شہد کی مکھیوں کی حیرت انگیز جنگی حکمت عملی

شہد کی مکھیوں کی حیرت انگیز جنگی حکمت عملی

اسپیشل فیچر

تحریر : تحریم نیازی نیوٹریشنسٹ


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

آسٹریلیا میں ایک دفعہ جب ایک ماہر مگس بانی ( مکھیاں پالنا) سے سوال کیا گیا کہ عام مکھیوں اور شہد کی مکھیوں میں کیا فرق ہے ؟اس کا جواب تھا۔"عام مکھیاں فطرتاََ" میٹھے کی طرف آتی ہیں جبکہ شہد کی مکھیاں میٹھا لاتی ہیں۔ 
شہد بنی نو انسان کے لئے قدرت کا وہ عطیہ ہے جس کی افادیت خود مالک کائنات نے اپنی مقدس,کتاب میں اس کو " شفا " قرار دے کر بیان کر دی ہے ۔ ایک روایت کے مطابق شہد میں ننانوے بیماریوں کا علاج پوشیدہ ہے ۔ شہد کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں اشیائے خورد ونوش پر سب سے زیادہ تحقیق شہد اور شہد کی مکھیوں پرہو چکی ہے اور ہو رہی ہے ۔ بلکہ 1973میں شہد کی مکھیوں پر وسیع ترین تحقیق کرنے پر آسٹریا کے سائنس دان وان فرش Von Frisch کو نوبل انعام بھی مل چکا ہے ۔لہذا شہد کی خالق ان مکھیوں بارے جاننا یقینا" دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔
شہد کی مکھیوں کا رھن سہن اور گھروں یعنی چھتوں کا نظم و نسق اس منظم اور احسن طریقے سے چل رہا ہے جیسے کسی ترقی یافتہ ملک کا نظام سلطنت ہو۔ جس کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔مکھیاں چھتہ بناتی ہیں جو سوراخوں کی شکل میں ہوتا ہے ۔یہ مکھیاں ان سوراخوں کو جو مسدس یعنی چھ کونوں والا ہوتا ہے اس خوبصورتی اور یکسانیت سے بناتی ہیں گویا کسی ماہر تعمیرات نے باقاعدہ ڈرائنگ کر کے اسے تعمیر کیا ہو۔ ان سوراخوں کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی بھی ناقابل یقین حد تک ایک جتنی ہوتی ہے ۔ ہر مکھی انتہائی مستعدی سے وہی کام سرانجام دے رہی ہے جو قدرت نے اس کے سپرد کر دیا ہے۔دراصل قدرت نے ان مکھیوں کو ایک مکمل" سسٹم " وحی کر دیا ہے تبھی تو یہ ایک منظم اور طے شدہ طریقے سے اپنے اپنے کام میں جتی رہتی ہیں۔پیدائش کے پندرہ بیس دن بعد مکھیاں کھانا,اور پانی کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں۔مکھی کو کھانا اور پانی کی تلاش میں روزانہ کئی کئی میل سفر کرنا پڑتا ہے ۔وہ چھتوں سے کھانے کی جگہوں تک بڑی مستعدی سے سفر کرتی رہتی ہیں۔یہ اپنے سفر کا آغاز صبح منہ اندھیرے سے شام کا اندھیرا چھانے تک کرتی رہتی ہیں۔ اگر ایک ہزار چھتے بھی قریب قریب ہوں تو یہ اپنا چھتا باآسانی پہچان لیتی ہیں ۔جب مکھیاں کھانے کے ذخائر کا کھوج لگا لیتی ہیں تو وہ مخصوص حرکات سے اپنی ساتھی مکھیوں کو اس کی اطلاع کر دیتی ہیں اور ذخائر کی سمت کا پتہ بھی بتا دیتی ہیں ۔
شہدکی مکھیوں کی درجہ بندی:ملکہ مکھی کا کام صرف انڈے دینا ہوتاہے ۔یہ ہر چھتے میں صرف ایک ہوتی ہے ۔اور سائز میں دوسری مکھیوں سے بڑی ہوتی ہے ۔یہ ایک دن میں 1500 تک انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس کی طبعی عمر تین چار سال تک ہوتی ہے ۔ہر چھتے میں 200کے لگ بھگ نر ہوتے ہیں ۔عموما"نر چار ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہتا۔کارکن مکھیاں بناوٹ میں ملکہ اور نر سے چھوٹی ہوتی ہیں ۔ان کا کام چھتہ بنانا اس کی صفائی ، پھولوں سے رس چوس کر لانا، لاروے اور ملکہ کو خوراک کھلانا شامل ہے ۔ایک مکھی دن بھر میں دس سے بارہ مرتبہ پھولوں کا رس چوسنے جاتی ہے ۔ 
یہ شہد کیسے بناتی ہیں؟:اللہ نے شہد کی مکھیوں کو پھولوں کا رس چوسنے کے لئے ٹیوب کی مانند زبان دی ہے۔یہ چوسا ہوا رس اسی ٹیوب نما زبان کے اندر تہہ کر کے رکھ لیتی ہیں جب یہ لگ بھگ سو پھولوں کا رس چوس لیتی ہیں تو واپس آ کر چھتے میں انڈیل دیتی ہیں پھر کارکن مکھیاں اس میں اپنا لعاب دہن شامل کر کے اسے شہد میں تبدیل کر دیتی ہیں ۔
کچھ دلچسپ اور حیرت انگیز باتیں:1۔۔ـ ایک جدید تحقیق کے مطابق شہد کی مکھی میں گیارہ پیٹ ہوتے ہیں جس میں سے تین شہد اور آٹھ میں مختلف قسم کے انزائم اور ادویات موجود ہوتی ہیں ۔
2ـ۔۔ اللہ تعالیٰ نے مکھیوں کو دیکھنے کی خصوصی طاقت بخشی ہے جس کے سبب یہ روشنی کی ان لہروں کو بھی دیکھ سکتی ہیں جن کو انسان نہیں دیکھ سکتا۔ 
3ــ ۔۔ان میں سونگھنے کی صلاحیت حیران کن حد تک پائی جاتی ہے یہ دو میل کے فاصلے سے باآسانی سونگھ لیتی ہیں ۔
4ـ ۔۔یہ جب واپس اپنے چھتے میں آتی ہیں تو محافظ یعنی کارکن مکھیاں انہیں باقاعدہ چیک کرتی ہیں کہ وہ مبادا اپنے ساتھ کسی قسم کا زہریلا مادہ تو نہیں لائیں۔
5ـ ۔۔شہد کے ایک چھتے میں بیک وقت 80 ہزار تک مکھیاں ہو سکتی ہیں ۔
6ـ ۔۔انسانی آنکھ کے برعکس دو عدسوں کی بجائے شہد کی مکھی کی دو آنکھوں میں چھ چھ ہزار عدسے ہوتے ہیں جسکے سبب وہ دیکھنے کی غیر معمولی صلاحیت سے مالا مال ہوتی ہیں ۔ 
7ـ ۔۔محض آدھا کلو شہد کے لئے ان کو بیس لاکھ کے لگ بھگ پھولوں کا رس,حاصل کرنا پڑتا ہے اور اس مقصد کے لئے انہیں ہزاروں میل تک کا سفر,طے کرنا پڑ جاتا ہے ۔
8ـ ۔۔اگر چھتے کا درجہ حرارت زیادہ ہو تو,مکھیاں اپنے پروں کو حرکت دے کر یعنی ان سے پنکھے کا کام لیکر حرارت کو روک لیتی ہیں ۔
9ـ ۔۔اگر شہد کی مکھی تیس گرام شہد کھا لے تو اس کے جسم میں اتنی توانائی آ جاتی ہے کہ وہ پوری دنیا کا چکر لگا سکتی ہے ۔
10ـ ۔۔شہد کی مکھیاں ہوا کی لہروں کی مدد سے سمت معلوم کر لیتی ہیں ۔
11ـ ۔۔جب ملکہ مکھی اپنی نشست سنبھالنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے تو وہ بھنبھنا کر اس کا اعلان کرتی ہے لیکن اگر ایک ہی وقت میں دو ملکائیں آمنے سامنے ہوں تو وہ اس وقت تک ایک دوسرے سے لڑتی رہتی ہیں جب تک ان میں سے ایک یا پھر دونوں مر نہ جائیں ۔
12۔ ۔ہر چھتے میں صرف ایک ملکہ مکھی ہوتی ہے اسکی زندگی کا مقصد انڈے دینا اور خاندان کو منظم رکھنا ہوتا ہے ۔ایک دن میں یہ لگ بھگ پندرہ سو,اور پوری زندگی میں دو لاکھ تک انڈے دے سکتی ہے ۔ملکہ مکھی تین سے چار سال تک زندہ رہ سکتی ہے ۔
13۔ ۔جب ایک مکھی انڈے دیتی ہے تو اس کی آواز بدل جاتی ہے لیکن وہ اپنی ساتھی مکھیوں کو کہتی ہے کہ باقیوں کی بھنبھناہٹ رکنے نہ پائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مہندی کے بغیر عید کی خوشیاں ادھوری

مہندی کے بغیر عید کی خوشیاں ادھوری

عیدالفطر ہو یا عیدالاضحیٰ، خواتین کیلئے عید کی خوشیاں جہاں میک اپ اور خوبصورت لباس کے بنا ادھوری لگتی ہیں۔ اسی طرح سادہ ہتھیلیاں بھی جچتی نہیں ہیں۔ عموماً خواتین مہندی لگانے سے ہچکچاتی ہیں ۔ بڑی بزرگ خواتین بہوئوں، بیٹیوں کو مہندی رچانے کی تاکید کرتی ہیں کہ یہ سنت نبوی ﷺ بھی ہے اور مشرقی روایتوں کا حسن بھی ہے۔ عید اپنے مکمل لوازمات اور رواجوں کے ساتھ ہی منائی جاتی ہے ان میں ایک رواج چاند رات کو مہندی لگانا بھی ہے۔مہندی برصغیر پاک و ہند کی قدیم ترین روایت ہے، یہ ایک ایسا فیشن ہے جو ہر عمر کی خواتین بلا جھجھک کرتی ہیں۔ پرانے وقتوں میں حنا محض شادی بیاہ کی تقریبات یا عید وغیرہ پر ہی ہاتھوں پر لگائی جاتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے، اس میں بھی جدت آ رہی ہے۔مہندی کی کئی اقسام ہیں مثلاًکالی مہندی، لال مہندی۔کالی مہندی نیل کے پودے سے تیار کی جانے والی مہندی ہے۔بازار میں کیمیکل والی مہندی بھی دستیاب ہے۔ آپ صرف آئوٹ لائن بنا کر اندر لال مہندی سے بھرائی کروا سکتی ہیں۔ لال مہندی کی شیڈنگ بہت خوبصورت معلوم ہوتی ہے حساس جلد والی خواتین کالی مہندی استعمال نہ کریں۔لال مہندی ہی قدرتی مہندی ہے اس سے جلد پر عموماً کوئی الرجی نہیں ہوتی۔ عام دنوں میں بھی مہندی کے پتے پیس کر تلوئوں جسم اور ہتھیلیوں پر لگانے سے ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ کون مہندی آپ گھر میں خودبھی تیار کر سکتی ہیں۔ فریز بیگ یا Poly Poilکو چوکور کاٹ کر اس کے اوپر والے حصے کو فولڈ کرتے ہوئے نیچے لائیں، جب سارا موڑ لیں تو آخری سرے کو ٹیپ کی مدد سے جوڑ لیں۔ مہندی اس میں ڈال کر کھلے حصے کو موڑ کر ٹیپ سے بند کر دیں آپ کی کون مہندی تیار ہے۔مہندی سوکھ کر جڑنے لگے تو کپڑے سے پونجھ کر سرسوں کا تیل مل لیں۔ مہندی کا رنگ تیز ہو جائے گا۔مہندی کے گہرے رنگ کیلئے چینی کے شیرے میں لیموں کے چند قطرے ملا کر روٹی کی مدد سے لگایئے اور پانچ چھ لونگ توے پر گرم کریں اوپر ڈھکن سے ڈھانپ دیں تو بھاپ بن جائے گی اس پر ہاتھ کو سینکیں آپ کی مہندی کا رنگ تیز ہو جائے گا۔ہماری دادی اور نانی کے زمانے میں مہندی لگانے کیلئے وقت اور محنت دونوں درکار ہوا کرتے تھے، مہندی کے پتوں کو سِل پر پیسا جاتا تھا اور پھر ہاتھوں پر ٹکیا یا انگلیوں کے پوروں پر لگا لیا جاتا تھا جس کے بعد گھنٹوں دلکش رنگ آنے کا انتظار کیا کرتے تھے لیکن آج کل مختلف رنگوں والی مہندی کی کونیں باآسانی دستیاب ہوتی ہیں۔اگر بات کی جائے مہندی کے ڈیزائنز کے حوالے سے تو اب کافی کچھ تبدیل ہو چکا ہے، لڑکیوں کی پسند میں بھی خاصی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔مہندی لگانااب ایک مکمل آرٹ ہے، پہلے دور کے لوگوں کو آگاہی نہیں تھی کہ باریک مہندی زیادہ دلکش اور خوبصورت دکھائی دیتی ہے، وہ لوگ موٹی مہندی یا صرف فلنگ والی مہندی کو ترجیح دیتے تھے جب کہ اب ایسا بالکل نہیں ہے۔ مہندی کا رواج ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، لڑکیاں صرف مہندی لگوانے کی شوقین نہیں بلکہ لگانے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ جس طرح پرانے وقتوں کے کپڑوں کے اسٹائل آج کل دوبارہ اِن ہیں ایسا ہی کچھ مہندی کے ٹرینڈ میں بھی ہے۔ماضی میں مغلیہ طرز کی مہندی لگائی جاتی تھی کیونکہ اس وقت کے لوگوں کی ڈیمانڈ تھی جن میں مہراب، مغل آرٹ کے طرز کے چیک اور منفرد قسم کے پھول شامل تھے۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب لوگ عربی طرز کی مہندی پسند کیا کرتے تھے جو کہ بڑے بڑے پھولوں والی ہوا کرتی تھی لیکن پھر کپڑوں اور بالوں کے اسٹائل کی طرح مہندی کے ٹرینڈ بدل گئے تاہم اب ایک بار پھر مہراب اور مغلیہ دور میں لگنے والی مہندی کا ٹرینڈ واپس لوٹ آیا ہے۔ سفید، لال، براون اور کالی مہندی میں سب سے زیادہ مانگ براون اور کالی مہندی کی ہے کیونکہ اس کا رنگ پکا اور دیر تک رہنے والا ہوتا ہے، اس کے علاوہ یہ ہاتھوں پر بھی انتہائی نفیس اور خوبصورت دکھتا ہے۔ خواتین اور لڑکیوں میں آج کل بنچز (ٹکیا والی مہندی کا ڈیزائن)، مہراب اور انگلیوں پر نفیس ڈیزائن بہت زیادہ اِن ہیں۔پہلے پانچوں انگلیوں پر ایک سا ڈیزائن بنایا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے، آج کل پانچوں انگلیوں پر مختلف ڈیزائن کی مہندی لگائی جاتی ہے جو بے پناہ خوبصورت لگتی ہے اور لوگوں کو اپنی جانب متوجہ بھی کرتی ہے۔علاوہ ازیں جال والے ڈیزائنز بھی بہت زیادہ اِن ہیں جو لڑکیوں سمیت خواتین میں بھی کافی مقبول ہیں۔اس بار آ پ ہندوستانی، عربی،راجستھانی، سوڈانی جیسی چاہیں مہندی لگایئے اور اگر اسٹون اور گلیٹر والی مہندی کا شوق ہے تو ضرور لگوایئے مگر ٹھہریئے، یاد رکھئے کہ آپ کو گھرگرہستی کے کام بھی نمٹانے ہیں۔ بہرحال اگر آپ کی رنگت سانولی ہے تو مہندی کے ڈیزائن میں آئوٹ لائن گہرے رنگ کی بنوایئے ،گورے اور صاف رنگت والی جلد رکھنے والی بہنیں باریک ڈیزائن والی یعنی ہندوستانی ڈیزائن بنوائیں تو بہت بھلی لگیں گی۔

الشحوح: خطہ عرب کا انوکھا قبیلہ

الشحوح: خطہ عرب کا انوکھا قبیلہ

دبئی سے دو گھنٹے کی مسافت پرواقع پہاڑیوں میں ایک انوکھا قبیلہ آباد ہے۔ اس کی ثقافت جزیرہ نما عرب کے لوگوں سے جدا ہے۔ انہیں الشحوح یا ''پہاڑی لوگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو پایا کہ یہ لوگ کہاں سے یہاں پہنچے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ الشحوح قدیم مقامی باشندے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ حالات نے انہیں پہاڑوں تک محدود کر دیا۔ غالباً یہ خطۂ عرب کے سب سے غیرمعمولی لوگ ہیں، کیونکہ ان کی زبان اور ثقافت اہل عرب سے جدا ہے۔ جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے پر تاریخ میں کئی مرتبہ حملہ آور آئے اور مختلف قوموں نے اسے اپنی نوآبادی بنایا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی ابتداء ڈیڑھ لاکھ برس قبل ہوئی جب انسان افریقہ سے نکل کر یہاں پہنچا۔ بہت عرصے بعد یہاں یمنی، سعودی، فارسی، پرتگالی اور برطانوی آئے۔اٹھارہویں صدی میں عمان اوربیسویں صدی میں متحدہ عرب امارات کی آزادی کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ تاریخ میں مختلف طرح کے لوگوں کے آنے جانے کی وجہ سے یہ معلوم کرنا کہ کون پہلے آیا اور کون بعد میں، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ علاقہ جو مسندم کہلاتا ہے، جزیرہ نما عرب کے جغرافیے میں ایک کسی پتلے لمبے ابھار کی طرح دکھائی دیتا ہے جس کا رخ ایران کی جانب ہے۔ باہر سے آنے والوں کو یہ لوگ پسند نہیں کرتے۔ اس لیے یہ لوگ جزیرہ نما عرب کے دیگر لوگوں سے کٹے رہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک بمبار مسندم میں غائب ہو گیا تو وہاں جا کر اسے تلاش کرنے کے عمل کو انتہائی خطرناک تصور کیا گیا۔ آج الشحوح کے لوگ آنے والوں کو قتل نہیں کرتے، لیکن انہیں خوش آمدید بھی نہیں کہتے۔یہ دو بڑے قبائل میں بٹے ہیں جن کی کئی شاخیں ہیں۔یہ علاقہ دشوار گزار ہے۔یہاں کی بلند چٹانوں میں الشحوح نے آنے اور جانے کے غیرمعمولی راستے بنا رکھے ہیں۔ الشحوح ثقافتی اور لسانی اعتبار سے متحدہ عرب امارات اور اومان کے عرب لوگوں سے مختلف ہیں جن کے جدامجد بدو تھے۔ الشحوح خانہ بدوش اور صحراؤں میں نقل مکانی کرنے والے نہیں۔ یہ کسان ہیں۔ بلندوبالا پہاڑوں میں انہوں نے پانی کے بہاؤ کے لیے حیران کن راستے بنا رکھے ہیں، جو اونچے مقامات پر واقع کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ ان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ ان پہاڑوں میں کنوئیں نہیں۔ یہ اپنے کھیتوں سے سال میں دو فصلیں حاصل کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ موسم گرما میں یہ مچھلیاں بھی پکڑتے ہیں۔ ساحل کی طرف سال میں ایک بار ہجرت کی جاتی ہے۔ یہ مال مویشی بھی پالتے ہیں۔ ان کے گھر پتھر کے اور ایک منزلہ ہوتے ہیں۔ ساحل پر ان کے گھر درختوں اور پودوں سے بنائے جاتے ہیں جو زیادہ مضبوط نہیں ہوتے۔ یہ بات مشہور ہے کہ الشحوح کی زبان لسانی اعتبار سے کسی سے نہیں ملتی، لیکن یہ سچ نہیں۔ ساحل سمندر کے عرب اگرچہ ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے لیکن یہ عربی سے سیکڑوں برس قبل بچھڑنے والی ایک زبان ہے جس نے اپنی لسانی راہ لی۔ ان کے طرززندگی اور زبان کو دیکھ کر انہیں غیرعرب بھی کہا گیا۔ بعض لوگوں نے انہیں پرتگالی بھی کہا۔ تاہم تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں مختلف اطراف سے لوگ داخل ہوتے رہے ہیں۔ ان کی ایک ذیلی شاخ پر ایرانی اثر نمایاں ہے اور ان کی زبان بلوچی سے ملتی جلتی ہے۔

رمضان کے پکوان:ہاٹ اینڈ کرسپی چکن

رمضان کے پکوان:ہاٹ اینڈ کرسپی چکن

اجزاء :چکن دو کلو ،نمک ایک چائے کا چمچ ،کالی مرچ ایک کھانے کا چمچ ،مسٹرڈ پائوڈر دوچائے کے چمچ ،لیموں 2عدد (رس نکال لیں ) ،میدہ 4کھانے کے چمچ ،کارن فلاور ایک کھانے کا چمچ ،بیکنگ پائوڈر آدھاچائے کا چمچ ،دودھ چوتھائی کپ ،انڈے دوعدد ،چلی ساس دوکھانے کے چمچ ۔ترکیب :سب سے پہلے مرغی کے ٹکڑوں کو اچھی طرح سے دھوکر صاف کرلیں پھر اسے ایک برتن میں رکھ کر اس میں نمک آدھا چائے کا چمچ، کالی مرچ دوچائے کے چمچ، مسٹرڈ پائوڈر، دو عدد لیموں کا رس ڈال کر اسے ملاکر دوگھنٹے کے لیے رکھ دیں۔ دوگھنٹے بعد چکن کے ٹکڑوں کو بھاپ دے کر ادھ کچا پکالیں (یادرہے کہ ٹانگ کے ٹکڑوں کو ذرا زیادہ بھاپ دینا تاکہ اندر سے کچے نہ رہیں ) پھر ایک برتن میں میدہ، کارن فلاور ایک کھانے کا چمچ، بیکنگ پائوڈر آدھا چائے کا چمچ، کالی مرچ آدھاچائے کا چمچ، کالی مرچ آدھا چائے کا چمچ ، اجینو موتو چوٹھائی کپ، دودھ چوٹھائی کپ، انڈے دوعدد، اورچلی ساس دوکھانے کے چمچ، ڈال کر اسے الیکٹرک ہیٹر کی مددسے مکس کرلیں اس کے بعد چکن کو اس میں ڈپ کریں پھر ایک گھنٹے کے لیے رکھ دیں۔ اب کارن فلیکس کو باریک پیس لیں اور میدے کے ساتھ ملا کر اسے مرغی پر کوٹ کرکے ڈیپ فرائی کرلیں اور خوبصورتی سے سجاکر گرم گرم پیش کریں۔

آج کا دن

آج کا دن

سوویت یونین کے ساتھ جھڑپ 30 مارچ 1918ء کو موجودہ آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو کے قریب سوویت یونین کی افواج اور آرمینی انقلابی فیڈریشن کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوا۔ ان جھڑپوں میں سیکڑوں عام شہری ہلاک ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب پہلی عالمی جنگ اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہو چکی تھی۔بے ہوشی کی دوا 1842ء میں آج کے روز ڈاکٹر کرافورڈ لانگ نے سرجری کے عمل کو مزید بہتر بنانے کیلئے آپریشن سے قبل اپنے ایک طالب علم کو سرجری کی تاریخ میں پہل مرتبہ بے ہوش کرنے کیلئے ایتھر سنگھایا۔ اس تجربے کے بعد ہی اس دوا پر کام شروع ہوا اور اس کی جدید شکل میں آج کی دنیا انیستھیزیا سے متعارف ہوئی۔ اس سے قبل سرجری ایک نہایت تکلیف دہ عمل ہوا کرتا تھا۔ بلغاریہ پر بمباریبلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ کو دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941 ء کے وسط سے 1944ء کے اوائل تک اتحادیوں کی جانب سے بمباری اور شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بلغاریہ نے 13 دسمبر 1941ء کو برطانیہ اور امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کیاتھا۔ 1944ء میں آج کے دن بلغاریہ پر اتحادیوں کی جانب سے شدید بمباری کی گئی۔ منشیات کے خلاف معاہدہ1961ء میں آج کے دن سنگل کنونشن برائے نارکوٹک ادویات کا معاہدہ ہو ا۔ یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ تھا جس کے تحت مخصوص اور خطرناک نشہ آور ادویات کی پیداوار،سپلائی، تجارت اور استعمال کی روک تھام کیلئے ضابطوں کا ایک سسٹم متعارف کروایا گیا۔ایک ایسا نظام بنایا گیا جس کے تحت اس کے کاروبار کیلئے لائسنس اور علاج کیلئے استعمال کے اقدامات اٹھائے گئے۔اس کے طبی اور سائنسی استعمال کے لئے بھی ایک ضابطہ تیار کیا گیا۔

حکایت سعدیؒ:درویشوں کی خیر خواہی

حکایت سعدیؒ:درویشوں کی خیر خواہی

ملک شام کے ایک نیک دل بادشاہ کی عادت تھی کہ صبح صبح اپنے غلام کے ساتھ باہر نکلتا، عربوں کے رواج کے مطابق آدھا منہ ڈھک لیتا اور گلی کوچوں میں پھرتا، صاحب نظر بھی تھا اور فقرا سے محبت کرنے والا بھی، یہی دو صفتیں بادشاہ کو نیک بادشاہ بناتی ہیں۔ ایک رات گشت کے دوران وہ مسجد کی طرف گیا دیکھا کہ سخت سردی میں کچھ درویش بغیر بستروں کے لیٹے ہوئے صبح کا سورج نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں جیسے گرگٹ سورج کے انتظار میں رہتا ہے۔ ایک نے کہا! دنیا نے تو ہمارے ساتھ بے انصافی کی ہے کہ ہم اس حال میں ہیں اور ظالم و متکبر لوگ کھیل کود میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر قیامت کے دن ان کو بھی ہمارے ساتھ جنت میں جانے کا حکم ہو گیا تو میں تو قبر سے ہی نہ اٹھوں گا کیونکہ جنت صرف انہی لوگوں کا حق ہے جو دنیا میں ظلم وستم سہنے والے ہیں۔ ظالموں کا جنت میں کیا کام۔ ان ظالموں سے دنیا میں ہمیں سوائے رسوائی کے کیا ملا جو جنت میں بھی ہم پر مسلط کر دیے جائیں ۔ بادشاہ نے اتنی بات سنی اور وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔ سورج نکلا تو درویشوں کو بلالیا ۔ ان کی بہت عزت کی اور انعامات سے نوازا۔ بہترین لباس پہنائے، بستر دیے، الغرض بہت خوش کیا۔ ان میں سے ایک نے ڈرتے ہوئے عرض کیا! بڑے لوگ تو ان انعامات کے مستحق ہوئے ہم فقیروں میں آپ نے کون سی خوبی دیکھی، بادشاہ یہ سن کر ہنسنے لگا اور خوش ہو کر درویش سے کہا! میں متکبر اور رعب کی وجہ سے مسکینوں کو نظر انداز کرنے والا نہیں ہوں، تم لوگ بھی جنت میں ہماری مخالفت نہ کرنا، آج میں نے صلح کی ہے تو تم بھی صلح کر لینا۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے کہ بادشاہوں کو درویشوں کی خیرخواہی اور خبر گیری رکھنی چاہیے اور درویشوں کو ایسے بادشاہوں کے لیے دعا گو رہنا چاہیے۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک گروہ سے کوئی غفلت یا سستی ہو جائے تو درگذر سے کام لینا چاہیے۔ خوش نصیب بندہ ہی درویشوں کو آرام پہنچاتا ہے اور ان خاک نشینوں کو خوش رکھنے والا کل جنت کے درخت کا پھل کھائے گا۔ خودی سے بھرا ہوا شخص چراغ کی طرح روشنی نہیں پھیلا سکتا کیونکہ وہ قندیل کا ایسا شیشہ ہے جو پانی سے بھرا ہوا ہے۔ جب وہ خود روشن نہیں تو دوسروں کو خاک روشن کرے گا۔

قرآنی خطاطی روحانی وجمالیاتی روایت

قرآنی خطاطی روحانی وجمالیاتی روایت

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ آخری کتاب ہے جو رہتی دنیا تک رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ امتِ مسلمہ نے اس مقدس کتاب کی حفاظت و اشاعت کے لیے بے مثال کوششیں کی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید کو حفظ اور کتابت دونوں صورتوں میں محفوظ کیا‘ بعد ازاں خلفائے راشدین نے قرآن کریم کو ایک مرتب و مستند کتابی صورت میں امت کے لیے محفوظ کر دیا۔ہر دور کے مسلمانوں نے قرآن کریم کی انتہائی خوبصورت خطاطی کا اہتمام کیا۔ خلفائے عباسیہ، خلافتِ عثمانیہ اور مغلیہ دور میں قرآنی خطاطی اپنے عروج پر رہی۔ فنِ تذہیب اور خطاطی کی مدد سے قرآنی نسخوں کو نہایت حسین انداز میں پیش کیا جاتا تھا تاہم نوآبادیاتی دور میں اسلامی ثقافتی ورثہ انحطاط کا شکار ہوگیا اور قرآنی خطاطی کی تابندہ روایت برقرار نہ رہ سکی۔ مغلیہ دور کے بعد قرآنی خطاطی کی سرکاری سرپرستی تقریباً ختم ہو کر رہ گئی یوں برصغیر میں قرآن مجید کے خوبصورت خطاطی شدہ نسخے تیار کرنے کی روایت کمزور پڑ گئی نتیجتاً مقامی سطح پر ''نسخِ ہندی‘‘ نامی ایک سادہ خط رائج ہو گیا جو جمالیاتی اعتبار سے دیگر مسلم دنیا کے معیار سے کم تر تھا۔یہی احساس' مصحفِ پاکستان پراجیکٹ ‘کی بنیاد بنا۔ اس منفرد منصوبے کا مقصد قرآن کریم کو اعلیٰ ترین اسلامی خطاطی، تذہیب کاری اور فنونِ لطیفہ کی روایت کے مطابق تخلیق کرنا ہے۔اس کام کا آغاز نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے فارغ التحصیل فنکار نصیر احمد بلوچ کی کاوشوں سے ہوا اور معروف خطاط عرفان احمد قریشی (سلطان رقم) بھی اس کا حصہ بن گئے۔ مصحفِ پاکستان کی منفرد خصوصیات میںاعلیٰ ترین فنِ خطاطی، خطِ ثلث اور خطِ نسخ کا حسین امتزاج، نیزیاقوت مستعصمی، احمد قرہ الحصاری اور عبدالباقی حداد جیسے اساتذہ خطاط کے طرزِخطاطی سے استفادہ اور عہدِ عثمانیہ کے خطاطوں کے اندازِ کتابت کی جھلک دکھانا شامل ہے۔روایتی تذہیب اور پائیداری اس میںبرصغیر کے روایتی اسلامی فنِ تعمیر میں استعمال ہونے والے نقوش اور خطاطی کے امتزاج پر مبنی ڈیزائن اور سونے کے ورق اور قدرتی رنگوں اور نایاب جواہرات کے پاؤڈر سے تذہیب کاری شامل ہے جبکہ اس منصوبے کے تحت کاغذ کی تیاری میں شہتوت کے درخت سے حاصل کردہ مواد کا استعمال کیا جاتا ہے جو کم از کم ایک ہزار سال تک محفوظ رہ سکتا ہے نیز اخروٹ کی چھال سے کشید کردہ رنگ، انڈے کی سفیدی اور پھٹکڑی کے محلول سے تیار کردہ سطح جسے عقیق سے مہرہ کرکے ایک سال تک سیزن کیا جاتا ہے اور قدرتی سیاہی اور معدنیات سے حاصل کردہ مستند اسلامی رنگوں کا استعمال شامل ہے۔ قرآن میوزیم اور مستقبل کی راہ مصحفِ پاکستان کو محفوظ رکھنے اور آنے والی نسلوں کو اسلامی خطاطی اور تذہیب کے عظیم ورثے سے روشناس کرانے کے لیے ''قرآن میوزیم‘‘بھی قائم کیا جا رہا ہے جہاں قرآنی نسخوں کے نادر و نایاب نسخے، خطاطی کے تاریخی نمونے اور اسلامی آرٹ کے شاہکار محفوظ کیے جائیں گے۔یہ منفرد قرآنی نسخہ پاکستان کو عالمی سطح پر اسلامی فنونِ لطیفہ کے میدان میں نمایاں کرے گا۔ اس منصوبے کے ذریعے پاکستان دنیا بھر میں قرآنی خطاطی کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ قرآنی خطاطی عہد بہ عہدقرآنی خطاطی کی تاریخ مسلسل ارتقا کی داستان ہے۔ ہر دور نے اس میں جدت، خوبصورتی اور نکھار پیدا کیا۔قرآنی خطاطی کی تاریخ مختلف ادوار میں ارتقا پذیر رہی ہے، جس میں ہر دور نے اپنے مخصوص طرز اور تکنیک کو جنم دیا۔ آج بھی قرآنی خطاطی اسلامی ثقافت کا ایک لازوال جز ہے اور اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے دنیا بھر میں خطاط کام کر رہے ہیں۔ ابتدائی اسلامی دور (7ویں-9ویں صدی) اسلام کے ابتدائی ایام میں قرآنی خطاطی زیادہ تر حجازی اور کوفی خط میں تھی۔ حجازی خط سادہ اور قدرے ترچھا تھا جبکہ خطِ کوفی زیادہ مربع اور زاویہ دار تھا جو بعد میں مختلف شکلیں اختیار کر گیا۔ عباسی دور (8ویں-13ویں صدی) عباسی خلافت میںخطِ کوفی نے مزید ترقی کی اور اس میں مشرقی کوفی، مغربی کوفی اور مزخرف کوفی جیسے انداز متعارف ہوئے۔ اسی دور میں خطِ نسخ کی بنیاد رکھی گئی جو بعد میں قرآن مجید کی کتابت کے لیے معیاری خط قرار پایا۔ مملوک اور اندلسی دور (13 ویں - 16 ویں صدی) مملوک سلطنت میں قرآنی نسخے زیادہ تر خطِ ثلث اور خطِ نسخ میں لکھے جاتے تھے جبکہ اندلس میں مغربی خط اور مرَبَّع خط کا رجحان رہا جو آج بھی شمالی افریقہ میں مقبول ہے۔ عثمانی دور (15ویں-20ویں صدی) خلافت عثمانیہ میں قرآنی خطاطی میں بے پناہ ترقی ہوئی اور خطِ دیوانی،خطِ ریحانی،خطِ طغرا اورخطِ تعلیق جیسے خط متعارف کرائے گئے۔ حمد اللہ اماسی اور شیخ حفیظ آفندی جیسے عظیم خطاطوں نے عثمانی دور میں قرآنی خطاطی کو لازوال شہرت دی۔ مغلیہ اور صفوی دور (16ویں-18ویں صدی) مغلہ دور میں فارسی طرز پر خطِ نستعلیق کو فروغ ملا مگر قرآنی کتابت زیادہ تر خطِ نسخ اورخطِ ریحانی میں ہوتی رہی۔اُدھر ایران میں صفوی دور میں خطاطی کے لیے زیادہ نفاست اپنائی گئی اور خطِ شکستہ نستعلیق جیسے اسلوب سامنے آئے۔ جدید دور (20ویں-21ویں صدی) جدید دور میں عرب دنیا، ترکی، ایران اور پاکستان میں کمپیوٹر خطاطی کو فروغ ملا مگر روایتی خطاطی اب بھی اہمیت رکھتی ہے۔ سید محمد زکریا، شفیق الزمان اور عثمان طہٰ جیسے خطاطوں نے جدید قرآنی خطاطی میں نئی جہتیں متعارف کرائی ہیں۔