ناہید اختر…دل کے تاروں کو چھونے والی آواز وہ 70ء کی دہائی میں بہت مقبول پلے بیک گلوکارہ تھیں‘ شاندار نغمات گائے

ناہید اختر…دل کے تاروں کو چھونے والی آواز وہ 70ء کی دہائی میں بہت مقبول پلے بیک گلوکارہ تھیں‘ شاندار نغمات گائے

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفرؔ


پاکستانی فلمی صنعت کے قیام کے بعد جن گلوکارائوں نے شاندار پلے بیک گائیکی کا مظاہرہ کر کے سب کو حیران کیا ان میں میڈم نور جہاں اور زبیدہ خانم کے نام سرفہرست ہیں۔ بعد میں مالا، نسیم بیگم، رونا لیلیٰ اور نیّرہ نور نے بھی اردو اور پنجابی زبان میں بہت اچھے نغمات گائے جنہیں آج تک یاد کیا جاتاہے۔ 70ء کے اوائل میں ایک نئی گلوکارہ نے پلے بیک گائیکی کا آغاز کیا اور بہت کم عرصے میں زبردست مقبولیت حاصل کر لی۔ ان کا نام ہے ناہید اختر۔26ستمبر1956ء کو پیدا ہونے والی ناہید اختر کی تین بہنیں اور چار بھائی ہیں۔ ناہید اختر کی گائیکی کے بہت سے رنگ ہیں۔ انہوں نے پاپ گیت بھی گائے‘ غزلیں بھی گائیں‘ لوک پنجابی گیت اور قوالیاں بھی گائیں۔ پھر اپنی تیکھی آواز کی وجہ سے وہ بہت مقبول ہوئیں۔ وہ شوخ گیت بھی گاتی تھیں اور المیہ گیت گانے میں بھی ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ان کی یہ خوبی بھی بڑی زبردست تھی کہ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں کیلئے گاتی تھیں۔ ان کی یہ خوش بختی تھی کہ انہیں پاکستان کے بہترین سنگیت کار ملے جنہوں نے ان کی آواز میں انتہائی خوبصورت گیت تخلیق کیے۔ ایم اشرف‘ اے حمید‘ ناشاد‘ کمال احمد‘ نثار بزمی‘ خلیل احمد‘ تصدق حسین‘ نذیر علی‘ ماسٹر رفیق علی‘ ماسٹر عنایت حسین‘ بخشی وزیر اور طافو جیسے باکمال موسیقاروں نے ان سے بڑے دلکش گیت گوائے جو اب بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ اس ذہین گلوکارہ نے بہت جلد اپنا ایک الگ مقام بنا لیا۔ بہت سے لوگ حیران تھے کہ ناہید اختر نے آخراتنی جلدی کیسے یہ مقام حاصل کر لیا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال تھیں۔ انہیں شہرت حاصل کرنے کیلئے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ’’نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی‘‘ کے مصداق وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر ترقی کی منازل طے کرتی رہیں۔ناہید اختر نے بڑے شاندار گانے گائے۔ خاص طور پر اے نیر اور رجب علی کے ساتھ گائے ہوئے ان کے دو گانے بہت مقبول ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم اشرف وہ موسیقار تھے جن کی فلموں میں انہوں نے سب سے زیادہ گیت گائے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ پلے بیک گائیکی میں ایم اشرف نے ان کی بڑی مدد کی اور وہ ناہید اختر کیلئے استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ ایم اشرف کی موسیقی میں ناہید اختر نے جو گیت گائے انہیں لازوال شہرت حاصل ہوئی۔ ان میں طربیہ اور المیہ دونوں قسم کے گیت شامل تھے۔ ایم اشرف کی جن فلموں میں ناہید اختر نے اپنی آواز کا جادو جگایا ان میں ’’ننھا فرشتہ‘ پھول میرے گلشن کا‘ شمع‘ زنجیر‘ اناڑی‘ دلربا‘ جب جب پھول کھلے‘ بے مثال‘ آرزو‘ صورت اور سیرت‘ نوکر‘ محبت زندگی ہے‘ پھول اور شعلے‘ دیکھا جائے گا‘ گونج اٹھی شہنائی‘ شبانہ‘ انسان اور فرشتہ‘ شمع محبت‘ اف یہ بیویاں‘ بیٹی‘ محبت ایک کہانی‘ درد‘ سسرال‘ اپنے ہوئے پرائے‘ پلے بوائے‘ ابھی تو میں جوان ہوں‘ آگ اور زندگی اور دیگر کئی فلمیں شامل ہیں۔ ان فلموں کیلئے گائے ہوئے ناہید اختر کے کئی گیت سپرہٹ ثابت ہوئے جو مندرجہ ذیل ہیں۔1-تو ہی بتا پگلی پون (پھول میرے گلشن کا)2- کسی مہرباں نے آ کے (شمع)3- بادامی نینوں والے (زنجیر)4- ترستا ہے یہ دل (آرزو)5- تت تورو تورو تارا تارا (محبت زندگی ہے)6- پیار کبھی کرنا نہ کم (دیکھا جائے گا)7- زندہ رہیں تو کیا ہے (خریدار)8- تیرے بنا دنیا میں (شبانہ)9- تیرا میرا کوئی نہ کوئی (پلے بوائے)10- تجھے پیار کرتے کرتے (میرا نام محبت ہے)ایم اشرف کے علاوہ ناہید اختر نے جن دوسرے سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا اور ان کی موسیقی میں جو گیت مقبول ہوئے ان کا ذکر بھی ذیل میں کیا جا رہا ہے۔1- دل دھڑکے ہائے اللہ2- ایسی چال میں چلوں3- اللہ ہی اللہ کیا کرو4- تیری خوشی کیلئے تیرا پیار چھوڑ چلے5- تمام عمر تجھے زندگی کا پیار ملے6- تھا یقیں کہ آئے گی یہ راتاں کبھی7- جس طرف آنکھ اٹھائوںاب ہم ناہید اختر کے ان پنجابی گیتوں کا ذکر کریں گے جنہوں نے ایک زمانے میں ہر طرف دھوم مچا دی تھی۔1- دل تینوں دے کے (کھلی کچہری)2- کنڈلاں دے والاں والیا (غیرت)3- ماہی میرے نال اے (نشان)4- میرا ڈگ مگ ڈولے (اندھا قانون)5- وے جا دل ضد نہ کر (چن پنجاب دا)6- ونگاں لال پیلیاں (چوڑیاں)7- میرا یار بڑا (شاہ زمان)ناہید اختر نے غزلیں بھی گائیں اور ان کی درج ذیل دو غزلوں کا بڑا تذکرہ کیا جاتا ہے۔1- ہم سے الفت کے تقاضے نبھائے نہ گئے2- زندہ رہیں تو کیا ہےناہید اختر نے کئی ٹی وی پروگرام بھی کیے جن میں ’’لوک تماشا‘ سخن ور‘ سنگت‘ سر سنگیت‘ سخن فہم‘ میری پسند اور رم جھم‘‘ شامل ہیں۔اس بے مثل گلوکارہ کو تین بار نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہیں کئی دیگر ایوارڈ بھی دئیے گئے۔ ان سب کے علاوہ ناہید اختر ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ اور ’’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ بھی حاصل کر چکی ہیں۔ ناہید اختر نے کئی برس پہلے گلوکاری ترک کر دی اور ساری توجہ گھریلو امور کی طرف مبذول کر دی۔ حال ہی میں ان کے شوہر آصف علی پوتا کا انتقال ہو گیا۔ ایک شاندار گلوکارہ کی حیثیت سے انہوں نے جو خدمات سرانجام دیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
چائنہ کا دلکش تفریحی پارک ہربن آئس اینڈ سنوورلڈ

چائنہ کا دلکش تفریحی پارک ہربن آئس اینڈ سنوورلڈ

ہاربن انٹرنیشنل آئس اینڈ سنو فیسٹیول ایک سالانہ سرمائی تہوار ہے جو چین کے شہر ہاربن میں ایک مخصوص تھیم کے ساتھ منعقد ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا آئس اینڈ سنو فیسٹیول بن چکا ہے۔ اس تہوار میں مقبول تفریحی مقام ''آئس اینڈ سنو ورلڈ‘‘ شامل ہے۔ ابتدا میں اس فیسٹیول میں زیادہ تر چینی افراد شریک ہوتے تھے، لیکن اب یہ ایک بین الاقوامی فیسٹیول اور مقابلہ بن چکا ہے، جس نے تقریباً پونے دوکروڑ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور 28 ارب یوآن (4.4 ارب ڈالر) کی آمدنی حاصل کی۔ اس فیسٹیول میں دنیا کے سب سے بڑے برف کے مجسمے بنائے جاتے ہیں۔5جنوری سے شروع ہونے والا یہ فیسٹیول فروری کے آخر تک جاری رہتا ہے۔ اگرچہ شہر بھر میں آئس مجسمے نصب کیے جاتے ہیں، لیکن دو اہم نمائش گاہیں ہیں۔سن آئی لینڈ: یہ ایک تفریحی علاقہ ہے جو سونگھوا دریا کے قریب واقع ہے، جہاں دیوہیکل برف کے مجسمے بنائے جاتے ہیں۔ آئس اینڈ سنو ورلڈ: یہ رات کے وقت کھلتا ہے، جہاں سونگھوا دریا سے نکالی گئی 2 سے 3 فٹ موٹی برف کی سلیبوں سے مکمل سائز کی عمارتیں بنا کر انہیں مختلف رنگوں کی روشنیوں سے منور کیا جاتا ہے۔ یہ پارک عموماً دسمبر کے آخر میں سیاحوں کیلئے کھول دیا جاتا ہے۔ ہر سال اس پارک کو نئے ماڈل اور ڈیزائن کی عمارتوں اور مجسموں کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ پارک 8لاکھ مربع میٹر کے رقبے تک پھیل چکا ہے۔ہاربن شمال مشرقی چین میں واقع ہے اور یہاں سردیوں میں سائبیریا سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں۔ موسم گرما میں یہاں کا اوسط درجہ حرارت 21.2 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے، جبکہ سردیوں میں منفی 16.8ڈگری سینٹی گریڈ تک گرتا ہے۔ سالانہ کم درجہ حرارت منفی 25ڈگری سینٹی گریڈ غیر معمولی نہیں ہے۔تاریخ اور اہمیتیہ تہوار 1963ء میں ہاربن کے روایتی آئس لالٹین شو سے وجود میں آیا تھا۔ یہ تہوار ثقافتی انقلاب کے دوران کئی سالوں تک معطل رہا، 5 جنوری 1985ء کوژاؤلن پارک میں اس کا دوبارہ آغاز کیا گیا ۔2001ء میں ہاربن آئس فیسٹیول کو ہیلونگجیانگ انٹرنیشنل سکی فیسٹیول کے ساتھ ضم کر دیا گیا اور اسے نیا باضابطہ نام ''ہاربن انٹرنیشنل آئس اینڈ سنو اسکلپچر فیسٹیول‘‘ دیا گیا۔2007ء میں اس تہوار میں کینیڈین تھیم پر مبنی ایک مجسمہ شامل کیا گیا، جو کینیڈین ڈاکٹر نارمن بیتھون کی یاد میں بنایا گیا تھا۔ اس مجسمے کو دنیا کے سب سے بڑے برفانی مجسمے کے طور پر گنیز ورلڈ ریکارڈ سے نوازا گیا۔ یہ مجسمہ 250 میٹر طویل اور 28 فٹ (8.5 میٹر) بلند تھا اور اس کی تعمیر میں 13ہزار مکعب میٹر سے زیادہ برف استعمال کی گئی۔ 2014ء میں، اس فیسٹیول نے اپنی 30ویں سالگرہ '' آئس سنو، چارمنگہاربن‘‘ کے تھیم کے ساتھ منائی۔ 20 دسمبر 2013ء سے 28 فروری 2014ء تک مختلف میلوں، مقابلوں اور نمائشوں کا انعقاد کیا گیا۔2015ء میں، 31 واں ہاربن آئس اینڈ سنو فیسٹیول 5 جنوری کو ''آئس سنو ہاربن، چارمنگ چائنا ڈریمز اراؤنڈ دی ورلڈ‘‘ کے تھیم کے ساتھ شروع ہوا۔ اس میں افتتاحی تقریب، آتش بازی، آئس لالٹینز، سالگرہ کی تقریبات، برفانی مجسموں کے مقابلے، نمائشیں، سرمائی تیراکی، سردیوں میں مچھلی پکڑنے، اجتماعی شادی کی تقریب، فیشن شوز، کنسرٹس اور آئس اسپورٹس گیمز شامل تھے، جو 22 دسمبر 2014ء سے مارچ 2015ء کے اوائل تک جاری رہے۔ 2019ء میں سب سے مقبول مقام ''ہاربن آئس اینڈ سنو ورلڈ‘‘6لاکھ مربع میٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا تھا اور اس میں 100 سے زیادہ مجسمے شامل تھے۔ اس میں 12 ممالک کے فنکاروں نے سالانہ مقابلے میں حصہ لیا۔2020ء کا تہوار دنیا کے سب سے بڑے سرمائی جشن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس برس مجسمے تقریباً 2 لاکھ 20ہزار مکعب میٹر آئس بلاکس سے بنائے گئے تھے۔2021ء میںکورونا کی وجہ سے یہ فیسٹیول مکمل گنجائش کے ساتھ منعقد نہیں ہو سکا۔ہاربن آئس اینڈ سنو ورلڈ سرمائی تفریح اور حیرت انگیز آئس آرٹ کے شائقین کے لیے ایک ناقابل فراموش تجربہ فراہم کرتا ہے۔ برف کو بلاکس میں کاٹنے کے لیے سوئنگ آرے استعمال کیے جاتے ہیں، جو سونگھوا دریا کی منجمد سطح سے نکالے جاتے ہیں۔ اس کے بعد آئس مجسمہ ساز بڑے پیمانے پر برفانی مجسمے تراشنے کے لیے چھینیوں، آئس پک اور مختلف اقسام کی آرے استعمال کرتے ہیں۔ یہ مجسمے، جو بہت پیچیدہ ڈیزائن کے حامل ہوتے ہیں، تہوار کے آغاز سے پہلے دن رات تیار کیے جاتے ہیں۔پارک میں موجود آئس مجسمے اور عمارتیں مختلف رنگوں کی روشنیوں سے مزین ہوتی ہیں، جو رات کے وقت ایک جادوئی منظر پیش کرتی ہیں۔آئس سلائیڈز، برفانی کھیل، اور بچوں اور بڑوں کے لیے مختلف تفریحی مقامات اس پارک کا حصہ ہیں۔

عظیم مسلم سائنسدان:ابوالحسن علی بن سہل ربن طبری

عظیم مسلم سائنسدان:ابوالحسن علی بن سہل ربن طبری

ابو الحسن علی بن سہل ربن طبری فن طب کا ماہر تھا۔ اس نے اپنے والد سے اس فن کی تعلیم حاصل کی، تکمیل کے بعد تجربات حاصل کئے اور پھر بغداد کے جملہ ہسپتالوں کا نگران مقرر ہوا۔ اس نے طبی انسائیکلوپیڈیا اوّل اوّل مرتب کی۔ اس نے تین کتابیں لکھی ہیں۔ پہلی کتاب ''فردوس الحکمت‘‘ ابجد کے اصولوں پر ہے۔ اس میں آب و ہوا ، موسم، صحت ، علم حیوانات پر عالمانہ بحث کی ہے۔ دوسری کتاب ''حفظ صحت‘‘ پر ہے، تیسری کتاب اس کی ''دین و دولت‘‘ ہے جو حسن اخلاق پر انسانوں کیلئے ہے۔870ء میں ان کا انتقال ہوا۔ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیتعلی بن سہل طبری ایک جامع محقق تھے، خصوصاً علم طب میں انہیں کمال حاصل تھا۔علی بن سہل بن طبری، طبرستان(مرو، ایران) کا باشندہ تھا۔ اس کے والد قابل طبیب اور مشہور خوش نویس تھے۔ وہ بغداد آکر آباد ہو گئے۔ علی بن سہل نے اپنے والد سے تعلیم حاصل کی، اس نے خوش نویسی کا فن بھی سیکھا۔تعلیم کے بعد وہ مطالعے میں مصروف ہو گیا۔ اس نے فن طب کا مطالعہ کثرت سے کیا اور اس فن میں دست گاہ کاحل پیدا کیا۔ وہ بغداد کے سرکاری ہسپتالوں کا نگراں مقرر کیا گیا۔علی بن سہل نے اپنے شوق سے یونانی اور سریانی دونوں زبانیں سیکھیں۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق علی نے درس دینا شروع کیا چونکہ وہ کامل مہارت رکھتے تھے۔ اس لئے ان کے حلقہ درس میں فن طب کے طلبہ کثرت سے شریک ہونے لگے، اور وہ بہت مشہور ہو گئے۔بغداد علمی مرکز تھا، اس زمانے میں زکریا رازی طب کے مشہور ماہر بغداد آ گئے، وہ طب کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ریسرچ بھی کرنا چاہتے تھے،ان کی علی بن سہل سے ملاقات ہو گئی، زکریا رازی ان کے حلقہ درس میں چند روز بیٹھے۔ انہیں علی بن سہل کے درس دینے کا طریقہ پسند آیا اور پھر مستقل شرکت اختیار کرلی اور فن طب میں ریسرچ کرنے لگے۔ علی بن سہل کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کے مشہور طبیب اور سائنسدان زکریا رازی کے استاد تھے۔علمی خدمات اور کارنامےعلی بن سہل ایک روشن دماغ، باکمال طبیب تھے۔ انہیںسرکاری ہسپتالوں میں نگران کے طور پر مقرر کیا گیا۔علی بن سہل نے اس طرح بہت کام کیا اور تجربہ حاصل کیا۔ انہیں ہسپتالوں کے نظم و ضبط پر قدرت ہو گئی، ہر قسم کے مریضوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے بڑی مستعدی سے مریضوں کا علاج کیا اور علاج میں نئے نئے طریقے اختیار کئے۔ وہ اپنے تجربات کو ڈائری میں لکھتے جاتے تھے۔ اور پھر مرتب کرکے کتابی صورت دے دی۔ اس کا نام ''فردوس الحکمت‘‘ ہے۔ یہ کتاب ابجد کے اصول پر مرتب کی گئی ، جیسا کہ آج کل انسائیکلو پیڈیا کا اصول ہے۔'' فردوس الحکمت‘‘ عربی میں جامع مستند اور ضخیم کتاب ہے۔ اس میں مصنف کی زندگی بھر کے تجربات کا نچوڑ ہے جو اس نے بے شمار مریضوں کو دیکھ کر اور علاج کے بعد لکھا تھا۔قابل مصنف نے آب و ہوا موسم، صحت، امراض نفسانی، علم تولید اور علم حیوانات پر عالمانہ انداز میں بحث کی ہے۔ ہر موضوع کو لیا ہے، اپنی افادیت کے سبب یہ کتاب ہمیشہ داخل درس رہی۔دوسری کتاب اس کی ''حفظ صحت‘‘ ہے اس میں صحت قائم رکھنے کے اصول اور قاعدے نہایت عمدگی سے بیان کئے گئے ہیں۔ایک اور کتاب '' دین و دولت‘‘ اس قابل مصنف نے مرتب کی جو اخلاقی تعلیم اور معلومات کا قابل قدر ذخیرہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ علی بن سہل انسائیکلو پیڈیا کے موجد ہیں۔ وہ حفظ صحت کے اصول اور احتیاط کے قاعدے بتانے والے طبیب حاذق، علم الاخلاق کا مالک، سماجی زندگی کو عمدہ طریقے سے فروغ دینے والا اور دین اور دولت کو توازن کے ساتھ لے کر چلنے والے مصلح اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

اتحادی افواج کا جوابی حملہپہلی عالمی جنگ کے دوران 8 جنوری 1918ء کو فرانسیسی ، برطانوی اور اطالوی افواج پہلی عالمی جنگ کے دوران اٹلی میں دریائے پیائو کے کنارے جوابی حملے کی تیاری میں مصروف تھیں تاہم یہ جنگ کچھ عرصے کیلئے موخر ہوگئی۔ مارچ 1918ء میں جرمنوں نے ایک مرتبہ پھر دریائے پیائو کے مغربی محاذ پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اسے جرمن فوج کی جنگ جیتنے کی آخری کوششوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ 1918ء میں پیائو کی جنگ کے خاتمے کے بعد آسٹریا اور ہنگری کی فوجیں جو جرمنوں کے ساتھ لڑ رہی تھیں بکھرنا شروع ہو گئیں۔دریائے پیائو کے کنارے ہونے والی یہ جنگ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کا آغاز تھا۔برطانیہ میں فوڈ راشننگ8جنوری1940ء کو برطانیہ نے مکھن اور چینی پر مشتمل فوڈ راشننگ متعارف کرائی۔ کچھ عرصے بعد چائے، جام، بسکٹ،پنیر، انڈے ،دودھ اور ڈبہ بند پھلوں کا راشن متعارف کرایا گیا۔ان سب اقدامات کے بعد بھی جب جنگ جاری رہی تو اور بھی کھانے اور غیر کھانے کی بہت سی اشیاء متعارف کرائی گئیں جن میں گوشت،پیٹرول، کپڑے اور یہاں تک کے صابن کو بھی راشن کارڈ میں شامل کیا گیا۔ اس کارڈ کا اجراء اس لئے بھی کیا گیا کیونکہ جنگی حالات کی وجہ سے ملک بھر میں اشیائے خورونوش کی قلت تھی اور حکومت اپنی نگرانی میں ان اشیاء کی تقسیم کو منصفانہ رکھنا چاہتی تھی۔1918ء کا امن معاہدہپہلی عالمی جنگ کے بعد امن کیلئے واشنگٹن کا14نکاتی منصوبہ امریکی صدر رووڈ روولسن کی طرف سے پیش کیا گیا۔ یہ تجویز ایک پلان پر مشتمل تھی جس میں قیام امن کے 14مختلف پہلو شامل تھے۔ اس فہرست میں سے ایک وہ ہے جو امن قائم کرنے والے ممالک کیلئے تجارت کی مساوات اور اس کی دیکھ بھال میں مدد سے متعلق تھا۔ اس فہرست کے ایجنڈے کے دیگر حصوں میں تمام نو آبادیاتی دعوئوں کی غیر جانبدارانہ ایڈجسٹمنٹ ، روسی علاقے کا انخلا ،بیلجیئم اور فرانس کے علاقوں اور اٹلی کی سرحدوں کی از سر نو ترتیب شامل تھی۔یوکرین مسافر طیارہ ایران میں تباہ2020ء میں آج کے روز یوکرین ایئر لائنز کا مسافر بردار طیارہ امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ تہران سے ٹیک آف کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گیا۔ جہاز میں سوار تمام 176 افرادمارے گئے۔ تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ہوائی جہاز طیارہ شکن میزائل کا نشانہ بنا جو اسلامی انقلابی گارڈ کور(IRGC) کی طرف سے داغا گیا۔ یہ واقعہ امریکہ کی طرف سے قاسم سلیمانی کے قتل کے پانچ دن بعد پیش آیا اور ایران کی جانب سے آپریشن شہید سلیمانی کا بدلہ لینے کے چند گھنٹے بعد۔ 

چیونٹیاں آپس میں کیسے بات کرتی ہیں؟

چیونٹیاں آپس میں کیسے بات کرتی ہیں؟

چیونٹی تقریباً دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے۔ یہ حشرات الارض کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور آج اس کی 12ہزار سے زائد اقسام موجود ہیں۔ ان کو ان کے سر پر لگے دو اینٹیناز اور مخصوص جسمانی ساخت کی بدولت بآسانی پہچاناجا سکتا ہے۔ چیونٹیاں انتہائی منظم بستیاں بناتی ہیں، جو حجم اور رقبے کے لحاظ سے کافی بڑی ہوتی ہیں۔ جس میں نر اور مادہ کو ضرورت کے مطابق ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں۔ جس میں نگرانی سے لے کر مزدوری تک ہر طرح کے کام شامل ہیں۔بعض اقسام کی چیونٹیاں اپنے سے کئی گنا زیادہ وزن اٹھا سکتی ہیں۔چیونٹیوں کا شمار دنیا کے مشقت کرنے والی مخلوقات میں ہوتا ہے۔ ان کی بعض نسلیں ایسی بھی موجود ہیں جن کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ زیادہ تر چیونٹیاں پانی میں 20 سے 24 گھنٹے تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ نیز کچھ چیونٹیاں ایسی بھی ہیں جن کو نئی نسل پیدا کرنے کیلئے نر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چیونٹیاں سونگنے کیلئے اپنے انٹینوں کا استعمال کرتی ہیں ۔چیونٹیوں کی کالونی ملکہ کے دم سے چلتی ہے اور ایک ملکہ کی عمر 30 سال تک ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس مادہ ورکر چیونٹیاں ایک سے تین سال زندہ رہتی ہیں جبکہ نر چیونٹیوں کی عمر کچھ ہفتوں تک ہی ہوتی ہے۔ ان کی پسندیدہ خوراک میٹھا ہے خاص کر شکّر۔چیونٹیوں کی ایک فوج ایک ہفتے میں زیر زمین وسیع شہر تعمیر کر سکتی ہے۔ لہٰذا ایک بستی کی صورت میں مل کر کام کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ انتہائی متاثر کن کارنامے انجام دے سکتی ہیں۔ گہری زمین کے اندر چیونٹیوں کے گھرکثیر خانوں سے بنتے ہیں جو سرنگوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ ہر خانے کا مختلف کام ہوتا ہے، کچھ خوراک کا ذخیرہ کرنے کیلئے ہوتے ہیں، باقی جگہ مصروف مزدور چیونٹیوں کیلئے ہوتی ہے۔ ملکہ چیونٹی ایک مرکزی خانے میں رہتی ہے ، جہاں وہ اپنے انڈے دیتی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ گروہ کی صورت میں رہنے والی چیونٹیاں جن کا شمار قدرت کے قدیم ترین اور قابل معاشروں میں ہوتا ہے، یہ اجتماعی طور پر اپنے دشمنوں کو یاد رکھتی ہیں۔ جب ایک چیونٹی کسی دوسرے گروہ سے آنے والے بن بلائے مہمان سے لڑائی کرتی ہے تو وہ اس کی بو کو یاد رکھتی ہے ۔سائنسی جریدے میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق چیونٹیوں کی کئی اقسام میں بطورِ معاشرہ رہنے کیلئے کیمیائی مادّے نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حشرات اپنے ساتھ رہنے والے دوسرے ساتھیوں کو ان کی خاص کیمیائی علامت سے پہچانتے ہیں جو ایک ہی بل میں رہنے والے تمام حشرات کے جسم پر پائی جاتی ہے۔حشرات ایسے مداخلت کار کو سونگھ کر بھی پہچان جاتے ہیں جو حملے کی نیت سے وہاں آتا ہے۔یہ تحقیق آسٹریلیا میں میلبورن یونیورسٹی کی ٹیم نے کی جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ چیونٹیاں لڑائی کے بعد اپنے دشمنوں کو یاد رکھ پاتی ہیں یا نہیں۔محققین نے گرم علاقوں کی معمار چیونٹیوں کا مشاہدہ کیا جو درختوں میں گھر بناتی ہیں۔ ان کے ایک بل میں پانچ لاکھ سے زائد چیونٹیاں رہتی ہیں۔محققین نے چیونٹیوں کے درمیان ''پہچان‘‘کو جانچنے کیلئے انہیں دوسرے گروہ کے مداخلت کاروں سے لڑائی کرنے دی۔جانچ کے کئی مرحلوں کے بعد ایک بل سے ایک چیونٹی کو مخالف گروہ کے چیونٹی کے ساتھی تجرباتی میدان میں چھوڑا گیا۔ اسی طرح پندرہ مرتبہ چیونٹیوں کا آمنا سامنا کروانے کے بعد سائنسدانوں نے چیونٹیوں سے ایک مصنوعی حملہ کروایا۔انہوں نے بیس چیونٹیوں کو مخالف چیونٹیوں کے بل کے قریب چھوڑ دیا۔محققین نے تحقیق میں لکھا ہے کہ ان مداخلت کاروں پر بل کی رہائشی چیونٹیوں نے روایتی انداز میں حملہ کر دیا۔مداخلت کار چیونٹیوں کے خلاف دفاع کرنے والی چیونٹیوں کا ردِ عمل بہت زیادہ مشتعل تھا کیونکہ ان ہی میں سے بعض چیونٹیاں تجرباتی جانچ کے دوران مداخلت کاروں سے لڑ چکی تھیں۔تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر مارک ایلگر نے بی بی سی نیچر کو بتایا کہ ایک گروہ میں رہنے والی تمام چیونٹیاں کسی ایک ساتھی کے تجربے کی بنیاد پر بھی کسی کے بارے میں ردِ عمل ظاہر کردیتی ہیں۔ انہوں نے اسے مجموعی یا گروہی دانشمندی قرار دیا۔چیونٹیوں سے متعلق سورہ نمل کی آیت نمبر 17 اور 18میں اللہ کا ارشاد ہے کہ: ''اور سلیمانؑ نکلے اپنے پورے لشکر کو لے کر جس میں انسان،جن اورتمام جانورتھے،فوج بندی کیے ہوئے جانے لگے۔یہاں تک کہ وہ گزرے وادی نمل سے،جو چیونٹیوں کی وادی تھی،ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹی سے کہا اے چیونٹیوں اپنے گھروں میں گھس جاؤ،کہیں تمہیں سلیمان اور اس کی فوجیں نہ پیس ڈالیں ،اور انہیں خبر بھی نہ ہو،اور سلیمان علیہ السلام نے جب اس چیونٹی کی بات سنی تو مسکرائے اوراپنے لشکر کا رخ موڑ لیا‘‘۔چیونٹیاں حضرت سلیمان علیہ السلام سے بات کرتی تھیں اور اللہ نے سلیمان علیہ السلام کو ان کی بات سمجھنے کی صلاحیت بھی دی تھی۔جو بات قرآن نے چودہ سو سال پہلے بتائی،آج کی جدید سائنس مختلف تجربات کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ چیونٹیاں ایک زبردست معاشی سسٹم میں رہتی ہیں اور اتنے مشکل سسٹم سے بات کرتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔سائنس نے بتایا کہ چیونٹیاں آواز سے بات نہیں کرتیں بلکہ ڈیٹا منتقل کر کے بات کرتی ہیں اور ان کاطریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے منہ سے ایک مواد نکالتی ہیں اور سامنے والی چیونٹی کے منہ پر چپکا دیتی ہیں۔ دوسری چیونٹی اس سے سارا پیغام ڈی کوڈ کر کے سمجھ لیتی ہے۔اس لئے آپ نے اکثردیکھا ہوگا کہ چیونٹیاں چلتے چلتے رک کر دوسری چیونٹی کے منہ سے منہ لگا کرآگے چلی جاتی ہیں،یہ وہ عمل ہوتا ہے جس میں وہ ڈیٹا منتقل کرتی ہیں۔جدید تحقیق میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ چیونٹیاں آپس میں نہ صرف بات کرتی ہیں بلکہ ایک زبردست نظام کے تحت زندگی بھی گزارتی ہیں۔ بارش سے پہلے چیونٹیاں اپنے گھر کے باہرگول چکر لگانا شروع کر دیتی ہیں اور مٹی کے پہاڑ بنا لیتی ہیں،تاکہ بارش کا پانی ان کے گھر میں نہ آسکے۔انہیں وقت سے پہلے بارش کا اس لئے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان میں قدرتی طور پر سینسر موجود ہوتا ہے جسے ''ہائیڈرو فولک‘‘ کہتے ہیں۔جب ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہوجاتا ہے تو چیونٹیوں میں موجود یہ سنسر اسے محسوس کرتا ہے اور چیونٹیوں کے دماغ کو بارش کے متعلق پیغام پہنچاتا ہے۔اس لئے چیونٹیاں بارش سے پہلے ہی اپنے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام کر لیتی ہیں۔محکمہ موسمیات بھی اسی عمل کو دھراتے ہوئے ہوا میں نمی کا تناسب نوٹ کرتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ بارش کے کیا امکانات ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے قرآن کو سمجھا اور اس پر عمل کیا ان لوگوں نے درختوں کے نیچے بیٹھ کرنہ صرف زمین کا حجم بتایا بلکہ یہ بھی بتایا کہ انسان پرندوں کی مانند کیسے پرواز کر سکتا ہے۔اگر ہم قرآن میں غوروفکر کریں تو ایسی ایجادات کر سکتے ہیں کہ نسل انسانی حیران رہ جائے۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ''اس میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں‘‘۔ 

لاس اینجلس ہرنیا فیشن جہاں سے جنم لیتا ہے

لاس اینجلس ہرنیا فیشن جہاں سے جنم لیتا ہے

1769ء کا ذکر ہے کہ حکومت سپین نے ایک پادری Father Juan Crespi کی سربراہی میں کیلی فورنیا کے علاقے میں ایک مہماتی ٹیم روانہ کی۔ اس ٹیم کا گزر ایک خوبصورت دریا پر ہوا۔ ان کو یہ دریا اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اس دریا کے کنارے خیمے گاڑ دیئے اورانہوں نے اس دریا کا نام ''دی ریور آف اوور لیڈی، دی کوئین آف دی اینجلز‘‘رکھ دیا۔غالباً انہوں نے سینٹ میری سے خاص انسیت کی بناء پر یہ نام دیا تھا۔ 4 ستمبر 1781ء کو 44 افراد پر مشتمل کچھ خاندان اس دریا کے کنارے آباد ہوئے اور انہوں نے دریا کے نام کی مناسبت سے اس جگہ کا نام ''دی ٹائون آف اوور لیڈی، دی کوئین آف دی اینجلز‘‘رکھ دیا۔ بے شک یہ ایک لمبا نام تھا۔ آہستہ آہستہ یہ نام مختصر ہو کر لاس اینجلس(Los Angeles) ہوگیا، جس کے پہلے لفظ ''لاس‘‘ کا معنی ہے شہر اور دوسرے لفظ اینجلس کا مطلب فرشتہ ہے۔ اس دن سے اس شہر کی آبادی میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ابتدائی دور میں یہ شہر سپین کے کنٹرول میں رہا اور 1781ء ہی میں ایک سپینی گورنر نے اس شہر کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔ پھر 1821ء میں میکسیکو نے سپین سے آزادی حاصل کرلی۔ سپین اور یورپ کے دوسرے حصوں میں آئے مہاجروں کو یہ علاقہ بہت پسند آیا۔ کیونکہ اس علاقے کی آب و ہوا کافی حد تک بحرہ روم کی آب و ہوا سے مماثلت رکھتی تھی۔ میکسیکو کی امریکہ سے لڑائی کے بعد ایک معاہدے تحت یہ شہر اپریل 1850ء میں امریکہ کے کنٹرول میں آگیا اور صرف پانچ ماہ بعد امریکہ نے اس شہر کو کیلی فورنیا کی ریاست میں شامل کرلیا۔لاس اینجلس دنیا کا ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔ نئے سے نیا فیشن سب سے پہلے یہاں جنم لیتا ہے۔ ٹیکنالوجی، تعلیم، کلچر، میڈیا، انٹرٹینمنٹ، بزنس، پٹرولیم، زراعت اور اس شہر میں ہونے والی سائنسی ترقی کو اگر کہیں اکٹھا کر دیا جائے تو لاس اینجلس کا شہر معرض وجود میں آتا ہے۔ یہ ایک فطری اصول ہے کہ جب مضبوط بنیادیں مل جائیں تو ان بنیادوں کے اوپر فلک بوس عمارتیں کھڑی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ لاس اینجلس کے ساتھ ہوا۔ یہاں پر فلم انڈسٹری کی ابتدا کیا ہوئی کہ دنوں اور مہینوں میں لاس اینجلس میں ترقی کا ایسا خاموش انقلاب آیا کہ یہ شہر پورے امریکہ میں دوسرا بڑا شہر بن کر ابھرا اور آج یہ شہر جنوبی امریکہ کا دل کہلاتا ہے اور عالمی رینکنگ کے مطابق ٹوکیو اور نیویارک کے بعد یہ دنیا کا تیسرا امیر ترین شہر ہے۔ امیر شہروں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آنے والا یہ شہر امریکہ کی ایک بڑی ریاست کیلیفورنیا میں بھی سب سے بڑا شہر شمار ہوتا ہے۔چوں چوں کا مربہ اس وقت لاس اینجلس میں بسنے والے دنیا کے تقریباً 160 ملکوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف اوقات میں بہتر رزق کی تلاش میں اپنے اپنے ملکوں کو خیرباد کہہ کر یہاں اس شہر میں آباد ہوتے گئے۔ دراصل 1848ء میں کیلی فورنیا میں سونے کی دریافت نے دنیا کے کئی لوگوں کو اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں آباد ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ مہاجر قسمت آزمائی کیلئے دنیا کے کونے کونے سے آ کر یہاں آباد ہوتے گئے اور آج اس شہر میں سپینیش، لاطینی امریکہ، افریقہ، ایشیا سے کورین، ویتنامی، روسی، چینی اور فرانس، جرمنی، آئرش، جاپان، انڈیا، ایران اور یورپ کے ہر ملک سے آئے لوگ آباد ہیں۔ یہاں پر 96زبانیں بولی جاتی ہیں اور مقامی ریڈیو اور ٹی وی چینلز سے 15 مختلف زبانوں سے باقاعدہ پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ ہر ملک کے اپنے کلچر کے علاوہ ایک Culture Mixed بھی نظر آتا ہے۔ میکسیکو سٹی کے بعد لاس اینجلس میکسیکن آبادی کا دوسرا بڑا شہر ہے جس میں اتنی تعداد میں میکسیکن لوگ آباد ہیں۔ سفید فام امریکی 35 فیصد، سیاہ فام 15فیصد اور ایشین 10 فیصد ہیں۔ جن میں چینی اور جاپانی نسل کے لوگوں کی کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ اس شہر میں سب سے زیادہ مہاجر آباد ہیں اور کہا جاتا ہے کہ لاس اینجلس میں رہنے والوں میں 35فیصد لوگ لاس اینجلس سے باہر پیدا ہوئے ہیں۔ لاس اینجلس میں سیاہ فام اور لاطینی نسل کے لوگ زیادہ تر شہر کے مرکزی حصہ میں اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ایشین، چائنا ٹائون، لٹل ٹوکیو اور کورین ٹائون میں آباد ہیں۔ ان کے مقابلہ میں سفید فام لوگ امریکہ کے دوسرے شہروں کی طرح شہر سے باہر مضافات یعنی بیورلے ہلز، ویسٹ وڈ اور سانتا مانیکا میں آباد ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ہر کمیونٹی کے لوگ اپنے اپنے کلچر کو آزادانہ اپنائے ہوئے ہیں۔لاس اینجلس میں امریکہ کے شمالی علاقوں کے مقابلے میں دھوپ وافر مقدار میں پڑتی ہے۔ دھوپ کی سالانہ اوسط 329 دن ہے۔ پورے سال میں اوسطاً 15انچ بارش برستی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں درجہ حرارت 16سے 28ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

مشتری کے گرد تین سیاروں کی دریافت1610ء میں آج کے دن اطالوی ماہر فلکیات گلیلیو گلیلی نے مشتری کے گرد تین سیاروں کی دریافت کی تھی۔ جنہیں افسانوی کرداروں ''لو‘‘، ''یوروپا‘‘ اور ''گانیمیڈ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ مشتری نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے، مشتری اتنا بڑا ہے کہ نظام شمسی کے باقی تمام سیارے اس کے اندر سما سکتے ہیں۔ مشتری کے اندر 1300 سے زیادہ زمینیں فٹ ہو سکتی ہیں۔زمین سے یہ رات کو آسمان میں نظر آنے والا دوسرا روشن ترین سیارہ ہے۔ مشتری سورج سے پانچواں سیارہ ہے۔ ہائیڈوجن بم امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے 7جنوری 1953ء کوہائیڈروجن بم تیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس منصوبے کے مکمل ہونے سے قبل بھی ایسا ہی اعلان کیا تھا۔ ہیری ٹرومین کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ہائیڈروجن بم بنانے کا فیصلہ سوویت یونین کے 1949ء میں ایٹم بم کے متعلق دئیے گئے بیان کے بعد کیاتھا۔ امریکی صدر کے مطابق ہائیڈروجن بم بنانے کا مقصد امریکہ کے دفاع کو مضبوط بنانا ہے۔CQDریڈیو سگنلز کا افتتاح''CQD‘‘ریڈیو کے استعمال کیلئے اپنائے جانے والے پہلے ڈسٹریس سگنلز میں سے ایک تھا۔7جنوری1904ء کو مارکونی انٹرنیشنل میرین کمیونی کیشن کمپنی نے ''سرکلر 57‘‘ جاری کیا جس میں واضح طور پر بتایا گیا کہ کمپنی کی تنصیبات کیلئے یکم فروری''CQD‘‘بحری جہازوں کی طرف سے کسی ایمرجنسی یا مشکل کی صورت میں دی جانے والی کال ہو گی۔ کچھ عرصہ بعد اسی ڈسٹریس سگنل کو تبدیل کر کے مورس کوڈ کی شکل دے دی گئی اور دور جدید میں اسے'' SOS‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔امریکی صدر کلنٹن کا مواخذہ7جنوری1999ء کو امریکی صدر کلنٹن کے مواخذے کیلئے مقدمے کی سماعت کاآغاز ہوا۔ کلنٹن پر جھوٹ بولنے اور انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام تھا۔ بعد میں گواہوں سے چھیڑ چھاڑ اور طاقت کے غلط استعمال جیسے اقدامات کا بھی الزام لگایا گیا۔ کلنٹن پر پاؤلا جونز کی طرف سے ہراساں کرنے کے الزامات کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔مواخذے کے مقدمے کی سماعت کے دوران، ہاؤس جوڈیشری کمیٹی نے مواخذے کے تین آرٹیکلز کی منظوری دی ۔ اس کے بعد کلنٹن نے امریکی عوام سے عوامی معافی مانگی ۔مانٹیل حادثہ7جنوری 1948ء کو کینٹکی ائیر نیشنل گارڈ کا پائلٹ 25سالہ کیپٹن تھامس ایف مانٹیل، فرینکلن کینٹکی ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قریب اپنےP-51 Mustang لڑاکا طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ یہ حادثہ ایک نامعلوم فلائنگ آبجیکٹ ''UFO‘‘ کا پیچھا کرنے کے دوران پیش آیا۔ یہ واقعہ ابتدائیUFOواقعات میں سب سے زیادہ مشہورتھا۔مانٹیل نے کافی اونچائی تک اس کا پیچھا کیا جہاز اس کے کنٹرول میں نہیں رہا اور گر کر تباہ ہو گیا۔