کورونا وائرس کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟

کورونا وائرس کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟

اسپیشل فیچر

تحریر : رضوان عطا


چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی کورونا وائرس کی وبا پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اس نے سماجی اور معاشی نظام کو تہ و بالا اور نظام زندگی معطل کر دیا ہے۔اس کے خاتمے یا کم از کم اس کی رفتار کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں غیرمعمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان میں اجتماع اور نقل و حرکت پر پابندی، احتیاطی تدابیر سے آگہی اور ''لاک ڈاؤن‘‘ شامل ہیں۔ یہ تمام اقدامات بے سود ثابت ہو سکتے ہیں اگر کووڈ19- کی بروقت اور مناسب پیمانے پر تشخیص نہ کی جائے۔ 
کسی ملک میں وائرس کا پھیلاؤ ابتدائی مراحل میں ہو یا بہت زیادہ ہو چکا ہو، دونوں صورتوں میں ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص کی اہمیت مسلمہ ہے۔ مختلف ممالک میں اس مرض کے ٹیسٹوں کی شرح مختلف ہے۔ اس کا انحصار جہاں مریضوں کی تعداد پر ہے وہیں حکومتی ترجیحات اور سہولیات کی دستیابی پر بھی ہے۔ بعض ممالک نے ٹیسٹنگ ترجیحی بنیادوں پر کی۔ ان میں چین اور جنوبی کوریا کے نام شامل ہیں۔ ان ممالک نے ٹیسٹنگ کے لیے ضروری سامان کی پیداوار کو جلد ممکن بنایا۔ زیادہ مشتبہ افراد کے ٹیسٹ کرنے سے انہیں وبا کی روک تھام میں مدد ملی۔ 
کس کا ٹیسٹ کرنا ہے اور کس کا نہیں، اس کا ایک عمومی پیمانہ ہے البتہ بعض ممالک میں تھوڑے سے شبے پر ٹیسٹ کر لیے جاتے ہیں اور بعض میں واضح علامات آنے پر ہوتے ہیں۔ ٹیسٹ کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ کسی فرد میں اس وائرس کی موجودگی کا حتمی فیصلہ کر لیا جائے۔ 
کسی کا ٹیسٹ کرنے کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ فرد میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہو جائیں یا اس کے مریض سے اس کا رابطہ ہوا ہو۔ 
کووڈ19- کی اہم علامات بخار، خشک کھانسی اور سانسوں میں تیزی ہیں۔ یہ نزلہ یا عام زکام جیسی ہوتی ہیں اس لیے صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کا کسی ایسے مریض سے واسطہ نہیں پڑا۔ اسی سے پتا چلتا کہ یہ کتنا بڑا چیلنج ہے۔
ٹیسٹوں کی سہولت کم ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے کہ کس کا ٹیسٹ کیا جائے اور کس کا نہیں۔ ٹیسٹوں میں معمراور پہلے سے بیمار افراد کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ذیابیطس، بلند فشارِخون، امراض قلب اور سرطان میں مبتلا افراد میں کورونا وائرس سے پیچیدگیوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ 
کووڈ19- کی علامات انفیکشن کے فوری بعد ظاہر نہیں ہوتیں، ان میں وقت لگتا ہے جو دو ہفتے تک ہو سکتا ہے۔ اس دوران وائرس کا شکار فرد دوسروں میں وائرس منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی چھینک یا کھانسی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اگر وہ قریب بیٹھے زیادہ لوگوں میں کھانسے یا چھینکے گا تو ان سب میں وائرس کی منتقلی کا خدشہ ہو گا۔ ناک اور منہ سے نکلنے والے چھینٹوں یا قطروں سے یہ وائرس دوسروں میں براہِ راست داخل ہو سکتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وائرس والے چھینٹے کسی جگہ مثلاً میز یا کاغذ پر گریں اور وہاں کسی کا ہاتھ لگے اور وہ ہاتھ پھر ناک یا منہ پر لگ جائے۔ یوں بھی وائرس کسی کے جسم میں داخلے کا راستہ بنا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں نئے کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کو دیکھ کر بآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بہت جلد پھیلتا ہے اور بہت متعدی ہے۔ علامات کے نمودار ہونے میں تاخیر اور بعض افراد میں علامات کا ظاہر نہ ہونا اسے مزید خطرناک اور پریشان کن بنا دیتا ہے۔ اگر کسی میں علامات ظاہر نہ ہوں اور اسے شبہ ہو کہ وہ اس وائرس کا شکار ہو چکا ہے تو حقیقت جاننے کے لیے ٹیسٹ ہی کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ 
جتنی جلدی کوروناوائرس کے شکار فرد کی بیماری کا پتا چلے گا اتنا ہی بہتر ہے۔ ٹیسٹ مثبت آئے گا تو مریض کو الگ کر دیا جائے گا، اس کا خیال رکھا جائے گا تاکہ وہ صحت یاب ہو جائے اور وہ دوسروں میں مرض پھیلانے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ 
کورونا وائرس کی تشخیص کے ٹیسٹ کا ایک اور فائدہ حکمت عملی اور پالیسی میں ہوتا ہے۔ اگر متعلقہ اداروں کو معلوم ہو جائے کہ فلاں علاقے میں کووڈ19- کے مریض زیادہ ہیں تو وہ اس پر توجہ مرکوز کریں گے اور یہ کوشش ہو گی کہ وائرس وہاں سے دوسرے علاقوں میں نہ پھیلے۔ علاقائی اور ملکی دونوں سطحوں پر ٹیسٹ کے ذریعے مریضوں کی تشخیص حالات کی درست تصویر کشی اور اس کے مطابق ردعمل میں معاون ہوتی ہے۔ 
یہ وائرس جسے سارس- کوو2- کانام دیا گیا ہے، نیا ہے اور اس کے بارے میں تحقیق پورے زور و شور سے جاری ہے جو وقت کی ضرورت بھی ہے۔ اس کی تشخیص کے ٹیسٹوں کو بہتر اور کم وقت میں نتائج حاصل کرنے کے قابل بنایا جا رہا ہے۔ 
جب کسی کا ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا جائے تو پھر نمونہ لیا جاتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق فیصلے کے بعد نمونہ لینے اور ٹیسٹ کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ ادارہ نمونہ درست طور پر لینے کی بھی تاکید کرتا ہے۔ 
ٹیسٹ کا نمونہ ناک کے اندرونی حصے سے لیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے گلے سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ کووڈ19- وائرس پاخانے میں پایا گیا ہے، تاہم پاخانے اور پیشاب میں اس کی موجودگی حتمی طور پر طے نہیں۔ خون کے نمونے سے بھی اس وائرس کی موجودگی ثابت کی جا سکتی ہے۔ 
نمونے کو جلد از جلد لیبارٹری یا ٹیسٹنگ کے آلے تک پہنچنا چاہیے۔ اگر نمونے نے سفر طے کرنے کے بعد پہنچنا ہے تو اسے تجویز کردہ درجہ حرارت میں رکھا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں لیبارٹری میں حفظان صحت یا بائیو سیفٹی کے تمام معیارات کو اپنانا بھی انتہائی اہم ہے۔ 
ناک اور گلے کے اندر سے نمونہ لینا آسان ہے لیکن اس میں وائرس کی موجودگی ثابت کرنا مشکل ہے ۔نمونے میں وائرس کے جینیاتی مواد یعنی آر این اے اور اس کی ترتیب کو تلاش کیا جاتا ہے، وہ مل جائے تو ٹیسٹ مثبت ہوتا ہے۔ نظام تنفس سے لیے گئے نمونوں میں یہ تلاش ''پولیمریز چین ری ایکشن‘‘ (PCR) کے طریقے سے ممکن ہے۔ بعض ابتدائی پی آر سی ٹیسٹ جنوری 2020ء میں جرمنی میں تیار ہوئے اور انہیں کی بنیاد پر عالمی ادارۂ صحت نے کٹس تیار کیں۔ 
دنیا کے مختلف ممالک میں کورونا وائرس کی تشخیص کے ٹیسٹ تیار کیے جا چکے ہیں۔ ان میں چین، جنوبی کوریا، جرمنی، برطانیہ، امریکا اور دیگر شامل ہیں۔ جو ممالک بروقت ٹیسٹ کی سہولیات میسر کرنے میں کامیاب ہوئے وہ وبا کا مقابلہ بہتر انداز میں کرنے کے بھی قابل ہوئے۔ 
کورونا وائرس کا ٹیسٹ ایک پیچیدہ ٹیسٹ ہے اس لیے اس میں غلطی کا احتمال رہتا ہے۔ مثال کے طور پر چین میں کیے گئے ٹیسٹوں میں تین فیصد کے نتائج منفی آئے جبکہ دراصل وہ مثبت تھے۔ دوسرے الفاظ میں پہلے ٹیسٹ سے ان کی تشخیص نہ ہو سکی۔بہرحال عموماً یہ ٹیسٹ ٹھیک نتائج دیتے ہیں اور ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ تھوڑے سے غلط نتائج کا یہ مطلب نہیں کہ ٹیسٹ ہی نہ کرائے جائے، یقینا ٹیسٹ کرانا بہت مفید رہتا ہے۔ 
ٹیسٹ کرنے کے لیے صرف نمونے کافی نہیں ہوتے، اس کے لیے ٹیسٹ کرنے کے آلات اور تربیت یافتہ عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹیسٹوں کی تعداد بڑھانے کے لیے ان تمام میں اضافہ ضروری ہے۔ 
چین نے اینٹی باڈی ٹیسٹ بھی بنائے ہیں جن میں ناک یا گلے سے نمونے لینے کے بجائے خون کے نمونے لیے جاتے ہیں اور انہیں سے وائرس کی تشخیص کی جاتی ہے۔ خون سے ہونے والے ٹیسٹ میں ان اینٹی باڈیز کو دیکھا جاتا ہے جو اس وائرس سے لڑنے کے جسم میں باعث پیدا ہوتی ہیں۔ اگر یہ موجود ہوں تو ٹیسٹ مثبت ہو گا۔ خون کا ٹیسٹ ایک لحاظ سے زیادہ مفید ہے کیونکہ اس سے اس مریض کا بھی پتا چل جاتا ہے جو کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد ٹھیک ہو چکا ہو۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ مریض کی طبیعت ناساز نہیں ہوتی، معمولی علامات کو وہ نظر انداز کر دیتا ہے اور کچھ عرصے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے مگر اس دوران وہ بعض علاقوں میں مرض پھیلا چکا ہوتا ہے۔ دوسری طرف پی سی آر ٹیسٹ میں صرف بیمار فرد کی کھوج لگائی جا سکتی ہے۔ 
دونوں ٹیسٹوں میں نمونہ لینے میں اگر زیادہ جلدی کی جائے تو ان سے بیماری کے پتا چلنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ تھوڑے عرصے میں وائرس جسم میں کم ہوتا ہے، یوں وہ نظام تنفس کے مادے میں بھی کم ہوتا ہے۔ اگر اس مادے کے نمونے کا ٹیسٹ انفیکشن کے فوراً بعد لے لیا جائے تو غلط طور پر اس کے منفی آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ خون میں اینٹی باڈیز بھی فوری پیدا نہیں ہوتیں۔ اینٹی باڈیز کے بننے میں ایک ہفتے تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ 
ٹیسٹ کی سہولیات کم ہونے کے باوجود بھی حالات کا نقشہ بنایا جا سکتا ہے اگرچہ یہ مبہم اور غیر واضح ہوتا ہے۔ اگر کہیں تھوڑے ٹیسٹ لیے جا رہے ہیں اور بیشتر مثبت آ رہے ہیں تو خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں مریضوں کی تعداد دراصل زیادہ ہے۔ اسی کے مطابق حکومت کو پالیسی بنانی چاہیے۔جیسا کہ چین میں اس وائرس کے شروعاتی شہر ووہان کو کچھ عرصے کے لیے سیل کر دیا گیا تھا تاکہ وہ سے لوگ باہر نہ جائیں اور باہر مرض کے پھیلاؤ کا ذریعہ نہ بنیں، اس سے چین کے اندر وبا کنٹرول کرنے میں خاصی مدد ملی۔ 
حالات کے پیش نظر اب یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایسے ٹیسٹ ہوں جن کے نتائج فوری میسر ہوں۔ اس سلسلے میں امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے ایک ٹیسٹ کی منظوری دی ہے جس میں نتیجہ پانچ منٹ میں آ جاتا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی مشین کے ذریعے کیا جائے گیا جسے ایک سے دوسری مقام پر لے جانا آسان ہو گا۔ منٹوں میں نتائج حاصل کرنے والے آلے بنانے کے بہت دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ انہیں رائج کرنے سے پہلے ٹیسٹ کی درستی یا ایکوریسی کی تصدیق کرنا انتہائی ضروری ہے۔ 
پاکستان میں مقامی طور پر ٹیسٹ کی سہولت بھی تیارکی گئی ہے۔ یہ حوصلہ افزا امر ہے کیونکہ یہ سہولت سستی بھی ہو گی اور اگر تھوڑا جتن کر لیا جائے تو اس کی فراوانی بھی ممکن ہو گی۔ پاکستان کے تحقیقاتی اداروں اور یونیورسٹیوں کو آگے آنا چاہیے اور ثابت کرنا چاہیے کہ وہ دورِجدید کی ضروریات سے ہم آہنگ ہیں اور ہنگامی حالات میں کارآمد۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
جمیل الدین عالی قابل ستائش انسان

جمیل الدین عالی قابل ستائش انسان

پاکستانی شعر و ادب کی دنیا میں جن شخصیات نے اپنی انفرادیت کے نقوش چھوڑے ہیں، اُن میں جمیل الدین عالی بھی شامل ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ جہاں اُنہوں نے کئی مقبول اور یاد گار ملی نغمے اور گیت لکھے تو دوسری طرف اُْنہوں نے دوہے جیسی مترنم اور نغمگی سے بھرپور مگر نظر انداز کی گئی صنف کو اپنی تخلیقی قوت کے سبب ایک نئی زندگی دی۔ یہی نہیں جمیل الدین عالی پاکستانی شعرو ادب میں نمایاں ترین کردار ادا کرنے کے ساتھ علمی اور تعمیری میدانوں میں بھی کئی اہم کارناموں کے باعث قابلِ ستائش ہیں۔ اردو کے حوالے سے بھی جمیل الدین عالی کی خدمات بہت ہیں۔ انہوں نے ہر دور میں اردو کے نفاذ کا بیڑا اٹھائے رکھا۔جمیل الدین عالی صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک پورے عہد کا نام ہے۔ اس پورے عہد میں ان کی شخصیت کے انگنت رنگ بکھرے ہوئے ہیں اور ہر رنگ میں ان کی شخصیت درجہ کمال کو چھوتی نظر آتی ہے۔ ملی نغمے لکھے تو لازوال، مصرعے ایسے کہ زبان زدعام ہو گئے۔ اردو زبان کے نجات دہندہ ہونے کا شرف ملاتو بہت سے ایسے کام کر گئے جو ناممکن دکھائی دیتے تھے۔ مولوی عبدالحق بابائے اردو کی وفات کے بعد 1962ء میں انجمن ترقی اردو کے اعزازی سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا اور پھر انجمن کی ترقی کیلئے صحیح معنوں میں کام کیا۔ انگریزی زبان کی کشش اور یلغار کے سامنے اردو کی اہمیت اور ضرورت کو قائم رکھنا اور وقت کے بدلتے تقاضوں کے پیش نظر اردو زبان کی نئی اصطلاحیں رائج کرنا‘ اور اردو زبان کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا کوئی آسان ٹاسک نہ تھا، مگر جمیل الدین عالی نے شب و روز ایک کر کے اردو زبان کی ترقی کیلئے کام کیا اور انجمن ترقی ادب کراچی کے ساتھ پچاس برس کی رفاقت نہایت محبت سے نبھائی۔ اس دور میں کم و بیش ساڑھے تین سو کتب ایسی شائع کروائیں جو اردو لسانیات کے حوالے سے ایک سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ آج اگر عدالتی حکم نامے کے مطابق پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ بھی اردو کو مل چکا ہے تو اس کے پیچھے عالی جی جیسے دیوانوں کی اردو زبان سے محبت اور محنت شامل ہے جنہوں نے ہر دور میں اردو زبان کو رائج کرنے کا بیڑا اٹھائے رکھا۔ ایسا ہی ایک اور قابل قدر کارنامہ عالی جی نے یہ سرانجام دیا کہ اردو کالج کراچی سے وابستہ ہوئے تو اسے وفاقی اردو یونیورسٹی تک پہنچایا یعنی ''جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے‘‘ کے مصداق عالی جی نے جو بھی کام کرنے کی ذمہ داری لی،اسے احسن طریقے سے نبھایا اور اسے دوسروں کیلئے مثال بنا دیا۔ان کی شخصیت کا ایک اور روپ کالم نگار کا ہے۔ مقامی اخبار میں پچاس برس تک اپنا کالم ''نقار خانے میں‘‘ لکھتے رہے۔ کالم نگاری میں بھی ان کا اپنا ہی انداز سامنے آیا۔ اُن کے کالموں میں علمی اور ادبی موضوعات کے ساتھ سماجی، تہذیبی اورسیاسی مسائل کی رنگ آمیزی بھی شامل رہی۔ ایک ہی کالم میں کئی موضوعات پر یوں لکھتے جیسے سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے باتیں کر رہے ہوں۔ کالم نگاری سے ہٹ کر عالی جی نے جو نثر لکھی وہ ادبی شہ پارے ہیں مگر اخبار کے کالم میں انہوں نے سادہ اور بے تکلف سا انداز تحریر اپنایا۔ جمیل الدین عالی کا ذکر ہو اور دوہے کی بات نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ اردو میں جدید دوہے کے بانی بھی عالی جی ہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عالی جی کو ہر میدان میں اپنا جھنڈا گاڑنے کا کچھ ایسا چسکا تھا کہ انہوں نے اردو شاعری میں بھی وہ صنف چنی جو شعراء کی نظر میں کم کم تھی اور یوں پارٹیشن کے بعد پاکستان میں دوہے کی روایت کے بانی عالی جی ہی بنے اور آج بھی جمیل الدین عالی اور اردو دوہے کا ذکر لازم و ملزوم ہے۔ عالی جی کی زندگی اتنی بھر پور گزری کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی شخص زندگی کے کتنے محاذوں پر جتا رہا اور کہیں بھی اس نے شکست نہیں کھائی۔ جمیل الدین عالی نے ایک طویل، بھرپور اور خوشحال زندگی گزاری۔ جتنا کام، کامیابیاں، پذیرائی اور محبتیں انہوں نے اپنی زندگی میں سمیٹیں، لوگ ان کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ عمر کے آخری چند برسوں میں وہ عارضہ قلب سمیت مختلف امراض کا شکار ہو گئے اور 90 سال جینے کے بعد خالق ِ حقیقی سے جا ملے، تاہم اُن کی شخصیت کی اثر انگیزی اور تخلیقی کاموں کی گونج اب تک برقرار ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ عالی جس کا فن سخن میں اک انداز نرالا تھا نقد سخن میں ذکر یہ آیا دوہے پڑھنے والا تھا جانے کیوں لوگوں کی نظریں تجھ تک پہنچیں ہم نے تو برسوں بعد غزل کی رو میں اک مضمون نکالا تھا بھٹکے ہوئے عالی سے پوچھو گھر واپس کب آئے گا کب یہ در و دیوار سجیں گے کب یہ چمن لہرائے گا سوکھ چلے وہ غنچے جن سے کیا کیا پھول ابھرنے تھے اب بھی نہ ان کی پیاس بجھی تو گھر جنگل ہو جائے گا حقیقتوں کو فسانہ بنا کے بھول گیا میں تیرے عشق کی ہر چوٹ کھا کے بھول گیا ذرا یہ دورء احساس حسن و عشق تو دیکھ کہ میں تجھے ترے نزدیک آ کے بھول گیا بہت دنوں سے مجھے تیرا انتظار ہے آ جا اور اب تو خاص وہی موسم بہار ہے آ جا کہاں یہ ہوش کہ اسلوب تازہ سے تجھے لکھوں کہ روح تیرے لیے سخت بے قرار ہے آ جا  

موسم سرما کی سوغات

موسم سرما کی سوغات

ستمبر کے آخری ہفتے اور نومبر کے آغاز سے ہوائوں میں خنکی محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ نومبر کے آخر تک موسم سرما اپنی تمام تر جوبن کے ساتھ سرد ہوائوں کے ساتھ ہرطرف ٹھنڈک بکھیرنا شروع کردیتا ہے۔ ایسے میں سردموسم میں ٹھنڈ سے محفوظ رہنے کیلئے موسم کے سرما کے پکوان خاصی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں ۔جن کے استعمال سے ہم اپنے جسم کو سردی سے محفوظ رکھتے ہوئے اس موسم کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرسکیں۔چونکہ پاکستان میں سردیاں زیادہ طویل وقت کیلئے نہیں آتیں لہٰذا لوگ اس خاص موسم کی خاص سوغاتوں کو بنانے اور کھانے کا اہتمام بڑے ذوق وشوق سے کرتے ہیں۔گاجر کا حلوہگاجر کا حلوہ سردیوں کی خاص سوغات ہے اور یہ صحت کیلئے نہایت مفید بھی ہے، اس حلوے کا سب سے اہم جزو گاجر ہے، جو کہ وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن کے اور فائبر سے بھرپور سبزی ہے۔کشمیری چائےدیکھا جائے تو کشمیر میں سردی کا موسم طویل ہوتا ہے اس لیے کشمیر کے لوگ اس چائے کو بہت زیادہ پیتے ہیں۔ پاکستان بھر میں کشمیری چائے بہت مشہور ہے بلکہ یہ شادی بیاہ کے مواقع پر بھی کھانے کے ساتھ رکھی جاتی ہے۔ مچھلیسردی کے موسم میں ذائقے اور افادیت سے بھر پور غذا مچھلی کا استعمال لوگ بہت شوق سے کرتے ہیں۔مچھلی میں وافر مقدار میں سیلینیم پایا جاتا ہے ،یہ جز و مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے میں اہم کردارادا کرتاہے۔مونگ پھلیمونگ پھلی صحت مند چربی، پروٹین اور فائبر کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔اس میں بہت سے وٹامنز پوٹاشیم، فاسفورس اور میگنیشیم پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ مونگ پھلی میں کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں لیکن یہ غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں اور ان میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔پائےپائے برصغیر کی بہترین اور سب سے زیادہ پسند کی جانے والی ڈش ہے اس کو پکنے میں کافی دیر لگتی ہے۔اس کا اصل مزہ اس میں شامل کیے گئے پائے کے گودے کا ہوتا ہے اور اسی سے جسم کو طاقت بھی ملتی ہے۔ سوپموسم سرما کا ذکر ہو اور جسم کو گرماہٹ دینے والی غذاؤں کی فہرست میں سوپ کا نام نہ شامل ہو یہ تو ممکن ہی نہیں ہے، یہ جلد ہضم ہونے والی غذا ہے۔سوپ افادیت کے لحاظ سے لاجواب ہے، بلکہ یہ نظامِ ہضم کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے بھی کارآمد ہے۔ ویسے تو مرغی اور بکرے کا سوپ بے حد مفید ہے لیکن سبزیوں سے تیار کردہ سوپ بھی انتہائی لذیذ اور قوت بخش ہوتا ہے  

آج کا دن

آج کا دن

نیوشیپرڈ(New Shepard)نیو شیپرڈ ایک عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ کرنے والاخلائی جہاز تھا جسے بلیو اوریجن نے خلائی سیاحتی پروگرام کیلئے تیار کیا تھا۔ بلیو اوریجن ایمیزون کے بانی جیف بیزوس کی ملکیت ہے۔اس جہاز کا نام امریکہ کے پہلے خلاء باز ایلن شیپرڈ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جو امریکی خلائی ادارہ کے مرکری سیون کے خلا بازوں میں سے ایک تھے۔ 23نومبر2015ء کو100.5کلومیٹر انچائی تک پہنچنے کے بعداس نے کامیابی کے ساتھ عمودی لینڈنگ کی۔اس تجرنے کے بعد یہ کامیاب عمودی لینڈنگ کرنے والا پہلا جہاز بن گیا۔ اس کا ٹیسٹ پروگرام2016ء اور2017ء میں جاری رہا۔میگنڈناؤ قتل عاممیگنڈناؤ قتل(Maguindanao) عام جسے امپاٹوان(Ampatuan) قتل عام بھی کہا جاتا ہے ۔اس قتل عام کا نام اس قصبے کے نام سے منسوب کیا گیا جہاں متاثریں کی اجتمائی قبریں موجود ہیں۔یہ خوفناک واقعہ 23نومبر 2009ء کی صبح میگنڈناؤ،فلپائن کے قصبے امپاٹوان میں پیش آیا۔58افراد بلوآن کے نائب میئر اسماعیل منگودادا تو کیلئے امیدواری سرٹیفکیٹ جمع کروانے جا رہے تھے جب انہیں اغوا کر نے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ مارے جانے والے افراد میں منگوداداتو کی بیوی، اس کی دو بہنیں، صحافی، وکلاء، معاونین، اور گاڑی چلانے والے بھی شامل تھے ۔عراق بم دھماکے23نومبر2006ء کو عراق کے صدر سٹی میں ہونے والے دھماکے دراصل کاربموں اور مارٹر حملوں کا ایک سلسلہ تھا ۔صدر شہر کی ایک بستی میں حملے پر چھ کار بم اور دو مارٹر راؤنڈ استعمال کئے گئے۔ان حملوں میں کم از کم 215افراد ہلاک اور تقریباً100زخمی ہوئے۔2003ء میں عراق جنگ کے بعد یہ سب سے مہلک حملوں میں یہ ایک سمجھا جاتا ہے۔حملوں کے بعد عراقی حکومت نے بغداد میں 24گھنٹے کیلئے کرفیو لگا دیا۔عراق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بھی تجارتی اور مسافر پروازوں کیلئے بند کردیا گیا اور بصرہ میں بھی ڈاک اور ہوئی اڈوں کی سروس کو معطل کر دیا گیا۔مصری طیارہ اغوامصر ی ائیر لائن کی پرواز648ایتھنز کے ایلی نیکن انٹرنیشنل ائیرپورٹ کیلئے طے شدہ پرواز تھی۔جہاز قاہرہ انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے اڑان بھرنے کیلئے تیار تھا کہ 23نومبر1985ء کو ایک دہشت گرد تنظیم نے جہاز کو اغوا کر لیا اور جہاز میں موجود تمام سواریوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ مصری فوجیوں کی طرف جہاز کو بازیاب کروانے کیلئے اس پر چھاپہ مارا گیا جس کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیںہوئیں جس کی وجہ سے فلائٹ648کا اغوا ایوی ایشن کی تاریخ کا مہلک ترین حادثہ تصور کیا جاتا ہے۔

20نومبر بچوں کا عالمی دن

20نومبر بچوں کا عالمی دن

دنیا بھر میں آج بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، یہ دن اس لئے منایا جاتا ہے کیونکہ بچوں کی تعلیم و تربیت، معاشرتی تربیت اور مذہبی تربیت سے متعلق شعور اُجاگر کیا جائے تاکہ دنیا بھر کے بچے مستقبل میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں، ''یونیورسل چلڈرن ڈے ‘‘منانے کا اعلان 1954ء میں اقوامِ متحدہ میں کیا گیا۔اقوام متحدہ نے 1954 ء میں تجویز پیش کی تھی کہ دنیا بھر کے ممالک 20نومبر کو بچوں کی فلاح و بہبود کے طور پر منائیں۔ اس تجویز پر جنرل اسمبلی نے 1959ء کو بچوں کے حقوق کا ڈکلیریشن جاری کیا، جس کے بعد اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 20 نومبر کو بچوں کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس قرارداد کو''ڈکلیریشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ‘‘کہا گیا ،جس کا بنیادی مقصد بچوں کی فلاح و بہبود کو اور معاشرہ میں بچوں کے حقوق کو اجاگر کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کی اس تجویز کا دنیا کے تمام ہی ممالک نے خیر مقدم کیا۔بچوں کا عالمی دن منانے کے بے شما ر مقاصد ہیں جن میں بنیادی طور پر بچوں میں تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے علاوہ بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا، بے گھر بچوں کو بھی دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرنا اوّلین ترجیح ہے۔ ہم ایک مہذب معاشرے میں سانس لے رہے ہیں لیکن بچوں کو اپنے بڑوں کے نارواسلوک، ظلم و زیادتی اور تشدد کا سامنا ہے، آج بھی دنیا بھر میں ہر سال بچوں کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے، جبکہ اس قسم کا سلوک بچوں کی نشوؤنما پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق دنیا کا ہر بچہ اپنی بقا، تحفظ، ترقی اور شمولیت کا حق رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بچوں کے حقوق کیلئے بنائے گئے کنونشن کے مطابق پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کنونشن کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق ملک میں بچوں کو بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں جن میں زندہ رہنے، صحت، تعلیم اور تحفظ کے حقوق شامل ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 80 ملین بچے آبادی کا حصہ ہیں جو بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کا حق رکھتے ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف 20 فیصد شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچے ہیں جنہیں تمام سہولیات میسر ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کیا صورتحال ہے اس کے بارے میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کے مطابق اگر صرف صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو ملک میں پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ہر چھ میں سے ایک بچہ انتقال کر جاتا ہے۔ بچوں کی فلاح و بہبودکا عالمی ادارہ یونیسیف بھی اس دن کو منانے کیلئے اپنابھرپور کردارادا کرتا ہے۔ اس دن بچوں میں بہتری اور بھلائی کیلئے، ان کی ذہنی و جسمانی صحت کیلئے سوچ بچار کی جاتی ہے اور منصوبے تیار کئے جاتے ہیں ملک بھر میں بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی تنظیموں کے زیراہتمام سیمینارز،واکس اور دیگر تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔بچوں میں تحفے تحائف تقسیم کیے جاتے ہیں۔بچے پھول کی مانند نرم و نازک ہوتے ہیں، ہم سب کو مل کر انہیں مرجھانے سے بچانا ہو گا۔تعلیم صحت کھیل اور خوراک ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ بچوں کو چائلڈ لیبر سے نکال کر تعلیم کی طرف راغب کرنا ہو گا۔ حکومت بچوں سے جبری مشقت کے بارے میں ہنگامی بنیادوں پر کانفرنسز بلا کر بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، ناانصافیوں اور جبری مشقت کے خاتمے کیلئے ضروری اقدامات کرے۔بچوں کے حقوق کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔سب سے پہلے وجہ دور کی جائے وجہ غربت ہے ، جس کی وجہ سے وہ اس عمر میں کام کرنے پر مجبور ہیں تاکہ آنے والے وقت میں وہ بچہ ایک اچھا اور باشعور شہری بن سکے اور اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرے۔حکومت بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کو یقینی بنانے اور غریب بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرکے ان کے معصوم بچوں کے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے موثر اقدامات کرے۔بچوں کے بنیادی حقوق٭-اچھی زندگی کے حقوق ٭-معاشرے میں پہچان کا حق ٭-معیاری تعلیم کا حق٭-مناسب صحت کی دیکھ بھال کا حق ٭-محفوظ ہونے کا حق پاکستان میں 2کروڑ62لاکھ بچے سکول سے باہرپنجاب 11.73 ملین سندھ 7.63 ملینخیبرپختونخواہ 3.63ملینبلوچستان 3.13 ملین         

مصنوعی ذہانت ماحول کیلئے خطرناک؟

مصنوعی ذہانت ماحول کیلئے خطرناک؟

کیا ہم مصنوعی ذہانت کے ماحولیات پر اثرات کو کم کر سکتے ہیں؟یہ وہ سوال ہے جو دنیا بھر کے ماحولیاتی ماہرین کے درمیان زیر بحث ہے۔ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سسٹم بڑے پیمانے پر کاربن خارج کر رہے ہیں اور یہ صورت حال گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ تحقیقی مقالے میں خبردار کیا گیا ہے کہ پیچیدہ ماڈلز کو چلانے اور ان کی تربیت کرنے کیلئے توانائی کی اضافی مانگ ماحولیات پر سنجیدہ نوعیت کے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ سسٹم بہتر ہونے کے ساتھ ان کو مزید کمپیوٹنگ پاور اور چلنے کیلئے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اوپن اے آئی کا موجودہ سسٹم ''جی پی ٹی4‘‘ اپنے گزشتہ ماڈل سے 12 گُنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔سسٹمز کی تربیت کرنا ایک چھوٹا سا عمل ہے۔ دراصل اے آئی ٹولز کو چلانے کیلئے تربیت کے عمل سے 960 گُنا زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔محققین کے مطابق ان اخراج کے اثرات وسیع ہو سکتے ہیں۔ اے آئی سے متعلقہ اخراج ممکنہ طور پر اس انڈسٹری کو سالانہ 10 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔محققین نے حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ ان اخراج کے پیمائش کے پیمانوں کا تعین کیے جانے کے ساتھ ان کو حد میں رکھنے کیلئے نئے ضوابط یقینی بنائے جائیں۔نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے اس تحقیقی منصوبے کی قیادت ایسوسی ایٹ پروفیسر یوان یائوکر رہی تھیں، انہوں نے مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی نقصان اور فوائد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مصنوعی ذہانت (AI) بہت زیادہ توانائی سے چلتی ہے، اور اس توانائی کا بیشتر حصہ فوسل فیول کے جلانے سے حاصل ہوتا ہے، جو کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے اندازے کے مطابق 2026 ء تک ڈیٹا سینٹرز، کرپٹو کرنسی اور مصنوعی ذہانت کی وجہ سے بجلی کی کھپت سالانہ عالمی توانائی کے استعمال کا 4فیصد تک پہنچ سکتی ہے، جو تقریباً جاپان جیسے پورے ملک کی استعمال شدہ بجلی کے برابر ہے۔ مصنوعی ذہانت کی توانائی کے استعمال کا ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے؟کے سوال کے جواب میں یوان یائو جو ییل اسکول آف دی انوائرمنٹ میں صنعتی ماحولیات اور پائیدار نظام کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیںکا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کیلئے کمپیوٹنگ سسٹمز کو چلانے کیلئے توانائی( بجلی) کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجلی کی پیداوار آلودگی پیدا کرتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بجلی کی پیداوار میں فوسل فیولز کا غلبہ ہے۔ توانائی کیلئے فوسل فیولز کوجلانے کے ماحول پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی میں اضافہ کرتے ہیں۔فوسل فیولز کے جلنے سے وہ آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے جو ہوا اور پانی کو آلودہ کرتی ہے، سانس کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے، اور تیزابی بارش (ایسڈ رین) کا باعث بنتی ہے۔ مزید برآں، فوسل فیولز کو نکالنے اور توانائی کے انفراسٹرکچر کی تعمیر سے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور ماحولیاتی تنزلی کا سبب بنتا ہے۔ان منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے شمسی اور ہوا جیسی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی اور توانائی کی مؤثر حکمت عملیوں کو اپنانا ضروری ہے۔مصنوعی ذہانت ماحول پر کن طریقوں سے اثر ڈالتی ہےتوانائی کے استعمال کے علاوہ مصنوعی ذہانت کو ہارڈویئر آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ہارڈویئر ز، جیسے سرورز اور ڈیٹا سینٹرز، کی تیاری، نقل و حمل، دیکھ بھال اور تلفی کیلئے اضافی توانائی اور وسیع مواد اور قدرتی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً کوبالٹ، سلیکون، سونا، اور دیگر دھاتیں۔مصنوعی ذہانت کے ہارڈویئر میں استعمال ہونے والی دھاتوں کی کان کنی اور تیاری مٹی کے کٹاؤ اور آلودگی کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید برآں، بہت سی الیکٹرانک اشیاء کو مناسب طریقے سے ری سائیکل نہیں کیا جاتا، جس کے نتیجے میں الیکٹرانک فضلہ پیدا ہوتا ہے جو مزید آلودگی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان آلات میں استعمال ہونے والے مواد اگر مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگائے جائیں تو یہ مٹی اور پانی کو آلودہ کر سکتے ہیں۔مصنوعی ذہانت کے ماحول کیلئے مثبت پہلو مصنوعی ذہانت کے اطلاق سے ماحول کیلئے فائدے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ چند سال ایک تحقیق شائع ہوئی تھی جس میں کیمیائی صنعت میں مصنوعی ذہانت کے فوائد کا جائزہ لیا گیا تھا۔ مصنوعی ذہانت توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہے اور توانائی کے استعمال کو کم کر سکتی ہے، اور یہ ماحولیاتی نگرانی اور انتظام میں مدد فراہم کرتی ہے، جیسے گیسز کے اخراج کا سراغ لگانا۔مزید برآں، مصنوعی ذہانت ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کیلئے عمل اور سپلائی چین کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔تحقیقی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کو لائف سائیکل اسیسمنٹ (LCA) میں مدد کیلئے استعمال کیا، جو کسی مصنوعات کی پوری زندگی کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے کا ایک معیاری طریقہ ہے۔ مصنوعی ذہانت ہمیں مختلف حیاتیاتی مواد سے بنی مصنوعات کے ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ کرنے میں مدد دیتی ہے، جو روایتی طریقوں کے ذریعے بہت وقت طلب عمل ہوتا ہے۔پروگرام ''ایکسپیڈیشنز‘‘ (Expeditions) کیا ہے؟یہ امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کا ایک پروگرام ہے ،جس کا مقصداگلی دہائی میں کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو 45فیصد تک کم کرنے پر توجہ مرکوزکرنا ہے۔ اس کے تین اہم اہداف ہیں۔(1)کمپیوٹنگ آلات کی پوری زندگی کے دوران کاربن کے اخراج کی پیمائش اور رپورٹنگ کیلئے معیاری پروٹوکول تیار کرنا۔ (2)کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو کم کرنے کے طریقے تیار کرنا۔(3)تیزی سے ترقی کرنے والی ایپلی کیشنز، جیسے مصنوعی ذہانت اور ورچوئل رئیلٹی سسٹمز، کے کاربن اخراج کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرنا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ منصوبہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کو کیسے حل کرے گا؟ اس کے جواب میں پروفیسر یوان یائو کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کا اندازہ لگانے کیلئے شفاف اور مضبوط طریقوں کی ضرورت ہے۔ جب تک ان اثرات کی درست مقدار معلوم نہ ہو، ان چیلنجز کو مؤثر طریقے سے کم یا حل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس مسئلے کو شفاف کاربن کاؤنٹنگ ٹولز تیار کرکے حل کیا جا سکتا ہے ۔  

آج کا دن

آج کا دن

لوزان معاہدے کا آغاز20 نومبر1922ء کو ترکی کی خود مختاری پر مبنی لوزان معاہدے کا آغاز سوئس شہر لوزان میں ہوا۔اس کانفرنس میں ترکی کی نمائندگی وزیر خارجہ عصمت ان اونو نے کی۔ جنگ عظیم اوّل کے اتحادیوں اور ترکی کے درمیان طے پایاجانے والا یہ معاہدہ 24 جولائی 1923ء سے نافذ العمل ہوا۔ معاہدے کے تحت یونان، بلغاریہ اور ترکی کی سرحدیں متعین کی گئیں اور قبرص، عراق اور شام پر ترکی کا دعویٰ ختم کرکے آخر الذکر دونوں ممالک کی سرحدوں کا تعین کیا گیا۔کونڈسرمحل میں آتشزدگی20 نومبر 1992ء کو ونڈسر محل میں آگ بھڑک اٹھی جو کہ دنیا کا سب سے بڑا آباد قلعہ اور برطانوی بادشاہ کی سرکاری رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔ آگ کی وجہ سے قلعہ کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ۔اس ناخوشگوار واقعہ کے بعد اس کی مرمت میں کئی سال لگ گئے جس پر36.5ملین پاؤنڈلاگت آئی۔ ایک تخمینے کے مطابق اس آتشزدگی کی وجہ سے کل50ملین پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔ونڈو1.0لانچ کی گئیمائیکروسافٹ کی جانب سے 20نومبر 1985ء کو ''ونڈوز1.0‘‘ کو لانچ کیا گیا۔ یہ مائیکروسافٹ کی جانب سے پرسنل کمپیوٹر کیلئے تیارکردہ پہلا گرافک آپریٹنگ سسٹم تھا۔ امریکہ میں اسے پہلی مرتبہ 1985ء میں مینوفیکچرنگ کیلئے پیش کیا گیا جبکہ یورپی ورژن مئی1986ء میں ریلیز کیا گیا۔ اس ونڈوز میں ملٹی ٹاسکنگ کی سہولت موجود تھی جبکہ ماؤس کا استعمال بھی اسی ونڈوز کے ساتھ متعارف کروایا گیا۔فارمنگٹن کان حادثہفارمنگٹن کان حادثہ 20نومبر1968ء کو پیش آیا۔دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کا اثر تقریباً 19کلومیٹر دور فیئر مونٹ میں بھی محسوس کیا گیا۔ دھماکے کے وقت99کان کن اندر موجود تھے۔21کان کن اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے جبکہ دیگر78 افرادکو کان سے باہر نہیں نکالا جا سکا۔ اس دھماکے کی وجہ کا تعین بھی نہیںکیا جا سکا کہ آخر یہ دھماکہ کیوں ہوا تھا۔ایویو امپیکس فضائی حادثہایویو امپیکس فلائٹ110ایک طے شدہ بین الاقوامی مسافر پرواز تھی۔ یہ 20نومبر 1993ء کو جنیوا سے سکوپجے جاتے ہوئے تباہ ہو گئی۔طیارے میں تقریباً 116افراد سوار تھے۔ جہازاوہرڈ ائیر پورٹ کے قریب برفانی طوفان کی وجہ سے اپنے روٹ سے بھٹک گیا اور کیپٹن طیارے کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا جس کے نتیجے میں یہ حادثہ پیش آیا۔ تحقیقات میں پائلٹ کی لاپرواہی کو حادثے کی وجہ قرار دیا گیا۔