صدارت کی کرسی اور ستاروں کی چالیں غضب کا مقابلہ ہو گا،ٹرمپ اور جو بائیڈن کی طاقت میں زیادہ فرق نہیں
عالمی سپر پاور کی ''سپر کرسی‘‘ کے انتخابات قریب آ چکے ہیں،ٹرمپ اور جو بائیڈن میں مقابلہ اس قدر سخت ہے کہ سیاسی جغادری تو ایک طرف، ماہرین فلکیات کی مت بھی ماری گئی ہے۔ کیا کہیں ، کیا نہ کہیں ،کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ ایک امریکی ماہر فلکیات نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ
''جناب ، 2020ء کا صدارتی مقابلہ امریکہ کی انتخابی تاریخ کا 'کنفیوز ترین‘ مقابلہ ہے۔ 1.70 کروڑ ووٹ ڈالے جا چکے ہیں،درجنوں سروے ہو چکے ہیں لیکن وثوق سے آج بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن پارٹی میں اتنا غیر متوقع مقابلہ پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ہم نہیں کہ سکتے کہہ تاج کس کے سر پر سجے گا‘‘۔
امریکی صدر ٹرمپ کو اپنی جیت کا پختہ یقین ہے۔ جیت کے یقین کایہ عالم ہے کہ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا ہے کہ اگروہ فلوریڈا ریاست میں ہار گئے تو گورنر رونڈی سینٹس کو برطرف کر دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گورنر انہیں ہرانے والے کام کر رہے ہیں اور یہ بات انہیں برداشت نہیں۔آئیے، دیکھتے ہیں کہ اس ضمن میں ماہرین فلکیات کیا کہتے ہیں، ان کی رائے میں امریکی انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
کن ستاروں کے حامل سیاستدان امریکہ پر حکومت کرتے رہے؟
امریکہ میں صدارتی انتخابات کا معرکہ سب سے زیادہ برج دلو اور برج عقرب کے حامل سیاست دانوں نے جیتا ہے۔ان دونوں برجوں کے 5،5سیاست دان صدر منتخب ہوئے ہیں۔برج دلو کے صدور میں ولیم ہنری ہیریسن، ابراہام لنکن، ولیم میکنلے، فرینک ڈی روز ویلٹ اوررونالڈ ریگن شامل ہیں۔ برج عقرب کے حامل سابق صدور میں جان ایڈمز، جیمز کے پوک،جیمز اے جیرالڈفورڈ ،تھیوڈور زویلٹ اور وارن جی ہارڈنگس شامل ہیں۔ برج سرطان، جدی، اسد، حوت،میزان اور ثور کے چار چار رہنما صدر منتخب ہوئے تھے۔ جوزا اور قوس کے تین تین اور برج سنبلہ اور برج حمل کا ایک ایک رہنما صدر بنا ہے۔ صدر ٹرمپ برج جوزا کے حامل ہیں۔جارج ڈبلیو بش اور جان ایف کینیڈی کا بھی یہی برج تھا۔
امریکی اور ہندو ماہرین فلکیات
میں اختلاف !
جہاں تک امریکی ماہر ین فلکیات کا تعلق ہے،ان کے نزدیک ''دونوں رہنمائوں کے ستارے تقریباََ ایک جیسے ہیں لیکن فتح و شکست کا فیصلہ کئی دیگر عوامل بھی کریں گے ،جن میں جو بائیڈن کا پلڑا بھاری ہے‘‘ ۔ایک ہندو ماہر فلکیات کے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ اگلے چار سال کے لئے دوبارہ صدر منتخب ہو جائیں گے ا ور اس میں انہیں کوئی شک و شبہ نہیں۔
کورونا وائرس اور نائن الیون
ہندو ماہر فلکیات کے نزدیک
' ' دو اہم سیاروں کا زاویہ وہی ہے جو نائن الیون کے وقت تھا، یعنی کورونا وائرس سے امریکہ میں نائن الیون جیسی تبدیلی آ سکتی ہے۔ کورونا وائرس کا ''راہو‘‘ سے بھی تعلق ہے، امریکہ کے زائچے میں ''راہو‘‘ برج جوزا کے 'اندرا نکشترا‘ کے قریب ٹرانزٹ پر ہے، نائن الیون کے وقت بھی راہو اور برج جوزا کا یہی زاویہ تھا۔راہو اور کیتو اپنا ایک چکر 18.5 برس میں پورا کرتے ہیں، اب نائن الیون والے زاویے پر واپسی سے امریکہ کو 2001ء جیسی صورتحال درپیش ہے‘‘۔
ان کے بقول ''برج جوزا سانس اور پھیپھڑوں کی بیماری کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے‘‘۔کورونا میں بھی یہی مرض لاحق ہوا۔
جو بائیڈن کا زائچہ اوربے لچک اصولی رویہ
ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن 20نومبر 1942ء کو صبح 8:30بجے پنسلوینیا کے شہر سکرانٹن میں پیدا ہوئے۔ یوں بر ج قوس کے کچھ اثرات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ پبلک افیئرز ، فلاح اور بہبود کے کاموں میں بھی دل چسپی لیتے ہیں۔پیدائش کے وقت برج ثور میں فل مون ہوا تھا، دو دن تک سیارہ شمس اورسیارہ چاند کی انرجی برابر برابر تھی، البتہ سیارہ شمس اور سیارہ چاند کا زاویہ ایسا تھا کہ جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ صدارتی امیدوارجو بائیڈن اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے، ان کے نظریات کبھی تبدیل نہیں ہوں گے،یہ نکتہ بعد میں کبھی بحث کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ ہماری کہکشاں میں ''بیٹا اینڈرومیڈے ‘‘ (Beta Andromedae) نامی ا یک ستارہ بھی ہے ، ماہرین فلکیات اسے ''میراچ‘‘ (Mirach)بھی کہتے ہیں۔باریکیوں کو سمجھنے والے ماہرین فلکیات اس کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ برج ثور میں چاند اس ستارے کے ساتھ ایک لائن میں موافق زاویے پر تھا۔جبکہ سیارہ شمس پہلے سے ہی برج عقرب میں براجمان تھا،یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی نشانی ہے ۔ایسے لوگ اپنے مسائل جذبات کی بجائے جامع ، ٹھوس تجزیے اور چھٹی حس کو مد نظر رکھتے ہوئے حل کرتے ہیں۔ کیرئیرکا سیارہ نیپچون اس وقت برج حوت میں رجعت پذیر ہے۔ سیارہ نیپچون کی سستی جو بائیڈن کے لئے مثبت اشارہ ہے لیکن سیارہ نیپچون کا یہ زاویہ ابہام کی بھی علامت ہے اسی لئے اگر ان کی برتری ہے ،تو وہ بھی کھل کر سامنے نہیں آ رہی ۔ '' نوڈز آف ڈیسٹنی‘‘ (Nodes of Destiny) ہر 1.5 برس کے بعد اپنا سائن تبدیل کرتا ہے، یہ اس وقت برج جوزا اور برج قوس کے محور کے قریب ہے ۔اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ماہر فلکیات نے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ '' اندازے کے مطابق 3نومبر جو بائیڈن کی فتح کا دن ہو سکتا ہے‘‘۔
ہندو ماہرین فلکیات کے مطابق ،
''جو بائیڈن کا سٹار برج عقرب ہے، پیدائش کے وقت سیارہ مریخ 12ویں خانے میں تھا۔ 8ویں اور 11 ویں خانے کا اہم سیارہ عطارد بھی اسی خانے میں تھا ۔ 7 ویں اور 12ویں خانے کا اہم سیارہ زہرہ ،سیارہ شمس اور زحل کا اسی خانے میں ملاپ ہوا تھا۔فی الحال انہیں زائچے کے 9ویں خانے میں زوال پذیر سیارہ مشتری کی ''ماہا داشا ‘‘ کا سامنا ہے۔راہو 10ویں خانے میں ہے،یہ ان کے لئے موافق ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہو جائے گی‘‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ ، جیت کا امکان کم ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ14جون 1946ء کو نیو یارک کے شہر جمیکا میں پیدا ہوئے۔ یہ برج قوس میں فل مون کا دن تھا جبکہ پیدائش کے صرف ایک گھنٹے بعد فل مون عروج پہ تھا۔برج قوس کا فل مون ان من مانی کرنے کا اشارہ ہے، وہ باتیں کرتے رہیں گے، ان کی عمر وضاحتیں کرنے میں گزر جائے گی۔وہ مضبوط اور دو ٹوک انداز میں بات کہنے والی شخصیت ہیں۔ لگی لپٹی باتیں کرنے کے قائل نہیں۔یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ سیارہ شمس اور سیارہ چاندکا زاویہ سیارہ نیپچون کے ساتھ بہت موافق ہے، اور اگر انہوں نے درست راستہ چنا تو ان کی قسمت بدل سکتی ہے۔ان ستاروں کا یہ زاویہ ہر 18 سال بعد ہوتا ہے۔لیکن سیارہ مون ایک فکس ستارے ''رسال ہیگ‘‘ (Rasalhague) کے ساتھ نا موافق زاویے پے تھا۔ جبکہ برج جوزا میں سیارہ شمس کا ملاپ فکس ستارے ''اینسس‘‘ (Ansis) سے ہواتھا۔ یہ دوران بات چیت دفاعی لائن اختیار کرنے کی علامت ہے ۔نوڈ آف ڈیسٹنی اب اس زاویے پر ہے جہاں وہ ان کی پیدائش کے وقت تھا۔ ٹرمپ کے زائچے میں سیارہ شمس اس وقت بھی برج جوزا (کیرئیر کا خانہ)میں ہے۔ سیارہ نیپچون اس وقت سیارہ شمس، سیارہ مون اور ''نوڈز آ ف ڈیسٹنی‘‘ کے ساتھ سکوئر بنا رہا ہے، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جیت جائیں گے لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ ''ہاریں یا جیتیں، اگلے 1.5برس تک امریکہ میں خبروں میں ضرور رہیں گے‘‘۔ 2016ء میں ہونے والے انتخابات کے وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے زائچے میں سیارہ مشتری برج میزان میں واپسی کے سفر پر تھا۔2016ء میں یہ سیارہ 13برس بعد اسی زاویے پر آیا تھا جس زاویے پر ان کی پیدائش کے وقت تھا۔ یہ نہایت موافق اشارہ تھا۔لیکن اب سیارہ مریخ (برتری)اور سیارہ زحل (اتھارٹی) کا آپس میں زاویہ ناموافق ہے۔ 2اکتوبر کو ''فل مون‘‘ سے چند گھنٹے پہلے ٹرمپ نے کورونا مثبت آنے کی رپورٹ دے دی تھی۔
ہندو ماہر فلکیات کے مطابق ''پیدائش کے وقت زائچے کا اہم سیارہ شمس راہو کے ساتھ دسویں خانے میں براجمان تھا، برج اسد ترقی کی علامت تھا، برج عقرب میں مون بھی نہایت موافق تھا۔ لیکن اب سیارہ مشتری دوسرے خانے میں زوال پذیر ہے۔ سیارہ زحل دوسرے اور دسویں خانے کے اہم سیارے زہرہ کے ساتھ 12ویں خانے میں ہے۔9ویں خانے کے اہم سیارے مریخ کی زوال پذیری انتخابات کے بعد (13نومبر کو )ختم ہو گی۔ مریخ کی 'ماہاداشا‘ دوسرے خانے میں ہے، یہ مالی یا سیاسی ساکھ کو پہنچنے والے متوقع نقصان کی جانب اشارہ ہے۔ راہوکا منفی زاویہ مارچ 2021ء تک جاری رہے گا۔ پولنگ کے دن ٹرمپ کے زائچے میں راہو، زحل اور مشتری کا آپس میں زاویہ ناموافق ہو گا۔12ویں خانے کے بڑے سیارے مون کو 10ویں خانے میں موجود راہو کی جانب سے چیلنج کا سامنا ہو سکتا ہے، دونوں ایک دوسرے کے لئے ناموافق ہو سکتے ہیں۔24ستمبر کو 'راہو ‘ ٹرمپ کے اپنے سائن (برج ثور) میں داخل ہو جائے گا، جبکہ کیتو برج عقرب میں نیو مون کے قریب ٹرانزٹ پر ہو گا۔ یہ کیفیت 3نومبر تک رہے گی اور یہی پولنگ کا دن ہے ، اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کی جیت کا امکان کم ہے۔‘‘ شائد اسی لئے امریکی صدر الیکشن ملتوی کرانا چاہتے تھے۔
دونوں امیدواروں میں مماثلت
ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے زائچوں میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ اول ، دونوں کے زائچے اچھے ہیں یعنی طاقتور ہیں۔ دونوں کے زائچوں میں سیارہ شمس کی سیارہ مشتری کے ساتھ ٹرائن بن رہی تھی۔جسے سیاسی مقابلوں میںکامیابی کی کنجی اور موافق سمجھا جاتا ہے۔صدر ٹرمپ کے زائچے میں سیارہ یورینس اورسیارہ شمس کا ملاپ ہوا تھا جبکہ مون نا موافق تھا۔ جو بائیڈن کے زائچے میں سیارہ یورینس اورسیارہ زحل کا ملاپ ہے، جبکہ شمس ناموافق تھا۔ دونوں کے زائچے میں سیارہ شمس کی اہمیت ہے، ٹرمپ کے زائچے میں ماضی میں سیارہ شمس جو بائیڈن کی بہ نسبت زیادہ طاقتور تھا اسی لئے دونوں پبلک فگر ہیں،لیکن ٹرمپ ماضی میں آگے نکل گئے۔انہوں نے تجارت کی اور جو بائیڈن نوکری تک محدود رہے۔انتخاباتی حوالے سے دونوں کا دسواں خانہ اہم ہے۔پولنگ کے دن امریکی صدر ٹرمپ کے زائچے میں سیارہ یورینس بہت زیادہ فعال ہو گا، اس کی انرجی غیر متوقع نتائج کی حامل ہے، ''ان کی زندگی میں کوئی انہونی بات ہوسکتی ہے ‘‘۔