ام الامراض سے چھٹکارا

ام الامراض سے چھٹکارا

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈی کے دانش


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

کہا جاتا ہے کہ قبض ام الامراض یعنی بیماریوں کی ماں ہے۔ اس کی وجہ سے بھوک سے لے کر نیند کے اوقات تک ہر چیز متاثر ہوتی ہے اور آج کل فاسٹ فوڈز کے دور میں یہ ایک عالم گیر بیماری بن گئی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ بذات خودکوئی خطرناک بیماری نہیں، مگر یہ کئی خطرناک بیماریوں کو جنم دیتی ہے، جن میں اپینڈی سائٹس، جوڑوں کا درد، گھٹیا، ہائی بلڈ پریشر، موتیا اور کینسر وغیرہ شامل ہیں۔ قبض کا مرض عموماً گرمی کے موسم میں زیادہ ہوتا ہے، جس سے ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ قبض غذا میں رقیق مادوں کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے، کیونکہ پانی بڑی آنت میں دوسرے مصارف کے لیے جذب ہو جاتا ہے۔ قبض کی چند وجوہات میں غذا میں فاضل اجزا کی کمی، بے وقت کھانا اور پھلوں اور سبزیوں کا کم استعمال شامل ہیں۔ اس لیے غذا میں پھلوں، سبزیوں اور میوہ جات کی مقدار بڑھانے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ ان سے کافی ریشہ حاصل ہوتا ہے۔ آنتوں کے عضلات کی سست حرکت سے بھی کوئی شخص قبض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ وٹامن بی کمپلیکس کی کمی بتائی جاتی ہے اور عموماً اس وٹامن کے زیادہ استعمال سے کچھ عرصے میں یہ شکایت رفع ہو جاتی ہے۔ یورپ اور امریکا میں بیشتر افراد بیکریوں، ریستورانوں اور سپر سٹوروں وغیرہ سے تیار شدہ غذا استعمال کرتے ہیں۔ ان کا سبزیوں ترکاریوں کا استعمال کم ہے، اس لیے وہاں قبض کا مسئلہ عام ہے۔ اب مغرب میں قدرتی غذاؤں کی افادیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں چوکر اور ریشے والے آٹے کی روٹی کا کم استعمال، بن، کباب، طرح طرح کی چاٹ اور سبزیوں اور پانی کا کم استعمال بھی اس کے اہم اسباب ہیں۔ قبض دور کرنے کے لیے زیادہ تر لوگ قبض کشا ادویات استعمال کرتے ہیں لیکن بعض ادویہ سے قبض دائمی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ قبض کشا ادویات کو مطلوبہ مقدار سے زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ان دواؤں کا زیادہ استعمال جسم کو ان کا عادی بنا دیتا ہے۔ قبض دور کرنے میں مندرجہ ذیل طریقے مفید پائے گئے ہیں۔ زیادہ ریشے والی غذاؤں کا استعمال سب سے اہم طریقہ علاج ہے۔ اناج کے دانوں، دالوں، پالک کا ساگ، پتوں والی سبزیاں، پھلیوں اور پودوں کی کونپلوں میں زیادہ ریشے ہوتے ہیں۔ ریشے والے اناج بہت مفید ہیں، ان میں بھوسی کے سیلولوز (نشاستہ دار مادہ) ہوتے ہیں اور جنہیں توڑا نہیں جا سکتا، جس طرح پھلوں اور سبزیوں کے سیلولوز ٹوٹ جاتے ہیں، پھر ریشے آنتوں کی نالیوں میں رکے ہوئے مواد کو بھی صاف کر دیتے ہیں۔ کھجور، انجیر اور خوبانی میں زیادہ ریشہ ہوتا ہے۔ انجیر کے چھوٹے چھوٹے بیج بھی آنتوں میں حرکت کے لیے مفید ہیں۔ خشک کھجور، چھوہارے اور انجیر زیادہ فائدہ مند ہیں لیکن انہیں استعمال سے پہلے رات کو پانی میں بھگو دیا جائے۔ پکے ہوئے سیب قبض اور ڈائریا دونوں کے لیے مفید ہیں۔ کیونکہ پک جانے سے ان کے سیلولوز نرم ہو جاتے ہیں۔ چقندر بھی سیلولوز کی زائد مقدار کی وجہ سے قبض کے لیے فائدہ مند ہے۔ اس کی سبزی یا سوپ رات کے وقت استعمال کیا جائے تو فائدہ دیتا ہے۔ روزانہ کم از کم سات، آٹھ گلاس پانی پینا چاہیے، زیادہ پانی پینے سے آنتوں کے عمل میں تحریک پیدا ہوتی ہے، صبح اٹھتے ہی ایک گلاس نیم گرم پانی میں ایک لیموں نچوڑ کر پیا جائے تو پیٹ میں کافی رقیقی شے پہنچنے سے بھی قبض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ تھوڑا سا پالک کا عرق ملانے سے اس کا اثر مزید تیز ہو جاتا ہے۔ قبض کی صورت میں تھوڑا تھوڑا کھانا کئی بار کھانا چاہیے تاکہ نظام ہضم پھول نہ جائے۔ کچھ لوگوں کو دودھ سے قبض ہو جاتا ہے اور کچھ لوگوں کو اس سے ڈائریا بھی لاحق ہو جاتا ہے لہٰذا ایسے افراد کے لیے دودھ سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔ قبض کی صورت میں ایسی غذا استعمال کرنے کو کہا جاتا ہے جس میں وٹامن بی اور قدرتی ریشہ یا فائبر ضرورت کے مطابق موجود ہوں۔ ان میں موجود امینو ایسڈ آنتوں کی حرکت بحال کرتے ہیں۔ غذا میں شکر کا استعمال زیادہ نہ ہو کیونکہ شکر وٹامن بی کی پیداوار میں رکاوٹ بنتی ہے۔ انڈے، گوشت وغیرہ سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ روٹی اور بسکٹس سے بھی قبض ہو سکتا ہے۔ ہاں! اگر ہو سکتے تو فائبر والے بسکٹ استعمال کریں۔ قبض کو ام الامراض اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے امراض دیکھتے ہیں دیکھتے جسم میں بسیرا کر لیتے ہیں لہٰذا معالج کے مشورے سے جو بھی علاج مناسب ہو، فوراً شروع کر دینا چاہیے۔ قبض سے نجات کے لیے کئی ورزشیں بھی مفید ثابت ہوتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
13اپریل 1919ء جلیانوالہ باغ: خون آشام واقعہ

13اپریل 1919ء جلیانوالہ باغ: خون آشام واقعہ

مارچ 1919ء میں انگریز حکومت نے ہندوستان میں ''رولٹ ایکٹ‘‘ کو نافذ کیا جس کے خلاف ملک گیر نفرت اور غم و غصہ13 موجود تھا۔ اس ایکٹ کے تحت تمام بنیادی انسانی حقوق سلب کر لیے گئے تھے اور پولیس کو جبر کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ رولٹ ایکٹ کے خلاف عوامی غم و غصہ تحریک کی شکل میں ابھرا اور پورے ملک میں احتجاجی مظاہروں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔اس ایکٹ کے خلاف سب سے پہلے 30مارچ کو ملک گیر ہڑتال کی کال دی گئی۔ یہ ہڑتال کافی حد تک کامیاب رہی جس میں ملک بھرکے اہم شہروں میں کاروبار زندگی معطل رہا۔ بمبئی، کلکتہ، امرتسر اوراحمدآبادسمیت پورے ہندوستان میں ایسی ہی شدت موجود تھی اور لاکھوں افراد سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔اس صورتحال میں 12اپریل کو خفیہ طور پر مارشل لا نافذ کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے اور عوام کو اس سے بے خبر رکھا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ 13اپریل کو جلیانوالہ باغ میں جمع ہونے والے افراد اس حکم نامے سے بے خبر تھے اور وہاں مقررین کی تقریروں کو سن رہے تھے۔حکومتِ پنجاب نے مرکزی انگریز حکومت سے 13اپریل کو مارشل لاء کے نفاذ کی درخواست کی تھی، چناں چہ 15اپریل1919ء کو لاہور اورامرتسر میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ لیکن عوام مارشل لاء کی حدوں کو توڑ کر گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آگئے، نعروں، جوشیلے فقروں اور تقریروں سے پنجاب بالخصوص امرتسر کے گلی کوچے گونج اٹھے کیونکہ وہ مارشل لا سے بے خبر تھے۔جنرل ڈائر فرنگی فوج کا ایک اعلیٰ ترین کمانڈر ہونے کی حیثیت سے2لاکھ فوج کے ہمراہ فوراً امرتسر پہنچا اور کمانڈرانہ غرور اور متکبرانہ لب و لہجہ میں یہ اعلان کیا کہ ''شہر کے بازاروں میں یا شہر کے کسی حصہ میں یا شہر کے باہر کسی وقت بھی کسی قسم کا جلوس نکالنے کی اجازت نہیں، اس طرح کے جلوس اور چارآدمیوں کے اجتماعات کو خلافِ قانون سمجھا جائے گا اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ہتھیاروں کے ذریعہ منتشر کر دیا جائے گا‘‘۔جب جنر ل ڈائر فوجی دستوں کے ہمراہ شہر کے گلی کوچوں کا گشت لگاتے ہوئے مذکور ہ بالا اعلان کی خود ہی تشہیر کرتے ہوئے12/بجکر 40/ منٹ پر اپنی قیام گاہ باغ میں پہنچا تو اسے پولیس کی خفیہ خبر رساں ایجنسی نے یہ اطلاع دی کہ آج سوا چار بجے جلیا نوالہ باغ میں اجتماعی جلسہ ہونے والا ہے، اصل میں یہ لوگ بیساکھی کے میلے کیلئے جمع تھے جو کہ مکمل طور پر پر امن تھے۔ جنرل ڈائر اسی وقت اجتماع کے خون سے قحط زدہ باغ کی تشنگی بجھانے کی ٹھان لی۔ جب جلسہ کا وقتِ مقررہ قریب ہوا تو چاروں طرف سے لوگ کثیر تعداد میں باغ کی طرف جوق در جوق جانے لگے اور آن کی آن میں پندرہ ہزار کا مجمع اکٹھا ہوگیا۔ عین اسی وقت جنرل ڈائر بھی، ہٹلرانہ رعب و وقار اور چنگیزانہ غرور اور نادر شاہانہ مزاج و دماغ سے مر صع ہوکر خون آشام فوج کے ساتھ جلسہ گاہ پہنچ گیا۔ ہمہ نوع جنگی اسلحوں کے علاوہ مشین گن بھی ساتھ تھی لیکن باغ کا راستہ تنگ ہونے کی بنا ء پر اسے باہر ہی راستہ پر کھڑا کر دیا گیا۔فوج کو مختلف ٹولیوں میں تقسیم کرکے جنگی مورچوں کی طرح پوزیشن سنبھالنے پر مامور کرنے اور با غ کی چوطرفہ حصار بندی کرا لینے کے بعد اس نے جلسہ گاہ پر ایک نظر ڈالی، اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حکام اور حکومت کے خلاف اشتعال انگیز و پرجوش تقریر کر رہا ہے اور مجمع ہمہ تن گوش ہے، یہ منظر دیکھ کر اس کے کمانڈ رانہ غر ور کو مہمیز لگی، اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی، اس کا پیمانہ صبر چھلک اٹھا، اس کا پارہ غیظ و غضب آخری حد تک پہنچ گیا، اس کی خون آشام فطرت مچلنے لگی، اس کی رگ وپے میں حاکمانہ خمار سرایت کر گیا، تابِ ضبط پر اس کا قابو نہ رہا، اس کے جسم میں چنگیز و ہلا کو کی روحیں حلول کر گئیں، اس کے دماغ میں نادر شاہی درندگی رقص کرنے لگی، اس کے سامنے ہٹلرانہ داروگیر کا نقشہ ابھر آیا۔بالآخر ظالم نے حاضرین کو منتشر ہونے کی تنبیہ و اطلاع دیے بغیر مسلح فوج کو عام فائرنگ کا حکم دے کر محوِ تماشا ہوگیا۔پھر کیا تھا! سفید فام وحشیوں کیلئے ایک بزمِ تفریح سج گئی، فرنگی سنگدلوں کیلئے سامانِ کیف و سرور فراہم ہو گیا، جنرل ڈائر اور اس کے ار کانوں کے ہونٹوں پر خفیف مسکراہٹ ابھری اور تدریجاً زور دار قہقہوں میں تبدیل ہوگئی، گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے ہنگامہ صور بپا ہوگیا، جلیانوالہ باغ ایک انسانی مذبح بن گیا، جلسہ گاہ محشرستانِ قتل میں تبدیل ہوگئی، اجتماعی جلوس کا اسٹیج مقتلِ عام کی صو رت اختیار کر گیا، انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر لاشوں کا ڈھیر بن گیا، حاضرینِ بزم مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگے، زلزلہ قیامت کا منظر سامنے آگیا، چنگیز و ہلا کو خان کی روحیں بھی شرمانے لگیں، نادرشاہی سفاکی منہ چھپانے لگی۔ہٹلرانہ گیرودار ماند پڑ گئی، فرنگی اقتدار کی دیوی اپنی مراد پاگئی، برطانوی دیو کو مدت کے بعد پوری خوراک ملی، درندگانِ مغرب کی خون آشام فطرت آسودہ ہوگئی، معافی کا دروازہ بند ہوچکا تھا، بھاگنے کے تمام ر استے مسدود تھے، ناکے ناکے پر مسلح فوج تعینات تھی، سسکیوں ، آہوں، چیخ و پکار اور نالہ و فغاں سے کہرام مچا ہوا تھا، موت کی سرا سیمگی قابلِ دید تھی، وہ روحوں کو گولیوں سے چھیدنے کا منظر ہی عجیب تھا، کشتوں کے پشتے لگ رہے تھے، نوجوانوں کی لاشیں مرغِ نیم جاں کی طرح تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہو رہی تھیں، کمسن اور نونہالانِ بزم خون اگل اگل کر جانیں دے رہے تھے، بڑے بوڑھے تو کراہنے اور آہ کرنے کی بھی تاب نہ لاسکے، کْشتگانِ وطن سے جلیا نوالہ باغ بھر گیا۔ انگریزی مورخ ٹامسن کے بقول پندرہ سو مقتولین اور ایک معتبر روایت کے مطابق بارہ سو زخمیوں کو مقتلِ انسانی میں چھوڑ کر یہ بے رحمانہ و سنگ دلانہ حکم نافذ کرتے ہوئے جنرل ڈائر اپنی قیام گاہ کو فر حاں و شاداں روانہ ہوا۔

غالب جو ایک شاعر تھا عالم میں انتخاب!

غالب جو ایک شاعر تھا عالم میں انتخاب!

دنیا میں سخن وروں کی کمی نہیں لیکن غالب کا اندازِ بیاں واقعی اور ہے۔ کہیں نہ کہیں سب مغلوب ہوئے مگر غالب ہر جگہ غالب ہی ہے۔ شاعری فقط قافیہ پیمائی اور لفاظی کا نام نہیں بلکہ ایک بڑا شاعر ایک ہی وقت میں دانشور، عیب جُو، مورخ، حاذق، سیاستدان، عالمِ، فلسفی، طنزکار، مصلح اور صوفی بھی ہوتا ہے۔ اقبالؒ جوانوں کو متاثر کرتا ہے جبکہ غالب ادھیڑ عمروں کا شاعر ہے اور جوانوں کے واسطے چچا غالب ہے۔ ماں باپ غالب کے بچپن میں ہی گزر گئے تو ماموں کے ہاں رہے۔ محرومیوں اور دکھوں نے دل میں گھر کیے رکھا مگر زندگی رئیسانہ انداز میں گزاری۔ کبھی عیش و لذت کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ماموں نے سدھار کی خاطر بالی عمریہ میں ہی شادی کروا دی مگر غالب اور سدھار؟ ناممکن۔ غالب مانتے تھے کہ وہ سور نہ کھانے کے باعث آدھا مسلم اورمئے خوری کی وجہ سے آدھا کافرہے، اسی لیے کعبے کو جاتے ہوئے غالب شرم محسوس کرتے تھے۔زندگی کرب میں بیت گئی۔ آگرہ سے نکلے، دہلی میں کبھی جیل کبھی غدر، کلکتہ پہنچے تو چین نہیں، لکھنو ویسے پسند نہ آیا، بنارس بھلا لگا لیکن وہاں رہنا دشوار ہوا۔ تاہم بنارس کی شان میں ''چراغِ دہر‘‘ ضرور لکھ دیا۔ غریبی میں لذت کی خُو نہ چھوڑی اور قرض کی مئے سے فاقہ مستیوں میں رنگ بھرے۔ قرض لے کر بھی سکاٹ لینڈکی شراب پی اور دیسی کو منہ تک نہ لائے۔ بلا کے خوددار تھے، جامِ جم سے اپنا جام سفال اچھا گردانتے رہے۔ حالات سے مجبور ہوکر پیسوں کی خاطر قصیدے بھی لکھنا پڑے۔ قرض کے حصول کیلئے نا چاہتے ہوئے خوشامد بھی کرنی پڑی۔ وبا ئیں اور دنگے توہر لمحہ ان کے ساتھ رہے۔ عاشق مزاج ہونے کے باوجودسب کے معشوق تھے۔ صرف ایک ڈومنی پر دل آیا مگر شومئی قسمت کہ وہ بھی مرگئی۔ نامساعد حالات اورکسمپرسی میں ''ابنِ مریم ہوا کرے کوئی‘‘ کی حسرت بھی پالی۔ غالباً ان کے مُخاطَب انگریز تھے۔ مسائل بڑھے توکاموں کا آساں ہونا اور آدمی کوانسان ہونا میسر نہ رہا۔ غالب کے گھرکئی بچے ہوئے مگر سب بچپن میں ہی جنت مکانی ٹھہرے۔ بھانجے زین العابدین کو گود لیا تو وہ بھی اٹھارہ برس میں چل بسا۔ پوری زندگی میں بس اسی وقت ایک مرثیہ لکھا:جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گےکیاخوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اورمرقومہ بالا مصائب میں جوانمردی سے قیام کیا اور ایک بہت بڑی حقیقت بھی تسلیم کرتے گئے کہغمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جُز مرگ علاج ؟شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحرہونے تکغالب اتنے غموں سے خُو گر ہوئے، اتنی مشکلیں پڑیں کہ مشکلیں خود آسان ہونے لگیں۔ کوئی بھی مشکل ان کے پروازِ تخیل کی معراج میں حائل نہ ہو سکی۔ غالب کا اک نرالا اسلوب ہے کہ وہ ہر بات میں ''آپشن‘‘ ڈھونڈتے ہیں جیسے، اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا، ایسا نہ ہوتا تو کیا ہوتاڈبویا مجھ کوہونے نے نا ہوتا میں تو کیا ہوتا؟شاید اس لیے کہ غالب کا ہندوستان آزاد ہندوستان نہیں ہے۔ انھیں مخمصہ ہے کہ بادشاہ بہادر شاہ ظفرکو مانیں یا وائسرائے کو؟ ''خاک میں کیا صورتیں تھیں جوکہ پنہاں ہوگئیں‘‘ والے مصرعے میں تو انھیں بہت دور کی سوجھی ہے۔ عام مفہوم کے علاوہ کچھ ذاتی مشاہدات بھی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کتنے کفر سپردِ قرطاس کیے ہوں اور مُلاں کے خوف سے پھاڑ دیئے ہوں، کتنے عشق رچائے ہوں اور بخوفِ رسوائی ترک کردئیے ہوں۔ یا پھر شاعری میں کچھ لکھا اورخود تنقیص کر کے نکال پھینکا ہو۔ صرف چج کی چیز رہنے دی اور خرافات نذرآتش کیں ہوں۔ اسی لیے تو ان کا ایک شعر بھی ایسا نہیں جسے عام کہا جا سکے۔ مئے خواری غالب کی زندگی کا جزوِ لاینفک ہے۔ ''تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ باہ خوارہوتا‘‘ کی آڑ میں غالب آدمی کے کردار ناپنے کے میعار پر طنزکرتا ہے کہ کیسے ایک خامی ہزاروں خوبیوں پر بھاری پڑجاتی ہے۔غالب رئیس فقیر تھے اور غربت میں بھی چار چار نوکر رکھے ہوئے تھے۔ گوشت شراب کا کوئی ناغہ نہیں۔ پھوڑے نکل آئے پر آم نہ چھوڑے۔ غریبی سے بھی محظوظ ہوتے ہیں اور بھیس بدل کر تماشائے اہلِ کرم دیکھنے کے شائق ہیں۔ ''نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریرکا‘‘ لکھ کر انسانی تاریخ کے کئی پہلوئوں کو دلکش اسلوب سے سامنے لاتے ہیں۔ شاہانِ ایران کی تلمیح کہ دربار میں فریاد کرنے والا کاغذ کا لباس پہن کر شاہ کے حضور پیش ہوتا تھا اور اسی لباس پر فیصلے لکھے جاتے تھے۔ دوسرا یہ کہ دنیا میں آٓنے والے ہر انسان کا مقدر لکھ دیاجاتا ہے۔ گویا کاغذی پیرہَن لوح ہے جو قسمت کے فیصلوں کے لکھے جانے کی منتظر ہے۔ ہر انسان لاچار و مجبور ہے۔ ایک طنز بھی ہے کہ کون اس طرح کے ظلم روا رکھے ہوئے ہے؟۔ غالب رازداری کا حامی بھی ہے کہ کہیں ہولناک حقیقت مایوس ہی نہ کردے مثلاً خداکے واسطے کعبے سے پردہ نہ ہٹا ظالم کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلےخودی و خودداری کے باوجود حقیقت پسندی اور انکساری کا عنصر بھی غالب میں موجود تھا۔ انھوں نے کھلے دل سے لکھا کہ:ریختہ کے تمھیں استاد نہیں ہو غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میربھی تھاایک اور جگہ تسلیم کرتے ہیں کہ:طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنااسد اللہ خاں قیامت ہے غالب کو پڑھ کر بس یہی سوچے جارہا ہوں کہ غالب کو ''خدائے سخن‘‘ کیوں نہ کہا گیا۔ کوئی جانے تو ضرور بتائیے گا۔

آج کا دن

آج کا دن

''اپالو 13‘‘حادثہ 1970ء میں آج کے روز ناسا کو اس وقت ایک خلائی حادثے کا سامنا کرنا پڑا، جب ''اپالو 13‘‘ مشن کے دوران آکسیجن ٹینک پھٹ گیا۔ جس نے کمانڈ ماڈیول کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس کے نتیجے میں خلابازوں کو آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوئی،بجلی اور پانی کی کمی ہو گئی جبکہ چاند پر اترنے کا منصوبہ بھی ترک کرنا پڑا۔ ناسا کے خلانوردوں کو ''ہوسٹن، ہمیں مسئلہ ہے‘‘ (Houston we have a problem) کہنا پڑا۔ یہ مشن بعد میں ایک کامیاب ریسکیو مشن کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔سوویت جاپان عدم جارحیت کا معاہدہ1941ء میں آج کے دن سوویت اور جاپان کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پایا، جسے ''جاپانی، سوویت عدم جارحیت کا معاہدہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اس وقت کی دو فوجی طاقتوں کے درمیان غیر جارحیت کا معاہدہ تھا۔ جاپان اور سوویت سلطنت نے سرحدی جنگ کے اختتام کے دو سال بعد13اپریل1941ء کو اس معاہدے پر دستخط کئے۔ 1945ء میں عالمی جنگ کے آخر میں سوویت یونین نے معاہدہ ختم کر دیا اور جاپان کے خلاف اتحادیوں سے مل گیا۔ٹرانزٹ سسٹم1960ء میں آج کے دن ٹرانزٹ سسٹم کو آپریشنل کیا گیا۔ جسے بحری نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم بھی کہا جاتا ہے۔ ریڈیو نیوی گیشن سسٹم کو بنیادی طور پر امریکی بحریہ نے اپنی پولارس بیلسٹک میزائل آبدوزوں کو مقام کی درست معلومات فراہم کرنے کیلئے استعمال کیا تھا۔ یہ بحریہ کے سطحی جہازوں کے ساتھ ساتھ ہائیڈروگرافک سروے اور جیوڈیٹک سروے کیلئے نیوی گیشن سسٹم کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔ ابتدائی طور پر پولارس آبدوزوں کیلئے اور بعد میں شہری استعمال کیلئے بھی اس سے معلومات لی جاتی رہیں۔ لاپوا فیکٹری دھماکہ13 اپریل 1976ء کو لاپوا، فن لینڈ میں ایک گولہ بارود بنانے والی فیکٹری میں دھماکہ ہوا۔اسے فن لینڈ کی تاریخ میں بدترین صنعتی تباہی سمجھا جاتا ہے۔اس ناخوشگوار واقعہ میں 40 مزدور ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوئے۔ دھماکہ کے نتیجے میں فیکٹری کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ دھماکے کی آواز 20 کلومیٹر دور تک سنی گئی۔ زخمی ہونے والے زیادہ افراد فیکٹری کے اندر موجود تھے لیکن ایک بڑی تعداد فیکٹری کے گرد و نواح میں بھی متاثر ہوئی۔ مرنے والوں میں تقریباً 35 خواتین بھی شامل تھیں۔ اس حادثے میں 16 سال سے کم عمر کے 52 بچوں نے اپنے والدین میں سے کم از کم ایک کو کھو دیا۔

’’ستھین جو آستان‘‘ خوبصورتی اور دلکشی میں اپنی مثال آپ

’’ستھین جو آستان‘‘ خوبصورتی اور دلکشی میں اپنی مثال آپ

گئے وقتوں میں زمینیں مملکت کی ملکیت ہوا کرتی تھیں اور مملکت بادشاہوں، نوابوں اور راجاؤں کی ملکیت ہوا کرتی تھی۔ اس لئے شہر اور قصبے بسانا بادشاہوں اور حکمرانوں کا اختیار ہوا کرتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں ایسے بہت سارے شہروں کے نام ملتے ہیں جن کے محل وقوع یا قدرتی حسن نے چلتے چلتے وقت کے شہنشاہوں کو پہلی نظر میں متاثر کیا اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد سرسبز ویرانہ ایک خوبصورت وادی میں بدل چکا ہوتا تھا۔ ڈیرہ غازی خان شہر سے لگ بھگ 85 کلومیٹر کی دوری پر قدرتی حسن سے مالا مال، با لخصوص سرسبز پہاڑوں اور جنگلات سے آراستہ ایک علاقہ ''فورٹ منرو‘‘ کا ہے۔ بلندی پر ہونے کی وجہ سے تپتی گرمیوں میں بھی اس کا درجۂ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے۔ برطانوی دور میں اسے آباد کیا گیا کیونکہ سرکاری افسران اپنے عملے اور دفاتر سمیت یہاں منتقل ہو جایا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اسے جنوبی پنجاب کا ''مری‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک وادی پنجاب کے ضلع خوشاب کی ''سون سکیسر‘‘ ہے جہاں سے اپنے دور کے عظیم فاتح ظہیر الدین بابر کا گزر ہوا۔وہ اس وادی کے حسن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے کئی دن تک اپنے قافلے سمیت یہاں پڑاو ڈالے رکھا۔ اس شہر کے حسن میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے بابر نے یہاں متعدد باغات لگانے کا حکم دیا تھا۔ ایسے ہی قدیم وادیٔ سندھ میں بھکر، روہڑی اور سکھر کے درمیان قلعہ نما، ایک قدیم شہر ہوا کرتا تھا۔جس کی صبحیں روشن اور شامیں دلفریب اور پورے برصغیر میں مشہور تھیں۔دریا، پہاڑ اور صحراؤں کے ملاپ نے بھکر کو وادیٔ سندھ کا ایک حسین مرکز بنا دیا تھا۔ بھکر اپنے محل وقوع اور جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے خطے میں نمایاں حیثیت کا حامل ہوا کرتا تھا ۔تقریباً چھ سو سال تک بھکر دفاعی حیثیت سے سندھ کا دفاعی مرکز رہا۔ بھکر، پرانے سندھ کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ بعض تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ سکھر ، بنیادی طور پر بھکر ہی کا بگڑا ہوا نام ہے۔سولہویں صدی کے آخری عشرے میں ہندوستان ، بشمول سندھ پر مغلوں کا راج تھا۔ ابو قاسم المعروف نمکین خان بھکر کے گورنر تھے۔ ایک دن گورنر نمکین خان کا قافلہ روہڑی کے قریب دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ رواں دواں تھا، یہ مغرب کا وقت تھا اور سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔اس دوران نمکین خان کی نظر اچانک روہڑی کے قریب دریائے سندھ کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت سرسبز و شاداب چھوٹی سی پہاڑی پر پڑی، جہاں ڈوبتے سورج کے اس دلکش منظر نے مکین خان کوکچھ اس طرح مسحور کر دیا کہ اس نے اس چھوٹے سے جزیرے پر جسے بعد میں ''بھکر آئی لینڈ‘‘ کے شہرت ملی ، اپنے قافلے سمیت یہاں پڑاو ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ یہ جگہ تاریخ میں ''ستھین جو آستان‘‘ کی شہرت رکھتی ہے جو بنیادی پر سات کنواری ، پاکباز بیبیوں کی سات قبروں کے حوالے سے آباد ہے۔کچھ روایات میں یہ سات بیبیاں، سات بہنوں کی شناخت جبکہ بعض حوالوں سے سات سہیلیوں کی شناخت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ تاریخ ان بیبیوں کی اصل شناخت بارے مکمل طور پر خاموش ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس مقام کو جسے ''ستھین جوآستان‘‘ کی شہرت حاصل ہے تاریخی حیثیت دلانے میں گورنر بھکر ، ابوقاسم نمکین خان کا کردار نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ جسے انہوں نے سولہویں صدی کے آخر میں تعمیر کرایا تھا۔ ستھین جو آستان ہے کیا؟ دریائے سندھ کے عین وسط میں ایک جزیرے پر واقع ستھین جو آستان اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکشی کے سبب دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی بن چکا ہے۔ ''ستھین جو آستان‘‘ کے لفظی معنی سات بہنوں یا سات سہیلیوں کے آستانے کے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ جگہ ایک بہت بڑے قدیم قبرستان پر مشتمل ہے جہاں سو سے زائد قبروں کا سراغ ملا ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت ایک ساتھ، ایک جیسی ان سات قبروں کی ہے جو روایات کے مطابق سات بیبیوں کی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں بھکر کے گورنر ابو قاسم عرف نمکین خان کی قبر بھی ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے لئے وقف کرا رکھا تھا۔یہ مقام ابوقاسم کو اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی یہ وصیت کر دی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں اور ان کے عزیز و اقارب کو بھی یہیں اسی قبرستان میں دفن کیا جائے۔ یہیں پر سات قبروں کے پہلو میں ایک شاندار بارہ دری بھی بنی ہوئی ہے جو حادثات زمانہ کی بھینٹ چڑھتے چڑھتے اب زبوں حالی کی ایک داستان بن چکی ہے۔ یہ درگاہ یاآستانہ ، سکھر اور روہڑی کے درمیان موجود ایک قدیمی قبرستان میں دریائے سندھ کے بائیں کنارے واقع ہے۔ اس قدیمی قبرستان سے سیکڑوں داستانیں اور روایات جڑی ہوئی ہیں۔ لیکن جو اہمیت اس قبرستان میں موجود '' ستھین جو آستان‘‘کے حصے میں آئی ہے وہ شاید ہی کسی اور تاریخی عمارت یا ورثے کو ملی ہو۔ ستھین جو آستان کی وجۂ شہرت دراصل ان سات بہنوں یا سات سہیلیوں کی قبریں ہیں جن کے بارے روایت ہے کہ یہاں سات پاکباز اور نیک لڑکیاں رہتی تھیں جن پر کبھی کسی مرد کی نظر نہیں پڑی تھی۔ بعض روایات میں بتایا جاتا ہے کہ ایک دن اچانک راجہ داہر کی ان پر نظر پڑ گئی ، چنانچہ اس نے ان ساتوں کو اپنے دربار میںطلب کر لیا۔ یہ سنتے ہی انہوں نے اپنے رب سے اپنی عزت کی حفاظت کی دعا مانگی۔کہتے ہیں آناً فاناً زمین پھٹی اور وہ زمین میں دھنس گئیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سات بیبیوں کی قبریں ہیں۔ اس آستانے کے نیچے ایک بڑا تہہ خانہ بنایا گیا تھا جہاں ایک بڑے ہال سمیت چار کمرے ہیں، جہاں اکثر و بیشتر دور دراز سے آئے زائرین رہتے ہیں۔ ان قبروں کا طرز تعمیر بتاتا ہے کہ ان کی تعمیر اور آرائش و زیبائش مغلیہ دور میں کی گئی ہو گی جن میں مغلیہ دور کی طرز تعمیر جھلکتی صاف نظر آتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ستھین جو آستان جہاں عقیدت مندوں کیلئے ایک روحانی مرکز کا درجہ اختیار کر چکا ہے وہیں یہ ایک تفریحی مقام کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔ ستھین جو آستان میں سارا سال عقیدت مندوں اور منت ماننے والوں کا ہجوم رہتا ہے جو پنجاب سمیت سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے اپنی من مرادوں کی تکمیل بالخصوص اولاد کی طالب بانجھ خواتین پر مشتمل ہوتا ہے۔ سیتھین جو آستان کا غار نما زیر زمین حصہ صرف خواتین کیلئے مختص ہے۔یہی بنیادی طور پر اس آستانے کا مرکزی حصہ ہے۔یہاں مردوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے ، چنانچہ خواتین کے ساتھ آئے مردوں کو اوپر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بے اولاد اور بانجھ خواتین کو یہاں مزار کے اندر ایک ہجرے میں ایک رسم ادا کرائی جاتی ہے جس میں بے اولاد خواتین کی کمر پر تالا باندھا جاتا ہے۔اس کے بعد بچوں کے لٹکتے جھولوں میں خواتین کو مختلف رنگوں کے دھاگے باندھنا ہوتے ہیں ۔ منت ماننے والی ان خواتیں کو ہر اسلامی مہینے کے پہلے ہفتے بلوایا جاتا ہے۔  

متصل علاقوں پر مشتمل سب سے بڑی سلطنت کے بانی منگول

متصل علاقوں پر مشتمل سب سے بڑی سلطنت کے بانی منگول

گھڑسواری اور تیراندازی میں ان کی مہارت حیران کن تھی سلطنت برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت رہی ہے۔ یہ دنیا کے 26 فیصد حصے پر پھیلی لیکن یہ سلطنت بکھری ہوئی تھی اور اس کے بہت سے علاقے ایک دوسرے سے متصل نہیں تھے۔ ایک دوسرے سے متصل علاقوں پر مشتمل سب سے بڑی سلطنت منگولوں نے قائم کی۔ منگول سلطنت کا بانی مشہور فاتح چنگیز خان تھا۔ کسی بھی سلطنت کی فتوحات کے پس پشت مختلف سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل کارفرما ہوتے ہیں، لیکن اس میں عسکری طاقت اور حکمت عملی کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ آخر کیا سبب تھا کہ بہت سے خطوں کی افواج منگولوں کی یورش کا مقابلہ نہ کر پائیں؟منگول خانہ بدوش تھے اور ایشیا کے وسیع گھاس کے میدانوں میں رہتے تھے۔یہاں تیز ہوائیں چلتیں اور سرد موسم عموماً شدید ہوتا۔ منگولوں کا رہن سہن اپنے علاقے کے حالات سے مطابقت رکھتا تھا۔دیگر خانہ بدوشوں کی طرح وہ بھی مویشی پالتے تھے تاکہ اپنی غذائی ضروریات پوری کر سکیں۔ ان میں بھیڑ، بکریاں، اونٹ اور یاک شامل ہیں۔ پالتو جانوروں کے دودھ سے وہ دہی اور پنیروغیرہ بنا کر کھاتے اور ان جانوروں سے بنے گرم کپڑے انہیں سردی سے محفوظ رہنے میں مدد دیتے۔ منگول گوشت کو بھون کر کھانے کے بجائے ابال کر کھاتے تھے۔ سوکھا ہوا گوشت سفر کرنے والوں اور محاذجنگ میں شریک ہونے والوں کے ساتھ ہوتا، کیونکہ یہ خراب نہیں ہوتا تھا۔ منگول جانوروں کا کوئی حصہ ضائع نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ ہڈیوں کو ابال کر ان کا گودا کھایا جاتا تھا۔شکار کیلئے بعض ہنر چاہئیں تھے، یہ تھے گھڑسواری اور تیر اندازی۔ ان میں منگولوں کی مہارت حیران کن تھی۔ منگول بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی گھڑسواری اور تیر اندازی سکھا دی جاتی اور وہ جلد اس میں مشاق ہو جاتے۔ اس فن میں ایک روایت مزید نکھار لاتی اور اسی سے منگولوں کو جنگ اور اس کی حکمت عملی کی تربیت ملتی۔ منگول سردیوں میں کم از کم ایک ماہ کیلئے اور کبھی کبھار تین ماہ کیلئے اکٹھے شکار کھیلتے۔ یہ شکار بہت منظم انداز اور بڑے پیمانے پر کھیلا جاتا۔ منگول مردوں کی اکثریت اس میں حصہ لیتی۔ شکار کے اس طرز کو Nerge کہا جاتا، جس کیلئے متبادل لفظ جرگہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ ریت منگول فوج کی تربیت گاہ کا کام کرتی۔ اس سے شکار بھی ہاتھ آتا اور مورال بھی بلند ہوتا۔ جنگ میں مقام، تنظیم، ربط، وقت اور لڑنے کی استعداد سب چاہئیں، منگول ایک اجتماعی سرگرمی سے اسے پا لیتے۔ اس سرگرمی میں ہر ایک اپنے ذمے افعال سرانجام دیتا، کسی نے تیرچلانے ہوتے تو کسی نے تیر پہنچانے ہوتے، کوئی کھانے کا اہتمام کرتا تو کوئی خیمے لگاتا۔ شکار کیلئے کسی وسیع و عریض مقام کا تعین کیا جاتا جس کے گرد کم و بیش 130 کلومیٹر پر منگول ایک خاص ترتیب میں جمع ہوتے۔ سب سے بڑا اجتماع ''تومن‘‘ کہلاتا اور 10 ہزار پر مشتمل ہوتا، ان کے جھنڈے مختلف مقامات پر گاڑے ہوتے۔ سیکڑوں میل دور اختتام مقام کا تعین کر دیا جاتا۔ سربراہ کا اشارہ ملنے پر مسلح شرکاء آگے بڑھنے لگتے اور گھیرا تنگ کرتے جاتے۔ اس کے سامنے آنے والے جنگلی جانور بھاگ کھڑے ہوتے۔ اگلے چند ہفتوں میں گھیرا تنگ ہوجاتا اور جانوروں کی تعداد بڑھ جاتی یوں اس وسیع اجتماع جو کسی فوج کی صورت ہوتا، کے حصے آگے بڑھ کر جنگلی جانوروں کے قریب آتے۔ اس طرح جانوروں کو مارنا آسان ہو جاتا۔ اس مقصد کیلئے گھڑسوار شفٹوں میں کام کرتے تھے۔ اگر کسی سے جانور نکل جاتا تو اسے سخت سزا دی جاتی۔ منگولوں کے گھوڑے اگرچہ چھوٹے ہوتے تھے لیکن سخت جان ہوتے اور ان کا سٹیمنا بھی اچھا ہوتا۔ لکڑی، بانس یا سینگ سے بنے ان کے تیر بہت مضبوط ہوتے۔ انہیںتیر کو نشانے پر پھینکنے کی خاص مہارت حاصل تھی۔ جب جانوروں کی نشان دہی ہو جاتی تو پہلا تیر منگولوں کاخان چلاتا۔ کسی دوسرے کے تیر چلانے کا مطلب اس کی موت ہو سکتا تھا۔ آخر میں کچھ جانوروں کو چھوڑ دیا جاتا تاکہ ان کی نسل قائم رہے۔ اس کے بعد9 دن تک جشن منایا جاتا۔ قبلائی خان کے دور میں مارکوپولو نے شانگڈو شہر کا دورہ کیا تھا۔ اس نے اپنی 1298ء میں منظرعام پر آنے والی کتاب ''دی ٹریولز‘‘ میں شکار کے اس طریقے کی تفصیل بیان کی ہے۔ شکار کی یہ طویل مشق اسی طرح ہوتی جس طرح منگول دشمن پر حملہ آور ہوتے۔ یہی حکمت عملی منگول جنگوں میں اپناتے تھے۔ اس میں تیز رفتار گھڑسواروں کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی۔ بعض اوقات گھڑسوار اتنا پھیل جاتے کہ پوری دشمن فوج کو گھیر لیتے۔ اس کے بعد جو نکلنے کی کوشش کرتا اس کا بے رحمی سے شکار کیا جاتا۔ منگول فوج کی تقسیم اور ترتیب کم و بیش شکار والی ہوتی۔ نظام میں سب سے نیچے ''اربان‘‘ ہوتے، یہ 10 جنگجوپر مشتمل ہوتا۔ 10 اربان سے ایک ''جاگون‘‘ بنتا جس میں 100 جنگجو ہوتے۔ 10 ''جاگون‘‘ میں ایک ہزار ہوتے اور ان سے منقان بنتا۔ ایک تومن 10 منقان پر مشتمل ہوتاجس میں 10 ہزار افراد ہوتے۔ ساری فوج تین حصوں میں تقسیم ہوتی۔ دایاں، بایاں اور مرکزی یا کلیدی حصہ۔ مارکوپولو اس بارے میں مزید تفصیل بتاتا ہے: جب تاتاری (منگول) شہزادہ جنگ کیلئے جاتا، وہ اپنے ایک لاکھ گھڑسوار لے جاتا۔ لیکن ہر 10، سو، ہزار اور 10 ہزار پر ایک آفیسر تعینات کرتاتاکہ اس کے احکامات صرف 10 افراد کو دینے کی ضرورت پیش آئے، ان 10 کو اگلے 10 کو ، اور اسی طرح کسی کو 10 سے زیادہ افراد کو احکامات دینے کی ضرورت نہ ہوتی۔ ہر کوئی اپنے آفیسر کو جواب دہ ہوتا۔ نظم و ضبط کا یہ نظام شاندار تھاکیونکہ یہ اپنے سرداروں کے بہت فرمانبردار تھے۔ اگرچہ مارکوپولو نے فوجی تنظیم کے بارے میں قبلائی خان کے زمانے میں لکھا لیکن یہ وہی تنظیم تھی جو چنگیز خان کے دور سے چلی آ رہی تھی۔ منگولوں کی عسکری فتوحات میں ان کے اجتماعی شکارکی ریت کا عمل دخل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔  

آج کا دن

آج کا دن

سڑکوں پر رہنے والے بچوں کا عالمی دنسڑکوں پر رہنے والے بچوں کا عالمی دن (International Day for Street Children) ہر سال 12 اپریل کو منایا جاتا ہے۔2011ء میں شروع ہونے والے اس دن کو منانے کا مقصدسڑکوں پر رہنے والے بچوں کے مسائل کو اجاگر کرنا،حکومتوں اور اداروں کو ان بچوں کے حقوق دلانے کیلئے توجہ دلانا اور دنیا بھر میں ایسے بچوں کو تعلیم، صحت، تحفظ اور ایک بہتر زندگی کا حق دلانے کی کوشش کرناہے۔'' سٹریٹ چلڈرن ‘‘انہیں کہا جاتا ہے جوبچے اپنے خاندانوں سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں، یاوہ جو گھروں کے باہر سڑکوں، پارکوں، اسٹیشنز یا فٹ پاتھوں پر وقت گزارتے ہیں۔دنیا بھر میں لاکھوں بچے سڑکوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یہ بچے جسمانی، ذہنی اور جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے پاس شناختی دستاویزات، تعلیم یا قانونی تحفظ نہیں ہوتا۔ یوری گاگرین نے خلا میں زمین کے گرد چکر لگایا1961ء میں آج کے روز سوویت خلا باز یوری گاگرین کو خلا کا سفر کرنے والے پہلے انسان ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ ''ووستوک 1‘‘ مشن کا حصہ تھے جس نے زمین کے گرد ایک چکر لگایا۔ یہ دن اب دنیا بھر میں ''انٹرنیشنل ڈے آف ہیومن اسپیس فلائٹ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔انہیں سوویت یونین کے سب سے بڑے اعزاز''ہیرو آف دی سوویت یونین‘‘ سے نوازا گیا۔یوری گاگرین کا انتقال ایک تربیتی پرواز کے دوران 27 مارچ 1968ء کو ہوا، جب ان کا لڑاکا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ اس وقت وہ صرف 34 سال کے تھے۔400رنز، برائن نے عالمی ریکارڈ قائم کیا12 اپریل 2004 ء کو ویسٹ انڈیز کے عظیم بلے باز برائن چارلس لارا نے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ سر انجام دیا۔لارا نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کی ایک اننگز میں 400 رنز ناٹ آؤٹ کی شاندار اننگز کھیلی۔یہ اس وقت ٹیسٹ کرکٹ کی سب سے بڑی انفرادی اننگز تھی، اور یہ ریکارڈ آج بھی برقرار ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ لارا نے اس سے پہلے بھی 1994ء میں 375 رنز بنا کر انفرادی اننگز کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا جو بعد میں آسٹریلیا کے میتھیو ہیڈن نے 2003 ء میں 380 رنز بنا کر توڑا۔لیکن پھر برائن لارا نے ایک سال بعد 2004ء میں اپنا ہی ریکارڈ واپس لے لیا اور 400 ناٹ آؤٹ کے ساتھ دنیا کو حیران کر دیا۔