بلند ترین ’’شاہراہ ریشم‘‘ کیسے بنی؟

بلند ترین ’’شاہراہ ریشم‘‘ کیسے بنی؟

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


شاہراہ ریشم چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہوئی پاکستان میں ہنزہ،نگر ، گلگت ، چلاس، داسو ، بشام ، مانسہرہ ، ایبٹ آباد اور ہری پور ہزارہ سے ہوتی ہوئی جی ٹی روڈ پر حسن ابدال سے ملتی ہے۔ پاکستان میں ضلع ہزارہ سے شروع ہو کر چین کی سرحد کے قریب سست کے مقام تک جاتی ہے۔اس سے آگے خنجراب تک بے آباد، ویران، دشوار گزار اور مسلسل چڑھائی والا راستہ ہے۔خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4693 میٹر ہے۔یہ منفرد شاہراہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہوئی درہ خنجراب میں 4693 میٹر بلندی پر چین کے صوبہ سنکیانگ کو ملاتے ہوئے دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ کا اعزاز اپنے نام کرتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ قدرت کا وہ کونسا حسن ہے جو اس شاہراہ کے آس پاس آپ کو نہیں ملے گا۔ اسی لیے تو دنیا اس بات پر متفق ہے کہ شاہراہ قراقرم محض ایک سڑک کا نام نہیں بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔ سطح سمندر سے 15100فٹ بلند ہونے کی وجہ سے یہ دنیا کی بلند ترین شاہراہ ہے ۔
پاکستان نے چین کے ساتھ ملکر دنیا کی بلند ترین شاہراہ بنا کر سب کو حیرت میں ڈال دیاتھا کیونکہ نامور عالمی تعمیراتی کمپنیاں شاہرہ ریشم بنانے سے عاجز رہیں۔متعدد عالمی کمپنیاں آتیں ، سروے کرتیں اور " ناممکن " کا لیبل لگا کر واپس چلتی بنتیں بلکہ ایک دفعہ تو یورپ کی بین الاقوامی ساکھ کی ایک بہت بڑی تعمیراتی کمپنی نے اس کو چیلنج سمجھ کر اسکی تکمیل کا عندیہ دیتے ہوئے فضائی سروے بھی مکمل کر کے اچانک حسب سابق '' ناممکن‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے واپسی کا راستہ ناپا ۔ موسموں کی شدت ، شدید برف باری، لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات ، ناہموار چٹانیں اور ان جیسے بے شمار مسائل کے باوجود اس شاہراہ کا بننا ایک عجوبہ ہی تو ہے جسے پاکستان اور چین نے ملکر ممکن بنا یا ۔ 13سو کلو میٹر میں سے 887 کلو میٹر پاکستان میں اور 413 کلو میٹر چین کی حدود میں ہے۔اس سڑک پر آپ کو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیو قامت برفانی چوٹیوں ، دریاؤں کی کثرت، آبشاریں ، چراہ گاہیں ، چشمے اور بلند و بالا گلییشئر سمیت ہر طرح کے خوبصورت اور دل موہ لینے والے مناظر جابجا ملیں گے۔یہ شاہراہ کسی بل کھاتی سڑک دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کبھی دائیں اور کبھی بائیں مڑتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہاں صرف دریائے سندھ پر ہی موقوف نہیں دریائے گلگت ، دریائے ہنزہ ، نانگا پربت اور راکاپاشی بھی اس کے ہم سفر رہتے ہیں۔
ایک مرتبہ پاکستان آئے بلجیم کے ایک سیاح نے ٹی وی انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا،'' میں نے دنیا,بھر کے قدرتی حسن سے مالا مال علاقے دیکھ رکھے ہیں لیکن یہاں کے شمالی علاقہ جات اور شاہراہ قراقرم دیکھ کے لگتا ہے جیسے شاہراہ قراقرم کا وجود انسانی تخلیق اور ہنر کا ایک لازوال نمونہ ہے اس وادی کے رنگ قدرت کی حسیں تخلیق کا منہ بولتا ثبوت ہیں ‘‘۔
شاہراہ قراقرم کا تاریخی پس منظر :شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم میں بھی اہم شاہراہ کا درجہ رکھتی تھی ، چین سے اجناس اور ریشم کی تجارت کے لئے یہ راستہ بھی استعمال ہوتا تھا۔چنانچہ اس مناسبت سے اس شاہراہ کا نام ''شاہراہ ریشم‘‘ پڑ گیا تھا۔ جب ذرائع آمدورفت میں تبدیلیاں آنے لگیں اور چین کی تجارت بحری رستوں سے بھی شروع ہوئی تو اس شاہراہ کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔قیام پاکستان کے بعد چین نے اس شاہراہ کی افادیت کو محسوس کرنا شروع کیا اور یوں پاکستان اور چین کی دوستی کے رشتے بڑھنا شروع ہوئی تو دونوں ملکوں نے یہ شاہراہ بنائی ۔3 مئی 1962 کو ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے بعد اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 1966 میں شروع ہوا ، پاکستان کی شمالی سرحد تک کا حصہ 1969ء میں مکمل ہوا ۔ تعمیر و توسیع کا کام 16 فروری 1971 ء کو دوبارہ شروع ہوا۔ اسلام آباد سے 62 کلو میٹر کے فاصلے پر حویلیاں کے مقام پر اس شاہراہ کا آغاز ہوا جو 1978 میں پائیہ تکمیل کو پہنچا۔اس شاہراہ کی تعمیر میں پاک فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے شب وروز شانہ بشانہ کام کیا۔قراقرم کے سخت اور پتھریلے پہاڑوں کو چیرنے کے لئے 8ہزار ٹن ڈائنا مائیٹ استعمال کیا گیا۔18 جون 1978ء کو اس کا با قاعدہ افتتاح ہوا۔ تکمیل کے دوران 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔
عجائبات قراقرم:درہ خنجراب شدید برف باری کے سبب اکتوبر تافروری عام طور پر بند رہتا ہے۔ چلاس ایک بڑا اور قدیم شہر ہے جہاں سے زمانہ قدیم میں تجارتی قافلے گزرا کرتے تھے۔جس کی نشانیاں یہاں موجود '' تھلپان‘‘ کی چٹانیں ہیں جن پر جا بجا ہزاروں سال پرانی بدھا کی تصاویر اور مختلف تحریریں کندہ ہیں۔جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بدھ مت کے عروج کے دور میں یہاں ضرور بدھ مت کا کوئی اہم مقام ہو تا ہو گا۔اس حسین وادی میں کو ہ قراقرم ،کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندو کش ،تینوں موجود ہیں۔ان سلسلوں میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں اور تین دیو قامت گلیشئیرز بھی پائے جاتے ہیں ۔ دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ سیاچین بھی یہیں واقع ہے۔
گلگت سے کچھ پہلے پڑی کے مقام پر دریائے سندھ اور دریائے گلگت کا ملاپ ہوتا ہے۔ یہیں پر دریائے سندھ کے بالائی حصے کے کنارے چٹانوں کے طویل پہاڑی سلسلے پر اپنی نوعیت کے منفرد اور سب سے بڑے کندہ کاری کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔خنجراب دنیا کے متعدد نایاب جانوروں کا مسکن ہے جن میں مارکوپولو، برفانی چیتے، بھیڑیں ، مارموٹ، پہاڑی ریچھ ، یاک ، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو '' نیشنل پارک‘‘ کا درجہ بھی حاصل ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
لوبان جس کا ہر ہر قطرہ بیش قیمت

لوبان جس کا ہر ہر قطرہ بیش قیمت

تاریخ گواہ ہے قدرت نے ہر دور میں ہر خطے اور ہر ملک کو متعدد قدرتی وسائل اور نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہوتا ہے۔ یہ ذرائع عمومی طور پر نباتات، معدنیات یا آبی وسائل کی شکل میں ہوتے ہیں۔ان وسائل کا حصول اور انحصار انسانی پہنچ پر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان کی مثال دی جا سکتی ہے جو بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق لیتھیئم کے قدرتی خزانوں سے مالا مال خطہ ہے لیکن ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی کے باعث وہ ابھی تک اس خزانے کو کھودنے میں ناکام رہا ہے۔ گئے زمانوں میں نباتات کی دنیا میں خطہ عرب میں لوبان سب سے قیمتی جنس کے طور پر جانا جاتا تھا جو سونے سے مہنگا ہوا کرتا تھا ، لیکن پھر معدنیات کی دنیا میں تیل کی دریافت نے اس خطے کو دولت سے مالا مال کیا تو لوبان ایک ثانوی جنس کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس خطے میں لوبان کا استعمال اب محض ادویات اور خوشبویات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔قدیم روم کے ایک عالم پلینی دی ایلڈر سن 79 عیسوی میں اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں ''لوبان کی تجارت نے جنوبی عرب کے باسیوں کو اس روئے زمین کے امیر ترین لوگ بنا دیا تھا‘‘۔ جدید سائنس نے لوبان کو مہلک اور جان لیوا امراض کے علاج کیلئے ایک حیرت انگیز عنصر قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ مسیحی برادری میں ایک روایت مشہور ہے کہ''تین دانا لوگ حضرت عیسیٰ ؑکیلئے تین تحائف لے کر آئے۔ ان میں سونا، لوبان اور مر (ایک پودے کا خوشبودار عرق ) شامل تھے۔ قدیم دور کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لوبان کو خوشبو اور علاج کیلئے 3500 قبل مسیح سے استعمال میں لایا جاتا رہا ہے۔مصر میں اسے مقدس پودے کی حیثیت حاصل تھی شاید اسی لئے مصری اسے '' خداؤں کا پسینہ‘‘ کہا کرتے تھے۔ جب 1922ء میں مصر کے بادشاہ توت عن خامون کی قبر کشائی کی گئی تو اس میں لوبان سے بنا کپاس کا ایک گچھا پایا گیا تھا جو ممکنہ طور پر خوشبو اور میت کو زیادہ عرصہ محفوظ رکھنے کے خیال سے رکھا گیا ہو گا۔ قدیم دور میں مصر ہی نہیں بلکہ بیشتر ممالک میں اسے پاکیزگی اور روحانی علامت کے طور پر جلایا جاتا تھا، کیونکہ اس دور کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ لوبان سے نکلنے والا دھواں براہ راست جنت میں جاتا ہے۔ ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ لوبان کا دھواں یا اس کی خوشبو الہویت سے رابطے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ اسی لئے اس دور کے مندروں میں اس کی دھونی روحانیت کی علامت تصور ہوتی تھی۔ لوبان کیا ہے اور کیسے حاصل ہوتا ہے لوبان بنیادی طور پر ''بوسو یلیا جینس‘‘ نامی ایک درخت سے حاصل کی گئی خوشبو دار گوند ہے۔ بوسویلیا جینس درخت عمومی طور پر حبس شدہ آب و ہوا والے علاقوں میں ہوتے ہیں ۔دنیا میں زیادہ تر لوبان عمان، ارٹیریا ، صومالیہ، سوڈان ، یمن ، آسام ، ایتھوپیا اور جزیرہ مڈغاسکر میں پایا جاتا ہے۔ عمان کے علاقے ظفار میں پایا جانے والا لوبان ''ہوجاری‘‘ اس وقت دنیا کا مہنگا ترین لوبان ہے۔ اس کے جوہر کی فی کلو قیمت 600 پاؤنڈ (دولاکھ پاکستانی روپے)سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔لوبان کے خالص گوند کی قیمت جو گرامز کے حساب سے بکتی ہے وہ لاکھوں روپے تک جاتی ہے۔ لوبان حاصل کرنے کیلئے اوائل موسم گرما ہی سے اس کے درختوں کو جا بجا کلہاڑی سے کٹ لگائے جاتے ہیں جس سے سفید یا ہلکے بھورے رنگ کے قطرے نیچے رکھے برتنوں میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں جب رس آنا بند ہو جاتا ہے تو اس رس کو اکٹھا کر کے سوکھنے کیلئے رکھ چھوڑتے ہیں جو دس سے بارہ دنوں میں گوند کی ڈلیوں کی شکل میں تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔اس گوند کو لوبان کہا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر کچھ دن کے وقفے سے جاڑے کی آمد تک جاری رہتا ہے حتیٰ کہ اس درخت سے رس نکلنا بند ہوجاتا ہے۔ اس پودے کا پانچ سال تک رس کشید کیا جاتا ہے جبکہ اگلے پانچ سال تک اسیچھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر صحت مند درخت سے اوسطاً آٹھ سے دس کلو گرام تک گوند نکالی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے مطابق عمان چوتھی صدی قبل مسیح سے لوبان کا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا جہاں سے ہزاروں اونٹ قافلوں کی شکل میں لوبان لے کر صحرائے عرب کے پار دوہزار کلومیٹر کا طویل سفر طے کر کے مصر ، بابل ، قدیم یونان اور سلطنت روم پہنچتے تھے۔اس کے علاوہ خوشبودار گوند سے لدے بحری جہاز چین اور دیگر ممالک روانہ کرنے کے شواہد بھی ملتے ہیں۔قدیم دور میں لوبان کا استعمال گئے زمانوں میں گھروں کو معطر اور خوشبودار رکھنے کیلئے لوبان کا بخور ( لوبان جلا کر خوشبودار دھواں)کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ گھروں میں مکھی مچھر اور کیڑے مکوڑوں کو بھگانے کیلئے اس کی دھونی دی جاتی تھی۔ اگرچہ شروع شروع میں لوبان سے کشیدہ تیل ، پٹھوں کی مضبوطی اور زخموں کے علاج کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس سے موسمی بخار سے لے کر رسولی تک کا علاج کیا جاتا رہا ہے۔یہ نہ صرف اپنے دور کی ''اسپرین‘‘ اور ''پنسیلین‘‘ تھی بلکہ یہ اپنے دور کا واحد'' اینٹی بائیوٹک‘‘ تھا جس میں بے شمار بیماریوں کا علاج پنہاں تھا۔ گویا لوبان کی گوند اپنے دور میں ہر مرض کا علاج تھی۔ لوبان اور جدید تحقیق ماضی کے طبی نتائج کو دیکھ کر عالمی سطح پر ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ لوبان کی گوند سے گٹھیا، دمہ، ذہنی اور جلدی امراض کے ساتھ ساتھ کینسر سمیت متعدد بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی کے سکول آف بایو سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر احمد علی کینسر سے لے کر چہرے کی جھریوں تک کیلئے لوبان سے ادویات بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ڈاکٹر احمد کی اس تحقیق کے شریک پروفیسر رچرڈ کلارکسن کہتے ہیں وہ پر امید ہیں کہ وہ لوبان سے کینسر جیسے مہلک مرض کی ادویات بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔پروفیسر رچرڈ کا کہنا ہے کہ اس وقت لیبارٹریوں میں سب سے زیادہ کام ایسی چیزوں کی تلاش پر ہو رہا ہے جو صحت مند خلیوں کو نقصان پہنچائے بغیر کینسر کے خلیوں کو نشانہ بنا کر انہیں تلف کریں۔ اس کیلئے ان کی نظریں لوبان اور ''مر‘‘ نامی پودے پر ہیں کیونکہ ان کی ابتدائی تحقیق کے مطابق ''مر‘‘ کا عرق صحت مند خلیوں کو نقصان پہنچائے بغیر کینسر کے خلیات کو نشانہ بنانے کی اور لوبان کا عرق کینسر کے پھیلاؤ کو روکنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ ابیرسٹویتھ یونیورسٹی میں طبی تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر ریچل کا کہنا ہے کہ لوبان کا استعمال ماضی میں کسی ایک چیز کیلئے نہیں بلکہ اسے متعدد بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال میں لایا جاتا رہا ہے۔ یونانی فوج کے ایک معالج پیڈینئیس نے لوبان کو ایک عجیب و غریب دوا قرار دیتے ہوئے لکھا کہ یہ گوند السر کے کھوکھلے پن کو بھر سکتی ہے حتیٰ کہ زخموں کو آپس میں جوڑ بھی سکتی ہے۔طبی علم کے بارے میں قدیم مصر کی سب سے اہم دستاویز '' ایبیرز پی پیرس‘‘ میں لوبان کو دیگر امراض مثلاً دمہ ، خون بہنے،گلے کے انفیکشن اور الٹی سمیت متعدد بیماریوں کا علاج قرار دیا گیا تھا۔  

سیاحت وسیلہ زر!

سیاحت وسیلہ زر!

چینی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چینی قومی ہفتہ تعطیل ''گولڈن ویک‘‘ میں یکم تاسات اکتوبر کے دوران ساڑھے اکیس ملین لوگ بیجنگ کی سیر کو آئے۔ اس طرح اندازاً پونے چار بلین امریکی ڈالر کمائی ہوئی۔ حیران کن پہلو یہ ہے کہ ساڑھے چار ملین سیاح دیہی علاقے دیکھنے گئے۔اس طرح کی خبریں پڑھ کر دل افسردہ ہو جاتا ہے۔ افسردگی اس بات کی ہم وہ لوگ ہیں جو کسی طور روزی روٹی کمانے کا ڈھنگ نہیں جانتے۔ حالانکہ دنیا میں عجیب کام ہوا ہے۔ ہر وقت کماتے رہنے والوں کو چھٹی اور فراغت دے کر بھی کمائی کی جاتی ہے۔ سیاحتی صنعت اسی فراغت کے سہارے کھڑی ہے۔ لیکن سہارا دینے یا لینے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔ سیاحت کی صنعت کا سادہ سا اصول ہے کہ ملک ''قابلِ مشاہدہ‘‘ ہونا چاہیے۔ ہم لوگ تو شاید''قابلِ توجہ‘‘ بھی نہیں رہے۔ ہم چین سے دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ چینی محنت اور عزم کی تعریف کر کر کے تھک جاتے ہیں مگر خود محنت کے قریب بھی نہیں جاتے۔ اگر کسی طالب علم سے پاکستان کے سیاحتی مقامات اور دل فریب نظاروں پر مضمون لکھنے کو کہا جائے تو ایسے ایسے مقامات اور علاقے فہرست میں شامل ہوں گے کہ لگے گا جس نے وطن عزیز نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ثقافتی تنوع اور دلکش مقامات کی بہتات کے باوجود پاکستان میں ملکی اور غیرملکی سیاحت کا فروغ کیوں نہیں ہو سکا۔ آخر اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اگر ہم چینی سیاحتی صنعت کی ترقی کا تجزیہ کریں تو کچھ اہم اسباب سامنے آتے ہیں، جن کی مدد سے ہم اپنی ناکامی کے اسباب کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔سب سے اہم وجہ تو یہ ہے کہ چین کے عالمی اثر و رسوخ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس سے چینی کلچر کے بارے میں تجسس اور دلچسپی پیدا ہونا فطری بات ہے۔ لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد چینی روایات، معاشرت، بود و باش، کھانوں اور فکر و نظریات سے آگہی کیلئے چین کا رخ کر رہی ہے۔ ہمیں ترقی اور اثر و رسوخ میں اضافہ تو مستقبل قریب میں کہیں نظر نہیں آتا البتہ ہم پسماندگی کی نمایاں مثال ضرور پیش کر سکتے ہیں۔ شاید کہ دوسرے لوگ ہمیں عبرت حاصل کرنے کیلئے دیکھا کریں۔دوسری چیز چین میں وسیع پیمانے پر مڈل کلاس کا ظہور ہے۔ مڈل کلاس نے مقامی اور بین الاقوامی سفر و سیاحت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ خریداری اور خرچ میں مڈل کلاس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مڈل کلاس کی موجودگی سے صارفانہ اور تفریحی رجحانات پیدا ہوتے ہیں اور سیر و سیاحت، آرام و سکون اور فراغت بلند معیار زندگی کے اشاریے بن جاتے ہیں۔ ہماری معاشی پالیسیاں ایسی ہیں کہ مڈل کلاس بے چاری سفید پوش سے کفن پوش ہونے کو ہے۔ اس لیے ملکی سیاحت سکول اور کالج کے مری ٹرپس تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گی۔ کسان اور کاشت کار بھی اسی مڈل کلاس کا ایک حصہ ہیں۔ نقد آور فصلوں کے نرخ ایسے غیر منصفانہ ہو گئے ہیں کہ پہلے جو کسان گندم اور کپاس بیچ کر لبرٹی مارکیٹ اور مکی مارکیٹ کا رخ کیا کرتے تھے اب وہ اپنی اپنی فصلیں محفوظ کرنے میں مصروف ہیں اور امید یہ ہے کہ شاید فصلوں کا ریٹ بڑھ جائے اور کچھ ہاتھ آ جائے۔تیسری بات یہ ہے کہ محض مڈل کلاس کے موجود ہونے سے بھی کچھ نہیں ہوتا جب تک انفراسٹرکچر ہی نہ ہو۔ اس میں ٹرانسپورٹ، رہائش، مواصلات اور دیگر ''دلکشیاں‘‘ شامل ہیں۔ سیاحت اب کوئی عام صنعت نہیں رہی بلکہ سٹریٹجک انڈسٹری بن چکی ہے۔ یہ ترقی کا نتیجہ ہی نہیں بلکہ ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں، کاروباری ادارے اور عوام سبھی کا حصہ ڈالنا ضروری ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ چین میں سیاحتی صنعت انتہائی ترقی یافتہ ہے اس لیے وہاں لاکھوں سیاح اس کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔ بلکہ وہاں بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ مثلاً اگرچہ چین میں سیاحتی مقامات کے تنوع میں اضافہ ہونا ابھی باقی ہے اور کچھ علاقوں میں جدید سفری سہولتوں کی فراہمی پر بھی کام ہو رہا ہے تاہم ان کمزوریوں کے باوجود چینی حکومت کا عزم اور سیاحت کے فروغ کی حکمت عملی قابل تعریف ہے۔ کیونکہ حکومت سیاحتی صنعت اور ہوٹل انڈسٹری کو نئے اور جدید انداز میں فروغ دے رہی ہے، جہاں مستقبل میں مزید دلچسپ تفریحی سرگرمیوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ حکومت کی جانب سے سیاحتی صنعت کی پروموشن اور مارکیٹنگ ہی ہے کہ جس کے باعث ہر سال لاکھوں مقامی اور غیر ملکی سیاح چین کی خوبصورتی اور رنگینی سے لطف کشید کرنے چلے آ تے ہیں۔ سیاحتی صنعت دراصل سیاحتی وسائل، سیاحتی سہولیات اور سیاحتی خدمات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ جب سیاحتی مقامات تک رسائی کیلئے سہولیات ہی موجود نہ ہوں اور سیاحوں کے اطمینان کیلئے سروسز کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو تو پھر ایسے ملک میں مہم جوئی ہی ہو سکتی ہے سیاحت ممکن نہیں۔ پرانے وقتوں میں کہتے تھے کہ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ وہ تو ہے لیکن آج سیاحت وسیلہ زر بھی ہے۔ تو کیا ہمیں ''زر‘‘ نہیں چاہیے؟ 

آج کا دن

آج کا دن

ہوائی جہاز میں دھماکہ12 اکتوبر 1967ء کوسائپرس ائیرویز کی پرواز نمبر284 کونکوسیا بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ایک خوفناک حادثہ پیش آیا۔دوران پرواز جہاز کے کیبن میں دھماکے سے جہاز میں آگ لگ گئی اورطیارہ بحرہ روم میں گر کر تباہ ہو گیا اور اس میں سوار تمام66مسافر اور عملے کے ارکان ہلاک ہو گئے۔جہاز کا ملبہ اور ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کو سمندر سے تلاش کرنے کے بعد باہر نکال لیا گیا۔ تحقیقا ت میں یہ ایک تھیوری پیش کی گئی کہ ہو سکتا ہے جہاز دوران پرواز کسی فوجی جہاز سے ٹکرایا ہو لیکن کئی عوامل کا جائزہ لینے کے بعد اس تھیوری کو رد کر دیا گیا۔ہیرا کلیون زلزلہ12اکتوبر1856ء کو ہیرا کلیون کا زلزلہ جسے کریٹ کا زلزلہ بھی کہا جاتا ہے ایک تباہ کن زلزلہ تھا۔ اس کی گہرائی کا اندازہ 61 سے 100کلومیٹر لگایا گیا جبکہ اس کی شدت 7.7سے8.3ریکارڈ کی گئی۔ زلزلے کے جھٹکے بہت وسیع علاقے میں محسوس کئے گئے جس میں سسلی،اٹلی اور شمالی افریقہ بھی شامل ہے۔یونانی جزیرے کریٹ میں اس کے تباہ کن اثرات سامنے آئے اور ہیراکلیون شہر سے 500سے زائد لاشیں نکالی گئیں۔شدید جھٹکوں کی وجہ سے مالٹا میں گجن حدید ٹاور گر کر تباہ ہو گیاجو1638ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔کولمبس ڈے12اکتوبرکو امریکہ کے بیشتر حصوں میں ''کولمبس ڈے ‘‘جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور اس دن ریاستہائے متحدہ امریکہ میں وفاقی تعطیل بھی ہوتی ہے۔یہ دن سرکاری طور پر12اکتوبر1492ء کو کرسٹو فر کولمبس کی امریکہ آمد کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ کرسٹوفر کولمبس جینوویس میں پیدا ہونے والا ایکسپلورر تھا۔ کولمبس کا ہسپانوی بحری جہاز سانتا ماریا، نینا اور لا پنٹا پر نئی دنیا کا پہلا سفر تقریباً تین ماہ کا تھا۔ کولمبس اور اس کے عملے کی نئی دنیا میں آمد نے اسپین کے ذریعے امریکہ کی نوآبادیات کا آغاز کیا، اس کے بعد آنے والی صدیوں میں دیگر یورپی طاقتوں نے اسے آباد کیا۔پیروٹرک حادثہپیرو میں ایک کارگو ٹرک جس میں 14بچے سمیت51افراد سوار تھے ،200میٹر اونچی چٹان سے گر گیااور اس میں سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے۔یہ حادثہ 12 اکتوبر 2013ء کو پیش آیا اور اسے پیرو کی تاریخ میں مہلک ترین حادثوں میںشما ر کیا جاتا ہے۔حکام کے مطابق ٹرک جسے عارضی بس کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا، سانتا ٹریسا ضلع میں ایک جشن کیلئے جا رہا تھا، اسی دوران ڈرائیور کا اس پر کنٹرول نہیں رہا اور ٹرک بے قابو ہوتے ہوئے چٹان سے دریائے چوپیمایو میں جا گرا۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک تقابل ادیان کے ماہر عظیم اسلامی سکالر

ڈاکٹر ذاکر نائیک تقابل ادیان کے ماہر عظیم اسلامی سکالر

ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک مبلغ ، اسلامی سکالر تو ہیں ہی لیکن ان کی اصل وجہ شہرت ادیان کے تقابلی جائزے کے ماہر کی حیثیت سے بھی مسلمہ مانی جاتی ہے۔ بنیادی طور پران کے خاندان کے بیشتر افراد ایلوپیتھی ڈاکٹر ہیں۔ ذاکر نائیک 1965ء میں ممبئی میں پیدا ہوئے۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1991ء تک شعبہ طب سے وابستہ رہے۔ ٹرننگ پوائنٹ: طب سے تبلیغ تک بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ ذاکر نائیک کی زندگی میں مذہبی تبدیلی کے سفر کا ''ٹرننگ پوائنٹ‘‘ 1991ء میں پاکستان کے دورے کے بعد آیا۔ وہ روحانی طور پر پاکستانی مذہبی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد سے حد درجہ متاثر تھے اور اکثر کہا کرتے تھے ''ڈاکٹر اسرار احمد اردو بولنے والے مذہبی داعیوں میں سب سے اعلیٰ مقام پر ہیں‘‘۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زندگی کی جدو جہد کو سمجھنے کیلئے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر اپنی زندگی پر مبنی وڈیوز کی ایک سیریز ''ذاکر نائیک بائیو گرافی:میری زندگی میری کہانی‘‘ کے نام سے بنا رکھی ہے۔ ایسی ہی ایک وڈیو میں وہ کہتے ہیں، ''1991ء میں، میں جب پاکستان گیا تو وہاں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو ملنے گیا تو دوران گفتگو میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میرا ایم بی بی ایس ختم ہو گیا ہے، اب میں میڈیکل پریکٹس کے ساتھ دعوت اسلامی پر بھی کام کروں گا‘‘۔ بقول ذاکر نائیک ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے کہا، آپ کو میڈیکل اور داعی بننے میں سے کسی ایک شعبے کا انتخاب کرنا ہو گا کیونکہ اس طرح آپ بیک وقت دونوں شعبوں کے ساتھ صحیح انصاف نہیں کر سکیں گے۔ ڈاکٹر اسرار خود بھی میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ بقول ذاکر نائیک، انڈیا واپسی پر میں سارا راستہ اپنے مستقبل بارے سوچتا آیا، گھر پہنچ کر والد صاحب سے مشورہ کیا کہ میں دو گھنٹے دعوت اسلامی کیلئے وقف کرنا چاہتا ہوں،باقی وقت میں میڈیکل پریکٹس کروں گا، والد صاحب نے بخوشی اجازت دے دی۔ اگلے ہی روز میں نے والد صاحب سے پانچ ہزار روپے لے کر ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے کر وہاں سے ''اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد میں نے والد صاحب کو کہا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے اب نصف یوم میڈیکل کو اور باقی وقت دعوت اسلامی کو دینا چاہیے، جس پر والد صاحب نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اب رفتہ رفتہ مجھے ڈاکٹر اسرار احمد کی بات یاد آنے لگی کہ ایک وقت میں ایک کام کے ساتھ ہی انصاف کیا جا سکتا ہے، چنانچہ جب میں نے والد صاحب کو اپنا مکمل وقت دعوت اسلامی کو دینے کے ارادے سے مطلع کیا تو انہوں نے مجھے بخوشی اس کی اجازت دے دی ‘‘۔تعلیمات اور اعزازاتذاکر نائیک کہتے ہیں وہ دعوت اسلامی کی تبلیغ کیلئے عظیم اسلامی مبلغ و محقق احمد دیدات سے بہت متاثر ہیں۔ جن سے ان کی پہلی ملاقات 1987ء میں ہوئی تھی۔ 2006ء میں احمد دیدات نے ''دیدات پلس‘‘ کے لقب سے نوازا۔ ذاکر نائیک اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ بارے کہتے ہیں، یکم اپریل 2000ء کو ان کا معروف امریکی مسیحی سکالر ولیم کیمبل کے ساتھ کئی گھنٹے طویل مناظرہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ جس کا عنوان ''قرآن اور بائبل سائنس کی روشنی میں‘‘ تھا۔ یہ مناظرہ براہ راست ایک امریکی ٹیلی وژن پر دکھایا گیا، جس کے اختتام پر دنیا بھر سے فوری طور پر 34 ہزار لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس مناظرے کے بعد انہیں عالمی طور پر تقابل ادیان کا ماہر سمجھا جانے لگا اور دنیا بھر کی حکومتوں اور تنظیموں نے انہیں اپنے اپنے ملکوں میں خطاب کی دعوت دینا شروع کر دی۔یہی وہ دور تھا جب بھارتی انتہا پسند ہندوئوں نے انہیں نشانے پر لینا شروع کردیا کیونکہ بڑی تیزی سے ہندو مشرف با اسلام ہونا شروع ہو چکے تھے۔21 جنوری 2006ء بھارت کے سب سے بڑے ہندی عالم روی شنکر کے ساتھ ان کا مناظرہ ''اسلام میں تصورء خدا اور ہندو مذہب‘‘ کے عنوان سے ہوا، جسے انہوں نے تھوڑی ہی دیر میں خاموش کرا دیا۔اس مناظرے کے بعد متعدد ہندو دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے۔2007ء میں انہوں نے بمبئی میں 10 روزہ ''امن کانفرنس‘‘کا اہتمام کیا جس کے اختتام پر انگنت ہندو دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔جس نے انتہا پسند ہندو سماج کو ہلا کر رکھ دیا۔ہندو ذہنیت نے ذاکر نائیک کے اجتماعات پر پابندی لگوائی تو انہوں نے دعوت اسلامی کیلئے ''پیس‘‘ ٹی وی چینل کا آغاز کیا اور اپنے خطابات کو پیس ٹی وی،انٹرنیٹ ، تحریروں اور غیر ملکی دوروں کے ذریعے جاری رکھا۔2011ء سے 2014ء تک امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی نے انہیں دنیا کی 500 بااثر ترین شخصیات میں مسلسل شامل رکھا۔ 2013ء کو متحدہ عرب امارات کی حکومت نے انہیں ''بین الاقوامی قرآن ایوارڈ‘‘ اور ساڑھے سات لاکھ درہم انعام سے نوازا۔ اسی سال ملائشیا کے بادشاہ نے بھی انہیں ملک کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا۔ 2014ء کو شارجہ کے حکمران شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی نے انہیں ''شارجہ ایوارڈ‘‘ عطا کیا۔ 2014ء میںگیمبیا کی حکومت نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔ اس سے پہلے دعوت دین کی خدمات کے صلے میں مصر یونیورسٹی بھی انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نواز چکی تھی۔ 25 مارچ 2015ء سعودی فرماں روا شاہ سلیمان بن عبدالعزیز نے انہیں مسلم دنیا کا سب سے بڑا تمغہ ''شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ بمع ساڑھے سات لاکھ ریا ل سے نوازا۔ ہجرت کے اسباب انتہا پسندہندوئوں نے ان پر منی لانڈرنگ سے لے کر نوجوانوں کو ''شدت پسندی‘‘ پر اکسانا جیسے الزامات عائد کرکے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرا دیئے۔ ان حالات کے پیش نظر 2016ء میں ذاکر نائیک کو 20 ممالک نے اپنے ہاں رہائش کی دعوت دی لیکن ذاکر نائیک نے اسلام پسندی اور ملائشیا کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر ملائشیا میں منتقل ہونے کو ترجیح دی۔ بھارت نے متعدد بار انٹرپول کے ذریعے ذاکر نائیک کی حوالگی کی درخواستیں بھی دی ہیں لیکن انٹرپول ہر مرتبہ ان ثبوتوں کو بے بنیاد قرار دے کر ان درخواستوں کو مسترد کر دیتا ہے۔   

9اکتوبر عالمی یوم ڈاک

9اکتوبر عالمی یوم ڈاک

ہم ہر سال کچھ مقرر تاریخوں پر یوم استاد، ماں کا دن، لیبر ڈے، ارتھ ڈے، یوم امن اور یوم آزادی وغیرہ کے نام سے مختلف دن مناتے ہیں تاکہ اس دن کی مناسبت سے اس کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ بالکل اسی طرح 9اکتوبر کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیورسل پوسٹل یونین کے زیر اہتمام ممبر ممالک میں ''ورلڈ پوسٹ ڈے یعنی عالمی یوم ڈاک منایا جاتا ہے تاکہ عوام کے اندر ڈاک کے نظام اور اس کی خدمات کے حوالے سے شعور و آگاہی پیدا کی جا سکے۔یوں تو پیغام رسانی اور ڈاک کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان، وقت کا پہیہ جوں جوں آگے کی طرف حرکت کرتا گیا توں توں پیغام رسانی کے ذرائع بھی ترقی کرتے گئے۔ تاریخ کے ہر دور میں اور دنیا کے ہر طرف کسی نہ کسی شکل میں ڈاک کا تصور موجود تھا۔ آج سے سات ہزارسال پہلے فرعون مصر میں ڈاک کا حوالہ ملتا ہے۔ حضور ﷺ کے زمانے سے مسلمان مختلف فوجی مہمات کے دوران پیغام رسانی کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ تھے۔ اس کے علاوہ حضور ﷺ کے مراسلے جو اس وقت آس پاس کے غیر مسلم حکمرانوں کو بھیجے گئے تھے بھی نظام ڈاک کا ابتدائی نقشہ پیش کرتے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے نظام ڈاک کو سائنسی خطوط پر منظم کیا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے خاص خاص فاصلوں پر چوکیاں بنائی تھیں، جہاں گزشتہ چوکی کا ہرکارہ ڈاک لے کر پہنچتاتو اگلا ہرکارہ تازہ دم گھوڑالیے تیار ہوتا، اسی طرح یہ سلسلہ قائم رہتا اور بنا کسی تاخیر کے ڈاک ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتا۔بدلتے وقت نے اس میں تبدیلیاں کیں اور موجودہ ڈاک کا نظام قائم ہوا ۔ اسی طرح اموی خلفاء اور عباسی خلفاء نے بھی اپنے اپنے ادوار میں نظام ڈاک پر خصوصی توجہ دی۔برصغیر پاک و ہند کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ علائو الدین خلجی اور شیر شاہ سوری نے ڈاک کی بہتری کیلئے کئی دور رس اصلاحات اور اقدامات کئے۔ مغل بادشاہ بھی ڈاک کی اہمیت سے بے خبر نہ تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب انگریزوں نے برصغیر میں اپنا تسلط مستحکم کیا تو نظام ڈاک کو برطانوی نظام کے مطابق جدید اور سائنسی خطوط پر استوار کیا گیا۔آج ورلڈ پوسٹ ڈے ہے، 1874ء میں آج ہی کے دن یونیورسل پوسٹل یونین بنائے جانے کیلئے 22 ممالک نے اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔ برسوں بعد 1969ء میں جاپان کے ٹوکیو میں ایک تقریب میں آج ہی کے دن کو ورلڈ پوسٹ ڈے (عالمی یوم ڈاک) کے طور پر منانے کا فیصلہ لیا گیا۔ اس کا مقصد تھا کہ شہریوں کو ڈاک سروس سے جوڑا جائے اور ان میں اس کے تئیں بیداری لائی جائے۔2024ء کا تھیم ''ملک بھر میں مواصلات اور لوگوں کو بااختیار بنانے کے 150 سال‘‘ہے۔پوسٹ آفس صرف پرانی عمارتوں اور لال ڈبوں والے نہیں، کئی پوسٹ آفس اپنے انوکھے پن کے سبب ٹورسٹ اسپاٹ بھی بن چکے ہیں۔ جیسے ویتنام میں دنیا کا سب سے خوبصورت پوسٹ آفس ہے، جسے دیکھنے کیلئے دور دور سے سیاح آتے ہیں۔ اسے سائیگان سینٹرل پوسٹ آفس کہتے ہیں۔ ویتنام کے ہوچی منہی شہر میں اس ڈاک گھرکو 1886ء میں فرینچ آرکیٹیکٹ گستاؤ ایفل نے بنایا تھا۔ یہ فرانسیسی واستود وہی ہیں، جنہوں نے اسٹیچو آف لبرٹی اور آئیفل ٹاور کا ڈیزائن تیارکیا تھا۔ اس پوسٹ آفس کو بنانے میں تین سال لگے۔ یوروپین ریلوے اسٹیشن کی طرز پر اسے بنایا گیا ہے۔ یہاں دیواروں پرنقاشی ہے اوربہت ہی بڑے بڑے جھروکے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ ٹیلیفون بھی لگے ہوئے ہیں تاکہ سیاح اطمینان سے اپنے دوستوں اورگھر والوں کو فون کر سکیں۔دنیا کی سب سے ٹھنڈی جگہ انٹارکٹکا کا بھی ایک پوسٹ آفس ہے، جسے ''پورٹ لاکری‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا ایک حصہ میوزیم کی طرح بھی کام کرتا ہے۔ یہاں سے دنیا کے کسی بھی حصے میں ایک خط پہنچانے کی قیمت ہے ایک ڈالر اور اسے پہنچنے میں دو ہفتے سے لے کرایک سال تک کا بھی وقت لگ سکتا ہے۔ یہ اس پر منحصرکرتا ہے کہ آپ نے کس موسم میں خط پوسٹ کیا ہے۔اسی طرح بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں ایک تیرنے والا یعنی ''فلوٹنگ پوسٹ آفس‘‘ ہے، جو کہ ایک ہاؤس بوٹ میں بنا ہوا ہے۔ یہ کشمیر کی ڈل جھیل میں واقع ہے اور یہاں پر کسی بھی دوسرے پوسٹ آفس کی طرح ہی کام ہوتا ہے۔ 2014ء کے سیلاب میں پوسٹ آفس بہنے لگا تھا، جب فوجیوںنے اسے باندھ کر رکھا۔ معمولات زندگی ٹھیک ہونے کے بعد تیرنے والا پوسٹ آفس دوبارہ کام کرنے لگا۔جدید دور میں ٹیلی فون، موبائل اور کمپیوٹر نے رابطوں میں آسانی پیدا کردی تاہم پوسٹل سروس کی اہمیت آج بھی زندہ ہے، پاکستان پوسٹ نے کوریئر سروسز، سیم ڈے ڈیلیوری اور انٹرنیشنل کوریئر کی نئی سہولیات بھی متعارف کرادی ہیں۔  

آج کا دن

آج کا دن

اقوام متحدہ کے قیام کا اعلان9اکتوبر 1944ء کو برطانیہ، چین، امریکہ اور سویت یونین نے اقوام متحدہ کے قیام کا اعلان کیا۔ جس کے بعد 24 اکتوبر کو معرض وجود میں آیا۔ ہر امن پسند ملک جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی شرائط تسلیم کرے اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کیلئے تیار ہو وہ اقوام متحدہ کا رکن بن سکتا ہے۔ شروع شروع میں اس کے صرف 51 ممبر تھے جبکہ اب اس کے ارکان ممالک کی تعداد 193 ہے۔ سیکورٹی کونسل یا سلامتی کونسل کی سفارش پر جنرل اسمبلی اراکین کو معطل یا خارج کر سکتی ہے۔ اور اگر کوئی رکن چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کرے اسے خارج کیا جا سکتا ہے۔ ملکہ الزبتھ دوم کا دورہ پاکستان 1997ء میں آج کے روز ملکہ الزبتھ دوم پاکستان کے چھ روزہ دورے پر آئیں۔ یہ 1961ء کے بعد ان کا دوسرا دورہ پاکستان تھا۔ ایوان صدر میں ان کا استقبال صدر فاروق لغاری نے کیا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والی ملکہ نے اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف اور اپوزیشن لیڈر بینظیربھٹو سے بھی ملاقات کی۔ ملکہ نے اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد کا دورہ بھی کیا۔انہیں اعلیٰ ترین سول اعزاز ''نشان پاکستان‘‘ سے نوازا گیا۔ستر سال تخت برطانیہ سنبھالنے والی ملکہ الزبتھ 96 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ ناسا کا روبوٹک چاند مشن2009ء میں آج کے دن ناسا کی طرف سے بھیجا گیا روبوٹک مشن چاند پر اترا۔ نیل آرمسٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم 20 جولائی 1969ء کو رکھا تھا اور یہ مشن اس کی 40 ویں سالگرہ سے 32 دن پہلے یعنی 17جون 2009ء کو روانہ کیا گیا تھا۔ کئی مہینوں کی مسافت طے کرنے کے بعد روبوٹک چاند گاڑی چاند کی سطح پر اتری۔ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ9اکتوبر 2012ء میں وادی سوات کے مرکزی شہر منگورہ میں 14 سالہ ملالہ یوسف کو گھر سے سکول کے درمیانی راستے میں مبینہ طور پر قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس حملے میں ملالہ کے سر میں گولی لگی تھی۔طالبان کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ملالہ یوسف کو طالبان مخالف سوچ رکھنے پر حملے کا نشانہ بنایا گیا۔