عظیم مسلم سائنسدان علم ہندسہ کے ماہرحجاج بن یوسف مطر

عظیم مسلم سائنسدان علم ہندسہ کے ماہرحجاج بن یوسف مطر

اسپیشل فیچر

تحریر : اسد بخاری


حجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ میں کمال رکھتے تھے، انہوں نے دوبڑے کام کئے۔ ''مقدمات اقلیدس‘‘ کے نام سے ایک جامع کتاب علم ریاضی میں مرتب کی۔ دوسرا کام اس کا قدیم دور کی مشہور کتاب ''المجسطی‘‘ کو اصلاح اور نظرثانی کے بعد (ایڈٹ کر کے) مرتب کیا۔
ابتدائی زندگی
حجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ کے ماہر تھے۔ اس فن میں انہوں نے کمال پیدا کیا۔ حجاج بن یوسف دیہات کے باشندہ تھے، والدین تو کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن حجاج نے اپنے شوق اور اپنی محنت سے اچھی تعلیم حاصل کی، پھر دیہات کے تنگ دائرے سے نکل کر786ء میں بغداد آ گئے اور یہیں بس گئے۔
حجاج نے بغداد کے علمی ماحول سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور بغداد کی علمی صحبتوں سے مستفید ہو کر اپنی قابلیت اور استعداد میں اچھا اضافہ کر لیا۔ حجاج نے ہارون الرشید اور مامون الرشید دونوں کا روشن دور دیکھا تھا، مگر وہ خاموش علمی کام کرتا رہا۔
علمی خدمات اور کارنامے
حجاج ایک بلند پایہ ریاضی دان تھے۔ اس نے دو بنیادی کام کئے، ایک تو علم ہندسہ یعنی جیومیٹری کا کام تھا اور دوسرا علم ہیئت سے متعلق تھا۔ انہوں نے ان دونوں علوم کو نئے ڈھنگ سے فروغ دیا۔ جیومیٹری میں انہوں نے نئے نئے انکشاف کئے اور اپنا ایک حلقہ بنا لیا۔ اس وقت علم ہندسہ میں اس کا کوئی ہمسر نہ تھا۔
علم ہندسہ میں ایک جامع کتاب ''مقدمات اقلیدس‘‘ کے نام سے اس ریاضی دان نے مرتب کی۔ یہ ریاضی دانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔
دوسرا کارنامہ اس کا علم ہیئت سے متعلق ہے۔ قدیم زمانے کی مشہور کتاب ''المحسبعیٰ‘‘ کو اصلاح اور تصحیح کے ساتھ نئی ترتیب سے اس نے مرتب کیا اور اس علم کو نئے انداز سے فروغ دیا۔ اہل یورپ نے حجاج کی دونوں کتابوں سے فائدہ اٹھایا۔ ''مقدمات اقلیدس‘‘ کا ترجمہ ملک ڈنمارک سے 1893ء میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کی کتابیں بیسویں صدی تک مدارس کی زینت بنی رہیں۔ حجاج نے اور بھی بہت سی کتابیں ریاضی پر لکھی ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مائیکرو ویو کے استعمال کی عام غلطیاں!

مائیکرو ویو کے استعمال کی عام غلطیاں!

آگ یا نقصان سے بچنے کیلئے مائیکروویو کے اوپر کچھ نہ رکھیںچاہے کھانا دوبارہ گرم کرنا ہو یا پاپ کارن بنانا، ہم میں سے اکثر لوگ روزانہ مائیکروویو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ممکن ہے آپ اب تک اپنا مائیکرو ویو غلط طریقے سے استعمال کرتے رہے ہوں۔ بہت سے لوگ باورچی خانے کے اس آلے کے اوپر مختلف چیزیں رکھ دیتے ہیں، جن میں پھلوں کی باسکٹ، ٹشوپیپر، ٹاولز یا کھانا پکانے کی کتابیں شامل ہوتی ہیں۔ تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایسا کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ کا کچن چھوٹا ہے، سطحی جگہ محدود ہے اور آپ کے پاس کاؤنٹر ٹاپ مائیکروویو ہے، تو اس کے اوپر اضافی سامان رکھنا بظاہر پرکشش لگ سکتا ہے۔ لیکن اس سے مائیکروویو کے ہوا کے راستے بند ہو سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں آلہ زیادہ گرم ہو سکتا ہے، نقصان پہنچ سکتا ہے، حتیٰ کہ آگ لگنے کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ آپ مائیکروویو درست طریقے سے استعمال کر رہے ہیں، ماہرین نے روزمرہ کی وہ غلطیاں بھی بتائی ہیں جو اکثر لوگ کرتے ہیں۔کھانے کو ہلانا بھول جانے سے لے کر برتنوں کو حد سے زیادہ مضبوطی سے بند کرنے تک، ذیل میں ایسی ہی چند بڑی غلطیاں اور ان سے بچنے کے طریقے بیان کئے جا رہے ہیں۔ اینڈریو رائٹ(Andrew Wright) جوککولوجی( Cookology )کے بانی ہیں، کا کہنا ہے کہ جب مائیکروویو کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ نہایت بہترین اور کارآمد آلہ ہے، لیکن ہم بار بار ایک ہی غلطیاں ہوتے دیکھتے ہیں۔لوگ اکثر انہیں ایک بٹن دبانے والا سادہ حل سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ تھوڑی سی سمجھ بوجھ نہ صرف بہتر نتائج دیتی ہے بلکہ مشین کی عمر بھی بڑھا دیتی ہے۔ غیر محفوظ برتنوں کا استعمالہم سب جانتے ہیں کہ دھات والی کسی بھی چیز کو مائیکروویو میں نہیں رکھنا چاہیے۔ لیکن Cookology کے مطابق صرف فوائل کی تہہ یا دھاتی تاریں ہی خطرناک نہیں ہوتیں جن سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ماہرین نے وضاحت کی کہ پلاسٹک کو مائیکروویو میں گرم کرنا بھی مسئلہ بن سکتا ہے۔ وہ پلاسٹک ڈبے جو مائیکروویو کیلئے محفوظ نہ ہوں، خاص طور پر چکنائی یا تیل والے کھانے گرم کرتے وقت، نقصان دہ کیمیکل کھانے میں چھوڑ سکتے ہیں۔کھانے کو ہلانا یا گھمانا بھول جانااگرچہ آج کل زیادہ تر مائیکروویوز میں گھومنے والی پلیٹ (ٹرن ٹیبل) ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود کھانا ہمیشہ یکساں طور پر گرم نہیں ہوتا۔اسی لیے ضروری ہے کہ دورانِ استعمال مائیکروویو کو کچھ دیر کیلئے روک کر کھانے کو اچھی طرح ہلا لیا جائے۔ Cookology کے مطابق درمیان میں کھانا ہلانا یا برتن کو گھما دینا زیادہ محفوظ اور یکساں نتائج کو یقینی بناتا ہے، خاص طور پر چاول، گوشت یا بچے ہوئے کھانے دوبارہ گرم کرتے وقت۔برتنوں کو مضبوطی سے بند کرنامائیکرو ویو میں کھانا ڈھانپنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ کھانا یکساں طور پر گرم ہو اور چھینٹے بھی نہ پڑیں۔تاہم اس معاملے میں حد سے زیادہ احتیاط بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے، اس لیے برتن کو بہت زیادہ سختی سے بند نہ کریں۔ ماہرین کے مطابق بھاپ کے باہر نکلنے کیلئے تھوڑی سی جگہ چھوڑنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اگر ڈھکن مکمل طور پر بند ہو تو اندر دباؤ بڑھ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں برتن خراب ہو سکتا ہے یا ڈھکن اچانک اچھل کر کھل سکتا ہے۔ حتیٰ کہ مائیکروویو کیلئے محفوظ برتن بھی اس صورت میں خراب ہو سکتے ہیں اگر ان کا ڈھکن بہت زیادہ مضبوطی سے بند کیا جائے۔ Cookology کے مطابق بہترین نتائج کیلئے کھانے کو ہلکے انداز میں ڈھانپیں تاکہ حرارت اور نمی برقرار رہے، لیکن ساتھ ہی بھاپ کو محفوظ طریقے سے باہر نکلنے کا راستہ بھی ملتا رہے۔صفائی کو نظر انداز کرنامائیکروویو صاف کرنا ایک ایسا کام ہے جسے بہت سے لوگ ناپسند کرتے ہیں۔لیکن ماہرین کے مطابق یہ نہ صرف صفائی بلکہ مائیکروویو کی کارکردگی کیلئے بھی بہت ضروری ہے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گندا مائیکرو ویو زیادہ توانائی جذب کرتا ہے اور کھانے کو کم مؤثر طریقے سے پکاتا ہے۔ کھانے کے دھبے بدبو اور دھوئیں کے خطرے کو بھی بڑھا دیتے ہیں۔ تاہم، بلیچ یا دیگر امونیا پر مبنی محلول استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ مائیکرو ویو جیسے محدود اور بند جگہ میں یہ محلول زہریلی بھاپ چھوڑ سکتے ہیں جو کھانے کو آلودہ کر سکتی ہیں۔کھانے کو زہریلا ہونے سے بچائیں! کام کرنے کی جگہ کو صاف رکھیں: جراثیم کچن کی مختلف سطحوں پر زندہ رہ سکتے ہیں، اس لیے پکانے کی جگہ اور اپنے ہاتھوں کو صاف رکھنا ضروری ہے۔کراس کنٹامینیشن (cross-contamination) سے بچیں: کچا گوشت، مرغی، سمندری غذا اور انڈے کو اگر الگ نہ رکھا جائے تو یہ تیار کھانوں میں جراثیم پھیلا سکتے ہیں۔ ان اجزاء کو ہینڈل کرتے وقت الگ کٹنگ بورڈز اور پلیٹیں استعمال کریں۔ یہ اجزا فریج میں بھی الگ رکھے جانے چاہئیں۔تھرمامیٹر استعمال کریں: کھانے کو محفوظ طریقے سے پکانے کیلئے اندرونی درجہ حرارت اتنا ہونا چاہیے کہ وہ جراثیم کو مار دے جو فوڈ پوائزننگ پیدا کر سکتے ہیں۔ درست اندرونی درجہ حرارت اجزاء کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے، اور کھانے کے محفوظ پکنے کا واحد یقینی طریقہ فوڈ تھرمامیٹر استعمال کرنا ہے۔کھانے کو صحیح طریقے سے محفوظ کریں: کھانے کو صحیح طریقے سے اسٹور کرنا نقصان دہ بیکٹیریا سے لڑنے کیلئے ضروری ہے۔ فریش کھانے کو خریدنے کے دو گھنٹے کے اندر فریج میں رکھنا چاہیے اور فریج کا درجہ حرارت 40°F سے کم ہونا چاہیے۔صرف ختم ہونے کی تاریخ پر بھروسہ نہ کریں: صرف ایکسپائری ڈیٹ یہ نہیں بتاتی کہ کھانے کی اشیاء کب پھینکی جائیں۔ اگر کچھ بو یا رنگ میں عجیب لگے تو بہتر ہے کہ اسے پھینک دیا جائے۔منجمد کھانے کو کاؤنٹر پر پگھلانے سے گریز کریں: فریزر سے نکالے گئے کھانے کو کاؤنٹر پر پگھلانا خطرناک ہے کیونکہ بیرونی حصہ کمرے کے درجہ حرارت تک پہنچتے ہوئے بیکٹیریا تیزی سے بڑھ سکتے ہیں۔ منجمد کھانے کو فریج، سرد پانی میں یا مائیکروویو میں پگھلائیں۔ 

 بابل کے معلق باغات  عجوبہ فن اور اساطیری حسن

بابل کے معلق باغات عجوبہ فن اور اساطیری حسن

بابل کے معلق باغات دنیا کے سات قدیم عجائبات میں سے ایک ہیں جو اپنی شاندار تعمیراتی ہنر، غیر معمولی حسن اور پراسرار تاریخ کی وجہ سے آج بھی انسانی تخیل کو مسحور کیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان باغات کا کوئی ٹھوس آثارِ قدیمہ شواہد آج تک دریافت نہیں ہوا ہے لیکن یونانی مورخین کی تحریروں اور اساطیری داستانوں میں ان کا تذکرہ شاندار حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ ان باغات کو تقریباً 600 قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا (جدید عراق) کے شہر بابل میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہ عجوبہ بابل کے طاقتور حکمران نبوکدنزر دوم (Nebuchadnezzar ii) سے منسوب ہے جس نے 605 قبل مسیح سے 562 قبل مسیح تک حکومت کی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بادشاہ نے یہ باغات اپنی ملکہ امیٹیس آف میڈیا (Amytis of media) کو خوش کرنے کیلئے بنوائے تھے۔ ملکہ کا تعلق میڈیا کے پہاڑی اور سرسبز علاقوں سے تھا اور جب وہ بابل کے خشک اور میدانی ماحول میں آئیں تو اُداس رہنے لگیں۔ ان کی دلجوئی کیلئے بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ وہ بابل کے مرکز میں مصنوعی پہاڑ اور اس پر لہلہاتے ہوئے باغات تعمیر کروائیں گے جو انہیں اپنے وطن کی یاد دلائیں۔ یہ اقدام بادشاہ کے اپنی ملکہ سے گہری محبت کے اظہار کے ساتھ بابل کی شان و شوکت کا مظہر بھی تھا۔ معلق باغات کی سب سے حیرت انگیز خصوصیت ان کا غیر معمولی تعمیراتی ڈیزائن اور آبپاشی کا پیچیدہ نظام تھا۔ چھتوں پر یا کئی منزلہ چھتوں پر لہراتے ہوئے درخت اور بیلیں تھیں۔ یہ باغات دیوہیکل، سیڑھی نما ڈھانچے پر مشتمل تھے، جو سیڑھی نما ہرمی عمارت کی طرح بلند ہوتے جاتے تھے۔ ہر سطح چھت کا کام کرتی تھی جس پر مٹی ڈال کر پودے اور درخت لگائے جاتے تھے۔ ممکنہ طور پر یہ ڈھانچہ چونے کے پتھر، پکی ہوئی اینٹوں اور اسفالٹ (Asphalt) کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔ سب سے بڑا چیلنج پانی کو چھتوں سے رسنے سے روکنا تھا۔ مورخین کے مطابق، کاریگروں نے مٹی اور پودوں کے نیچے سیسے کی موٹی چادریں یا تارکول اور سرکنڈوں کی تہیں بچھائی تھیں تاکہ پانی عمارت کو نقصان نہ پہنچائے۔ دجلہ اور فرات جیسی نہروں کے قربت کے باوجود، باغات کی بلندی تک پانی پہنچانا انجینئرنگ کا شاہکار تھا۔ سب سے مشہور نظریہ یہ ہے کہ پانی دریائے فرات سے پیچیدہ زنجیری ڈول (Chain Pumps)یا آرکی میڈیز سکرو (Archimedes Screw) جیسے آلات کے ذریعے اوپر کھینچا جاتا تھا۔ یہ نظام چوبیس گھنٹے کام کرتا تھا تاکہ اوپر کی سطحوں پر موجود درختوں اور پودوں کو مسلسل پانی ملتا رہے۔ یہ قدیم زمانے میں تکنیکی مہارت کا شاندار نمونہ تھا۔ یہ باغات دنیا کے مختلف حصوں سے لائے گئے غیر ملکی درختوں، پھولوں، پھلوں کے پودوں اور خوشبودار جڑی بوٹیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ دور سے یہ منظر سرسبز پہاڑ کا تاثر دیتا تھا جو بابل کے ریگستانی منظر نامے کے درمیان نخلستان کی حیثیت رکھتا تھا۔اگرچہ روایتی طور پر یہ باغات بابل سے منسوب ہیں لیکن بیسویں صدی کے اواخر میں برطانوی ماہر آثارقدیمہ ڈاکٹر سٹیفنی ڈیلی (Stephanie Dalley) نے نیا اور متنازعہ نظریہ پیش کیا۔ ان کے مطابق بابل کے معلق باغات آشوری سلطنت کے شہر نینویٰ (Nineveh) میں تعمیر کیے گئے تھے اور ان کی تعمیر کا سہرا آشوری بادشاہ سِنحاریب (Sennacherib) کو جاتا ہے۔ ڈیلی کے اس دعوے کی بنیاد آشوری کتب اور نینویٰ میں دریافت ہونے والے وسیع آبپاشی کے نظام کے آثار ہیں جو پہاڑی علاقوں میں پانی پہنچانے کیلئے بنائے گئے تھے۔ تاہم اس نظریے کو بھی تمام ماہرین نے قبول نہیں کیا اور نبوکدنزر دوم کی بابل کے ساتھ وابستگی آج بھی زیادہ مقبول ہے۔ آثارِ قدیمہ کی عدم دستیابی نے اس بحث کو مزید تقویت دی ہے اور باغات کو مزید پراسرار بنا دیا ہے۔معلق باغات کی ثقافتی اور اساطیری اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔ یہ باغات انسانی عزائم اور فطرت کو اپنے تابع کرنے کی خواہش کا طاقتور اظہار تھے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ انسانی ذہانت اور محنت سے خشک زمین پر بھی جنت کا سماں پیدا کیا جا سکتا ہے۔پہلی صدی قبل مسیح میں یونانیوں نے دنیا کے سات سب سے شاندار اور غیر معمولی تعمیراتی شاہکاروں کی فہرست مرتب کی، جس میں معلق باغات کو بھی شامل کیا گیا۔ اس شمولیت نے ان باغات کو پوری دنیا کیلئے معیار بنا دیا۔ صدیوں سے معلق باغات مختلف فنون، شاعری اور ادب کا موضوع رہے ہیں۔ ان کی تصویر کشی شاندار، سرسبز اور جادوئی مقام کے طور پر کی گئی ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے۔معلق باغات کا انجام بھی ان کی پیدائش کی طرح پراسرار ہے۔ یہ واضح نہیں کہ یہ باغات کب اور کیسے تباہ ہوئے۔ بابل کا خطہ زلزلوں کی زد میں رہا ہے اور یہ ممکن ہے کہ طاقتور زلزلے نے اس پیچیدہ اور بھاری ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہو۔ باغات کا آبپاشی کا نظام انتہائی حساس اور پیچیدہ تھا۔ اگر بادشاہوں کی سرپرستی ختم ہوئی ہو یا دریائے فرات کا رخ بدلا ہو تو پانی کی عدم دستیابی سے باغات خشک ہو گئے ہوں گے اور عمارت تباہ ہو گئی ہوگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ عمارتیں قدرتی طور پر بوسیدہ ہو کر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں اور بابل کے ریت کے نیچے دفن ہو گئیں۔یہ عجوبہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قدیم تہذیبیں کس قدر تکنیکی طور پر ترقی یافتہ تھیں اور کس طرح وہ اپنے فن، عظمت اور حسن کو دائمی بنا سکتی تھیں۔ ان کا پراسرار وجود ہی انہیں قدیم دنیا کے سات عجائبات میں سب سے منفرد اور دلچسپ بناتا ہے۔ ان باغات کی تلاش آج بھی آثارِ قدیمہ کے ماہرین کیلئے خواب ہے جو ان اساطیری باغات کے حتمی راز کو جاننے کیلئے کوشاں ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

بے نظیر بھٹو کا قتلبے نظیر بھٹو کا قتل27دسمبر2007ء کو راولپنڈی میں ہوا۔ بے نظیر بھٹو دوبار پاکستان کی وزیر اعظم رہیں،جس وقت ان کو قتل کیا گیا وہ اپنی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔لیاقت باغ میں ایک جلسے کے بعد ان پر گولیاں چلائی گئیں اور فائرنگ کے بعد ایک خود کش بم دھماکہ بھی کیا گیا۔بے نظیر کو فوراً راولپنڈی جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی وفات کی تصدیق کی۔اس بم دھماکے میں 23دیگر افراد بھی شہید ہوئے۔آیاصوفیہ کی تکمیلآیاصوفیہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے اور بلاشک و شبہ اس کا دنیا کی تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 27دسمبر 537ء میں اس کی دوبارہ ہونے والی تعمیر مکمل ہوئی۔ آیاصوفیہ سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا ہے جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔آئی ایم ایف کا قیامبین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اقوام متحدہ کی ایک بڑی مالیاتی ایجنسی اور بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ہے۔اس کا صدر دفتر واشنگٹن میں واقع ہے جو 190ممالک پر مشتمل ہے۔ اس کا مقصد عالمی مالیاتی تعاون کو فروغ دینا،مالیاتی استحکام کو محفوظ بنانا، بین الاقوامی تجارت کو آسان بنانا ،روزگار اور پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دینا اور دنیا بھر میں غربت کو کم کرنا ہے۔ بین الاقوامی فنڈ(آئی ایم ایف)27دسمبر1945ء میں 29رکن ممالک کے تعاون سے وجود میں آیا۔ ارزنکن کا زلزلہ27دسمبر1939ء کو مشرقی ترکی میں ایک خوفناک زلزلہ آیا جسے ارزنکن کا زلزلہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس زلزلے کی شدت 7.8میگاواٹ ریکارڈ کی گئی۔ یہ 1668ء کے شمالی اناطولیہ کے زلزلے کے بعد ترکی میں ریکارڈ کیا جانے والا دوسرا سب سے طاقتور زلزلہ تھا۔ یہ 1939ء اور 1999ء کے درمیان شمالی اناطولیائی فالٹ کے ساتھ ترکی کو متاثر کرنے والے پرتشدد جھٹکوں کے سلسلے میں سب سے بڑا جھٹکا تھا۔کینیا میں بحران2007-08ء کے دوران کینیا کا بحران ایک پر تشدد سیاسی ،اقتصادی اور انسانی بحران تھا جو کینیامیں اس وقت پھوٹا جب سابق صدرموائی کو27دسمبر2007ء کوہونے والے صدارتی انتخابات میں فاتح قرار دیا گیا۔ان انتخابات کے نتائج میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کی گئی جس کی تصدیق بین الاقوامی مبصرین نے بھی کی۔انتخابات کو متنازع بنانے میں دونوں جماعتوں نے اپنا کردار ادا کیا یہاں تک کہ خود انتخابی کمیشن کے سربراہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ صدر کے عہدے کے اعلان کرنے کے باوجود نہیں جانتے تھے کہ انتخابات کس نے جیتے ہیں۔ 

گڈانی:تنہائی پسند ساحل

گڈانی:تنہائی پسند ساحل

ملک عزیز پاکستان بحری گزرگاہوں کے ذریعے دنیا سے منسلک ہے اور یوں سمندری تجارت پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں سمندری سیاحت کو وہ مقام حاصل نہیں جیسا کہ دیگر ممالک میں ہے لیکن اگر بات کی جائے ساحلی علاقوں کی تو ان گنت مقامات اپنی خوبصورتی کے باعث عالمگیر شہرت کے حامل ہیں، لیکن سیاحوں کی آمد و رفت کم اور صرف ملکی سیاحوں تک محدود ہے۔ ساحل گڈانی کو دیکھ لیں‘جو ہے تو بلوچستان کا حصہ لیکن کراچی سے 50کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باعث قریب ترین ساحل ہے جہاں با آسانی پہنچا جاسکتا ہے ۔گڈانی کا دلکش ساحل موسمِ گرما اور موسمِ سرما میں اپنی دلکش رعنائی سے سیاحوں کیلئے منفرد مقام ہے۔پاکستان میں چونکہ ساحلی سیاحت کیلئے موسمِ گرما کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کی بڑی وجہ تعلیمی اداروں کی تعطیلات ہوتی ہیں ۔ساحل گڈانی پر مختلف تفریحی مقام ہیں جہاں ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ آتے ہیں ، ساحلوں کے شوقین مہم جُو سیاح قریبی ساحل ،ڈگار زئی پہنچتے ہیں جو اپنی پہاڑیوں کے باعث مشہور ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے پہاڑی ٹیلے نیلگوں پانی میں استادہ ہیں جہاں سمندر کی لہریں اٹکھیلیاں کرتی ہیں تو پانی کی اچھال دیکھ کر لطف آجاتا ہے۔ سیاح قریبی ٹیلوں پر بیٹھ کر فوٹوگرافی میں وہ لمحات قید کرتے ہیں اور پھر اگلی منزل پھوکارا کے ساحل پر پہنچتے ہیں ۔گڈانی کا یہ ساحل ایک پہاڑی ٹیلے کا تسلسل ہےجہاں ایک پہاڑ میں بنا سوراخ جو چٹان میں ہوا دان کی طرح ہے اور دوسری جانب اس کا راستہ پہاڑ کے نیچے دروازے کی مانند سمندر کی جانب کھلتا ہے ۔سمندر کی لہریں جب اس دروازے پر دستک دیتی ہیں تو ان کی گونج اس ہوا دان یعنی پہاڑ میں بنے دریچے سے پھونکار کی طرح گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ یہ ردھم سیاحوں کیلئے بڑی کشش کا باعث بنتا ہے۔ یہاں سمندری لہریں پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں جو اس مقام کی انفرادیت ہے۔اسی ساحل سے تھوڑے فاصلے پر سنگ مرمر ساحل ہے ۔یہ مقام ساحل اور پہاڑی سلسلے کا بہت خوبصورت سنگم ہے، یہاں بھی سیاحوں کی اکثریت آتی ہے۔ پہاڑیوں کی دلکشی اور لہروں کی تیزی ایسی ہے کہ جب لہریں ساحل سے ٹکراتی ہیں تو پانی بہہ کر 20،25 فٹ تک پھیل جاتا ہے اور اسی تیزی سے وہ پانی سمندر کی جانب واپس پلٹتا ہے۔ ان لہروں کی کشش سیاحوں کو پانی میں بھیگنے کیلئے اکساتی ہے۔ ایسے ساحلوں پر حفاظتی انتظامات ضروری ہیں ، سیاحوں کو بھی یہ بات سمجھنا چاہیے کہ وہ ایسے پُر خطر حصوں میں مہم جوئی میں احتیاط سے کام لیں۔گڈانی کے ساحلی حصوں میں پوشیدہ ایک ایسا ساحل بھی ہے جو چٹانی ہے اور ایڈونچر پسند سیاح ان چٹانوں میں اتر کر انہیں عبور کرکے ساحل کی لہروں کو چھو سکتے ہیں یوں یہ غار نما پہاڑی راستہ ساحل کے کنارے پہنچاتا ہے ۔یہ غار اس قدر ٹھنڈک فراہم کرتی ہے کہ تھکان کو دور کر دیتی ہے۔ اس مقام کی دلکشی ناقابلِ فراموش ہونے کے ساتھ ساتھ بار بار آنے کی دعوتِ نظارہ بھی دیتی ہیں۔ موسمِ سرما میں آنے والے سیاح گڈانی کو مختلف انداز میں پاتے ہیں۔ اس وقت سمندر ان چٹانوں سے دوری اختیار کر لیتا ہے اور سمندر اور چٹانوں کے درمیان ساحل کی ریت آجاتی ہے جو آنے والے موسمِ گرما تک حدود قائم رکھتی ہے۔سفر کے آخر میں گڈانی کے اُس روپ کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہی ہے اور وہ ہے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں جہاز کٹنے کیلئے آیا کرتے تھے، اب وہ تعداد بہت کم ہوچکی ہے، اس کمی کو دور کرنے کیلئے بین الاقوامی ماحولیاتی اور حفاظتی معیارات کو اپنایا جارہا ہے تاکہ گڈانی شپ یارڈ آنے والے وقتوں میں گرین یارڈ میں منتقل ہوسکے ان اقدامات سے ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی اور مزدوروں کی صحت کو بھی تحفظ ملے گا۔گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کا شمار دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ اس کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو اس کا شمار دنیا میں پہلے نمبر پر ہے 132 یارڈز پر مشتمل گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سالانہ لاکھوں ٹن سٹیل فراہم کرتا ہے۔یوں گڈانی اپنی ان گنت خوبیوں کے باعث ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے ۔اس کے باوجود گڈانی ایک تنہائی پسند ساحل ہے جو صرف موسم گرما میں سیاحوں کے ساتھ گھل مل کر اپنی تنہائی دور کرتا ہے۔

کافی:روایت،رجحان اور ثقافت

کافی:روایت،رجحان اور ثقافت

دنیا میں روزانہ دو ارب 25 کروڑ کپ کافی پی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔دنیا کی سماجی تاریخ پر کافی کے انمٹ اثرات ہیں۔ کہیں اس کا تعلق سماجی انقلاب سے ملتا ہے اور کہیں ترک تعلق اور اپنے آپ میں مگن ہونے کے ساتھ۔ یہ دونوں صورتیں اگرچہ متضاد ہیں مگر ان میں ایک طرز مشترک ہے ‘ کافی۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کافی کی تاریخ کیا ہے اور یہ کن ادوار سے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ۔ اس تحریر میں ہم اسی کا جائزہ لیں گے اور دنیا میں کافی کی سرگزشت اور روایت کو کھوجنے کی کوشش کریں گے۔کافی کی حقیقت ایتھوپیا کا افسانہایتھوپیا کوکافی کی جنم بھومی سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے کی کافی کی کہانی کو گوگل کریں تو آپ کو یہ مشہور قصہ ضرور ملے گا کہ کس طرح ایتھوپیا میں کلدی نامی ایک چرواہے نے 800 عیسوی کے قریب کافی تلاش کی تھی۔کہتے ہیں کہ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ تھا کہ اس نے انہیں عجیب و غریب سی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک درخت سے بیر جیسے پھل کھانے کے بعد توانا اور پرجوش ہو گئی تھیں۔کلدی نے خود بھی ان بیروں کا ذائقہ چکھا توخود بھی توانا محسوس کرنے لگا۔کلدی ان بیروں کو ایک راہب کے پاس لے گیا۔راہبوں نے اسے 'شیطان کا کام‘ قرار دے دیااور اُن بیروں کو آگ میں پھینک دیا۔ ایسا کرتے ہوئے بھینی بھینی خوش ذائقہ خوشبو آنے لگی تو ان بیروں کو آگ سے نکال کر انگاروں میں کچل دیا گیا۔ راہبوں نے کچلے ہوئے بیروں پر پانی چھڑکا توخوشبو کا احساس مزید بڑھ گیا تو راہب اس پانی کا ذائقہ چکھنے پر مجبور ہو گئے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا کیونکہ یہ سفوف ملا پانی جو دراصل کافی تھا،راہبوں کو رات کی عبادت اور دعاؤں کیلئے بیدار رہنے میں مدد دے رہا تھا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ صرف ایک کہانی ہو کیونکہ کافی کی تاریخ کو اورومو/گالا (Oromo /Galla) خانہ بدوش قبیلے سے بھی ملایا جاتا ہے۔کافی کی تاریخ یمن سے کافی کی روایت میں یمن کے بارے بھی کچھ کہانیاں مشہور ہیں۔ کافی کی ابتدا کے بارے میں یمن کا سب سے مشہور افسانہ ایتھوپیا کی کہانی سے ملتا جلتا ہے۔وہ اس طرح کہ ایک یمنی صوفی ایتھوپیا کا سفر کر رہا تھا جہاں اسے کچھ بہت متحرک اور پرجوش پرندے دکھائی دیے جو ایک پودے سے پھل کھا رہے تھے۔ سفر کے تھکے ہوئے صوفی نے بھی ان بیروں کو کھانے کافیصلہ کیا اور اسے محسوس ہوا کہ ان سے خاصی توانا ئی ملتی ہے۔مگر عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی پھلیاں ایتھوپیا سے یمن برآمد کی گئی تھیں۔ یمنی تاجر کافی کے پودوں کو اپنے وطن لائے تھے اور وہاں ان کی کاشت شروع کی۔جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی ابتدا ایتھوپیا میں ہوئی ، یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 15 ویں صدی میں بحیرہ احمر کے پار شمال کی طرف یمن کی جانب اپنا راستہ بنایا اورپھر یہ یمنی علاقے میں بھی اگائی جانے لگی اور 16 ویں صدی تک یہ فارس، مصر، شام اور ترکی تک پہنچ چکی تھی۔یہ مشروب تازہ دم رہنے میں مدد کرنے کیلئے مقبول ہوا۔دنیا کا پہلا کافی ہاؤس 1475ء میں قسطنطنیہ(استنبول) میں کھولا گیا ۔ کافی روزانہ کے معمول کے طور پر گھروں میں اور مہمان نوازی کیلئے پیش کی جانے لگی۔ بیرون ِخانہ لوگوں نے نہ صرف کافی پینے بلکہ گپ شپ، موسیقی ، شطرنج کھیلنے اور اطلاعات حاصل کرنے کیلئے کافی ہاؤسز میں بیٹھنا شروع کر دیا۔یوں کافی ہاؤسز تیزی سے معلومات کے تبادلے اور حصول کا مرکز بن گئے۔ انہیں اکثر ''دانشمندوں کے مدرسے‘‘ کہا جاتا تھا۔کافی ہندوستان کیسے پہنچی؟ہندوستان میں بھی کافی کی داستان دلچسپ تاریخی روایتوں پر مبنی ہے۔ پندرہویں صدی میں کافی یمن کافی کی تجارت کا مرکز بن گیا اور وہاں سے یہ مشروب مکہ، مدینہ اور اسلامی سلطنت کے دیگر علاقوں میں پھیل گیا۔ہندوستان میں کافی کے داخلے کا سہرا صوفی بزرگ بابا بودن کے سر باندھا جاتا ہے، جن کا اصل نام حضرت شاہ جمال الدین تھا۔ روایت کے مطابق بابا بودن سترہویں صدی میں حج کی ادائیگی کیلئے گئے۔ اس زمانے میں عرب تاجروں نے کافی کے بیجوں کی برآمد پر سخت پابندی عائد کر رکھی تھی تاکہ اس کی کاشت دوسرے ملکوں میں نہ ہو سکے۔ کہا جاتا ہے کہ بابا بودن نے یمن سے کافی کے سات بیج چپکے سے حاصل کیے اور انہیں اپنی کمر بند میں چھپا کر ہندوستان لے آئے۔واپسی پر بابا بودن نے یہ بیج جنوبی ہندوستان کے علاقے چکماگلور (کرناٹک) کی پہاڑیوں میں بو دیے۔ یہاں کا موسم اور زمین کافی کی کاشت کیلئے موزوں ثابت ہوئے یوں ہندوستان میں پہلی بار کافی کی فصل اگائی گئی۔اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برطانوی دورِ حکومت کے دوران کافی کی تجارتی بنیادوں پر کاشت شروع ہوگئی۔ انگریزوں نے بڑے بڑے کافی سٹیٹس قائم کیے اور یہاں کی پیداوار کو عالمی منڈیوں تک پہنچایا۔ اگرچہ بعد میں چائے کو زیادہ فروغ ملا لیکن جنوبی ہندوستان میں کافی اپنی ثقافتی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔کافی یورپ میںپھر کافی کی تاریخ کا رُخ بدلنا شروع ہوا۔ اس مشروب نے یورپی مسافروں میں کافی مقبولیت حاصل کر لی تھی اور17 ویں صدی تک کافی نے یورپ کا راستہ بنا لیا تھا اور پورے یورپی براعظم میں تیزی سے مقبول ہو رہی تھی۔یورپی کافی کی تاریخ اٹلی سے شروع ہوتی ہے جہاں اسے سلطنت ِعثمانیہ سے درآمد کیا گیا تھا۔وینس کے تاجروں نے یورپی علاقوں میں کافی کی وسیع پیمانے پر مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا اور 1645ء میں وینس میں پہلا یورپی کافی ہاؤس کھولا گیا۔ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگلینڈ میں بھی کافی بہت مقبول ہوئی۔ انگلینڈ میں پہلا کافی ہاؤس 1651ء میں آکسفورڈ میں کھولا گیا۔ان کافی ہاؤسز میں لوگ کاروبار اور خبروں پر تبادلۂ خیال کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے کاروباری منصوبے اور آئیڈیاز لندن کے کافی ہاؤسز میں تخلیق ہوئے۔ اس کے بعد فرانس کے بادشاہ لوئس XIV کے دربار میں ترک سفیر سلیمان آغا نے 1669ء میں فرانس میں کافی متعارف کروائی۔دو سال بعد پاسکل نامی ایک آرمینیائی باشندے نے سینٹ گرمین کے میلے میں کافی کا ڈھابہ کھولا۔ اگلے 30 سالوں میں کافی آسٹریا، جرمنی، سپین اور باقی یورپ میں ثقافت کا حصہ بن چکی تھی۔ کافی بحر اوقیانوس کے اُس پار ورجینیا کی کالونی کے بانی کیپٹن جان سمتھ نے 1607ء میں جیمز ٹاؤن کے دیگر آباد کاروں کو کافی متعارف کروائی۔ تاہم پہلے اسے خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا اور اس کے مقابلے میں چائے کو ترجیح دی گئی۔1670ء میں، ڈوروتھی جونزبوسٹن میں کافی فروخت کرنے کا لائسنس حاصل کرنے والی پہلی دکاندار تھیں۔ لیکن چائے اب بھی امریکہ کے لوگوں کا پسندیدہ مشروب تھی۔ چائے پر زوال اُس وقت آ یا جب برطانیہ کے خلاف بغاوت کی وجہ سے اسے پینا غیر محب وطن ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا اور چائے سمندر میں پھینکی جانے لگی۔ اس کے بعد کافی تیزی سے مقبول ہوئی۔امریکہ کا گرم مرطوب موسم کافی کی کاشت کیلئے آئیڈئیل خیال کیاگیا اور کافی کے پودے تیزی سے پورے وسطی امریکہ میں پھیل گئے۔امریکہ میں کافی کی پہلی فصل کی چنائی 1726ء میں ہوئی۔لاطینی امریکی ممالک میں بھی کافی کی کاشت کیلئے مثالی ماحول تھا، جیسا کہ دھوپ اور بارش کا اچھا توازن اور مرطوب درجہ حرارت۔ اٹھارہویں صدی کے وسط تک لاطینی امریکہ کے ممالک کافی اگانے والے کچھ سرکردہ ممالک بن گئے۔ آج بھی برازیل دنیا کا سب سے بڑا کافی پروڈیوسر ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

کرسمس جنگ بندی 24 دسمبر 1914ء کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران ایک غیر معمولی اور انسانی جذبوں سے بھرپور واقعہ پیش آیا جسے تاریخ میں کرسمس ٹروُس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یورپ کے مغربی محاذ پر برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے خندقوں میں موجود تھیں۔ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں شدید جانی نقصان کے بعد کرسمس کے موقع پر، خاص طور پر 24 دسمبر کی رات، جرمن خندقوں سے کرسمس کے گیت گونجنے لگے۔25 دسمبر تک کئی مقامات پر دونوں جانب کے سپاہی خندقوں سے نکل آئے، ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا، سگریٹ، چاکلیٹ اور تحائف کا تبادلہ کیا۔ معاہدہ گینٹ پر دستخط 24 دسمبر 1814ء کو بلجیم کے شہر گینٹ میں ایک اہم سفارتی معاہدہ طے پایا جس نے امریکہ اور برطانیہ کے درمیان 1812ء کی جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے جنگ سے پہلے کی سرحدی حیثیت بحال کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ معاہدہ مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے کی بنیاد بنا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت مواصلاتی نظام سست ہونے کے باعث معاہدے پر دستخط کے بعد بھی چند ہفتوں تک لڑائی جاری رہی اور جنوری 1815ء میں نیو اورلینز کی جنگ لڑی گئی حالانکہ جنگ باضابطہ طور پر ختم ہو چکی تھی۔ سوویت یونین کا افغانستان پر حملہ24 دسمبر 1979ء کو سوویت یونین نے افغانستان میں فوجی مداخلت کا آغاز کیا۔ اسی دن سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں اور چند روز بعد کابل پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا گیا۔اس حملے کے نتیجے میں افغان حکومت کے صدر حفیظ اللہ امین کو ہٹا کر ببرک کارمل کو اقتدار میں لایا گیا۔ سوویت مداخلت کے خلاف افغانستان میں شدید مزاحمت شروع ہوئی جسے بعد ازاں جہاد کے نام سے جانا گیا۔یہ جنگ تقریباً دس سال تک جاری رہی بالآخر 1989ء میں سوویت افواج افغانستان سے واپس چلی گئیں۔ یہ مداخلت نہ صرف افغانستان بلکہ عالمی سیاست، سرد جنگ اور بعد ازاں سوویت یونین کے زوال پر بھی گہرے اثرات چھوڑ گئی۔ لیبیا کی آزادی24 دسمبر 1951ء کو لیبیا باضابطہ طور پر ایک آزاد ریاست بن گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد لیبیا اطالوی نوآبادیات سے نکل کر برطانوی اور فرانسیسی انتظام کے تحت آ گیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ایک طویل سیاسی عمل کے بعد آزادی کا راستہ ہموار ہوا۔آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی شاہ ادریس السنوسی کو لیبیا کا پہلا بادشاہ مقرر کیا گیا۔ اپالو 8 کا کرسمس ایو مشن24 دسمبر 1968ء کو امریکی خلائی مشن اپالو 8 نے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ یہ پہلا انسانی خلائی مشن تھا جس نے زمین کے مدار سے نکل کر چاند کے گرد چکر لگایا۔ اسی دن اپالو 8 کے خلا بازوں فرینک بورمن، جم لوول اور ولیم اینڈرزنے چاند کے مدار سے زمین پر براہِ راست نشریات کیں۔اس دوران خلا بازوں نے زمین کے طلوع کا تاریخی منظر دکھایا اور بائبل کی کتاب پیدائش کی ابتدائی آیات تلاوت کیں، جس نے دنیا بھر کے کروڑوں ناظرین کو جذباتی طور پر متاثر کیا۔