چھوٹی سی گڑیا سوتی رہ گئی طاہرہ نقوی نے صرف26 برس کی عمر پائی لیکن ان کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا

چھوٹی سی گڑیا سوتی رہ گئی طاہرہ نقوی نے صرف26 برس کی عمر پائی لیکن ان کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


پاکستان میں طویل دورانیے کے ٹی وی ڈراموں کا آغاز غالباً 1981ء میں ہوا تھا۔ محمد نثار حسین (MNH) ٹی وی ڈراموں کی تاریخ کا بہت بڑا نام ہے۔ انہوں نے بے شمار طویل دورانیے کے ڈراموں کی ہدایات کے فرائض سرانجام دیئے۔ بلاشبہ محمد نثار حسین کا نام اس حوالے سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔1981ء میں طویل دورانیے کے متعدد یادگار ڈرامے پیش کیے گئے۔ ان میں سے ایک ڈرامہ ’’زندگی بندگی‘‘ تھا۔ جو ہرلحاظ سے ایک شاندار ڈرامہ تھا۔ اس ڈرامے میں ہمارے ٹی وی فنکاروں کا فن بھی اوج کمال کو پہنچ گیا تھا۔ خاص طور پر عابد علی اور نوجوان فنکارہ طاہرہ نقوی نے ایسی شاندار اداکاری کی جسے اب تک بھلایا نہیں جا سکا۔ طاہرہ نقوی کا تکیہ کلام ’’چھوٹی سی گڑیا سوتی رہ گئی‘‘ آج بھی لوگوں کے حافظے سے محو نہیں ہوسکا۔ طاہرہ نقوی وہ فنکارہ تھیں جنہوںنے صرف 26 برس کی عمر پائی لیکن اپنے فن کے انمٹ نقوش چھوڑ گئیں۔ وہ حسین و جمیل بھی تھیں اور قدرت نے انہیںدلکش آواز سے بھی نوازا تھا۔20 اگست1956ء کو ڈسکہ میں پیدا ہونے والی طاہرہ نقوی نے اپنے فن کا آغاز ریڈیو سے کیا اور سب سے پہلے اپنے آپ کو ریڈیو آرٹسٹ کی حیثیت سے منوایا۔ اس کے بعد وہ ٹی وی ڈراموں کی طرف آئیں۔ انہیں امجد اسلام امجد کی ڈرامہ سیریل ’’وارث‘‘ سے بہت شہرت ملی۔ ویسے تو اس ڈرامہ سیریل کے سبھی فنکاروں کو بہت پذیرائی ملی جن میں عابد علی، شجاعت ہاشمی، ایوب خان، اورنگزیب لغاری، فردوس جمال، طلعت صدیقی، غیور اختر، منور سعید، نگہت بٹ اور خاص طور پر محبوب عالم شامل تھے۔ ان سب کے علاوہ عظمیٰ گیلانی، آغا سکندر،سجاد کشور اور طاہرہ نقوی نے بھی اپنے کردار بڑی مہارت سے نبھائے۔ اس حقیقت سے انکار بہت مشکل ہے کہ ’’وارث‘‘ کے سبھی فنکاروں نے کمال کی اداکاری کی اور ثابت کیا کہ ٹی وی ڈراموں کا کوئی ثانی نہیں۔ طاہرہ نقوی نے عظمیٰ گیلانی کے ساتھ مل کر فطری اداکاری کی انتہائی عمدہ مثال قائم کی۔ اس کے علاوہ ان کے مشہور ڈراموں میں ’’دوریاں، محفوظ ماموں، منزل، خانہ بدوش، دہلیز، گھر آیا مہمان اور ایک حقیقت ایک افسانہ‘‘ کے کچھ ڈرامے شامل ہیں۔ طاہرہ نقوی کے بارے میں اہل فن کی متفقہ رائے یہ ہے کہ وہ اداکاری کے حقیقت پسندانہ اسلوب (Realistic school of thought) سے وابستہ تھیں۔ جذباتی اداکاری کرنے میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ یہ وہ دور تھا جب روحی بانو، خالد ریاست ، عظمیٰ گیلانی، ثروت عتیق، بندیا، فائزہ حسن، نیلوفر علیم اور مدیحہ گوہر کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ ان جیسی اداکارائوں کے ہوتے ہوئے اپنی ایک الگ شناخت بنانا بڑا مشکل کام تھا۔ یہ طاہرہ نقوی کی خداداد صلاحیتوں کا اعجاز تھا کہ انہوں نے کم عمری میں ہی اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کی بدولت وہ کر دکھایا جو ہر کسی کے بس میں نہیں تھا۔ وہ بلاشبہ حسن و نفاست کا مجموعہ تھیں اور انہوں نے ٹی وی کی اکثراداکارائوں کو متاثر کیا۔طاہرہ نقوی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے مکالمے بولنے کا انداز بھی نہایت متاثر کن تھا۔ وہ کبھی اوورایکٹنگ کا شکار نہیں ہوئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے دور میں بھی جو ٹی وی ڈرامہ آرٹسٹ کام کر رہے تھے وہ فنی لحاظ سے بلند قامت تھے۔ اسے طاہرہ نقوی کی خوش بختی کہا جاسکتا ہے کہ جنہیں ایسے بلند پایہ آرٹسٹوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اگر کسی بھی اعلیٰ درجے کے فنکار کو معمولی کردار بھی دیا جائے تو وہ اس میں بھی اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے سب کو حیران کردیتا ہے۔ بھارتی فلمی صنعت میں جب آرٹ فلموں کی ابتدا ہوئی تو کئی اداکاروں نے ان آرٹ فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار ادا کرنا شروع کر دیئے جو ان کے شایان شان نہیں تھے لیکن ان فنکاروں نے اپنی قابلیت اور تخلیقی جوہر سے یہ ثابت کیا کہ کردار چھوٹا ہو یا بڑا، اداکاری کا معیار ارفع ہونا ضروری ہے۔2007 ء میں بھارت کے مشہور ہدایت کار گوندنہلانی پاکستان آئے تھے۔ غالباً کوئی فلم فیسٹیول تھا۔ عثمان پیرزادہ کے گھرفلمی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے جب اپنی فلم ’’اردھ ستیہ‘‘ کا ذکر کیا تو ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنی اس معرکۃ آلارا فلم میں اوم پوری اور سمیتا پاٹیل کو اہم کردار دیئے لیکن نصیرالدین شاہ کو چھوٹا سا کردار دیا گیا۔ آخر کیوں؟ اس پر انہوں نے مسکرا کر جواب دیا کہ آپ نے یہ غور نہیں کیا کہ اس چھوٹے سے کردار میں بھی نصیرالدین شاہ نے غضب کی اداکاری کی اور وہ اپنی چھاپ چھوڑ گئے۔ بات اداکاری کے اعلیٰ معیار کی ہے، کردار کی نہیں۔ گوند نہلانی نے سو فیصد درست کہا تھا۔ مرحومہ طاہرہ نقوی نے بھی کئی ٹی وی ڈراموں میں چھوٹے چھوٹے کردار ادا کیے لیکن ان کے فن کا جادو سرچڑھ کر بولتا رہا۔معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس یونس جاوید کی رائے میں روحی بانو کے بعد طاہرہ نقوی وہ فنکارہ تھیں جو اپنے کردار میں ڈوب جاتی تھیںاور ایسا لگتا تھا کہ طاہرہ نقوی اسی کردار کیلئے پیدا ہوئی تھیں۔ یونس جاوید کا کہنا ہے کہ بلاشبہ روحی بانو ٹی وی ڈراموں کی بلند پایہ اداکارہ تھیں لیکن اس حقیقت کو مدنظر رکھنا پڑے گا کہ انہیںبہت کم وقت ملا۔ اگر زندگی نے طاہرہ نقوی سے وفا کی ہوتی اور انہیںدس برس اور مل گئے ہوتے تو وہ فن کے آسمان کا سب سے روشن ستارہ ہوتیں۔ کوئی دوسری اداکارہ ان کی ہمسری کا دعویٰ نہ کرسکتی۔ لیکن یہ سب تقدیر کے کھیل ہیں۔طاہرہ نقوی نے کچھ فلموں میں بھی کام کیا جن میں ’’بدلتے موسم‘‘ اور ’’میاں بیوی راضی‘‘ کے نام شامل ہیں۔ بدلتے موسم میں ان کے ساتھ شبنم اور ندیم جیسے منجھے ہوئے فنکار تھے۔ لیکن ان دونوں فلموں میں انہوں نے معاون اداکارہ کے طور پر کام کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ فلموں میں کام کرنا شاید ان کے مزاج میں شامل نہیں تھا۔ یا پھر انہیں فلمی ماحول پسند نہیں آیا۔ہم اپنے قارئین کوبتاتے چلیں کہ طاہرہ نقوی شادی شدہ تھیں اور ان کے شوہر فوجی افسر تھے۔ اپریل 1982ء میں وہ شدید بیمار ہوگئیں۔ مرض کی تشخیص ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ ان کے لئے ٹی وی فنکاروں نے چندہ جمع کرنے کے لئے بھی مہم چلائی اوراس زمانے میں دو لاکھ روپے جمع کیے گئے۔ اس وقت کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ طاہرہ نقوی کو علاج کی غرض سے بیرون ملک بھیجا جائے۔ لیکن حکومت نے بے حسی کا مظاہرہ کیا اور اس معاملے میں تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔2جون 1982ء کو طاہرہ نقوی نے داعی اجل کو لبیک کہا اور یوں چھوٹی سی گڑیا ہمیشہ کیلئے سو گئی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مہندی،گلاب اور حلب کا صابن

مہندی،گلاب اور حلب کا صابن

مہندی کے نقش و نگار، طائف کا گلاب، حلب کا صابن ،روانڈا کا اینورے رقص، تھائی لینڈ کا ٹوم یم سُوپ اور جاپان میں چاول کی پھپھوندی سے مشروب بنانے کے فن کو اقوام متحدہ کے غیر مادی عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کر لیا گیا ہے۔یہ فیصلہ غیرمادی ثقافتی ورثے کے تحفظ سے متعلق یونیسکو کی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں کیا گیا ہے جو دو سے سات دسمبر تک جمہوریہ پیراگوئے کے دارالحکومت آسونسیون میں منعقد ہوا ۔غیرمادی ثقافتی ورثے کے تحفظ سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت اب تک دنیا بھر سے700 سے زیادہ منفرد فنون اور علوم کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے۔ اس کا مقصد ان فنون اور علوم کو تحفظ دینے کے لیے مقامی، قومی اور عالمی سطح پر آگاہی پیدا کرنا ہے۔بڑھتی ہوئی عالمگیریت کے نتیجے میں اس غیرمادی ورثے کو درپیش کئی طرح کے چیلنجز سے نمٹنے اور ثقافتی تنوع کو برقرار رکھنے میں یونیسکو کی یہ کمیٹی اہم کردار ادا کررہی ہے۔ جو علوم اور فنون اس فہرست کا حصہ بن جاتے ہیں ان کی حفاظت کے لیے ممالک کو بین الاقوامی سطح پر مدد اور تعاون حاصل ہوتا ہے۔حالیہ دہائیوں میں یونیسکو نے ثقافتی ورثے کی تشکیلِ نو کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر یہ صرف تاریخی یادگاروں اور عمارتوں تک محدود نہیں بلکہ روایات، فنونِ لطیفہ، سماجی رسوم و رواج، میلے ٹھیلے اور روایتی ہنر سے متعلق علوم اور صلاحیتیں بھی ثقافتی ورثہ میں شامل ہیں۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے(Audrey Azoulay) کے مطابق یہ ثقافتی ورثے کے بنیادی تصور کو نیا مفہوم دیتا ہے ، حقیقت میں غیرمادی ورثہ مادی ورثے سے الگ نہیں ہے؛اس لیے غیرمادی ورثے کی حفاظت کرنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ یہ چیزیں محض لوک داستانوں اور ماضی کے قصوں میں باقی نہ رہیں۔ان علوم اور فنون کو زندہ رکھنا اور ان کی ضرورت کو برقرار رکھنا اہم ذمہ داری ہے۔حِنا، رسومات، جمالیات :جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ، میں حِنا (مہندی) کو سنگھار میں ایک خاص مقام ہے۔ اس کے بغیر ہر تہوار اور ہر تقریب کا رنگ پھیکا لگتا ہے۔جدید دور میں مہندی لگانا بھی ایک رسم سی ہو گئی ہے کو جمالیات کا اہم جُز کی حیثیت حاصل ہے۔ مہندی کا پودا سال میں دو مرتبہ اگایا جاتا ہے اور اس کے پتوں کو خشک کر کے انہیں لئی کی شکل دے دی جاتی ہے۔ مہندی سے خواتین اپنے ہاتھوں اور پاؤں پر نقش و نگار بناتی ہیں۔ مہندی خوشی کی علامت ہے جو شادی بیاہ،عیدین، بچے کی پیدائش اور دیگر پُرمسرت مواقع پر اور بعض علاقوں میں روزمرہ زندگی میں بھی استعمال کی جاتی ہے اور صدیوں سے سماجی رسوم و رواج کا حصہ رہی ہے۔طائف کا گلاب:سعودی عرب کے علاقے طائف میں گلاب کا پھول سماجی و مذہبی رسومات کا لازمی حصہ اور مقامی لوگوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ ہے۔مارچ سے شروع ہونے والی گلاب کی فصل کی چنائی کے موسم میں کاشتکار صبح سویرے گلاب کے پھول چنتے اور انہیں فروخت کے لیے منڈیوں میں بھیج دیتے ہیں۔ گھروں میں گلاب کے پھولوں کا عرق بھی نکالا جاتا ہے اور لوگ گلاب کے عرق کو جسمانی آرائشی اشیا، ادویات اور خوراک و مشروبات کی تیاری میں استعمال کرتے ہیں۔حلب کا صابن: شام میں مقامی طور پر پیدا کردہ زیتون اور لارل کے تیل سے صابن ''غار‘‘ تیار کیا جاتا ہے جو بناوٹ اور خاصیت میں اپنی مثال آپ ہے۔اس صابن کے اجزا نسل در نسل چلے آنے والے طریقوں سے اکٹھے کیے اور تیار کیے جاتے ہیں جس کے بعد اس آمیزے کو ٹھنڈا کر کے بڑے ٹکڑوں کی شکل دی جاتی ہے۔ اس کے بعد انہیں مختلف وزن میں کاٹا جاتا ہے۔ تیاری کے بعد ہر ٹکڑے پر صابن بنانے والے خاندان کے لوگوں کے نام کی مہر لگائی جاتی ہے پھر خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔انڈے سجانے کا فن:یوکرین اور ایسٹونیا میں انڈوں پر موم سے کئی طرح کے نقش و نگار اور علامات بنائے جاتے ہیں۔ اس منفرد فن کو'' پسینکا‘‘ کہتے ہیں جس میں موم کے ذریعے انڈے کو سجا کر اسے رنگ دیا جاتا ہے۔ بعدازاں موم سے بنے نقش و نگار کے علاوہ انڈے کے دیگر حصوں پر مختلف رنگ چڑھائے جاتے ہیں اور مطلوبہ نمونہ تیار کرنے کے لیے یہ عمل بار بار دہرایا جاتا ہے۔اگرچہ یہ انڈے اب خاص طور پر ایسٹر کے تہوار سے مخصوص ہیں لیکن یوکرین میں یہ روایت مذہب سے قطع نظر ہر برادری میں مقبول ہے۔جاپانی چاول کا مشروب:جاپان میں چاول اور پانی سے بنائے جانے والے مشروب کو متبرک تحفہ سمجھا جاتا ہے اور یہ تہواروں، شادی بیاہ کی تقریبات اوربچے کی پیدائش جیسی رسومات اور دیگر سماجی و ثقافتی تقریبات کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ اس مشروب کو جاپانی ثقافت میں اہم مقام حاصل ہے۔ ہنرمند لوگ اسے پکائے گئے چاولوں کی پھپھوندی کو سٹارچ میں تبدیل کرنے کے بعد مختلف اشیا ملا کر چینی میں ڈال دیتے ہیں۔ بعدازاں اسے مخصوص وقت تک اور مخصوص نمی میں رکھ کر مشروب میں تبدیل کیا جاتا ہے۔روانڈا کا اینورے رقص:افریقی ملک روانڈا میں ٹولی کی صورت میں کیا جانے والا یہ رقص سماجی تقریبات اور تہواروں کا اہم جزو ہے۔ عام طور پر لوگ فصل کی کٹائی کے موقع پر منعقدہ میلوں اور معزز مہمانوں کے استقبال کے موقع پر اس فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس دوران گیت اور فتح کے ترانے گائے جاتے ہیں اور رقاص قطاروں کی صورت میں ناچ کر میدان جنگ کے بہادروں کی عکاسی کرتے ہیں۔یہ حرکات ایک غیرمرئی دشمن کے خلاف جنگ کو ظاہر کرتی ہیں جن میں رقاص روایتی ڈھول اور باجوں کی آوازوں کے تال میل سے اپنے نیزے اور ڈھالیں لہرا کر طاقت کا اظہار کرتے ہیں۔پرتگال کی گھڑ سواری:یورپی ملک پرتگال میں گھڑسوار خاص لباس پہن کر اور مخصوص انداز میں گھوڑے پر بیٹھ کر کئی طرح کے کرتب دکھاتے ہیں۔ اس دوران سوار اور گھوڑے کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی اور باہمی گہرے ربط سے گھوڑے اور سوار میں تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔اس فن کے لیے خالص نسل کے لوسیتانو گھوڑے تیار کئے جاتے جنہیں سدھانا اور سنبھالنا آسان ہوتا ہے۔ یہ فن اجتماعی شناخت کا ذریعہ ہے اور اس کا مظاہرہ عموماً مذہبی رسومات، سالانہ میلوں اور دیگر سماجی تقریبات میں کیا جاتا ہے۔تھائی لینڈ کا ٹوم یوم کُنگ سُوپ:ٹوم یوم کُنگ تھائی لینڈ میں جھینگے کا روایتی سُوپ ہے۔ اس میں جھینگوں کو گرم پانی میں جڑی بوٹیوں کے ساتھ ابالا جاتا ہے اور پھر اس میں مقامی مصالحے شامل کیے جاتے ہیں۔ اس سوپ کی الگ خوشبو اور رنگ ہوتے ہیں اور یہ میٹھے، کھٹے، لذیذ، مصالحے دار، روغنی اور قدرے تلخ سمیت کئی طرح کے ذائقوں میں ملتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس سوپ سے جسمانی توانائی اور صحت میں اضافہ ہوتا ہے اور بالخصوص مون سون کے موسم میں اس کی افادیت دوچند ہو جاتی ہے۔ یہ سُوپ تھائی لینڈ کے وسطی علاقوں میں دریا کنارے آباد بدھ برادری کی تخلیق سمجھی جاتی ہے جو ماحول اور صحت بخش جڑی بوٹیوں سے متعلق ان کے روایتی علم و دانش کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔بوٹسوانا اور انڈونیشیا کے روایتی رقص: دو مزید روایات بھی اس سال یونیسکو کے غیرمادی عالمی ورثے میں شامل کی گئی ہیں۔ ان میں ایک ''ووسانا ‘‘کی رسم ہے جو افریقی ملک بوٹسوانا کے شمال مشرقی اور وسطی اضلاع میں رہنے والے باکالانگا لوگ مناتے ہیں۔ دوسرا روایت انڈونیشیا کا ''ریوگ پونوروگو‘‘ رقص ہے۔ یہ صدیوں پرانا فن مختلف مواقع جیسا کہ قدرتی آفات یا حوادث کو دور رکھنے کے لیے منائی جانے والی رسومات کے دوران پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں رقاص بادشاہوں اور جنگجوؤں جیسا لباس پہنتے اور اپنی حرکات و سکنات کے ذریعے بانتارنگن سلطنت اور اس کے بادشاہ کی داستان پیش کرتے ہیں۔

ساقی:ہر فن مولا اداکار

ساقی:ہر فن مولا اداکار

پاکستانی فلمی صنعت میں بھی کئی معاون اداکار ایسے تھے جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر شائقین فلم سے بہت داد وصول کی۔ ان میں ایک نام ساقی کا بھی تھا۔ ساقی کا اصل نام عبدالطیف بلوچ تھا۔ وہ دو اپریل 1925ء کو عراق کے شہر بغداد میں پیدا ہوئے۔ یہ پاکستان کے واحد اداکار تھے جنہوں نے اپنے کریئر کا آغاز ہالی وڈ کی فلم ''بھوانی جنکشن‘‘ سے کیا۔ 1955ء میں وہ لاہور میں فلم پروڈکشن یونٹ میں اسسٹنٹ ہو گئے۔ پاکستان میں ان کی پہلی فلم ''التجا‘‘ تھی جو 1955ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد وہ 1958ء میں ''لکھ پتی‘‘ میں نگہت سلطانہ کے ساتھ ہیرو آئے۔ پھر اس کے بعد ''سسی پنوں‘‘ اور ''بمبئے والا‘‘ میں کام کیا۔ 1959ء میں ان کی ایک اہم فلم ''ناگن‘‘ ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے سپیرے کا کردار ادا کیا۔ اس فلم میں نیلو اور رتن کمار نے ہیرو اور ہیروئن کے کردار ادا کیے تھے۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور ساقی کی اداکاری کوبے حد سراہا گیا۔ ویسے تو پاکستان اور بھارت کے کئی اور اداکاروں نے بھی سپیرے کا کردار ادا کیا جن میں امریش پوری بھی شامل ہیں۔ 80ء کی دہائی میں سری دیوی کی یادگار فلم ''نگینہ‘‘ میں امریش پوری نے جس اعلیٰ درجے کی اداکاری کی اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن پاکستانی فنکار ساقی نے بھی سپیرے کے کردار میں جاندار اداکاری کی۔ ''ناگن‘‘ کو ساقی کی اہم ترین فلم قرار دیا جا سکتا ہے۔ 1960ء میں ''رات کے راہی‘‘ اور پھر 1965ء میں ''ہزار داستان‘‘ میں بھی انہوں نے چونکا دینے والی اداکاری کی۔ ساقی کی ایک اور یادگار فلم لاکھوں میں ایک 1967ء میں ریلیز ہوئی۔ ہدایتکار رضامیر کی اس فلم کو پاکستان کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ فلم کے دیگر اداکاروں کی طرح ساقی کی اداکاری کوبھی بے حد پسند کیا گیا۔ اداکار مصطفی قریشی سے ان کی بڑی دوستی تھی۔ وہ ان کے ہمدم دیرینہ تھے۔ سمن آباد لاہور میں ساقی کی رہائش گاہ پر مصطفی قریشی اکثر دیکھے جاتے تھے۔ ساقی بڑے خوش اخلاق اور حلیم الطبع تھے۔ اپنی خودداری اور وضع داری کی وجہ سے بھی ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ ساقی کا کریڈٹ یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کومسعود رانا اور مجیب عالم جیسے گلوکار دیئے۔ یہ وہ گلوکار ہیں جنہوں نے پاکستانی فلموں کیلئے ایسے شاندار گیت گائے جو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔پشتو فلموں کی نامور اداکارہ یاسمین خان ساقی کی اہلیہ تھیں۔ جنہوں نے ایک زمانے میں بہت شہرت سمیٹی۔ ساقی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے دریا دل تھے اور ان کا دل انسانیت کے درد سے معمور تھا۔ پوری فلمی صنعت میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جسے ان سے شکایت ہو۔ ساقی نے ہمیشہ نوجوان اداکاروں کی حوصلہ افزائی کی اور ہر نوجوان فنکار نے ان کی تعریف کی۔ وہ کہتے تھے کہ نوجوان فنکاروں کی حوصلہ افزائی ان کا فرض ہے کہ ایسا کرنے سے سینئر فنکاروں کے احترام میں اضافہ ہوتا ہے۔ ساقی نے کچھ ٹی وی ڈراموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کے مداحوں کی تعداد میں کبھی کمی نہ آئی کیونکہ وہ ایک ورسٹائل اداکار تھے جو اپنے مداحوں کی توقعات پر پورا اترتے تھے۔22 دسمبر 1986ء کو یہ شاندار اداکار اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کا بیش قیمت اثاثہ تھے۔ساقی کی اہم فلمیں و کردار

آج کا دن

آج کا دن

ایکسریز کا پہلا کامیاب تجربہ1895ء میں آج کے روز جرمن معالج ولہیم رونجن نے پہلا کامیاب ایکس رے لیا۔ رونجن کی دریافت نے طبی تشخیص میں انقلاب برپا کیا۔ آج، ایکس ریز مشینیں ہڈیوں کے فریکچر، دانتوں کی خرابی اور دیگر بیماریوں کی تشخیص میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کی خدمات سائنس کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ان کا نام اس دریافت کے ساتھ ہمیشہ کیلئے جڑا ہوا ہے اور ایکس ریز کو اکثر ''رونجن ریز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔سنکیانگ زلزلہ1906ء میں آج کے روز چین کے شہر سنکیانگ میں 7.9 شدت کا زلزلہ آیا۔ زلزلے کے جھٹکے صبح 8 بجے محسوس کئے گئے۔ اس زلزلے کا مرکز چین کے صوبے سنکیانگ کے ماناس کاؤنٹی میں واقع تھا۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں 280 سے 300 افراد ہلاک ہوئے اور ایک ہزار افراد زخمی ہوئے۔ یہ اپنے وقت کے سب سے زیادہ خطرناک قدرتی آفات میں سے ایک تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا ''یوم نجات‘‘23 دسمبر 1939ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے ''یوم نجات‘‘ منایا۔یہ ''یومِ نجات‘‘ ایک روزہ جشن تھا جو قائد اعظم کی اپیل پر ہندوستان بھر میں منایا گیا۔ اس کی قیادت مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناح نے کی۔ اس دن کا مقصد حریف کانگریس پارٹی کے تمام اراکین کے صوبائی اور مرکزی دفاتر سے استعفے پر خوشی منانا تھا، جو اس بات پر احتجاجاً دیے گئے تھے کہ انہیں برطانیہ کے ساتھ دوسری جنگ عظیم میں شامل ہونے کے فیصلے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ ''پیپلز آرمی‘‘ کا قیام 1944ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ویتنام کی ''پیپلز آرمی‘‘ کا قیام عمل میں آیا تاکہ انڈوچائنا (موجودہ ویتنام) پر جاپانی قبضے کی مزاحمت کی جا سکے۔ یہ فوج انڈوچائنا (موجودہ ویتنام) میں جاپانی افواج کے خلاف لڑنے کیلئے تشکیل دی گئی۔ اس کا مقصد ویتنام کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنا اور جاپانی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔ اس فوج کا قیام ویتنام کے قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے ویتنام کی خود مختاری کی جنگ میں اہم سنگ میل تھا۔

طوفان کب ، کیسے اور کیوں آتے ہیں !

طوفان کب ، کیسے اور کیوں آتے ہیں !

طوفان کیا ہوتا ہے ؟ اسے سمجھنے کے لیے یہ مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ جس طرح ایک دریا کی سطح پر اگر خلاف معمول کوئی اونچ نیچ واقع ہو جائے تو پانی کی روانی میں خلل پڑ جاتا ہے اور اس کی جگہ بھنور یا گردباد بننا شروع ہو جاتے ہیں،بالکل اسی طرح کرہ ہوائی میں بھی جب ہوائیں چلتی ہیں تو فضا میں مختلف مقامات پر ہوا کے دبائو میں فرق پڑ جاتا ہے۔جس کی وجہ سے مختلف مقامات پر ہوا کی روانی میں رکاوٹ واقع ہو کر فضا میں بھنور پیدا ہونے لگتے ہیں۔ نتیجتاً ہر سمت ہوائیں اپنا رخ بدل لیتی ہیں اور چاروں طرف سے کم دباو کے مرکز کی طرف بھنور کی شکل میں چلنا شروع کر دیتی ہیں۔ ہواؤں کے اس بھنور کوطوفان کہا جاتا ہے۔ گئے دنوں میں اگرچہ اس کیفیت کو صرف طوفان ہی کہاجاتا تھا لیکن اب سائنس دانوں نے طوفان کو بھی بالحاظ ساخت اور شدت مختلف ناموں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ویسے تو ''سائیکلون‘‘ اور ''ہریکین‘‘طوفان کی دو مرکزی اقسام ہیں تاہم '' ٹائی فون‘‘ اور ''ٹور نیڈو‘‘ بھی طوفان کی ہی اقسام ہیں۔سائنسی نقطۂ نظر سے طوفان کی ابتدائی شکل کو ''سائیکلون‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی شدت کو ''ہریکین‘‘ کہا جاتا ہے۔ طوفان کیوں اور کیسے آتے ہیں ؟بعض ماحولیاتی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صنعتی آلودگی، گرین ہائوس گیسوں کے بے دریغ اخراج کے سبب زمینی درجۂ حرارت میں غیر معمولی اضافے نے کرہ ارض کو جس طرح غیر مستحکم کر دیا ہے اس کی وجہ سے طوفانوں اور قدرتی آفات میں خلاف معمول اضافہ ہو گیا ہے۔ نوبل انعام یافتہ سائنس دان ایم بسٹر اور کے اے عما کے بقول ٹراپیکل اور سب ٹراپیکل سمندروں کی سطح پر درجۂ حرارت میں پچھلے پچاس سالوں کے دوران 0.2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ماہرین ماحولیات کہتے ہیں، ٹراپیکل طوفان خط استوا کے قریب گرم سمندری پانیوں پر بنتے ہیں۔جب یہ گرم ہوا اوپر کی جانب اٹھتی ہے تو ہوا کے کم دباؤ والا ایک مقام بنتا ہے۔جوں جوں ہوا دوبارہ ٹھنڈی ہوتی جاتی ہے، اسے نیچے سے اٹھنے والی مزید گرم ہوا ایک طرف دھکیل دیتی ہے اور یہ عمل تیز ہواؤں اور بارش کا سبب بنتا ہے۔جب اس عمل کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ ایک استوائی یا ٹراپیکل طوفان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ عام طور پر 63 کلومیٹر کی رفتار سے آنے والا طوفان استوائی یا ٹراپیکل طوفان کہلاتا ہے جبکہ یہی ہوائیں اگر 119 کلومیٹر کی رفتار کو چھونے لگیں تو یہ طوفان، سائیکلون، ٹائفون یا ہریکین کہلاتے ہیں۔ سمندری طوفانوں میں ہریکین زمین پر تباہی مچانے والے طوفانوں میں سے ایک ہیں اور اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ یہ طوفان پہلے سے زیادہ طاقت ور اور تباہ کن ہو رہے ہیں۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہریکین کیسے بنتے ہیں اور موسمی تبدیلی ان پر کیا اثر ڈال رہی ہے ؟۔ہریکین کیسے بنتے ہیں ؟ہریکین کی شروعات بحر کے اوپر چھوٹے طوفانوں کے طور پر ہوتی ہے۔ سمندر کا درجۂ حرارت جب 27 ڈگری سنٹی گریڈ سے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے تو سمندری طوفان کے بادل تعداد اور سائز میں بڑھنے لگتے ہیں۔ہوائیں دائرے کی شکل میں اوپر کی طرف اٹھنے لگتی ہیں، ایسے میں زمین کی گردش ان ہواؤں کو اور زیادہ تیز کر کے گھومنے میں مدد دیتی ہے۔ہوا کی اوسط رفتار 119 کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ ہو جائے تو طوفان کا درمیان کا حصہ جنم لے کر ہریکین کی شکل دھار لیتا ہے۔یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ ہر طوفان ہریکین نہیں ہوتا ۔ کیٹیگری 5 کے طوفان زیادہ طاقتور اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ان کی رفتار 252 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ مستقبل میں طوفان بارے خدشاتاقوام متحدہ کے آب و ہوا کے ادارے ''آئی پی سی سی‘‘ نے خبردار کیا ہے کہ جیسے جیسے عالمی درجۂ حرارت بڑھتا جا رہا ہے ، اس بات کا امکان بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ دنیا میں بارشوں کی شرح اور ہوا کی رفتار میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ طوفانوں کا زیادہ تناسب سب سے شدید زمروں یعنی چار اور پانچ تک پہنچ جائے گا۔ بالفاظ دیگر جتنا زیادہ عالمی درجۂ حرارت بڑھے گا ان تبدیلیوں کی شدت میں اضافہ اتنا زیادہ ہوتا چلا جائے گا۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے آئی پی سی سی کا کہنا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت 1.5ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود رہے تو کیٹیگری چار اور پانچ تک پہنچنے والے استوائی طوفانوں کے تناسب میں لگ بھگ 10 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ درجۂ حرارت میں یہ اضافہ 2 سنٹی گریڈ تک پہنچنے کی صورت میں یہ تناسب 13 فیصد اور درجۂ حرارت 4 ڈگری سنٹی گریڈ پر یہ اضافہ 20 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ دنیا کے تباہ کن طوفان بھولا سائیکلون 1970 میں بھولا سائیکلون جو 13 نومبر کو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش )کے علاقے بھولا میں آیا تھا، اس میں 10 لاکھ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں صرف بھولا کے علاقے میں ایک لاکھ افراد لقمۂ اجل بنے تھے۔ اسی وجہ سے اس طوفان کو '' بھولا سائیکلون ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ طوفان تاریخ کا بدترین طوفان کہلاتا ہے۔ ملٹن ہریکین رواں سال اکتوبر میں امریکی ریاست فلوریڈا کے علاقے ملٹن میں آنے والا ہریکین طوفان رواں صدی کا ایک تباہ کن طوفان تھا۔200کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والا یہ طوفان اس قدر شدید تھا کہ پورے علاقے کی زندگی معطل ہو کر رہ گئی تھی۔ 15 لاکھ سے زائد افراد بجلی سے محروم ہو گئے۔33 لاکھ کے قریب لوگوں کو اس علاقے سے انخلا کرنا پڑا۔ اس طوفان میں230 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔   

بچوں کی ہائپر ایکٹیو عادات اور موبائل فون کا استعمال

بچوں کی ہائپر ایکٹیو عادات اور موبائل فون کا استعمال

موبائل کا بے دریغ استعمال بھی اس کیفیت کو جنم دینے کی ایک وجہ ہےہائپر ایکٹیو (Hyperactive) ایک ایسی حالت کو کہا جاتا ہے جس میں بچے یا بالغ افراد غیر معمولی طور پر زیادہ متحرک، بے چین، اور توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ایسے افراد مسلسل حرکت میں رہتے ہیں، توجہ مرکوز کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور عام طور پر ان کی سرگرمیاں بے ترتیب اور بے قابو ہو سکتی ہیں۔ یہ رویہ خاص طور پر بچوں میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے، جہاں وہ ضرورت سے زیادہ شور مچاتے، دوڑتے اور والدین کو تنگ کرتے ہیں، حتیٰ کہ ایسی جگہوں پر بھی جہاں پرسکون رہنا ضروری ہو۔ ہائپر ایکٹیویٹی اکثر توجہ کی کمی کے عارضے (ADHD) کا ایک حصہ ہوتی ہے، لیکن یہ تناؤ، نیند کی کمی، یا غذائی عادات کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ آج کے دور میں اس کی اہم وجہ بچوں میں موبائل کا بے دریغ استعمال بھی اس کیفیت کو جنم دے رہا ہے۔ بچوں کا ہائپر ایکٹیو ہونا اور موبائل فون کی عادت ایک اہم سماجی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہو رہی ہے بلکہ ان کی تعلیم اور تربیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ والدین اور اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور بچوں کو مثبت انداز میں زندگی کے درست راستے پر گامزن کرنے کے لیے مختلف حکمت عملیاں اپنائیں۔بچوں کی غیر معمولی توانائی کو مثبت سمت میں استعمال کرنا بے حد ضروری ہے۔ انہیں کھلی فضاء میں لے جا کر مختلف کھیلوں میں شامل کریں جیسے کرکٹ، فٹ بال، یا تیراکی۔ ان سرگرمیوں سے بچوں کی توانائی مثبت طور پر استعمال ہوگی اور ان کا رویہ بھی بہتر ہو گا۔ تخلیقی سرگرمیاں جیسے ڈرائنگ، پینٹنگ وغیرہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتی ہیں اور انہیں مصروف رکھتی ہیں۔موبائل فون کا بے جا استعمال بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اسکرین ٹائم کے لیے ایک خاص وقت مقرر کریں۔ مثال کے طور پر، صرف تعلیمی کاموں یا کارآمد مواد کے لیے موبائل استعمال کی محدود اجازت دیں۔ کوشش یہی کریں بچوں کو موبائل کے متبادل فراہم کریں، جیسے کہ پزل گیمز، کتابیں یا لیگو جیسے کھیل، جو نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ بچوں کے ذہنی ارتقاء کے لیے بھی مفید ہیں۔فیملی کے ساتھ وقت گزارنا بچوں کی جذباتی تربیت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ بچوں کے ساتھ بات چیت کریں، سیرت النبی ﷺ سے واقعات نکال کر بچوں کو سنائیں، انبیاء کرام کی کہانیاں سنائیں، بچوں کے ساتھ مل کر تفریحی کھیل کھیلیں۔ یہ نہ صرف بچوں کو خوش رکھے گا بلکہ ان کی موبائل فون کی عادت کو کم کرنے میں بھی مددگار ہوگا۔ کھانے کے دوران موبائل فون استعمال کرنے کی سخت ممانعت کریں تاکہ فیملی بانڈنگ کا وقت متاثر نہ ہو۔بچوں کی نیند کا خاص خیال رکھیں۔ ایک مقررہ وقت پر سونے اور جاگنے کی عادت انہیں ہائپر ایکٹیو ہونے سے روکتی ہے۔ نیند کی کمی اکثر بچوں کے رویے پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ اسی طرح متوازن غذا بھی بچوں کی عادتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ چینی اور جنک فوڈ کی بجائے پھل، سبزیاں اور پروٹین سے بھرپور غذا فراہم کریں تاکہ ان کی توانائی کا لیول متوازن رہے۔ اگر ان تمام کوششوں کے باوجود بچے کا رویہ قابو میں نہ آئے تو کسی ماہر نفسیات یا چائلڈ سائیکالوجسٹ سے مشورہ کریں۔ وہ بچے کے رویے کی گہرائی میں جا کر اس مسئلے کا حل فراہم کر سکتے ہیں۔بچوں کو تربیت دینے کے لیے والدین کو مستقل مزاج اور محبت بھرا رویہ اپنانا ہوگا۔ بچوں کی عادات کو فوری طور پر تبدیل کرنا ممکن نہیں لیکن صبر، شفقت، اور مثبت انداز سے ان کے رویے کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مندرجہ بالا تمام حکمت عملیاں نہ صرف بچوں کی ہائپر ایکٹیو عادات کو قابو میں رکھنے میں مدد کریں گی بلکہ ان کے ذہنی اور جسمانی نشوئونما کے لیے بھی مؤثر ثابت ہوں گی۔ والدین اور اساتذہ کی توجہ اور مستقل محنت بچوں کی شخصیت کو نکھارنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

سانتا ماریا سکول قتل عامسانتا ماریا قتل عام در اصل ہڑتال کرنے والے کارکنوں کا قتل عام تھا۔ چلی کی افواج نے 21 دسمبر1907ء کو چلی کے ایکویک میں تقریباً 2ہزار کان کنوں کا قتل عام کیا۔کچھ رپورٹس کے مطابق قتل کئے جانے والوں کی تعداد 2ہزار سے بھی زیادہ تھی۔اس قتل عام کے نتیجے میں نہ صرف ہڑتال ٹوٹ گئی بلکہ مزدوروں کی تحریک ایک دہائی سے زائد عرصے تک معطل رہی۔اس کے بعد اقعہ کے حقائق کو کئی سال تک سرکاری طور پر دبایا جاتا رہا لیکن2007ء میں حکومت نے اس کی صد سالہ یادگاری تقریب کا انعقاد کیا۔قتل عام کا مقام ڈمنگو سانتا ماریا سکول تھا، جہاں چلی کے دوردراز علاقوں سے آئے ہزاروں کارکن ایک ہفتے سے ٹھہرے ہوئے تھے۔پین ایم فلائٹ103حادثہ''پین ایم فلائٹ نمبر103‘‘فرینکفرٹ سے ڈیٹرائٹ کیلئے لند ن میں ایک سٹاپ اوور کے ساتھ نیو یارک سٹی میں ایک طے شدہ پرواز تھی۔21دسمبر1988ء کو جب ہوائی جہاز سکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی کے اوپر پرواز کر رہا تھا اس میں اچانک ایک دھماکا ہواجو جہاز میں نصب کئے گئے بم کا تھا۔ اس حادثے میں جہاز میں سوار 243مسافر اور عملے کے 16 افراد ہلاک ہوئے۔دھماکے کے بعد جہاز کے بڑے حصے رہائشی علاقے میں گرے جس کی وجہ سے11رہائشی ہلاک ہوئے۔کل 270ہلاکتوں کے ساتھ یہ اُس وقت برطانیہ کا سب سے مہلک دہشتگردحملہ تھا۔نیپال ،برطانیہ معاہدہنیپال اور برطانیہ کے درمیان پہلی مرتبہ معاہدہ1921ء میں زیر بحث آیا اور اس حتمی معاہدے پر دستخط21دسمبر1923ء کو سنگھار دربار میں کئے گئے۔یہ معاہدہ برطانیہ کا پہلا باضابطہ اعتراف تھا کہ نیپال ایک آزاد ملک کے طور پر اپنی خارجہ پالیسی کو کسی بھی طرح سے چلانے کا حق رکھتا ہے۔ اس معاہدے کو سفارتکاری کی ایک بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا۔ معاہدہ 1925ء میں لیگ آف نیشنز میں بھی درج کیا گیا ۔نیپال 1921ء میں ہی خود کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دیکھناچاہتا تھا۔ اس لئے اسی برس برطانیہ کے ساتھ اس بحث کا آغاز کر دیا گیا تھا کہ نیپال کی آزادی کو تسلیم کیا جائے۔اینٹونوو این225 کی پہلی پروازاینٹونوو این 225ایک سٹریٹجک ائیر لفٹ کارگو ہوائی جہازجسے سوویت یونین میں اینٹونوو ڈیزائن بیورو نے ڈیزائن اور تیار کیا تھا۔یہ اصل میں 1980ء کی دہائی کے دوران اینٹونو و این124ائیر لفٹر کے ایک وسیع مشق کے لئے تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد فضا میں ہونے والی نقل و حمل پر نظر رکھنا تھا۔21دسمبر1988ء کو اینٹونوواین225نے اپنی پہلی پرواز کی۔اسے دنیا کا سب سے بڑا ہوائی جہاز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔