مولانا مفتی محمد حسنؒ کی دینی و ملّی خدمات

اسپیشل فیچر
بانیٔ جامعہ اشرفیہ لاہور مولانا مفتی محمد حسنؒ ؒ اپنے شیخ و مرشد مولانا اشرف علی تھانویؒ اور دیگر اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ خدا تعالیٰ نے مفتی محمد حسنؒ کی ذات میں شریعت، طریقت، تصوف، علم و عمل، زہد و تقویٰ، صبرو اسقامت، علم و بردباری سمیت دیگر خوبیوں کو جمع فرما دیا تھا، آپؒ بیک وقت ایک مفسر، فقیہ اور مصلح و مربی بھی تھے جس کی وجہ سے آپؒ حقیقت میں جامع الکمالات شخصیت کے مالک تھے۔ مولانا مفتی محمد حسنؒ قیام پاکستان کے پُرجوش حامی تھے، آپؒ کا اصلاحی تعلق برصغیر کی مشہور و معروف علمی و روحانی شخصیت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ساتھ تھا اور آپؒ حضرت تھانویؒ کے خلیفہ مجاز بھی تھے۔ آپؒ نے حضرت تھانویؒ کے نام کی طرف نسبت کرتے ہوئے لاہور میں جامعہ اشرفیہ کے نام سے معروف دینی ادارہ قائم کیا۔مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حکم پر مفتی محمد حسنؒ نے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور دیگر علمائے دیوبند کے ہمراہ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا اور کئی جگہ مسلم لیگ کے امیدواروں کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان بننے کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان پر آزادی کا پرچم لہرانے کی سعادت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کو حاصل ہوئی۔ مولانا مفتی محمد حسنؒ حسن ابدال کے قریب ایک قصبہ مل پور میں اتمان زئی قبیلہ پٹھان کے ایک دیندار گھرانہ مولانا اللہ داد کے گھر پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد اپنے وقت کے معروف عالم دین، محدث اور صاحب نسبت بزرگ تھے۔ مولانا مفتی محمد حسنؒ خود اپنے والد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میرے والد رات کے آخری حصہ میں سحری کے وقت نفی و اثبات کا ذکر کیا کرتے تھے۔آپؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی علاقہ میں حاصل کی۔۔۔ اور پھر مزید دینی تعلیم مولانا محمد معصومؒ، مولانا عبد الجبار غزنویؒ، مولانا نور محمدؒ اور مولانا غلام مصطفی قاسمیؒ اور دیگر علماء سے حاصل کرنے کے بعد تزکیۂ نفس اور تربیت کیلئے مولانا اشرف علی تھانویؒ کے پاس جا پہنچے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ارشاد گرامی اور ہدایت پر آپؒ نے قاری کریم بخشؒ سے تجوید اور فن قرأت کی سند حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دارالعلوم دیوبند سے مولانا علامہ انور شاہ کاشمیریؒ سے دورہ حدیث کی تجدید کرتے ہوئے سند فراغت حاصل کی، جس کے بعد مولانا اشرف علی تھانویؒ نے آپؒ کو طریقت کے چاروں سلسلہ میں بیعت کر لیا۔ بیعت کے بعد مفتی محمد حسنؒ ایسے ’’فنافی الشیخ‘‘ ہوئے کہ ذکر و اذکار اور محنت و ریاضت کے ذریعہ بڑی تیزی کے ساتھ تزکیہ و سلوک کی منازل طے کیں۔ تین سال کے عرصہ میں ہی حضرت تھانویؒ نے آپؒ کو خلعت خلافت سے نوازا جس کے بعد آپؒ مرجع خلائق ہو گئے۔ اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء کے علاوہ سابق وزیراعظم پاکستان چودھری محمد علی مرحوم ، سردار عبدالرب نشتر مرحوم سمیت گورنرز، وزراء اور افسران مولانا مفتی محمد حسنؒ کی مجلس میں حاضری کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے، مؤرخ اسلام علامہ سید سلیمان ندویؒ اور مولانا عبد الماجد دریا آبادیؒ بھی مفتی محمد حسنؒ کے دامن عقیدت سے وابستہ تھے۔ مولانا مفتی محمد حسنؒ کے بارے میں رقمطراز ہیں!’’حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ صرف کتابی فقیہ یا عالم ہی نہ تھے ان کی صحبتیں، محفلیں اور مجلسیں کئی کتابوں پر حاوی تھیں۔ ان کے پاس بیٹھ کر انسان محسوس کرتا کہ وہ کسی عظمت کے پاس بیٹھا ہے۔ میں نے ان میں کبھی غرور و تکبر، نخوت اور خشونت نہیں دیکھی۔ ‘‘ آپؒ نے 1947ء تک امرتسر کے مدرسہ جامعہ نعمانیہ میں کتابیں پڑھانے اور دینی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اصرار پر درس قرآن کا آغاز کیا اور دس سال کے عرصہ میں قرآن کی تکمیل کی، درس قرآن کیا تھا تصوف، توحید الٰہی، عشق رسالت ﷺ عظمت صحابہؒ کو ایسے دلنشین انداز میں بیان کرتے کہ درس سننے والوں کو یوں محسوس ہوتا گویا کہ ان پر تزکیۂ نفس اور خشوع و خضوع کی بارش ہو رہی ہے۔۔۔ درس قرآن پر آپؒ نے کبھی اجرت نہیں لی، اور مسلسل 48 سال تک امرتسر اور 10سال تک جامع مسجد نیلا گنبد انار کلی لاہورمیں خطبہ وعظ دیتے رہے۔ لاہور میں درس قرآن دیا۔ جب تک صحت نے اجازت دی بلاناغہ درس قرآن اور مواعظ حسنہ کا سلسلہ جاری رکھا، اس کے ساتھ ساتھ 60 سال تک درس و تدریس کو بھی جاری رکھا۔ مولانا مفتی محمد حسنؒ امرتسری نے اپنے قیام امرتسر کے زمانہ میں وہاں ایک دینی مدرسہ کی بنیاد ڈالی تھی جس کی آبیاری آپؒ نے اپنے خون و پسینہ سے تقریباً چالیس سال تک کی۔ قیام پاکستان کے بعد جب امرتسر سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے تو آپؒ نے لاہور میں سائیکل مارکیٹ نیلا گنبد انارکلی مول چند بلڈنگ کے ایک حصہ میں اپنے پیرو و مرشد مولانا اشرف علی تھانویؒ کی طرف نسبت کرتے ہوئے جامعہ اشرفیہ کے نام سے 14 ستمبر 1947ء میں دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی۔۔۔۔اس مدرسہ نے آپؒ کی محنت و خلوص کی وجہ سے اس تیزی کے ساتھ ترقی کی کہ مدرسہ کی یہ عمارت ناکافی ثابت ہوئی اور صرف آٹھ سال کے مختصر عرصہ کے بعد فیروز پور روڈ پر وسیع قطعہ اراضی خرید کہ 1955ء میں جامعہ اشرفیہ جدید کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ مولانا مفتی محمد حسنؒ وقت کی بڑی قدر فرمایا کرتے تھے کہ وقت کی قدر کرو، مرتے وقت آدمی زمین و آسمان کے خزانے بھی پیش کرے تو ایک منٹ بھی زندگی کا نہیں مل سکے گا آپؒ اس زندگی کو سراپا رحمت سمجھتے تھے کیونکہ اس میں عمل صالح کا موقع نصیب ہوتا ہے جس پر آخرت اور ابدی زندگی کی بنیاد قائم ہوگی۔آپؒ کے سامنے اگر کبھی دین کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جاتا تو آپؒ بڑے یقین سے فرماتے کہ دین مٹانے والے خود مٹ جائیں گے دین اللہ کے فضل سے قائم رہے گا۔ مولانا مفتی محمد حسنؒ طویل علالت کے بعد یکم جون 1961ء میں کراچی میں وفات پا گئے۔