنے بھی نہ پائے تھے کہ اسلم پرویز کے ستاروں کی گردش میں کچھ تیزی آ گئی اور وہ انور کمال پاشا کی نظروں میں آگئے۔ نظروں میں تو خیر پہلے بھی تھے، لاہور میں کون سی جگہ تھی جہاں اسلم پرویز ٹِپ ٹاپ ہو کر نظر نہیں آتے تھے، مگر جب پاشا صاحب کو معلوم ہوا کہ وہ اداکار بننے کے بھی خواہش مند ہیں ،تو انہوں نے اپنی فلم ’’قاتل‘‘ میں انہیں سائیڈ رول کے لئے منتخب کر لیا۔ ’’قاتل‘‘ انور کمال پاشا کی بہت ہٹ فلم تھی، مگر اس فلم کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں تین ایسے نئے چہرے پیش کئے گئے تھے ،جو آگے چل کر فلمی آفق پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔ ان میں سے ایک تو اسلم پرویز ہی تھے جنہیں معاون اداکار کے طور پر کاسٹ کیا گیا تھا۔ دوسرے اکمل تھے۔ اکمل مشہور و معروف اداکار اجمل کے چھوٹے بھائی تھے۔ لمبے تڑنگے، خوش شکل، گورا رنگ، بڑی بڑی آنکھیں، ستواں ناک، قدرے گھنگریالے بال، مگر یہ سب خوبیاں رکھنے کے باوجود بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ فلمی دنیا میں وہ میک اَپ مین کے طور پر داخل ہوئے تھے بلکہ میک اَپ بوائے کہنا زیادہ مناسب ہوگا ،اس لئے کہ وہ ان دنوں نوخیز تھے۔ وہ چُپ چاپ کافی عرصے تک میک اَپ مین چارلی کے معاون رہے،پھر خود بھی میک اَپ مین بن گئے ،دوسروں کے چہروں کو سنوارتے تھے، مگر خود اپنی طرف سے بے پروا تھے۔(فلمی الف لیلہ از علی سفیان آفاقی)