مارچ 1919ء میں انگریز حکومت نے ہندوستان میں ''رولٹ ایکٹ‘‘ کو نافذ کیا جس کے خلاف ملک گیر نفرت اور غم و غصہ13 موجود تھا۔ اس ایکٹ کے تحت تمام بنیادی انسانی حقوق سلب کر لیے گئے تھے اور پولیس کو جبر کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ رولٹ ایکٹ کے خلاف عوامی غم و غصہ تحریک کی شکل میں ابھرا اور پورے ملک میں احتجاجی مظاہروں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔اس ایکٹ کے خلاف سب سے پہلے 30مارچ کو ملک گیر ہڑتال کی کال دی گئی۔ یہ ہڑتال کافی حد تک کامیاب رہی جس میں ملک بھرکے اہم شہروں میں کاروبار زندگی معطل رہا۔ بمبئی، کلکتہ، امرتسر اوراحمدآبادسمیت پورے ہندوستان میں ایسی ہی شدت موجود تھی اور لاکھوں افراد سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔اس صورتحال میں 12اپریل کو خفیہ طور پر مارشل لا نافذ کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے اور عوام کو اس سے بے خبر رکھا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ 13اپریل کو جلیانوالہ باغ میں جمع ہونے والے افراد اس حکم نامے سے بے خبر تھے اور وہاں مقررین کی تقریروں کو سن رہے تھے۔حکومتِ پنجاب نے مرکزی انگریز حکومت سے 13اپریل کو مارشل لاء کے نفاذ کی درخواست کی تھی، چناں چہ 15اپریل1919ء کو لاہور اورامرتسر میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ لیکن عوام مارشل لاء کی حدوں کو توڑ کر گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آگئے، نعروں، جوشیلے فقروں اور تقریروں سے پنجاب بالخصوص امرتسر کے گلی کوچے گونج اٹھے کیونکہ وہ مارشل لا سے بے خبر تھے۔جنرل ڈائر فرنگی فوج کا ایک اعلیٰ ترین کمانڈر ہونے کی حیثیت سے2لاکھ فوج کے ہمراہ فوراً امرتسر پہنچا اور کمانڈرانہ غرور اور متکبرانہ لب و لہجہ میں یہ اعلان کیا کہ ''شہر کے بازاروں میں یا شہر کے کسی حصہ میں یا شہر کے باہر کسی وقت بھی کسی قسم کا جلوس نکالنے کی اجازت نہیں، اس طرح کے جلوس اور چارآدمیوں کے اجتماعات کو خلافِ قانون سمجھا جائے گا اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ہتھیاروں کے ذریعہ منتشر کر دیا جائے گا‘‘۔جب جنر ل ڈائر فوجی دستوں کے ہمراہ شہر کے گلی کوچوں کا گشت لگاتے ہوئے مذکور ہ بالا اعلان کی خود ہی تشہیر کرتے ہوئے12/بجکر 40/ منٹ پر اپنی قیام گاہ باغ میں پہنچا تو اسے پولیس کی خفیہ خبر رساں ایجنسی نے یہ اطلاع دی کہ آج سوا چار بجے جلیا نوالہ باغ میں اجتماعی جلسہ ہونے والا ہے، اصل میں یہ لوگ بیساکھی کے میلے کیلئے جمع تھے جو کہ مکمل طور پر پر امن تھے۔ جنرل ڈائر اسی وقت اجتماع کے خون سے قحط زدہ باغ کی تشنگی بجھانے کی ٹھان لی۔ جب جلسہ کا وقتِ مقررہ قریب ہوا تو چاروں طرف سے لوگ کثیر تعداد میں باغ کی طرف جوق در جوق جانے لگے اور آن کی آن میں پندرہ ہزار کا مجمع اکٹھا ہوگیا۔ عین اسی وقت جنرل ڈائر بھی، ہٹلرانہ رعب و وقار اور چنگیزانہ غرور اور نادر شاہانہ مزاج و دماغ سے مر صع ہوکر خون آشام فوج کے ساتھ جلسہ گاہ پہنچ گیا۔ ہمہ نوع جنگی اسلحوں کے علاوہ مشین گن بھی ساتھ تھی لیکن باغ کا راستہ تنگ ہونے کی بنا ء پر اسے باہر ہی راستہ پر کھڑا کر دیا گیا۔فوج کو مختلف ٹولیوں میں تقسیم کرکے جنگی مورچوں کی طرح پوزیشن سنبھالنے پر مامور کرنے اور با غ کی چوطرفہ حصار بندی کرا لینے کے بعد اس نے جلسہ گاہ پر ایک نظر ڈالی، اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حکام اور حکومت کے خلاف اشتعال انگیز و پرجوش تقریر کر رہا ہے اور مجمع ہمہ تن گوش ہے، یہ منظر دیکھ کر اس کے کمانڈ رانہ غر ور کو مہمیز لگی، اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی، اس کا پیمانہ صبر چھلک اٹھا، اس کا پارہ غیظ و غضب آخری حد تک پہنچ گیا، اس کی خون آشام فطرت مچلنے لگی، اس کی رگ وپے میں حاکمانہ خمار سرایت کر گیا، تابِ ضبط پر اس کا قابو نہ رہا، اس کے جسم میں چنگیز و ہلا کو کی روحیں حلول کر گئیں، اس کے دماغ میں نادر شاہی درندگی رقص کرنے لگی، اس کے سامنے ہٹلرانہ داروگیر کا نقشہ ابھر آیا۔بالآخر ظالم نے حاضرین کو منتشر ہونے کی تنبیہ و اطلاع دیے بغیر مسلح فوج کو عام فائرنگ کا حکم دے کر محوِ تماشا ہوگیا۔پھر کیا تھا! سفید فام وحشیوں کیلئے ایک بزمِ تفریح سج گئی، فرنگی سنگدلوں کیلئے سامانِ کیف و سرور فراہم ہو گیا، جنرل ڈائر اور اس کے ار کانوں کے ہونٹوں پر خفیف مسکراہٹ ابھری اور تدریجاً زور دار قہقہوں میں تبدیل ہوگئی، گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے ہنگامہ صور بپا ہوگیا، جلیانوالہ باغ ایک انسانی مذبح بن گیا، جلسہ گاہ محشرستانِ قتل میں تبدیل ہوگئی، اجتماعی جلوس کا اسٹیج مقتلِ عام کی صو رت اختیار کر گیا، انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر لاشوں کا ڈھیر بن گیا، حاضرینِ بزم مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگے، زلزلہ قیامت کا منظر سامنے آگیا، چنگیز و ہلا کو خان کی روحیں بھی شرمانے لگیں، نادرشاہی سفاکی منہ چھپانے لگی۔ہٹلرانہ گیرودار ماند پڑ گئی، فرنگی اقتدار کی دیوی اپنی مراد پاگئی، برطانوی دیو کو مدت کے بعد پوری خوراک ملی، درندگانِ مغرب کی خون آشام فطرت آسودہ ہوگئی، معافی کا دروازہ بند ہوچکا تھا، بھاگنے کے تمام ر استے مسدود تھے، ناکے ناکے پر مسلح فوج تعینات تھی، سسکیوں ، آہوں، چیخ و پکار اور نالہ و فغاں سے کہرام مچا ہوا تھا، موت کی سرا سیمگی قابلِ دید تھی، وہ روحوں کو گولیوں سے چھیدنے کا منظر ہی عجیب تھا، کشتوں کے پشتے لگ رہے تھے، نوجوانوں کی لاشیں مرغِ نیم جاں کی طرح تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہو رہی تھیں، کمسن اور نونہالانِ بزم خون اگل اگل کر جانیں دے رہے تھے، بڑے بوڑھے تو کراہنے اور آہ کرنے کی بھی تاب نہ لاسکے، کْشتگانِ وطن سے جلیا نوالہ باغ بھر گیا۔ انگریزی مورخ ٹامسن کے بقول پندرہ سو مقتولین اور ایک معتبر روایت کے مطابق بارہ سو زخمیوں کو مقتلِ انسانی میں چھوڑ کر یہ بے رحمانہ و سنگ دلانہ حکم نافذ کرتے ہوئے جنرل ڈائر اپنی قیام گاہ کو فر حاں و شاداں روانہ ہوا۔